نیلی نوٹ بک 13 ۔۔۔ انور سجاد

نیلی نوٹ بُک

 عمانویل کزا کیویچ   مترجم: ڈاکٹر انور سجاد

عمانویل کزا کیویچ 1913 میں یوکرین میں پیدا ہوا ۔1932 میں اسکی نظموں کا پہلا مجموعہ ” ستارہ ” کے نام سے شائع ہوا جس نے اسے پوری دنیا سے متعارف کروایا۔ بعد ازاں اس کی لکھی کتابیں ، اودر کی بہار، دل دوست، اسٹیپ میں، چوک میں ایک گھر،  اور دن کی روشنی میں، منظر عام پر آیئں ۔ ” نیلی نوٹ بک ” اسکا آخری ناولٹ تھا۔ عمانویل کے ہم عصر، فیودر دوستووسکی کے مطابق کزا کیو ایچ ایک زبردست سیاح، شکاری، پارٹی کا روح رواں، فطرتا ہنس مکھ لیکن بہت ہی جرات مند سپاھی تھا۔

ڈاکٹر انور سجاد : 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کے بعد انہوں نے ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کا امتحان لندن سے پاس کیا۔ نور سجاد کی شخصیت پہلو دار ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ نظریاتی وابستگی انہیں سیاست تک لے آئی۔سٹیج اور ٹیلی ویژن کی قوت اظہار سے خوب واقف ہیں اور جدید اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ رقص کے بھی ماہر ہیں۔ انکی شخصیت کے تمام پہلو ان کی افسانہ نگاری میں کسی نہ کسی طور  ظاہر ہیں۔ رگ ِ سنگ، آج، استعارے، پہلی کہانیاں، چوراہا، خوشیوں کا باغ  ان کی نمایاں تخلیقات ہیں۔

نیلی نوٹ بک 13

ایک بار اس نے لڑکیوں کے مستقبل کے بارے میں ہنسی ہنسی میں پیش گوئی کی۔ کوندراتی جسے کچھ عرصہ پہلے نراجیت سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی، نراجیوں کے کلب میں جایا کرتا تھا۔ اسکے بارے میں لینن نے پیش گوئی کی کہ وہ مستقبل کی پرولتاری فوج میں جرنیل ہو گا۔  یا ، ” اس سے بہتر ہے کہ تن انقلابی بحریہ کے ایڈمرل ہو گے۔ سمندر قریب ہے۔ تمہارے ابا بھی تو ملاح ہیں۔ یہ فن لینڈ کی خلیج کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ با لکل ۔ تم ایڈ مرل بنو گے۔ ” الیکسانڈر جو ایک ذہین لڑکا تھا اور اپنی ماں کا دست راست تھا، لینن نے اسے انجنیئر یا ( لڑکیوں نہیں ؟ محنت کش کارکن بھی تو ناظم بن سکتے ہیں ) زرعی آلات بنانے کے ایک بہت بڑے کارخانے میں ناظم کے طور پر دیکھا تھا۔ ” یہ کارخانے ہم یقیننا تعمیر کریں گے ۔ ہم ان میں آہنی ہل اور ٹریکٹر بنایئں گے۔ جانتے ہو یہ کیا ہوتے ہیں ؟ یہ امریکی مشینیں ہیں جن سے زمین پر بڑی تیزی اور آسانی سے کام کیا جاتا ہے۔ہم تمام روسی زمینوں پر ان سے ہل چلایئں گے۔ پھر تمام سرحدوں والی زمینیں مٹ جایئں گی۔ ” کولیا اپنی سوچ میں ڈوبی پر سکون آنکھوں کی وجہ سے سایئنسدان بنے گا جو چاند پر پہنچنے کے لیے جہاز ایجاد کرے گا۔ جسے خود اڑا کر لیجانے والا وہ پہلا انسان ہو گا۔ ” باتیں کرتے ہوئے لینن، نادہژدا سے مخاطب ہوا اور اسے یقین دلایا کہ پرولتاریہ کے بچوں کے لیے تعلیم مفت ہوگی۔ لہذا اس نے ہنس کر کہا، ” تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ نادہژدا کوندراتیفنا ! تمہاری ایک پائی بھی صرف نہیں ہوگی۔

