حرام جادی- محمد حسن عسکری

حرام جادی

(محمد حسن عسکری)

دروازہ کی دھڑ دھڑ اور”کواڑ کھولو” کی مسلسل اور ضدی چیخیں اس کے دماغ میں اس طرح گونجیں جیسے گہرے تاریک کنوئیں میں ڈول کے گرنے کی طویل، گرجتی ہوئی آواز۔ اس کی پر خواب او نیم رضا مند آنکھیں آہستہ آہستہ کھلیں لیکن دوسرے لمحہ ہی منہ اندھیرے کے ہلکے ہلکے اجالے میں ملی ہوئی سرمہ جیسی سیاہی اس کے پپوٹوں میں بھرنے لگی اور وہ پھر بند ہو گئیں۔ آنکھوں کے پردے بوجھل کمبلوں کی طرح نیچے لٹک گئے اور ڈلوں کو دبا دبا کر سلانے لگے لیکن کان آنکھوں کی ہم آہنگی چھوڑ کر بھنبھنا رہے تھے۔ وہ اس سحر خیز حملہ آور کی تازہ یورش کے خلاف اپنے روزن بند کر لینا چاہتے تھے اور پھر بھی بھنبھنا رہے تھے۔

امید و بیم کی یہ کشمکش جسے نیند شاید جلد ہی اپنے دھارے میں غرق کر لیتی، زیادہ دیر جاری نہ رہی۔ اب کے تو دروازہ کی چولیں تک ہلی جا رہی تھیں اور آوازیں زیادہ بے صبر، بے تاب، کرخت اور بھرائے ہوئے گلے سے نکل رہی تھیں۔ “کھولو کھولو۔”یہ آوازیں پتلی، نوک دار تتلیوں کی طرح دماغ میں گھس کر نیند کے پردوں کو تار تار کئے دے رہی تھیں۔ وہ یہ بھی سن رہی تھی کہ پکارنے والا کھولو۔ کھولو کے وقفہ کے درمیان آہستہ ناخوشگوار ارادوں کا اظہار بھی کر دیتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ کوئی شخص اسے سڑک کے ڈھیلوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ آخر اس نے آنکھیں پوری کھول دیں اور ہاتھوں کو چارپائی پر جھٹکتے ہوئے کہا۔”نصیبن دیکھو تو کون ہے ؟”

یہ اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی جب سے وہ اس قصبہ میں مڈ وائف ہو کر آئی تھی یہ سب کچھ روز ہوتا تھا یہی چیخیں، یہی دھڑ دھڑاہٹ فرض اور آرام کی یہی تلخ کشمکش یہی جھلاہٹ اور پسپائی سب اسی طرح، اسے صبح ہی اٹھ کر جانا پڑتا تھا اور پھر اس کا سارا دن نو واردوں کو احتجاجاً چیختے چلاتے، ہاتھ پاؤں پھینکتے دنیا میں آتے ہوئے دیکھنے میں، کچھ دن آئے ہوؤں کی رفتار کے معائنہ میں اور آمد و رفت کے اندراج کے لئے ٹاؤن ایریا کے دفتر تک بار بات دوڑنے میں گزرتا تھا۔ اسے دوپہر کو کھانا کھانے اور آرام کرنے کا وقت بھی ہزار کھینچ تان کے بعد ملتا تھا اور وہ بھی یقینی نہ تھا کیونکہ بچے پیدا ہونے میں موقع کا مطلق لحاظ نہیں کرتے۔ صبح چار بجے، دوپہر کے بارہ بجے، رات کے دو بجے ہر گھنٹہ ہر گھڑی اسے کوہِ ندا کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہنا پڑتا تھا اوربچے تھے کہ ایسی تیزی سے چلے آ رہے تھے جیسے پہاڑی ندی میں لڑھکتے ہوئے پتھر، ضبطِ تولید کے چرچے دولت نگر کو شہر سے ملانے والی کچی اور گڑھوں والی سڑک کو طے نہ کر سکتے تھے اور اگر بالفرض محال وہ رینگتے ہوئے وہاں تک پہنچ بھی جاتے تو یہ یقینی بات تھی کہ قصبے والے انہیں ذرا بھی قابلِ اعتنا نہ سمجھتے۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ بچے خدا کے حکم سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں انسان کا کیا دخل۔ 18 سالہ لڑکے،56 سالہ بڈھے، الہڑ لڑکیاں، ادھیڑ عورتیں، سب کے سب حیرت انگیز تن دہی اور یک جہتی کے ساتھ سڑکوں کی نالیوں میں کھیلنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ کئے چلے جا رہے تھے۔ گویا وہ قومی دفاع کی خاطر کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ہیں اور پھر وہ بچارے کرتے بھی کیا۔ وہ تو خدا کے حکم سے بے بس تھے۔ غرض یہ کہ بچے چلے آ رہے تھے۔ کالے بچے، پیلے بچے، پرنچے مرغ کی طرح سرخ بچے اور کبھی کبھی گورے بچے دبلے پتلے، ہڈیوں کا ڈھانچہ یا بعض موٹے تازے بچے، مڑے ہوئے بالوں والے چپٹی ناک والے، چھچھوندر کی طرح گلگلے، لکڑی جیسے سخت، ہر رنگ اور ہر قسم کے بچے۔۔

ایملی نے اپنی دادی سے سنا تھا کہ ان کے بچپن میں ایک مرتبہ پاؤ پاؤ بھر کے مینڈک برسے تھے۔ وہ کبھی کبھی سو چا کرتی تھی اور اس وقت اسے بے ساختہ ہنسی بھی آ جاتی تھی کہ یہ بچے وہی برسنے والے مینڈک ہیں۔ پاؤپاؤ بھر کے زرد زرد مینڈک۔

