سوچ پہ بیٹھی مکھی ۔۔۔ مظہر ا لاسلام

سوچ پہ بیٹھی مکھی

( مظہر ا لاسلام )

کچھ دن پہلے ایک مکھی الماری میں بند ہو گئی تھی۔ یہ الماری کچھ زیادہ بڑی بھی نہیں تھی لیکن اس کے دوحصے ہین، ایک میں کپڑے لٹکے رہتے ہیں اور دوسرے حصے میں چھوٹے چھؤتے تین خانے ہیں جن میں سے ایک خانے میں دوایئاں اور دوسرے میں کچھ رنگ برش، قلم اور کتابیں اور تیسرے خانے میں بچوں کے کھلونے رکھے ہوئے ہیں۔

کچھ دن پہلے جب میں الماری میں سے کپڑے نکال رہا تھا تو ایک مکھی الماری کے اندر آ گئی اور جب میں الماری بند کرکے پلٹا تو مجھے احساس ہوا کہ مکھی تو الماری میں بند ہو گئی ہے۔ اسی لیے میں کپڑے تبدیل کرنے کے لیے باتھ روم کی طرف بڑھتے ہوئے رک گیا اور میری نظریں خود بخود الماری کی طرف اٹھ گیئں۔ مجھے جرم کا احساس ہوا کہ میں نے ایک مکھی کو الماری میں بند کر دیا ہے۔ میں جلدی سے الماری کی طرف بڑھا اور اس کے دونوں پٹ کھول دیے تاکہ مکھی باہر نکل جائے۔ پھر میں نے کپڑے تبدیل کئے، کھانا کھایا اور یہ سوچ کر کہ مکھی نکل گئی ہو گی، الماری کے پٹ بند کر دیئے۔

دوسرے دن صبح جب میں نے کپڑے اور قلم نکالنے کے لیے الماری کھولی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مکھی الماری میں ٹنگی میری قمیض کے کالر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے بے انتہا ندامت محسوس ہوئی کہ میری وجہ سے بے چاری مکھی کو ساری رات الماری میں بند رہنا پڑا۔ میں نے فورا بنیان اٹھائی اور اسے ہلا ہلا کر مکھی کو الماری سے باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر تک تو مکھی الماری میں ادھر ادھر اڑتی رہی پھر اچانک میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ میں نے ساری الماری میں ڈھونڈا، یہاں تک کہ کوٹون، پینٹون، اور قمیضوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈاال کر بھی تلاش کیا اور پھر جب مجھے یقین ہو گیا کہ مکھی الماری سے نکل گئی ہے تو میں الماری بند کر کے دفتر چلا آیا۔ لیکن دفتر میں مجھے کسی پل چین نہ آیا۔ پہلے تو یہ احساس ستاتا رہا کہ میری وجہ سے مکھی کو ایک طویل رات اماری میں کاٹنا پڑی اور یوں مجھے شک ہونے لگا کہ مکھی کہیں پھر الماری میں نہ رہ گئی ہو۔ اس خیال کے آتے ہی میری بے چینی میں اضافہ ہو گیا۔ میرا جی چاہا کہ میں اٹھ کر کہیں چھپ جاوں۔ میری کیفیت اس قاتل جیسی ہو رہی تھی جو خون آلود چھری اور کپڑے زمین میں دبانے کے بعد شہر شہر چھپتا پھرتا ہے۔ میں جلدی سے اٹھا اور باتھ روم جا کر اندر سے چٹخنی چڑھا دی۔ لیکن پھر میری کیفیت اس قاتل جیسی ہوگئی جو کسی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے کچھ اور ہمت باندھتا ہے اور نئے منصوبے بناتا ہے۔ میرے گھر الماری میں بند مکھی مجھے یوں لگ رہی تھی جیسے میں کسی کو قتل کر کے اس کی لاش گھر چھوڑ آیا ہوں اور اب اسے ٹھکانے لگانے کا طریقہ سوچ رہا ہوں۔

کچھ دیر تک میں نے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی  کہ میں نے کسی کو قتل نہیں کیا اور مکھی الماری میں نہیں ہے لیکن مجھے اپنی بات پر یقین نہ آیا۔ میں نے باتھ روم کا دروازہ کھولا اور گھر جانے کے لیے چپکے سے دفتر سے نکل آیا۔ لیکن جب میں بس میں سوار ہوا تو مجھے لگا کہ سب لوگ مجھے گھور رہے ہیں اور ان کی آنکھوں میں بھی وہی بات ہے جو میرے دل میں ہے۔ کافی دیر تک میں لوگوں کی شکی نظروں کی قید سے رہائی پانے کی کوشش کرتا رہا مگر جب کوئی صورت نہ بنی تو میں فرار ہونے کی کوشش میں اپنے سٹاپ سے پہلے ہی بس سے اتر گیا۔ سڑک پر بھی میری کیفیت مختلف نہ تھی۔ ہر کوئی مجھے قاتل سمجھ رہا تھا۔ کبھی کبھی تو گھبرا کر تیز تیز قدم اٹھانے لگتا لیکن پھر مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگوں مین جان نہیں رہی۔ ہر کوئی میری طرف اس طرح سے دیکھتا جیسے میرے ہاتھ اور کپڑے خون سے رنگے ہوئے ہوں۔ گاڑیوں کے ہارن، مکھیوں کی بھنبھناہٹ، لوگوں کی آوازیں  میرے گرد یوں لپٹی ہوئی تھیں جیسے کسی قاتل کو ہتھ کڑیاں پہنا دی گئی ہوں۔