” میں کیا بنوں گا ؟ ” دس سالہ طولیا نے شرماتے ہوئے پوچھا

 ” اور میں ؟ ” چھ سالہ لایووا نے پوچھا۔

” پتہ نہیں، بھئی تم لوگ اپنے بارے میں خود فیصلہ کر لو” لینن نے ہنستے ہوئے ہاتھ پھیلاتے کہا

اس نے یہ بات از راہ مذاق کہی تھی لیکن اس کا سنجیدہ مفہوم اتنا مبہم نہیں تھا۔ اسے اور بچوں کو دیکھ کر نادہژدا کی آنکھیں محبت کی کوملتا سے گیلی ہو گیئں۔ وہ اس رب سے دعا کرنے کو بھی تیار تھی جس رب میں اسے ایمان نہیں تھا۔ کہ وہ لینن کا حافظ و ناصر رہے اور اس کے ساتھ اس کے بچوں کا بھی جو اسی کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔

بعض دفعہ لینن خیالات میں کھو جاتا۔ تب وہ خاموشی میں اتر جاتا۔ اس کے دہانے کے خطوط سختی اختیار کر لیتے اور اس کا چہرہ پہچاننا مشکل ہو جاتا۔ ایسے موقعے پر سب چپ ہو جاتے، سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہو جاتے۔ اخبار یا کتابوں کا مطالعہ کرنے لگ جاتے یا باہر آنگن میں چلے جاتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ جیسے کسی خفیہ معاہدے کے تحت ہوتا۔

زیئنیوف بھی کافی پڑھا لکھا اور شائستہ گفتگو کرنے میں طاق تھا لیکن وہ کچھ بے توجہ اور غیر حاضر دماغ قسم کا انسان تھا۔ بعض اوقات وہ دوسروں کی موجودگی میں لینن کے ساتھ جرمن یا فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنے لگتا کہ دوسرے اسکی بات سمجھ نہ سکیں۔ لینن اسکی اس بات پر بہت ناراض ہوتا اور اسے ہمیشہ روسی زبان میں جواب دیتا۔

لینن کو اتنا قریب سے جاننے کے بعد ( وہ اتنا شگفتہ مزاج، زندگی سے بھر پور اور رحمدل تھا۔ )، نادہژدا کو یقین نہیں آتا تھا کہ وہ مفرور ہے، ہزاروں لوگ اسکی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور اسکی حفاظت اس جھونپڑی کی کمزور دیواریں کر رہی ہیں۔ جب بھی وہ کسی اخبار میں لینن پر ہلکائی ہوئی وحشیانہ تنقید پڑھتی یا کسی دکان میں اس کے خلاف باتیں سنتی تو وہ اپنی کوتاہیوں کے امکانات سے خوف زدہ ہو جاتی۔ وہ بچوں کو ایک کونے میں اکٹھا کر لیتی

اور سرگوشیوں میں انہیں سختی سے یاد دلاتی کہ اپنا منہ بند رکھیں اور کسی اشارے، کسی لفظ سے اپنے درمیان اجنبی کی موجودگی کو افشا نہیں کرنا۔ وہ بھول جایئں کہ برساتی میں کوئی رہتا ہے۔ وہ خاص طور پر کوندراتی پہ کڑی نگاہ رکھتی تھی۔ اگرچہ پہلے اس نے کبھی توجہ نہیں کی تھی ، پر اب وہ اس کے نراجیت کی طرف جھکاو کو کبھی معاف نہیں کر سکتی تھی۔ کوندراتی اس کی تشکیک بھری نگاہوں کی تاب نہ لا کر ندامت سے نظریں جھکا لیتا اور گڑ بڑاہٹ میں مسکرا دیتا۔ پھر یہ جانتے ہوئے کہ وہ فطرتا دیانت دار ہے، اپنے شبہے پر خود ہی شرمندہ سی ہو کر، پیار سے اس کے کندھے کو تھپتھپاتی مسکرا دیتی۔ وہ اپنے ساتوں بچوں کو اپنے دل میں سمیٹ لینا چاہتی تھی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا ، وہ کیسے اپنے بچوں کو ان تمام ذمہ داریوں اور خطرات سے آگاہ کرے جو اسکے وجود میں سمٹ آئے ہیں۔