اور اسے انہی زرد مینڈکوں کی بارش کے ہر قطرہ کو برستے ہوئے دیکھنے کے لئے قصبے کی ٹوٹی پھوٹی روڑوں کی سڑکوں، تنگ و تاریک، سیلی ہوئی گلیوں، گرد و غبار، کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں، بھونکتے ہوئے لال پیلے کتوں اور کسانوں کی گاڑیوں اور گھاس دالیوں سے ٹھنسے ہوئے بازاروں میں سارا سارا دن گھومنا پڑتا تھا۔ پتلی پتلی سڑکوں پر دونوں طرف ریت کا حاشیہ ضرور بنا ہوتا تھا اور پھر نالیاں تو ٹھیک سڑکوں کے بیچوں بیچ بہتی تھیں جن کی سیاہی کسی گنوار دن کے بہے ہوئے کاجل کی طرح سڑک کا کافی حصہ غصب کئے رہتی تھی۔ صفائی کے بھنگی نالیوں کی گندگی سمیٹ سمیٹ کر سڑک پر پھیلا دیتے تھے جن سے اپنی ساڑھی کو محفوظ رکھنے کے لئے ایملی کو ہلکے ہلکے فیروزی سینڈل کے بجائے اونچی ایڑی والا جوتا پہننا پڑتا تھا۔ گو اس صورت میں سڑک کے ابھر ے ہوئے لا تعداد کنکر اس کے پیروں کو ڈگمگا دیتے تھے۔ راستہ میں گلی ڈنڈا اور کبڈی کھیلنے والے لونڈوں کا لا ابالی پن اس کے کپڑوں پر ہر دفعہ اپنا نشان چھوڑ جاتا تھا۔ مگر خیر شکر تھا کہ وہ ہمیشہ اپنی آنکھیں اور دانت سلامت لے آتی تھی اور یہاں کی گرمی!اسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ یقیناً پسینوں میں گھل گھل کر ختم ہو جائے گی۔ ان تنگ سڑکوں پر بھی سورج اس تیزی سے چمکتا تھا کہ اس کے بدن پر چنگاریاں ناچنے لگتیں اور اس کی نیلے پھولوں والی چھتری محض ایک بوجھ بن جاتی۔ جب وہ اپنی اونچی ایڑیوں پر لڑکھڑاتی، سنبھلتی، دھوپ میں جلتی بھنتی سڑکوں پر سے گزرتی تو اسے دور آلھا گانے کی آواز، ڈھول کی کھٹ کھٹ اور درخت کے نیچے تاش کی پارٹیوں کے بلند اور کرخت قہقہے دوپہر کی نیند حرام کر دینے والی بوجھل مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح بیزار کن اور پُر اِستہزا معلوم ہوتے اور وہ چار مہینے پہلے چھوڑے ہوئے شہر کا خیال کرنے لگتی۔ مگر شہر اس وقت خوابوں کی وہ سر زمین بن جاتا ہے جسے صبح اٹھ کر ہزار کوششوں کے باوجود کچھ یاد نہیں کیا جا سکتا اور جس کی لطافت کا یقین دن بھر دل کو بے چین کئے رکھتا ہے۔ اسے کچھ روشنی سی معلوم ہوتی ایک چمک، ایک کشادگی، ایک پہنائی کچھ ہریالی اس کے سامنے تیرتی اور وہ پھر اسی تپتی ہوئی کنکروں، نالیوں اور ریت والی سڑک پر لڑکھڑاتی، سنبھلتی چل رہی ہوتی۔ بجلی کے پنکھے والے کمرے کا تصور اس تپش اور سوزش کو کم کرنے میں اس کی مدد نہ کرتا تھا لیکن، ہاں! جب کبھی وہ خوش قسمتی سے رات کو فارغ ہوتی اور اسے اپنے بستر پر کچھ دیر جاگنے کا موقع مل جاتا تو اس وقت شہر کی زندگی کی تصویریں سینما کے پردے کی طرح پوری طرح روشنی اور صفائی کے ساتھ اس کی نظروں کے سامنے گزرنے لگتیں اور وہ جس تصویر کو جتنا دیر چاہتی ٹھہرا لیتی لیکن جب وہ ان تصویروں سے لطف اٹھانے کے درمیان ان مناظر کو یاد کرتی جن سے اسے ہر وقت دو چار ہونا پڑتا تھا تو اس کی خستگی اور بیزاری آہستہ آہستہ عود کر آتی۔ گھرکی دیواریں مع رات کی تاریکیوں کے اس پر جھک پڑتیں۔ دل بھنچنے لگتا، سانس گرم اور دشوار ہو جاتا اور اس کا سر کمننی کھا کھا کر نیند کی بے ہوشی میں غرق ہو جاتا اور وہ خواب میں دیکھتی کہ وہ پھر اسی شہر کے ہسپتال میں پہنچ گئی ہے، مگر ان در و دیوار سے بجائے رفاقت کے کچھ بیگانگی سی ٹپکتی ہے اور خود اس کے اعضاء منجمد اور ناقابل حرکت ہو گئے ہیں اور کوئی نامعلوم خوف اس کے دل پر مسلط تھا۔ وہ صبح تک یہی خواب تین چار مرتبہ دیکھتی اور دراصل اس کے لئے ان زندگیوں کا انتقال ہونا بھی چاہئے تھا۔ ایسے ہی اثرات پیدا کرنے والا، مانا کہ شہر میں بھی ایسی ہی ملی ہوئی گلیاں، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گرد و غبار، شریر لڑکے موجود تھے اور وہ ان کے وجود سے بے خبر نہ تھی لیکن وہ تو ہوا کی چڑیوں کی طرح ان سب سے بے پرواہ اور مطمئن تانگے کے گدوں پر جھولتی ہوئی ان اطراف سے کبھی دسویں پندرھویں نکل جایا کرتی تھی۔ اس کی دنیا تو ان علاقوں سے دور ضلع کے صدر ہسپتال میں تھی۔ کتنی کھلی ہوئی جگہ تھی وہ؛ اور وہاں کا لطف تو ساری عمر نہ بھول سکے گی۔ ہسپتال کے سامنے تار کول کی چوڑی سڑک تھی جس پر دن میں دو مرتبہ جھاڑو دی جاتی تھی اور جو ہمیشہ شیشے کی طرح چمکا کرتی تھی جب وہ اپنی سہیلی ڈینا کے ساتھ اس پر ٹہلنے کے لئے نکلتی تھی تو دور دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں اور میدانوں پر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چہرے اور آنکھوں پر لگ لگ کر دماغ کو ہلکا کر دیتے تھے۔ اس کی ساڑھی پھڑپھڑانے لگتی، ماتھے پر بالوں کی ایک لڑی تیرتی اور اس کی رفتار سبک اور تیز ہو جاتی۔

ایسے وقت باتیں کرنا کتنا خوشگوار اور پر لطف ہوتا تھا۔ گرد و غبار کا تو یہاں نام بھی نہ تھا۔ مئی جون کے جھکڑ بھی ہسپتال کی سفید اور شیشوں والی عمارت پر سے سنسناتے ہوئے شہر کی طرف گزرتے چلے جاتے تھے اور بجلی کے پنکھے سے سرد رہنے والے کمرے میں دوپہر کی سختی اور اداسی اپنا سایہ تک نہ ڈال سکتی تھی۔ جب وہ پر وقار انداز سے ساڑھی کا پلہ سنبھالے گزرتی تھی تو ہسپتال کے نوکر چاروں طرف سے اسے “میم صاحب” کہہ کر سلام کرنے لگتے تھے۔ گو یہاں بھی اسے سب لوگ میم صاحب ہی کہتے تھے۔ سڑکوں پر جھاڑو دینے والے بھنگی اسے آتے دیکھ کر تھم جاتے تھے بلکہ قصبہ کے زمیندار تک اسے “آپ” سے مخاطب کرتے تھے۔ مگر پھر بھی یہاں وہ بات کہاں حاصل ہو سکتی تھی۔ وہ رعب، وہ دبدبہ، وہ مالکانہ احساس، وہاں تو اس کی شخصیت ہسپتال کا ایک جزوِ لاینفک تھی۔ اس سفید، سرد اور متین عمارت او ر اس کے غیر مرئی مگر اٹل قانونوں اور اصولوں کا ایک زندہ مجسمہ۔ ہسپتال کے نشتر کے سامنے آنے کے بعد کوئی شخص احتجاجاً حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ اسی طرح اس کی حدود میں داخل ہونے والی ہر چیز کو اس کی مرضی کا پابند ہونا پڑتا تھا۔ جب اس کا مریضوں کے معائنہ کا وقت آتا تھا تو وارڈ میں پہلے ہی سے تیاریاں ہونے لگتی تھیں۔ وہ دو روپے روزانہ کرایہ دینے والیوں تک کو جھڑک دیتی تھی کیونکہ اسے صاف کمروں میں پان کی پیک تک دیکھنا گوارا نہ تھا۔ وہ بڑی بڑی نازک مزاجوں کو ذرا سی بے احتیاطی اور ہدایات کی خلاف ورزی پر بے طرح ڈانٹتی تھی اور ہمیشہ سب سے تم کہہ کر بولتی تھی۔ مگر یہاں کی عورتیں تو بہت ہی منہ پھٹ تھیں۔ وہ اس سے ہراساں اور خوف زدہ تو ضرور تھیں مگر اسے دوبدو جواب دینے سے نہ چوکتی تھیں۔ تھوڑے دن تک ان پر اپنا اختیار جمانے کی کوشش کرنے کے بعد اب وہ تھک چکی تھی اور ان کی باتوں میں زیادہ دخل نہ دیتی تھی اور صفائی اور سلیقہ کی تو ان عورتوں کو ہوا تک نہ لگی تھی۔ زچہ کو گرمی میں بھی فوراً ایک کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا جس میں جاڑوں کے لحاف پنکھونے، چاروں اور دوسری جنسوں کے سٹکے، ٹوٹی ہوئی چارپائیاں، برتن، کوئلوں کا گھڑا، سوت اور رولڑ کی گٹھڑیاں، سب الم غلم بھرے ہوتے تھے اور ایک انگیٹھی پر گھٹی چڑھا دی جاتی تھی۔ بعض بعض جگہ تو جلدی جلدی کمرہ میں گوبری ہونے لگتی تھی جو پیروں سے اکھڑ اکھڑ کر فرش کو چلنے کے قابل بھی نہ رہنے دیتی تھی اور جس کی سیلن انگیٹھی کی گرمی سے مل کر سانس لینا دشوار کر دیتی تھی۔ گھر کی سب عورتیں اور وہ کم سے کم چار ہوتی تھیں، اپنے بدبو دار کپڑوں سمیت کمرے میں گھس آتی تھیں اور گھبراہٹ میں سارے سامان کو ایسا الٹ پلٹ کر دیتی تھیں کہ ذرا سی کتر تک نہ ملتی تھی۔ اندر کی کھسر پھسر، گھڑڑ بڑر، کراہوں “یا اللہ یااللہ” اور عورتوں کے بار بار کواڑ کھول کر اندر باہر آنے جانے سے گھر کے بچے جاگ جاتے تھے اور اپنے آپ کو اماں کے قریب نہ پا کر چیخنا شروع کر دیتے تھے اور ان کی بڑی بہنیں چمکارچمکار کر اور تھپک تھپک کر انہیں بہلانے کی کوشش کرتی تھیں۔

