سلطنت ( غلام ) ۔۔۔۔۔ محمود احمد قاضی

سلطنت

محمود احمد قاضی ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔


ادارہ پینسلپس کی کوشش ہے کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کی جائے۔

غلام

منڈی میں بہت بھیڑ تھی

اتنی کہ آدمی آدمی پر سوار اشیا کے مول تول کے درپے تھا نفع نقصان کی چیخ و پکار نےآسمان سر پر اٹھا رکھا تھا سورج جب سوا نیزے پر پہنچا تو منڈی کا کاروبار بھی اپنے عروج پر تھا یہاں کھانے پینے کی چیزیں مختلف نوع کے ظروف ، رنگ برنگے کپڑے زیر جامے، بچوں کی چڈیاں، عورتوں کےسینہ بند، کیل،  ہتھوڑے ، آنکڑے، مختلف اقسام کے مویشی ، حتی کہ خود انسان اس منڈی میں  محض اور محض ایک جنس اور برائے فروخت تھا۔

وہ بھی کئی اور اپنے جیسوں کے ساتھ اپنے  تیل چپڑے پنڈے بر ایک لنگوٹی سجائے پسینے میں تر بتر کھڑا تھا اوروں کی طرح اس کے بھی ہاتھ پیچھے بندھے تھے اور وہ گلے میں لوہے کے طوق پر حکومتی چمکدار نمبر شمار پہنے ہوئے تھا وہ بکنے کے لئے بالکل تیار تھا۔ مگر ابھی اس کی باری نہیں آئی تھی۔  خریدار آتے تھے اسے ہر طرف سے دیکھتے تھے ، ٹٹولتےتھے،اسکی پسلیوں میں اپنی دوہری کی ہوئی انگلیاں مارکر اور پنڈلیون پر جوتوں کی لوک آزما کر چلے جاتے تھے۔گرم ریت پر ننگے پاؤں کھڑے کھڑے اب وہ نیچے جھکا جاتا تھا تو وہ چاہتا تھا کوئی اس کا بھی خریدار آئے اور اسے یہاں سے لے جائے تاکہ اس جہنم کدے سے تو اسے نجات ملے آگے چاہے اسی طرح کا ایک اور جہنم بھی اس کا منتظر کیوں نہ ہو وہ تو بس یہاں سے کسی طرح نکلنا چاہتا تھا۔ پچھلے بہت سے بےشرم دنوں کی تھکان نے آنکھوں میں نیند بھر دی تھی اوروہ جی بھر کر سونا چاہتا تھا اس کی آنکھوں میں امنڈ آنے والی بیزاری کے سمندر کی ایک بے رحم ، پر شور لہر اسے باربار واپس اپنے کوچے میں بہار لے جاتی تھی جہاں سب اسے ایک آہن گر کے طور پر جانتے تھے  مگر ۔۔۔۔  اس مگر کے پیچھے جو کہانی ہے اسے دہرانے کا  بظاہر کوئی فائدہ نہیں کہ یہ اس جیسے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کی سلیٹ پر لکھا گیا ایک مستقل سوالیہ نشان تھا ایک طرح کا ناسٹلجیا

تو اب وہ یہاں تھا اور ہر لمحے بے توقیر کیا جارہا تھا بار بار اپنے ساتھ بہا لے جانے والی یاد کی لہر بھی اب گدلی ہو چلی تھی اور تب ہی وہ مائی  اس کی طرف بڑھی تھی۔

مائی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی بید کی چھڑی سے اس کے بدن کو کئی کچوکے دیے