اگلی صبح نادہژدا نے حسب معمول اپنے بڑے بچوں کو لینن کے لیے اخبار لینے بھیج دیا۔ رازداری کی خاطر وہ مختلف جگہوں سے اخبات خریدتے تھے۔ سیستر واریستک کے سٹیشن سے، ظارخووکاس سے، رازدلنای سے، ہر لڑکے کے پاس باقاعدہ فہرست ہوتی تھی۔ ساشا کے ذمے سوشلسٹ انقلابی اور مینشوک اخبار خریدنا تھے۔ کوندراتی کو بالشویک اخبار اور رسالے خریدنا ہوتے تھے۔ برژوا رسالے سیروزیا، سیاہ عہد اور پیلی صحافت بھی وہی لاتا تھا۔ بعض اوقات نادہژدا خود بھی رازلف سٹیشن سے اخبار خرید لایا کرتی تھی۔

آج اس کا ارادہ بازار جانے کا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حصے کے اخبار خود ہی لائے گی۔

جب بڑے لڑکے اپنی اپنی سمتوں کو روانہ ہو گئے تو اس نے اپنے سر پر، ماں سے ورثے میں ملا ہیٹ پہنا اور طولیا کو گوشا اور لایئنا کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر گاوں میں چلی گئی۔ دوکاندار پرانا جاننے والا تھا اس لیے اسنے سب سے پہلے اسے فارغ کیا۔ پھر وہ جلدی جلدی سٹیشن کے بک سٹال پر چلی گئی۔ اس کے پاس وقت بہت کم تھا مبادا پیٹروگراد سے کوئی آ جائے۔ بہر حال اسے یہ تشویش بھی تھی کہ وہ تالاب کنارے اپنی چوکی خالی چھوڑ آئی ہے۔ تاہم جلدی کے باوجود سٹیشن سے باہر اپنے رشتے دار خادی کزمچ کے ساتھ اسکی مڈبھیڑ ہو گئی۔ کزمچ، سیستروریشک میں پرچون کی دوکان کرتا تھا۔ وہ نشے میں دھت تھا۔ اس کی ٹوپی سر سے پیچھے کھسکی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی سرخی مائل مونچھوں کو بل دے رکھے تھے۔ اسے سیاسی گفتگو کرنے کا جنون تھا۔ جنوری 1905 تک وہ ایک ہلکایا ہوا شہنشاہیت پسند تھا۔ پھر پیٹوگراڈ میں مزدوروں پر گولی چلنے کے بعد اسے زار سے نفرت ہو گئی۔ اب وہ اتنا ہی ہلکایا ہوا ری پبلیکن بنگیا تھا۔ وہ کیرنسکی کی پوجا کرتا تھا۔ ہر وقت اسی کی تعریفوں میں رطب اللسان رہتا تھا۔

” آہ۔ نادہژدا، زمانہ ہو گیا تم سے ملے۔” اسنے ٹوپی سر سے اٹھا کر آداب سے کہا۔ ” دعائے صحت، صبح بخیر۔ ” پھر اسکے تھیلے سے جھانکتے، اخباروں کے پلندے کو دیکھ کر اسکے ہونٹ زہریلی مسکراہٹ سے پھیل گئے۔، ” تو برخوردار نکولائی الیگزاندرووچ کو مطالعے کا شوق ہو گیا ہے۔ ” اسنے تھیلے سے اخبار اچکتے ہوئے حیرت زدہ خمار آلود آواز میں کہا، ” آہا تو تمہارا گھر والا کچھ عقل سیکھ رہا ہے۔ آج کل وہ یہ پڑھ رہا ہے۔ ٹھیک با لکل ٹھیک، بالشویکوں کا تو بیڑا غرق ہو گیا۔ ہمارے عظیم رہنما الیگزاینڈر کیرنسکی نے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ 

جاری

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031