“ارے چپ چپدیکھ بھیا آیا ہے صبح کو دیکھومنا سا بھیا “مگر صبح کو منا سا بھیا دیکھ سکنے کی امید انہیں اس وقت تک کوئی تسکین نہ دے سکتی اور ان کی روں روں دھاڑوں کی شکل میں تبدیل ہو کر کمرہ کے خلفشار میں اور اضافہ کر دیتی۔ یہ تو خیر جو کچھ تھا سو تھا، کثیف بستروں پر لیپ چڑھے ہوئے تکیوں، پسینے میں سڑے ہوئے کپڑوں اور مدتوں سے نہ دھلے ہوئے بالوں کی بدبو سے جیسے گرمی اور بھی دو آتشہ کر دیتی تھی، اس کا جی الٹنے لگتا تھا۔ وہ تمام وقت ہر چیز سے دامن بچاتی ہوئی کھڑی کھڑی پھرتی تھی۔ اس کمرہ میں ایک گھنٹہ گزارنا گویا جہنم کے عذابوں کے لئے تیاری کرنا تھا یہ مانا کہ خود اسے کچھ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ کیونکہ قصبہ کی عورتیں اپنے آپ کو نئے نئے انگریزی تجربوں کے لئے پیش کرنے اور اپنے آپ کو ایک اجنبی اور عیسائی مڈ وائف کے، جو ان دیکھے اور مشتبہ آلات سے مسلح تھی، ہاتھوں میں دے دینے کے لئے قطعاً تیار نہ تھیں انہیں تو قصبہ کی پرانی دائی اور چھوٹے ہوئے گھڑے کے ٹھیکروں پر ہی اعتقاد تھا تاہم ان کے مردوں نے ٹاؤن ایریا سے ڈر کر انہیں اس پر راضی کر لیا تھا کہ وہ نئی عیسائی مڈ وائف کے کمرے میں موجودگی برداشت کر لیں۔ اس طرح عملی حیثیت سے تو اس کا کام بہت کم ہو گیا تھا لیکن آخر ذمہ داری تو اس کی ہی تھی اور وہی ٹاؤن ایریا کمیٹی کے سامنے ہر برائی بھلائی کے لئے جواب دہ تھی اور اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا ہواؤں سے لڑنا تھا۔ اکثر نوگرفتار اتنا چیختی چلاتیں اور ہاتھ پیر پھینکتی تھیں کہ انہیں قابو میں کرنا دو بھر ہو جاتا تھا یہ پھر ایسی سہم جاتی تھیں کہ وہ ڈر کے مارے ذرا سی حرکت نہ کرتی تھیں۔ تین تین چار چار بچوں کی مائیں تو اور بھی آفت تھیں۔ وہ اپنے تجربوں کے سامنے اس ساڑھی پہن کر باہر گھومنے والی عیسائی عورت کی انوکھی ہدایتوں کو کوئی وقعت دینے پر تیار نہ تھیں۔

وہ اپنی آہوں کے درمیان بھی رک کر دائی کو مشورہ دینے لگتی تھیں اور ایملی کو دانتوں سے ہونٹ چبا چبا کر خاموش رہ جانا پڑتا تھا اور دائی تو بھلا اس کی کہاں سننے والی تھی۔ اسے اپنی برتری اور مڈ وائف کی نااہلیت کا یقین تو خیر تھا ہی مگر اس کی موجودگی سے اپنی آمدنی پر اثر پڑتا دیکھ کر اس نے ایملی کی ہر بات کی تردید کرنا اپنا فرض بنالیا تھا۔ گو ایملی نے اس کے طنزیہ جملوں کو پینے کی عادت ڈال لی تھی لیکن اس کا دل کوئی پتھر کا تھوڑے ہی تھا۔ دائی کے طرزِ عمل کو دیکھ دیکھ کر دوسری عورتیں بھی دلیر ہو گئی تھیں۔ اس کی طرف توجہ کئے بغیر ہی وہ پلنگ کو گھیر لیتی تھیں۔ اور وہ سب سے پیچھے چھوڑ دی جاتی تھی۔ اب اس کے سوا کیا رہ جاتا تھا کہ وہ جھنجھلا جھنجھلا کر پیر پٹخے اور انہیں پکار پکار کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرے۔

ان سب آزمائشوں سے گزرنے کے بعد اسے ہر بار اندراج کے لئے ٹاؤن ایریا کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ اسے دیکھ کر بخشی جی کی آنکھیں چمکنے لگتیں اور ان کے پان میں سنے ہوئے کالے دانت نیم تمسخرانہ انداز میں ان کو چھوٹی داڑھی اور بڑی بڑی مونچھوں سے باہر نکل آتے اور وہ اس کی طرف کرسی کھسکاتے ہوئے کہتے “کہو میم صاحب! لڑکا کہ لڑکی؟” مونچھوں کے ان گھنے کالے بالوں کی قربت اسے ہراساں کر دیتی اور اسے ایسا معلوم ہونے لگتا جیسے ان بالوں میں یکایک بجلی کی لہر دوڑ جائے گی اور وہ سیدھے ہو کر اس کے چہرہ سے آ ملیں گے۔ وہ نفرت اور خوف سے پیچھے سمٹ جاتی اور بخشی جی سے نظریں بچاتی ہوئی جلد سے جلد اپنا کام ختم کرنے کی کوشش کرتی۔