اس نے سوچا ، “تو آخرکار ہمارے بھی خریدار آ ہی گئے۔ “

اس نے مائی کے کان میں تقریبا سرگوشی کرتے ہوئے کہا

 مائی جلدی کرو، نکالو اپنی سوت کی اٹـی

” اٹی ؟ “

ہاں وہی سوت کی ا ٹی جس کے برابر تم مجھے تلواوں گی اور اپنے ساتھ لے جاؤ گی

” ہوں،  تو تم اپنے آپ کو یوسف کنعاں سمجھ بیٹھے ہو ؟ “

” شاید “

” بےوقوف وہ زمانہ لد گیا اب یہاں ہر چیز سونے کے سکوں کے عوض بکتی ہے۔ “

حکومتی کارندہ قریب سرک ایا تھا۔ قیمت پر تھوڑی سی جرح ہوئی اور پھر سودا  ہوگیا۔ مائی نے اسے خرید لیا تھا وہ اسے اپنے ساتھ لئے چل پڑی۔ آبادی سے ذرا پرے مائی کا ایک  فارم تھا وہ وہاں سیاہ و سفید کی مالک تھی اس نے اسے ایک ہٹے کٹے مشٹنڈے قسم کے شخص کے سپرد کردیا جس کے ہاتھ میں  چمڑے کا چابک تھا ۔ اسے آگے ہانکتے ہوئےاس خبیث نے چابکدستی سے ایک چابک رسید کیا تھا ۔۔۔ وہ تلملا کر رہ گیا اس کی کمر پر سے خون رسنے لگا تھا بعد میں اس کا جسم اس چابک سے لگائے گئے زخموں کا استہار بن کر رہ گیا تھا۔  اسے بہت سے کاموں میں جوتا گیا۔ وہ کام کرتا تب بھی سزا پاتا اور نہ کرتا تو اسے بہت مارا پیٹا جاتا۔۔۔ مائی کا کارندہ اس کے کام سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا تھا اور وہ مائی سے اکثر اس کی شکایت کرتا تھا ۔وہ کہتا، ” میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا احمق اور کام چور شخص کبھی نہیں دیکھا۔ لوہے کے ٹکڑوں سے فضول سی اشیا بنانے کی ناکام کوشش میں لگا رہتا ہے،”

 کوٹھری میں بند کھڑکی کی سلاخوں سے لگا یہ آہن گر اپنے تازہ زخموں کے ساتھ سسکتا اور گیت گاتا

میں ہوں ایک فنکار ۔۔۔ ایک آہن گر

اپنے فن میں یکتا

ایک عالم میرا شیدائی تھا

میرے نیزوں کی مہارت کی دھوم تھی

 ہر طرف پھیلی ہوئی

تب یہ قصہ تھا اور آج

میں بوجھ ڈھونے پر مامور                                                                                                

آنسو بہانے پر مجبور                                                                                                     

اب راتب کے ساتھ چابک بھی میری غذا ہے

 کیونکہ

میں ہوں ایک فنکار۔۔۔۔۔ ایک آہن گر

جب وہ چابک بردار کے قدموں کی آواز اپنے قریب آتی محسوس کرتا  تو آہستگی سے کہتا

” اے خدا “

” انہیں فہم دے”

” انہیں سمجھ دے “حنفہ مزے کی نہیں سمجھتے

جاب خبردار اپنی کمر پر ہاتھ رکھے نہایت زہریلے لہجے میں کہتا، ” بدمعاش “

چند دنوں بعد فارم والوں کی فہم اور سمجھ میں آیا کہ جب کوئی بیل بیمار پڑ جائے اور اسے ہل کے آگے نہ جوتا جاسکے تو ایک فنکار، ایک آہنگر کو کس طرح اسکی جگہ بیل بنایا جا سکتا ہے۔ تازہ دم آدمی بہرحال ایک بیمار اور لاغر بیل سے بہت بہتر ہوتا ہے۔

یوں وہ آہنگر اپنے پرکھوں کی میراث پر فخر کرنے والا ایک نامراد بیل بنا اور یوں ایک اور طرح کی شہرت نے اس کے قدم چومے۔۔۔ اسے ایک بڑھیا قسم کا چست وچالاک ،  اپنے کام کا دھنی بیل قراردیاجارہاتھا اور اسکے کام کی دھوم اتنی مچی کہ آس پاص کے لوگ اس کو دیکھنے آتے

اور تھپک تھپک کر اس کی تعریف کرتے۔ ایک دن ایک قریبی علاقے کا خریدار اس مائی  کو بہت سارے کھنکتے سکے دے کر اسے اپنے پاس لے گیا۔ یہ ایک کاروباری شخص تھا اور بار برداری کا کام کرتا تھا ۔ اس نے بہت سی گدھا گاڑیاں بنا رکھی تھیں ۔ وہ ان کے ذریعے لوگوں کا مال ڈ ھوتا اور دام وصول کرتا تھا۔  آہن گر کو اب کی بار گدھا گاڑی کے آگے جوتا گیا وہ سامان ڈھوتے ڈھوتے صبح سے شام کرتا اور رات کو بے سدھ ہو کر اپنی کوٹھڑی میں سو جاتا جب وہی پرانا خواب اس کے سنہرے ماضی کا ہاتھ پکڑے اس کی آنکھوں کی دہلیز تک پہنچ جاتا تو وہ جاگ پڑتا اور بڑبڑاتا

” اے عقل کے اندھو !

