سلطنت (جلاد) ۔۔۔ محمود احمد قاضی

سلطنت

محمود احمد قاضی ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔


ا
دارہ پینسلپس کی کوشش ہے کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کی جائے۔

جلاد

وہ ایک جلاد تھا اسے اس  کام کا ماہانہ، چاندی کے سات روپےملتا تھا اور مزید ایک روپیہ ہر مجرم کا سر قلم کرنے اور دوسری لازمی خدمات سر انجام دینے کے لئے ادا کیا جاتا تھا۔ دیکھنے میں وہ ایک عام سا سادہ آدمی دکھائی دیتا تھا ۔ لیکن جس قدر بے رحمی اور ظالمانہ عمل کی ضرورت اس فعل کے لئے ہونی ضروری تھی وہ بھی اس میں بدرجہ اتم موجود تھی وہ جانتا تھا کہ رحم نام کی کوئی چیز اس واقعے کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں بہت ضرررسان تھی اس لیے برسوں کی ریاضت اور خاص طرح کے تنویمی عمل سے اس نے اپنے رویے اور سوچ کو ایک خصوصی انداز میں ڈھالنے کی وہ مہارت پیدا کرلی تھی کہ سارا کام وہ پلک جھپکنے میں سرانجام دے دیتا تھا وہ اپنی ذہنی حالت کی تندرستی یہ ساتھ ساتھ اپنی جسمانی صحت کا بھی خاص خیال رکھتا تھا۔اس  مقصد کے لئے وہ خاص طرح کی ورزش سے اپنے جسم کو سنوارا کرتا تھا لیے اس کے بازوؤں کے پٹھے ہر وقت پھڑکتے رہتے تھے وہ اپنے کام اور زندگی کے دوسرے اطوار میں مگن عام طور پر خاموش رہنے والا شخصہوتے ہوئے بھی اندر سے کچھ بے چین اور مضطرب سا شخص تھا حالانکہ وہ اپنا اضطراب دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا تھا ایک خاص طرح کی لرزش اس کے ہونٹوں پر مسکان بن کر جب ابھرتی تھی تو لوگ جان جاتے تھے کہ وہ دوسروں سے کتنا مختلف ہے۔

دن کو اپنے انداز میں بسر کرنے والا اور راتوں کو بغیر بستر کی کھاٹ پر کروٹیں بدلنے والا یہ جلاد معمول کے مطابق زندگی گزار رہا تھا کہ ایک واقعہ نے اس کی زندگی کو ایک اور رخ پر ڈال دیا۔ ہوا یوں کہ اس کے سپرد ایک مجرم عورت کی گئی جسے موت کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ اس  پر لگائے گئے الزامات اور جرم ثابت ہونے کا فرمان پڑھ کر سنایا جاچکا تھا آخری خواہش بھی پوچھی جا چکی تھی جو اس عورت نے اپنی خاموشی سے مسترد کردی تھی اور اب جلاد اسے اپنی کشتی میں لئے صبح کاذب سے ذرا پہلے دریا پار کر رہا تھا دریا کا پانی اس وقت نہایت خاموشی سے بہہ رہا تھا اس میں ہلچل صرف وہ چبو پیدا کر رہے تھے جو کشتی چلنے کا موجب تھے۔   دریا کا دوسرا کنارہ آتے ہیں جلاد نے کشتی کو ایک رسے سے دریا کے کنارے ایک درخت سے باندھ دیا۔

مجرمہ کےدونوں ہاتھ حسب دستور اس کی پشت پر بندھے تھے وہ اسے اپنے آگے ہنکاتا ہوا جنگل کے درمیان ایک مخصوص جگہ پر لے آیا اور اسے زمین پر دو زانو ہو کر بیٹھنے اور گردن جھکانے کا حکم دے کر وہ تلوار کو  لہراتا اس پر ٹوٹ پڑنے ہی والا تھا کہ وہ انہانی ہوگئی۔ وہ بول پڑی بڑی

” ذرا رکو۔۔۔  مجھے تم سے کچھ کہنا ہے”