یہ سارے مرحلے طے کرتی ہوئی وہ عموماً آٹھ نو بجے رات کو تھکی ہاری اپنے گھر پہنچتی تھی۔ جب پیر کہیں سے کہیں پڑ رہے ہوں، سر بھنّایا ہوا ہو، جب جسم کا کوئی بھی عضو ایک دوسرے کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو، تو بھلا بھوک کیا خاک لگ سکتی ہے۔ وہ جوتا کھول کر پیر سے کونے میں اچھال دیتی اور کپڑے اس طرح جھنجھلا جھنجھلا کر اتارتی کہ دوسرے دن نصیبن کو انہیں دھوبی کے یہاں استری کرانے لے جانا پڑتا۔ الٹا سیدھا کھانا حلق کے نیچے اتار کر وہ بستر پر گر پڑتی۔ تکیے پر سر رکھتے ہی دیواریں، پیڑ، ساری دنیا اس کے گرد تیزی سے گھومنے لگتے۔ بھیجا دھرا دھڑ دھرا دھڑا کر کھوپڑی میں سے نکل بھاگنے کی کوشش کرتا۔ سر تکیے میں گھسا جاتا مگر تکیہ اسے اوپر اچھالتا معلوم ہوتا۔ بازو شل ہو جاتے۔ ہتھیلیوں میں سیسہ سا بھر جاتا اور ہاتھ اوپر نہ اٹھ سکتے۔ اسی طرح ٹانگیں بھی حرکت سے انکار کر دیتیں اور کمر تو بالکل پتھر بن جاتی۔ وہ اپنے پرانے ہسپتال کو یاد کرنا چاہتی، مگر وہ کسی چیز کو بھی پوری طرح یاد نہ کر سکتی کھڑکی کا کواڑ، مریضوں کی آہنی چارپائی کا پایہ، موٹر کے پہیئے، نیم کے پیڑ کی چوٹی، پان میں ستے ہوئے کالے دانت اور گھنی سخت مونچھیں، یہ سب باری باری بجلی کے کوندے کی طرح سامنے آتے او ر آنکھ جھپکتے میں غائب ہو جاتے وہ کھڑکی کے کواڑ میں ایک کمرہ جوڑنا چاہتی۔ مگر اس میں زیادہ سے زیادہ ایک چٹخنی کا اضافہ کر سکتی بلکہ بعض اوقات آہنی چارپائی کا ایک پایہ تو ایک کھونٹے کی طرح اس کے دماغ میں گڑ جاتا اور کوشش کے باوجود بھی ٹس سے مس نہ ہوتا، نیم کی چوٹی کو کبھی تنا حاصل نہ ہو سکتا پھر نیم کی ہر ی ہری چوٹی پر ایک ریت کے حاشیہ والی نالی بہنے لگتی اور کھڑکی کے شیشے پر پان میں سنے ہوئے کالے دانت مسکراتے اور گھنے سخت بالوں والی مونچھیں بے تابی سے ہلتیں مختلف شکلیں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتیں اور دماغ کے ایک سرے سے دوسرے تک لڑتی جھگڑتی، ٹکراتی، روندتی، دوڑتی سیاہ آسمان پر روشن ان گنت تاروں کے کچھے کے کچھے بھنگوں کی طرح آنکھوں میں گھس گھس کر ناچنے لگتے اور جلتی ہوئی آنکھیں کنپٹیوں کی خواب آور بھد بھدے سے آہستہ آہستہ بند ہو جاتیں سونے کے بعد تو ان شکلوں کے اور بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہو جاتے جو باری باری آتے اور اس کے دماغ پر مسلط ہو جانا چاہتے۔ اتنے ہی میں ایک ایک دوسرا آ پہنچتا اور پہلے والے کو دھکے دے کر باہر نکال دیتا۔ ابھی یہ کشمکش ختم بھی نہ ہوتی کہ ایک تیسرا آ دھمکتا۔ ان سب کی حریفانہ زور آزمائیاں اسے بار بار چونکا دیتیں اور وہ ہلکی سی کراہ کے ساتھ آنکھیں کھول دیتی پھر آنکھوں میں تاروں کے گچھے کے گچھے بھرنے لگتے کہیں صبح کے قریب جا کر یہ شکلیں تھمتیں اور اپنی رزم گاہ سے رخصت ہوتیں ہلکی ہلکی ہوا بھی چلنی شروع ہو جاتی اور ایملی نیند میں بالکل بے ہوش ہو جاتی مگر اس کی نیند پوری ہونے سے پہلے “کواڑ کھولو ” کی مسلسل اور ضدی چیخیں اس کے دماغ میں گونجتیں وہی چیخیں، وہی دھڑ دھڑاہٹ، فرض اور آرام کی وہی تلخ کشمکش، وہی جھلاہٹ اور پسپائی۔

نصیبن بہار سے لوٹ آئی تھی۔ اسے شیخ صفدر علی کے ہاں بلایا گیا تھا اور پکارنے والے نے بار بار کہا تھا “جلدی بلایا ہے جلدی “ہر ایک یہی کہتا ہوا آتا ہے جلدی آخر وہ کیوں جلدی کرے؟ کیا وہ ان کی نوکر ہے؟ یا وہ اسے دولت بخش دیتے ہیں۔ ہونہہ جلدی! وہ نہ پہنچے گی تو کیا سب مر جائیں گے؟ اور پھر وہ کریں گے ہی کیا اسے بلا کر؟کہتی ہیں چڑیلیں”اسے کیا خاک آتا ہے ” کیا خاک آتا ہے کچھ نہیں آتا اچھا پھر؟ بیٹھیں اپنے گھر، کون ان کی خوشامد کرنے جاتا ہے کچھ نہیں آتا؟ جیسے جیسے آئے اس نے دیکھے ہیں ان لوگوں کے تو خواب و خیال میں بھی نہ گزرے ہوں گے چمکدار، تیز، ہاتھی دانت کے دستے والے اور وہ ڈاکٹر کارٹ فیلڈ کے لیکچر، وہ نقشے دکھا دکھا کر جسم کے حصوں کو سمجھاتی تھی کچھ نہیں آتا ہونہہ!

ایملی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ پہلے تو اس کا جی چاہا کہ کہلوا دے وہ جلدی نہیں آسکتی۔ وہ بالکل نہیں آئے گی۔ مگر پھر اسے خیال آیا کہ یہ لوگ محض جاہل ہی تو ہیں۔ ان کے کہنے سے اس کا بگڑتا کیا ہے اور آخر ذمہ داری تو خود اس کی ہی ہے۔ چنانچہ اس نے نصیبن سے کہا “کہہ دو کہ چلو میں آ رہی ہوں۔” مطمئن ہو کر اس نے کروٹ لے لی۔ سر کو تکیے پر ڈھیلا چھوڑ دیا۔ آنکھیں بند کر لیں، ایک بازو بستر کی ٹھنڈی چادر پر پھیلا دیا اور ہاتھ چہرے پر رکھ لیا۔ اس نے چاہا کہ دماغ کو بالکل خالی کر لے اور ساکت ہو جائے مگر اس کے دل کی کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ کانوں میں بج رہی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد یکایک ایک پتھر سا دماغ میں آ کر لگتا تھا۔”جلد “جس سے اس کے ماتھے اور کنپٹیوں کی نسیں تن جاتی تھیں اور ٹوٹتی ہوئی معلوم ہونے لگتی تھیں۔ اسے جلدی جانا تھا جلدی اور اسی بات کے تو وہ ٹاؤن ایریا کمیٹی سے تیس روپے ماہوار پاتی تھی۔ جلد جانا تھا لیکن آخر وہ فرض پر صحت کو تو نہیں قربان کر سکتی تھی۔ کل رات ہی اسے بہت دیر ہو گئی تھی۔ وہ انسان ہی تو تھی نہ کہ مشین اب وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کے سر میں درد ہو رہا ہے، کمر بیٹھی جا رہی ہے، کندھے اور ٹانگیں بے جان ہو گئے ہیں۔ ایسی حالت میں اتنی جلدی بہت مضر ہو گا اور خصوصاً اس قصبہ جیسی آب و ہوا میں جہاں اس کی صحت روز بروز گرتی جا رہی ہے۔ ابھی آخر چار مہینے میں اسے چار دن بخار آ چکا تھا اور پھر وہ وہاں جا کر بنا ہی کیا لے گی، ان لوگوں کو ایسی کیا خاص ضرورت ہے اس کی تھوڑا سا اور سو لینا ہی بہتر ہو گا۔

وہ سو جاتی مگر انگلیوں کے بیچ میں ہو کر صبح کی روشنی آ رہی تھی اور اس کی آنکھوں کو بند نہ ہونے دیتی تھی۔ اس نے ہاتھ آنکھوں پر کھسکا لیا اور آنکھیں خوب بھینچ کر بند کر لیں۔ اب اسے جھپکیاں آنا شروع ہو گئیں۔ مگر ہر دفعہ “دودھ اور دودھ “ابے او کلو ہوئے۔”اٹھ! اٹھ! ابے پڑھنے نہیں جانے کا؟ ” کی صداؤں اور نسین کی لکڑیاں توڑنے اور دیگچیاں اٹھانے کی آوازوں سے وہ چونک پڑتی تھی۔ سونے کی کوشش کرتے کرتے اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ سر میں درد ہونے لگا اور ماتھا جلنے لگا۔ وہ مایوس ہو کر سیدھی لیٹ گئی اور آنکھوں پر دونوں بازو رکھ لئے۔ اب اس کے اعضاء اور بھی بوجھل اور ناقابل حرکت ہو گئے اور وہ ان صداؤں، آوازوں، ان تحکمانہ طلبیوں “جلدی بلایا ہے۔”اس صبح کے چاند نے، اس قصبہ پر دانت پیسنے لگی۔ وہ چاہتی تھی کہ کوئی ایسی چادر اوڑھ لے کہ اس کو ان صداؤں، آوازوں، ان تحکمانہ طلبیوں۔”جلدی بلایا ہے “اس صبح کے چاند نے، اس قصبے۔ سب سے چھپاکے۔ جس کے نیچے ان میں سے کسی کی بھی پہنچ نہ ہو، جہاں وہ ان سب سے اپنے آپ سے غافل ہو جائے اپنے کو کھو دے اسے محسوس ہو کہ دو مضبوط اور مدت کے آشنا بازو اس کے جسم کا حلقہ کئے بھینچ رہے ہیں سر کے درد کو گویا یکایک کسی نے پکڑ لیا دو آنکھیں بھی ذرا دور چمکیں، مسکراتی ہوئی معلوم ہوئیں اور اس نے اپنے آپ کو ان بازوؤں کی گرفت میں چھوڑ دیا جسم ہوا کی طرح ہلکا ہو گیا تھا۔ سر ہلکے ہلکے جھکولے کھاتا موجوں پر بہا چلا جا رہا تھا۔ سکون تھا، خاموشی تھی اور صرف دل کے مسرت سے دھڑکنے کی آواز آ رہی تھی دو بازو اس کے جسم کو بھینچ رہے تھے۔ وہ مضبوط اور مدت کے آشنا بازو۔

اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ صبح کے چاند میں چمک آ گئی تھی۔ نصیبن نے چولہے پر دیگچی رکھی۔ بکری والا محلہ سے جانے کے لئے بکریاں جمع کر رہا تھا اور کنویں کی گراری زور زور سے چل رہی تھی۔ اس کی آنکھیں اوپر اٹھیں اور ہوا میں کسی چیز کو تلاش کرنے لگیں۔

دو بادامی سائے اترنے لگے۔ آنکھوں کے پردے پھڑکے اور پلکیں آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے مل گئیں گویا وہ ان سایوں کو پھنسا لینا چاہتی ہیں سائے کچھ دور پر رک گئے، وہ ڈگمگائے اور دھندلے ہوتے ہوتے ہوا میں تحلیل ہو گئے آنکھیں صبح بے رنگ آسمان کو دیکھ رہی تھیں۔ اس کی گردن ڈھلک گئی اور بازو دونوں طرف گر پڑے وہ مدت کے آشنا بازو مگر وہ یہاں کہاں!

چند لمحے بے حس پڑے رہنے کے بعد وہ ولیمن کو یاد کرنے لگی۔ لمبے لمبے پیچھے الٹے ہوئے بال، چوڑا سینہ، سرخ ڈوروں والی جلد، پھرتی ہوئی آنکھیں، موٹا سا نچلا ہونٹ، کان کی لو تک کٹی ہوئی قلمیں، سانولے رنگ پر منڈھی ہوئی داڑھی کا گہرا نشان، آنکھوں کے نیچے ابھری ہوئی ہڈیاں اور مضبوط بازودن میں کتنی کتنی مرتبہ اس کے بازو اسے بھینچتے تھے اور ان کے درمیان وہ بالکل بے بس ہو جاتی تھی اور بعض دفعہ تو جھنجھلا پڑتی تھی مگر اس کے جواب میں اس کا پیار اور بڑھ جاتا تھا اور اس کے دونوں گالوں پر وہ گرم اور نم آلود بوسے اور دن میں کتنی کتنی مرتبہ اس کے منہ سے شراب کی تیز بدبو تو ضرور آتی تھی۔ مگر وہ کیسے جوش سے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا لیتا تھا اور پاگلوں کی طرح اس کے چہرے، ہاتھوں، گردن، سینے سب پر بوسے دے ڈالتا تھا اور پھر قہقہے مار مار کر ہنستا تھا “میری جان ہاہاہا ہااے می لی ڈی یرپیاری پیاری ہا ہا ہاہا “اور وہ اس کی کیسی نگہداشت کرتا تھا۔ وہ اس سے اپنے بازوؤں میں پوچھتا۔”اس مہینے میں کیسی ساڑھی لاؤ گی، میری جان؟ہیں؟ اس سینے پر تو سرخ کھلے گی!کہو کیسی رہی؟ ہا ہا ہاہا”اور وہ اسے دو پہر میں تو کبھی نہ نکلنے دیتا تھا اگر اسے ایسے وقت ہسپتال سے بلایا جاتا تو وہ کہلوا دیتا کہ مس ولیمن سو رہی ہیں اور وہ اس کے اٹھنے سے پہلے چائے تیار کرا کے اپنے آپ اس کے قریب میز پر لا رکھتا تھا اور وہ اسے کتنے پیار سے بھیجتا تھا مگر وہ یہاں کہاں!اگر وہ یہاں ہوتا تو وہ اسے اتنے سویرے کہیں نہ جانے دیتا۔ وہ یہاں ہوتا تو وہ خود کہیں نہ جاتی۔ وہ تو ایسے کواڑ پیٹ کر جگانے والے کا سر توڑ دیتالیکن وہ یہاں ہوتا وہ اس کے پاس ہوتا تو وہ خود یہاں کیوں ہوتی۔

لیکن کچھ دوسری شکلیں ابھریں اچھا ہی ہے کہ وہ اس کے پاس نہیں ہے اس کے بال الجھے ہوئے اور پریشان تھے اور وہ اس طرح دانتوں سے ہونٹ چبا رہا تھا گویا ان کا قیمہ کر کے رکھ دے گا اور اس نے اسے کیسی بے رحمی سے بید سے پیٹا تھا۔”لے اور لے گی بڑی بن کر آئی ہے وہاں سے وہ”اگر میم صاحب شور سن کر نہ آ جاتیں تو نہ معلوم وہ ابھی اور کتنا مارتا ایملی اپنے بازوؤں پر نشان دھونڈنے لگی ایسے ظالم سے تو چھٹکارہ ہی اچھا کیسی خونی آنکھیں اور آخر میں وہ شراب کتنی پینے لگا تھا مگر وہ ہوتا تو اسے اتنے سویرے کہیں نہ جانے دیتا مانا کہ وہ روڈا کے ساتھ رات کو بڑی دیر ٹہلتا رہتا تھا لیکن ظاہراً تو اس کے ساتھ اس کا برتاؤ ویسا ہی رہا تھا اگر وہ خود اتنا نہ بگڑتی اور اسے اٹھتے بیٹھتے طعنے نہ دیتی تو شاید بات یہاں تک نہ پہنچتی وہ اسے کتنے پیار سے بھینچتا تھا لیکن وہ لمبے منہ پر ہڈیاں نکلی ہوئی، سوکھی جیسے لکڑی ہو اور فراک پہننے کا بڑا شوق تھا آپ کو، بڑی میم صاحب بنتی تھیں۔ چار حرف انگریزی کے آ گئے تھے تو زمین پر قدم نہ رکھتی تھی مارے شیخی کےنہ معلوم ایسی کیا چیز لگی ہوئی تھی اس میں جو وہ ایسا لٹو ہو گیا تھا اس نے خواہ مخواہ فکر کی، وہ خود اسے تھک کر چھوڑ دیتا وہ اسے تھوڑے دن یونہی چلنے دیتی تو کیا تھا مگر اس نے کیسی بے رحمی سے اسے مارا تھا ہاں ایک دفعہ مار ہی لیا تو کیا ہو گیا۔ وہ خود بھی شرمندہ معلوم ہوتا تھا اور اس کے سامنے نہ آتا تھا اوراگر ڈینا اسے اتنا نہ بہکاتی تو وہ شاید طلاق بھی نہ لیتی۔ بس وہ اپنا ذرا مزا لینے کو اسے اکساتی رہی یہ اچھی دوستی ہے اب وہ ڈینا سے نہیں بولے گی اور اگر وہ ملے گی بھی تو وہ منہ پھیر کر دوسری طرف چل دے گی اور جو ڈینا اس سے بولی تو وہ صاف کہہ دے گی کہ وہ دھوکا دینے والوں سے نہیں بولنا چاہتی ڈینا بگڑ جائے گی تو بگڑا کرے۔ اب وہ شہر کے ہسپتال سے چلی ہی آئی، اب کوئی روز کا کام کاج تو ہے نہیں کہ بولنا ہی پڑے وہ اسی طرح ڈینا کی مکاری پر پیچ و تاب کھاتی رہتی، اگر نصیبن اسے نہ پکارتی۔”اجی میم صاحب اٹھو، سورج نکل آیا۔ ” وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور چاروں طرف دیکھا اب تو واقعی اسے چلنا چاہئے تھا مگر پھر بھی پلنگ سے نیچے اترنے سے پہلے اس نے کئی مرتبہ انگڑائیاں لیں اور تکیہ پر سر رگڑا۔

وہ منہ دھوکر چائے کے انتظار میں پھر بستر پر آ بیٹھی۔ نصیبن لکڑیوں کو چولہے میں ٹھیک کرتی ہوئی بولی۔ “وہ منیاین کہہ رہی تھیں کہ تمہاری میم صاحب تو عید کا چاند ہو گئیں۔ کبھی آ کے بھی نہیں جھانکتی اجی ہو ہی آؤ ان کی طرف میم صاحب کسی دن؛ بڑا یاد کریں ہیں تمہیں!”