لوگوں سے چھپتا چھپاتا میں گھر پہنچا اور سب سے پہلے الماری کی طرف بڑھا اور جلدی سے اس کے دونوں پٹ کھول دیئے۔ اس سے پہلے جب میں الماری کھولا کرتا تھا تو مجھے اچھا لگتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی خوبصورت عورت نے نیند سے بیدار ہو کر انگڑائی لی ہو لیکن آج مجھے یوں لگا جیسے کوئی عورت ہاتھ پھیلائے فریاد کر رہی ہے۔ میری نظریں الماری کے اندر ادھر ادھر بھٹکنے لگیں اور پھر میرے شک پر یقین کی تہہ چڑھ گئی۔ مکھی کھانسی کی دوا کی شیشی پر بیٹھی تھی۔ احساس جرم کے ساتھ ساتھ مجھے مکھی پر بھی غصہ آنے لگا کہ جو بلا وجہ میرے لیے اذیت کا باعث بنی ہوئی تھی۔ جب میں الماری سے نکلنے کے لیئے اس کی مدد کرتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ وہ کھلی فضا میں سانس لے تو وہ الماری سے نکلتی کیوں نہیں۔

میں نے پھر ایک کپڑا اٹھایا اور اسے الماری میں گھما گھما کر مکھی کو باہر نکالنے کی کوشش کی۔ پہلے تو وہ ادھر ادھر اڑتی رہی پھر آئی ڈراپس کی شیشی پر بیٹھ گئی۔ میں نے ارادہ کیا کہ شیشی پر کپڑا ڈال کر مکھی کو دبوچ لوں اور الماری سے باہر پھینک دوں لیکن پھر یہ سوچ کر میں نے ارادہ بدل دیا کہ کہیں ایسا کرنے سے مکھی مر ہی نہ جائے۔ مکھی آخر مکھی تھی، آئی ڈراپس کی شیشی سے اڑی تو کھلونوں پر چکر کاٹنے لگی اور پھر چابی والے طوطے پر بیٹھ گئی۔ میں نے کپڑا لہرا کر اسے وہاں سے اڑا دیا مگر وہ باہر نکلنے کی بجائے الماری ہی میں چکر کاٹنے لگی۔ میں نے زور زور سے کپڑا گھمایا تو وہ آخر الماری سے نکل آئی اور آ کر میرے ماتھے پر بیٹھ گئی۔ میں نے دوڑ جیتنے والے شہسوار کی طرح ایک لمبی سانس لی اور مکھی کو اپنے ماتھے سے اڑانے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ مکھی اڑ کر پھر الماری کے اندر چلی گئی اور کتابوں پر بیٹھ گئی۔ میں بری طرح تھک چکا تھا اس لیئے میں نے الماری کو کھلا چھوڑ دیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ اتنی تگ و دو کے بعد بھی مکھی الماری ہی میں تھی اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے لوگوں کا ہجوم میرے گھر کے سامنے جمع ہو گیا ہے اور نعرے لگا رہا ہے، قاتل ۔۔۔۔۔ قاتل ۔۔۔۔۔ قاتل ۔۔۔۔

میں شور سے تنگ آ کر پھر اٹھا اور مکھی کو الماری سے نکالنے کے لیے کپڑا گھمایا لیکن مکھی مجھے کہیں نظر نہ آئی۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ کتابوں پر بیٹھی تھی۔ میں نے  کتابوں کو ادھر ادھر کیا لیکن مکھی وہاں بھی نہیں تھی۔ ساری الماری چھان ماری لیکن مکھی کہیں نظر نہ آئی ۔ مجھے اطمینان ہوا کہ مکھی یقیننا الماری نکل چکی ہے۔ میں نے الماری کے پٹ بند کر دیئے۔

دوسرے دن جب میں نے دفتر جانے سے پہلے الماری کھولی تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ مکھی پیٹ کی دوا  کی شیشی پر بیٹھی تھی۔ میں نے جھٹ کپڑا اٹھایا اور مکھی کو الماری سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ میری کیفیت عجیب تھی۔ میں زور زور سے کپڑا گھمانے لگا۔ یہ سلسلہ جانے کتنی دیر تک جاری رہا اور آخر جب مجھے یقین ہو گیا کہ مکھی الماری سے نکل گئی ہے تو میں نے الماری بند کر دی۔

اب کئی دنوں سے میں نے کپڑے نکالنے کے لیے بھی الماری نہیں کھولی اور میں ایک عجیب قسم کے خوف اور شک میں گھرا ہوا ہوں۔ پتہ نہیں مکھی الماری سے نکل گئی ہے یا ابھی تک وہیں ہے۔ اب تو مجھے یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے میری بھنبھناہٹ سارے کمرے میں پھیلی ہوتی ہے اور کوئی کپڑا لیے مجھے اڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031