جلاد حران ہو گیا اسکی پیشہ ورانہ زندگی میں یہ واقعہ پہلا تھا کہ عین اس لمحے کوئی مجرم بول پڑا ہو۔

” بولو۔۔۔۔ کیا کہتی ہو۔۔۔”

 “دیکھو مجھے مرنے سے تو کوئی انکار نہیں لیکن اگر تم ایسا کرو گے تو شاید زندگی میں پہلی بار ایک کی بجائے تم دو زندگیوں کا چراغ گل کر دو گے ” 

” دو زندگیاں ۔۔۔۔  یہ کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ “

” یہ یوں ہو سکتا ہے کہ میں اس وقت تمہارے سامنے حمل کی حالت میں کھڑی ہوں۔  جس حلال حمل کو حرام قرار دے کر مجھے قتل کیا جا رہا ہے میں اس کے نتیجے میں اپنے محبوب کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ تم مجھے قتل کرتے ہو تو میرے ہونے والے بچے کے قتل کے  مرتکب بھی ٹھہرو گے”

” لیکن یہ بات تم نے سزا سنائے جانے سے پہلے کیوں نہ بتائی۔ “

” اس  کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ کوئی میری بات پر دھیان نہ دیتا۔ “

” لیکن اب۔۔۔۔۔ مجھ سے یہ سب کچھ کہنے کا کیا فائدہ اور تم جانتی ہو میں پیشہ ورانہ بددیانتی کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ مجھے ، تمہیں قتل کر کے تمہارے کپڑے بطور ثبوت اوپر والوں کو پیش کرنے ہیں “

” ٹھیک ہے میں کب کہتی ہوں تم مجھے نہ مارو بس میری التجا ہے کہ مجھے میرے بچے کی پیدائش کے مرحلے تک کی مہلت دے دو میرے ہاں بچے کی پیدائش ہو جائے تو تم مجھے مار دینا اور میرا بچہ کسی ایسے خداترس کے سپرد کر دینا جو اسے پال لے۔  میرا محبوب تو چونکہ بھگوڑا نکلا اور ذمہ داریوں کو قبول نہ کرتے ہوئے کہیں اور نکل گیا ہے اس لیے اس بچے کو لاوارث ہی پلنا ہوگا۔  دیکھو یہ ہونے والی ماں کی استدعا ہے اسے ٹھکرانا نہیں۔ “

” لیکن ایسا کیسے ممکن ہوگا۔۔۔۔یہ سب  اپنے منصب سے غداری اور خود اپنی موت کو دعوت دینے والی بات ہوگئی”

” دیکھو میں جانتی ہوں کہ تم ایک ایماندار سچے اور کھرے آدمی ہو۔۔۔۔ تمہارا ایک اعتبار ہے اور یہی اعتبارتمہیں بچا لے گا ۔ وہ تمہاری بات کا یقین کرلیں گے بس تمہیں ایک خاص مدت تک میرے جھوٹ موٹ کے قتل کو نباہنا ہوگا۔ “

  “جھوٹ موٹ کا قتل ؟ “

” ہاں تم مجھے ماروگے نہیں لیکن اس کا بہانہ کرو گے میرے خون آلود کپڑے انہیں پیش کرکے”

” مگر وہ خون ۔۔۔؟ “

  “ہاں یہ ایک دلچسپ سوال ہے ۔۔۔۔ خون تم میرا ہی حاصل کرو گے مجھے اتنا زخمی کرکے جو میرے کپڑے خون سے بھگودے۔۔۔”

جلاد  اپنے اور اس عورت کے اس غیر متوقع ڈائیلاگ سے پریشان کن حد تک نالاں ہو چکا تھا اور اس کی ساریبکواس کو نظر انداز کر کے اس پر وار کرنے کا ارادہ باندھ رہا تھا کہ عورت نہایت دہلا دینے والے انداز میں چلائی اور اسے اپنی مامتا کی ایسی   دہائی دی کے اس کا تلوار والا ہاتھ کانپ گیا۔۔ وہ بولا