ہو ہی آئے ان کی طرف کیا کرے وہ جا کر میلے کچیلے پلنگوں پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ٹوٹے ٹاٹے یہاں کی عورتوں سے وہ کیا باتیں کرے؟ بس انہیں تو تو قصے سناتے جاؤ کہ اس کے بچہ مرا ہوا پیدا ہوا۔ اس کو اتنی تکلیف ہوئی۔ اس کو ایسی بیماری تھی۔ وہ کہاں تک لائے ایسے قصے سنانے کو اور کوئی بات تو جیسے آتی ہی نہیں انہیں اور پھر یہ لوگ کتنی بدتمیز ہیں۔ سڑے ہوئے کپڑے لے کر سرپر چڑھی جاتی ہیں اسے ان لوگوں کے ہاتھ کا پان کھاتے ہوئے کتنی گھن آتی ہے مگر مجبوراً کھانا ہی پڑتا ہے جب وہ اس سے باتیں کرتی ہیں تو ہلکے ہلکے مسکراتے جاتی ہیں جیسے اس کا مذاق اڑا رہی ہوں کن آنکھوں سے ایک دوسرے کو اور سارے گھر کو دیکھتی جاتی ہیں گویا وہ چور ہے اور ان کی آنکھ بچتے ہی کوئی چیز اڑا دے گییہ اس سے سب عورتیں جھجکتی کیوں ہیں؟ کیا وہ ان کی طرح عورت نہیں ہے؟ یا وہ کوئی ہوا ہےعجیب بے وقوف ہیں یہ عورتیں۔اور ہاں جب وہ ان کے ہاں جاتی ہے تو ان کے اشارے سے جو ان لڑکیاں جلدی جلدی بھاگ کر کمرے میں چھپ جاتی ہیں۔ وہ اندر سے جھانک جھانک کر اسے دیکھتی ہیں اور اگر کہیں اس کی نظر پڑ جائے تو وہ فوراً ہٹ جاتی ہیں اور اندر سے ہنسنے کی آواز آتی ہے اور اگر انہیں اس کے سامنے آنا ہی پڑ جائے تو وہ بدن چراتی ہوئی اوپر سے نیچے تک خوب دوپٹہ تانے ہوئے آتی ہیں جیسے اس کی نظر ان میں سے کچھ چھٹا لے گی یا اس کی نگاہ پڑ جانے سے ان میں کوئی گندگی لگ جائے گیان کی یہ حرکت اسے بالکل نا پسند ہے۔ کیا انہیں اس پر اعتماد نہیں اور وہ اس پر شک کرتی ہیں؟ اس سے تو ان کے ہاں نہ جانا ہی اچھا بیٹھیں اپنی لڑکیوں کو لے کر اپنے گھر میں اور وہ گندے بچے، مٹی سے سنے، ناک بہتی، آدھے ننگے، پیٹ نکلا ہوا، وہ سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسے ایسے غور سے دیکھتے رہتے ہیں جیسے وہ نیا پکڑا ہوا عجیب و غریب جانور ہے اور جب وہ ان سے بولتی ہے تو وہ سیدھے باہر بھاگ جاتے ہیں وحشی ہیں بالکل، جانور بالکل اور یہ خوب ہے کہ اس کے پہنچتے ہی وہاں جھاڑو شروع ہو جاتی ہے۔ مارے گرد کے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ ذرا خیال نہیں تندرستی کا انہیں اور کوئی کیوں ان کے ہاں جا کر بیماری مول لے اور ان کے مرد، کتنی شرم آتی ہے اسے ان حرکتوں سے۔ وہ ہمیشہ ڈیوڑھی میں راستہ گھیرے بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک وہ بالکل قریب نہ پہنچ جائے نہیں ہٹتے “ارے حقہ ہٹاؤ، حقہ ہٹاؤ ” اٹھتے اٹھتے ہی اتنی دیر لگا دیتے ہیں کہ وہ گھبرا جاتی ہے جان کے کرتے ہوں گے یہ ایسی باتیں تاکہ کھڑی رہے وہ تھوڑی دیر وہاں اور جب وہ اندر پہنچ جاتی ہے تو اسے قہقہوں کی آواز آتی ہے۔ عجیب بد تمیز ہیں انگریزوں کے ہاں کتنی عزت ہوتی ہے عورتوں کی۔ وہ بڈھے پادری صاحب جو آیا کرتے تھے، بہت اچھے آدمی تھے بیچارے، ہر ایک سے کوئی نہ کوئی نہ بات ضرور کرتے تھے، بلکہ اسے تو وہ پہچان گئے تھے۔ سب مل کر جایا کرتے تھے اتوار کو گر جا وہ خود، ڈینا، کیٹی، میری، شیلا اور ہاں مرسی مسز جیمس کا کتنا مذاق اڑاتے تھے سب مل کر سب سے پیچھے چلتی تھیں، چھتری ہاتھ میں لئے ہانپتی ہوئی اور ان میں تھا ہی کیا۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھیں بس اور گرجا سے لوٹتے ہوئے تو اور بھی بڑا مزا آتا تھا۔ سب چلتے تھے، آپس ہنستے، مذاق کرتے افوہ، شیلا کس قدر ہنسوڑ تھی، کیسے کیسے منہ بناتی تھی۔ جب ہنسنے پر آتی تھی تو رکنے کا نام نہ لیتی تھی مگر یہاں وہ سب باتیں کہاں اب تو جیسے وہ آدمیوں میں رہتی ہی نہیں اور واقعی کیا آدمی ہیں یہاں والے؟ اول تو اسے اتنی فرصت ہی کہا ملتی ہے۔ ہر وقت پاؤں میں چکر رہتا ہے اور پھر ایسوں سے کوئی کیا ملے؟جیسے جانور نہ کوئی بات کرنے کو، نہ کوئی ذرا ہنسنے بولنے کو، بس آؤ اور پڑ رہو لے دے کے رہ گئی نصیبن، تو اسے اس کے سوا کوئی بات ہی نہیں آتی کہ اس کا بیٹا بھاگ گیا، اس کی اپنے میاں سے لڑائی ہو گئی۔ اس کے یہاں برات بڑی دھوم دھام سے آئی اسے کیا ان باتوں سے، ہوا کرے، اس سے مطلب یا بہت ہوا تو اسے خواہ مخواہ ڈراتی رہے گی چوروں کے قصے سنا سنا کر ایک دفعہ اس نے سنایا تھا کہ ایک دوسرے قصبے کی مڈ وائف کو کچھ لوگ کیسے بہکا کر لے گئے تھے۔