مجھے دیکھو

مجھے سمجھو۔۔۔۔”

اس دفعہ اس کاروباری شخص کی بیوی نے اسے پہچانا

اس نے اس کی لنگوٹی اتروا کر اس کو دیکھا اور پرکھا تو اسے رات کی ڈیوٹی پر بھی لگا دیا۔ ہر صبح وہ اپنی سہلیوں کو بڑے فخر سے بتاتی

” وہ جو دن کو گدھا کہلاتا ہے ۔۔۔۔ رات کو میرا مرد بن جاتا ہے۔ “

ادھر آہنگر سوچتا تھا کہ اب اگر اسے نیزہ بنانے کو کہا جائے تو شاید اس کے پاس اب وہ مہارت نفاست اور پھرتی باقی نہیں رہی ہوگی ہر لمحے اسے اپنے اندر ایک بنے بنائے نیزے کے تڑاکے کے ساتھ ٹوٹنے کا احساس ہوتا اور وہ روتا کہ اب وہ آہن گر نہیں تھا بلکہ ایک گدھا آدمی تھا۔ اس کے رات کے فرائض کی بھی بہت دھوم مچی تو آس پاس والےپھر متوجہ ہوئے اور وہ ڈھیروں سکوں کے عوض نیلام ہوا۔اب کے اس کاخریدار ایک دلال تھا۔ وہ اسے ہر رات بنا سجاکر ایک جھروکے میں بٹھا دیتا اور پھر موتیے کے گجرے بانہوں میں پہنے ریئسوں کی خوبصورت طرح دار بیویاں اس کا طواف کرنے لگتیں۔ مخصوص فیس ادا کر کے وہ اس رات کا کوئی لمحہ اپنے لئے خرید لیتیں اور اسے ایک سجے سجائے کمرے میں دھکا دے دیا جاتا ۔ کچھ عرصےکے بعد وہ دلال کے لئے خسارے کا سودا ثابت ہونے لگا اس کی مسلسل بے توجہی اور بے عملی کی بناپر جب ایک رات

بلال نے اس کے بدن کو بے شمار نیلگوں چوٹوں سے سجا دیا اور ناکارہ سمجھ کر اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا  تو وہ رات بھر ہولے ہولےکراہتا رہا۔ وہ اس غلیظ جگہ پر گھٹنے ٹیکے اور اپنے دونوں ہاتھ آگے کو پھیلائے آنکھیں موندے پڑا تھا کہ اس لمحے اس ریئس کی  چار گھوڑوں والی بگھی ادھر سے گزری۔وہ ریئس اسے بگھی میں ڈال کرگھر لے آیا اس نے اس کے گلے میں پڑے طوق میں ایک گھنٹی ڈال دی اور اسے اپنے  گھر کی چوکیداری پر لگا دیا۔

اوہ سارے گھر میں حتی کہ زنان خانےتک میں گھومتا پھرتا ۔۔۔۔ گھرکی بیبیاں بےپردہ اس کے سامنے اس لیئے چلی آتی تھیں کہ ایک خاص عمل کے ذریعے اسے اس کے جوہر خاص سے ہمیشہ کے لئے بے نیاز کردیا گیا تھا۔ اب اس آہنگر کو راتوں کو خواب نہیں آتے تھے کہ اب وہ اکثر اپنے دونوں ہاتھ آگے کی طرفپھیلائے اپنی تھوتھنی ان پر رکھے اونگتا رہتا، ہاں کبھی کبھار اپنا منہ آسمان کی طرف کرکے بھونکنے بھی لگتا

Facebook Comments Box

2 thoughts on “سلطنت ( غلام ) ۔۔۔۔۔ محمود احمد قاضی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031