  “اچھا میں تمہاری سچاہی کے بدلے میں زندگی کا پہلا مکر کرنے اور جھوٹ بولنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا ہوں تم اب اپنی پشت میری طرف کرلو۔ میں تمہارے ہاتھ کھولتا ہوں اور تمہارے جسم پر چند ایسے چرکے لگاتا ہوں کہ مطلوبہ خون کی مقدار جھوٹ کو سچ کرنے  لیے کافی ہو جائے۔ “

پھر اس نے باقی کا سارا عمل خاموشی سے سرانجام دیا اور عورت کو وہیں چھوڑ کر چلاآیا۔

اب اسے عورت کی زندگی عزیز ہوئی جاتی تھی۔ اس لئے وہ اس کی خوراک لباس اور رہنے کی جگہ بنانے کے لئے بھی اس کی مدد کرنے کو تیار ہو گیا وہ اس کی زندگی کے تمام لوازمات چوری چھپے اسے  پہنچاتا رہا اور یوں اس سے مزید ملاقاتوں کے بعد پھر اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اس کی زندگی میں اب عجیب تبدیلی آنے لگی تھی ۔وہ گم سم رہنے والا شخص اب خوب چہکتا تھا دل کھول کر قہقہے لگاتا تھا ۔ اس پر کسی نے بھی چونکہ کوئی شک نہیں کیا تھا اس لئے وہ خوش خوش عورت کے ہاں بچے کی پیدائش کا منتظر تھا ۔ پھر وہ لمحہ بھی آ گیا عورت نے ایک نہایت خوبصورت بچے کو جنم دیا۔ وہ اس بچے کو  گود میں لے کر یوں پیار کرنے لگا جیسے یہ اس کا اپنا ہی بچہ ہو۔

دو ماہ کا عرصہ گزر گیا تو اسے اپنا فرض یاد آیا اور اس نے عورت کو قتل کرنے کی ٹھانی۔ کئی بار کی رضامندی اور خاموشی کے باوجود اس کا ہاتھ ایک بار پھر اسی لرزش کا شکار ہوگیا۔اسے  بچے پر ترس آگیا فیصلہ کیا کہ وہ بچے کو دودھ پلانے کی مدت تک عورت کو قتل نہیں کرے گا ۔ اس طرح دوسال کا عرصہ مزید گزر گیا۔ بچہ آپ پیاری پیاری باتیں کرنے لگا تھا اور خود اسے بھی پہچان کر اس کی طرف بانہیں پھیلا کر بڑھنے لگا تھا۔  یوں اس کی روح میں زنجیر سی پڑنے لگی اس کے عمل اور ارادے کے پاؤں ہمیشہ ہی لڑکھڑاتے رہے اور وہ فرض اور محبت کے درمیان لٹکتا رہا۔ ایسے  میں بچہ بلوغت کی عمر اور وہ خود اور وہ عورت بڑھاپے کی منزل تک آ پہنچے۔ اب وہ  عورت کو قتل کرنے کے اپنے ارادے کو ہمیشہ کے لئے نیام کرچکا تھا۔  اسی اثنا میں ملازمت سے ریٹائر کر دینےکے احکامات اسے ملے لیکن اس سے پہلے وہ اس عورت کے جوان ہونے والے بچے کو اپنی جگہ پر متعین کر آچکا تھا۔ جلد ہی  نئے جلاد  کی دھومیں مچنے لگیں اور اس کی مہارت اور مشاقی کے قصے مشہور ہونے لگے

 سابقہ بوڑھا جلاد اب زیادہ تر اپنے دن رات جنگل ہی میں گزارنے لگا تھا وہ مکمل طور پر غفلت میں تھا اور اپنے دیرینہ جھوٹ کو بھلا بیٹھا تھا۔  پیشہ ورانہ بددیانتی اس کے ذہن سے نکل چکی تھی۔ ایسے میں  ایک دن پو پھٹنے سے پہلے دریا میں کشتی کے چپووں سے پانی میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے مانوس کانوں نے وہ آواز سنی تو وہ اٹھ کرجھونپڑی کے دروازے پر آگیا ۔ اس نے دیکھا کہ نیا جلاد اس کے قریب پہنچ کر اپنی تلوار بے نیام کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ چشم زدن میں وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا اور مسکراتے ہوئے نئے جلاد کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔!!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031