اور اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھابکتی ہے بھلا کہیں یوں بھی ہوا ہے لیکن اگر کہیں اس کے ساتھ مگر نہیں، بیکار کا ڈر ہے، جو یوں ہوا کرے تو لوگ گھر سے نکلنا چھوڑ دیں بھلا دنیا کا کام کیسے چلے پاگل ہے بڑھیا، بہکا دیا ہے کسی نے اسے مگر ایسی جگہ کا کیا اعتبار، نہ معلوم کیا ہو گیا نہ ہو۔ کوئی ساتھ بھی تو نہیں اگر وہ مڈ وائف نہ بنتی تو اچھا تھا اور وہ تو خود ٹیچر بننا چاہتی تھی بلکہ پاپا بھی یہی چاہتے تھے مگر ماما ہی کسی طرح راضی نہ ہوئیں کتنے دن ہو گئے پاپا کو بھی مرے ہوئےبارہ سال، کتنا زمانہ گزر گیا اور معلوم ہوتا ہے جیسے کل کی بات ہوکتنا پیار کرتے تھے وہ اسے روز سکول پہنچانے جاتے تھے ساتھ کلاس میں اس کی سیٹ میز کے پاس تھی اور وہ انگریزی کے ماسٹر صاحب بہت اچھے آدمی تھے بے چارے، چاہے وہ کام کر کے نہ لے جائے، مگر کبھی کچھ نہیں کہتے تھے اور لڑکے تو نہ جانے اسے کیا سمجھتے تھے۔ سارے اسکول میں وہ اکیلی ہی لڑکی تھی نا، سب کے سب ماسٹر صاحب کی نظریں بچا بچا کر اس کی طرف دیکھتے رہتے تھے ارے وہ موٹا کرم چند، بھلاوہ بھی تو اس کی طرف دیکھتا تھا جیسے وہ بڑا خوبصورت سمجھتی تھی اسے اور ہاں وہ عظیم! یاد بھولا تھا۔ بیچارا، سوکھا سا زرد، مگر آنکھیں بڑی بڑی تھیں اس کی۔ دیکھتا تو وہ بھی رہتا تھا اس کی طرف، مگر جب کبھی وہ اسے دیکھ لیتی تھی تو وہ فوراً شرما کر نظریں نیچی کر لیتا تھا اور رومال نکال کر منہ پونچھنے لگتا تھا اور اس دن وہ دل میں کتنا ہنسی تھی۔ اس دن وہ اتفاق سے جلدی آ گئی تھی۔ برآمدہ میں دوسری طرف سے وہ آ رہا تھا، جب وہ قریب آیا تو اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور گھبرا گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اس کے پاس پہنچ کر وہ رک گیا اور کچھ کہنے سا لگا۔ ڈرتے ڈرتے عظیم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر جلدی سے چھوڑ دیا، اسے گھبرایا ہوا دیکھ کر وہ خود پریشان ہو گیا تھا اور اس نے بہت گڑ گڑا کر کہا تھا۔ “کہیے گا نہیں۔”وہ کتنے دن اس بات کو یاد کر کے ہنستی رہی تھی کتنا سیدھا تھا واقعی وہوہ ابھی اسکول ہی میں رہتی تو کتنا مزا رہتا مگر وہ زمانہ تو اب گیا اب تو وہ یہاں دنیا سے الگ پڑی ہے۔ کوئی بات تک کرنے کو نہیں کسی کا خط بھی جواب وہی “نہیں “اور جو آیا بھی تو بس وہی لمبے بادامی لفافے آن ہنر میجسٹیز سروس ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی ہدایتیں، یوں کرو اوریوں کرو کوئی اس کی مانے بھی جو وہ یوں کرے خواہ مخواہ کی آفت اور پھر خط آئے بھی کہاں سے اگر آنٹی ہی دلی سے خط بھیج دیا کریں تو کیا ہے مگر وہ تو برسوں بھی خبر نہیں لیتیں ایک دفعہ جانا چاہئے اسے دلی اچھا شہر ہے کیا چوڑی سڑکیں ہیں اور سنیما کس کثرت سے ہیں اور وہوہ خیر ہے ہی مگر ہو کائیں، کائیں، کائیں نے اسے چونکا دیا۔ دھوپ آدھی دیوار تک اتر آئی تھی، کوا زور زور سے چیخ رہا تھا اور وہ بستر پر پیر نیچے لٹکائے لیٹی تھی۔ اسے جلدی جانا تھا اور اس نے بے کار لیٹے لیٹے اتنی دیر لگا دی تھی۔ وہ نصیبن پر اپنا غصہ اتارنے لگی کہ اس نے چائے کیوں نہیں لا کر رکھی مگر وہ سمجھ رہی تھی کہ میم صاحب سو رہی ہیں اور واقعی، اس نے خیال کیا۔ اس سے تو وہ اتنی دیر سو ہی لیتی تو اچھا تھا۔ بہر حال اس نے نصیبن کو جلدی سے چائے لانے کو کہا۔

اس نے دوبارہ منہ دھویا اور الٹی سیدھی چائے پینے کے بعد وہ کپڑے بدلنے چلی۔ ٹرنک کھول کر وہ سوچنے لگی کہ کونسی ساڑھی پہنے سفید، سرخ کناروں والی۔ مگر کیا روز روز ایک ہی رنگ اور پھر سفید ساڑھی میلی کتنی جلدی ہوتی ہے۔ اس کی بہار تو بس ایک دن ہے۔ اگلے دن کام کی نہیں رہتی نیلی ساڑھی نیچے سے چمک رہی تھی اسے ہی کیوں نہ پہنے؟ مگر اسے نیلی ساڑھی پہنے دیکھ کر تو لوگ اور بھی باؤلے ہو جائیں گے وہ جدھر سے نکلتی ہے سب کے سب اسے گھورنے لگتے ہیں۔ اسے بڑی بری معلوم ہوتی ہے ان کی یہ عادت اور ان زمینداروں کو دیکھو، بڑے شریف بنتے ہیں؟خیر یہ تو جو کچھ ہے سو ہے، جب وہ آگے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہنستے ہیں اور طرح طرح کے آوازے کستے ہیں”کہو یار!””ابے مجید ذرا لیجو!”کوئی کھانسنے لگتا ہے؛ کیا وہ سمجھتی نہیں ذرا شہر میں کر کے دیکھتے ایسی باتیں وہ مزا چکھا دیتی انہیں مگر یہاں وہ کیا کرے، مجبور ہو جاتی ہے۔

ان کی ہی وجہ سے تو اس نے رنگ دار ساڑھیاں چھوڑ دیں اور سفید پہننے لگی، مگر پھر بھی نہیں مانتے اب اگر آج وہ نیلی ساڑھی پہن کر جائے گی تو نہ معلوم کیا کیا کریں گے تو پھر سفید ہی پہن لے مگر روز روز سفید اور کیا، وہ کوئی ان سے ڈرتی ہے۔ ہنستے ہیں تو ہنسا کریں، کوئی اسے کھا تھوڑی لیں گے، بھلا کیا بگاڑ سکتے ہیں وہ اس کا؟ اب وہ پھر رنگ دار ساڑھیاں پہنا کرے گی دیکھیں وہ اس کا کیا بناتے ہیں ہنسیں گے تو ضرور مگر اس سے ہوتا ہی کیا ہے آج ضرور نیلی ساڑھی پہنے گی!

نیلی ساڑھی پہن کراس نے بال بنانے کے لئے آئینہ سامنے رکھا۔ کم خوابی سے اس کی آنکھیں لال اور کچھ سوجی ہوئی سی تھیں۔ وہ ہاتھ میں آئینہ اٹھا کر غور سے دیکھنے لگی مگر یہ ا س کا رنگ کیوں خراب ہوتا چلا جا رہا تھا اور کھال بھی کھردری ہو چلی تھی۔ جب وہ لڑکی تھی تو اس کے چہرے پر کتنی چمک تھی رنگ سانولا تھا تو کیا، چمکدار تو تھا اس کی آنٹی ہمیشہ ماما سے کہا کرتی تھیں۔ “تمہیں بیٹی اچھی ملی ہےمگر اب” اس نے آئینہ رکھ دیا اور اپنے جسم کو اوپر سے نیچے تک ایسی حسرت سے دیکھنے لگی جیسے مور اپنے پروں کو۔ اس کے بازوؤں کا گوشت لٹک آیا ہے اور ٹھوڑی بھی موٹی ہو گئی ہے اور ہاتھ اب کتنے سخت ہیں۔ بال بھی سوکھے ساکھے اور ہلکے رہ گئے ہیں اور تیزی تو اس میں بالکل نہیں رہی ہے۔ پہلے وہ کتنا کتنا دوڑتی بھاگتی تھی اور پھر بھی نہ تھکتی تھی۔ مگر اب تو تھوڑی ہی دیر میں اس کی کمر ٹوٹنے لگتی ہے۔

اس نے ایک لمبی سی انگڑائی اور پھر ایک گہرا سانس لیا۔ بے رونق چہرے اور پلپلے بازوؤں نے نیلی ساڑھی کا رنگ اڑا دیا تھا۔ اس نے بال ایسی بے دلی سے بنائے کہ بہت سے تو ادھر ادھر اڑتے رہ گئے۔ بال بن چکے تھے مگر وہ برابر آئینے کو تکے جا رہی تھی اوراس کا دماغ سمٹ کر آنکھوں کے پپوٹوں میں آگیا تھا جن میں ایک ہی جگہ ٹھہرے ٹھہرے مرچیں سی لگنے لگی تھیں۔

جب اس نے آئینہ رکھا تو اسے میز کے کونے پر دیو ار کے قریب بائبل رکھی نظر آئی۔ یہ بچپن میں سالگرہ کے موقع پر اس کے پاپا نے اسے دی تھی۔ مدتوں میں اس نے اسے کھولا تک نہ تھا اور وہ گرد سے اٹی پڑی تھی۔ اس کتاب نے اسے پھر پاپا کی یاد دلا دی اور وہ اسے اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔ پہلے ہی صفحہ پر اس کا نام لکھا تھا۔ یہ دیکھ کر اسے ہنسی آئی کہ وہ اس وقت کیسے ٹیڑھے میڑھے حروف بنایا کرتی تھی۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس زمانہ میں اس کے پاس ہرا قلم تھا۔ اس کا ارادہ ہوا کہ اب کے جب وہ شہر جائے گی تو ایک ہرا قلم ضرور خریدے گی مگر اسے خیال آیا کہ وہ قلم لے کر کرے گی ہی کیا۔ اب اسے کونسا بڑا لکھنا پڑھنا رہتا ہے۔

اس کے پاپا اسے بائبل پڑھنے کی کتنی ہدایت کیا کرتے تھے۔ اسے اپنی بے پروائی پر شرم سی محسوس ہوئی اور وہ بائبل کے ورق الٹنے لگی پیدائش خروج ورق تیزی سے الٹے جانے لگے استثنا روت یرمیاہ حقوق متی لوقارسولوں کے اعمال کہاں سے پڑھے آدم نوح طوفان ابراہیم کشتی صلیب مسیح یسو راجا آئے گرجا کا گھنٹہ سب مل کر گرجا جاتے تھے، ہنستے مذاق کرتے آخر وہ فیصلہ نہ کر سکی کہ کون سی جگہ سے پڑھے اور اسے جلدی جانا تھا، اتنا وقت بھی نہیں تھا لیکن اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ اب روز صبح کو بائبل پڑھا کرے گی ورنہ کم سے کم اتوار کو ضرور لیکن دعا تو مانگ ہی لینی چاہئے بہت بری بات ہے ماما کبھی بغیر دعا مانگے نہیں سونے دیتی تھیں اور پھر اس میں وقت بھی کچھ نہیں لگتا اور لگے بھی تو کیا دنیا کے دھندے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔

اس نے دماغ کو ساکن بنانا چاہا اور آنکھیں بند کر لیں مگر باوجود اس کے آنکھیں پٹ پھٹانے سے پہلے تو اس کی ماما اس کی آنکھوں میں گھس اور پھر پاپا اور ان کے پیچھے پیچھے گرجا کی سڑک، گھنٹہ اور سب مل کر گرجا جایا کرتے تھے ہنستے، مذاق کرتے۔

اس نے آنکھیں کھول کر سرکو اس طرح جھٹکے دیا گویا ان سب کو اپنی آنکھوں میں سے جھاڑ رہی ہےآخر دماغ بالکل خالی ہو گیا اور خاموش۔ صرف کانوں اور سر میں دل کے دھڑکنے کی آواز آ رہی تھی۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ دونوں ہاتھ جوڑ لئے او ر دعا کو دہراتی چلی گئی۔ “اے میر ے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے ویسے ہی زمین پر ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے اور ہمارے قصوروں کو معاف کر جیسے ہم بھی اپنے قصوروں کو معاف کرتے ہیں۔ کیونکہ قدرت جلال ابد تک تیرا ہی ہے۔ آمین!”

آنکھیں کھولنے پر اس نے کچھ اطمینان سا محسوس کیا اور مسکرانے کی کوشش کرنے لگی اس نے پھر آئینہ میں جھانکا اور چاہا کہ کسی خاص چیز کے لئے دعا مانگے لیکن کیا چیز؟ کوئی!اس کا تبادلہ شہر میں ہو جائے مگر وہاں اسے پھر ولیمن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے تو یہ قصبہ ہی بہتر ہے پھر اور کیا؟ وہ ایک کہانی تھی کہ ایک پری نے ایک آدمی سے تین خواہشیں پوری کرنے کا وعدہ کیا تھا پھر آخر کیا؟”

اس نے بہت بازو ملے۔ مگر کوئی بات یاد نہ آئی۔ اسے دیر ہو رہی تھی اس لئے اس نے اپنی دعاؤں اور خواہشوں کو چھوڑ دیا اور چھتری اٹھا کر چل پڑی۔

سڑک پر پہنچ کر اس پر محض ایک جلدی پہنچنے کا خیال غالب تھا۔ صبح کی اس تمام کاہلی اور سستی کے بعد اسے اعضا کو حرکت دینے میں فرحت محسوس ہو رہی تھی۔ سورج کی ہلکی سی گرمی اور چلنے سے اس کے خون کی حرکت تیز ہو گئی تھی اور وہ سڑک کی نالی ریت کنکروں سب سے بے پروا اپنا راستہ طے کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ اگر اسے اپنی رفتار میں کبھی کچھ سستی معلوم ہوتی تو وہ اور قدم بڑھانے کی کوشش کرتی۔ سڑک پر کھیلنے والے لڑکے ابھی تک نہ نکلے تھے۔ اس لئے اپنی آنکھ ناک کی حفاظت کی ضرورت نہ تھی۔ جب وہ دیواروں کے سایہ میں سے گزرتی تو اس کے پیر اور بھی تیز اٹھنے لگتے تھے۔

وہ جلدی ہی بازار میں پہنچ گئی۔ شیخ صفدر علی کا مکان اب تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا اور اطمینان سا ہو گیا تھا کہ زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ وہ چلی جا رہی تھی کہ اس کی نظر ایک دکاندار پر پڑی۔ وہ اپنے سامنے والے کو آنکھ سے اشارہ کر رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔ کیا یہ اسے دیکھ رہا تھا؟ ممکن ہے وہ پہلے سے کسی بات پر ہنس رہے ہوں اور اسے دیر بھی ہو گئی تھی وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ آواز آئی “آج تو آسمان نیلا ہے بھئی بڑے دن میں ایسا ہوا ہے آج “اس نے چاہا پلٹ کر چھتری رسید کرے اس بد تمیز کے چاہے کچھ ہو آج وہ کھڑی ہو جائے اور صاف صاف کہہ دے کہ وہ ان لوگوں کی باتیں اچھی طرح سمجھتی ہے اور اب وہ زیادہ برداشت نہیں کر سکتی آخر کہاں تک پیر من من بھر کے ہو گئے تھے اور ٹانگیں تھرتھرا رہی تھیں جس سے وہ کئی دفعہ چلتے چلتے ڈگمگا گئی مگر ان آنکھوں نے جو اب ہر طرف سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں اسے رکنے نہ دیا۔ وہ اپنی ساڑھی میں کچھ سکڑ سی گئی۔ اس نے پلو اچھی طرح سینے پر کھینچ لیا اور سر جھکا کر قدموں کو سڑک پر سے اکھاڑنے لگی

جب وہ شیخ صفدر علی کے مکان پر پہنچی تو وہ ڈیوڑھی میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی وہ کھڑے ہو گئے اور ایسے شکایت آمیز لہجے میں جیسے اس نے کوئی نایاب موقع ہاتھ سے نکل جانے دیا تھا جس پر شیخ جی کو اس سے ہمدردی تھی بولے:

“اخاہ میم صاحب! بڑی ہی دیر کر دی تم نے تو!”

جی ہاں وہ ذرا دیر ہو گئی۔ “کہتی ہوئی وہ زنانہ کی طرف بڑھی۔ جب وہ دروازہ پر پہنچی تو اس نے دیکھا کہ قصبہ کی پرانی دائی بائیں ہاتھ پر کپڑے اٹھائے اور داہنے ہاتھ میں لوٹا ہلاتی صحن سے گزر رہی ہے، یہ کہتی ہوئی

 “جرا دیکھ تو ابھی تک نہ نکلی گھر سے حرام جادی”

 

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031