بارشوں کی کہانیاں ۔۔۔ شہناز پروین سحر

بارشوں کی کہانیاں

( شہناز پروین سحر )

اُدھر موسلا دھار بارش ہوئی اور اِدھر میں ڈیوڑھی میں کھڑی چھم چھم روئی ‘ ہائے اللہ میاں جی میرے ابو بھیگ جائیں گے اس بارش کو روک لو ۔۔۔’
‘میرے اچھے اللہ میاں جی ۔۔۔ ‘
” مٹی گارے کے بنے ہیں کیا تیرے ابو کہ گُھل کے بہہ ہی جائیں گے بارش میں “۔ ماں بازو سے پکڑ کر مجھے کھینچ کر کمرے میں لے آتیں لیکن بارش کی آواز کمرے تک میرا پیچھا کرتی رہتی۔ ابو کو بخار ہوجاتا تو میری جان پر بن آتی’ کہیں میرے ابو مر نہ جائیں ‘ ۔ بخار جتنا وقت لیتا میرا خوف اتنی ہی میری جان لیتا وہ گھر سے باہر جاتے تو میں ان کی میلی قمیص سونگھتی ۔۔ میرے ابو جی کی خوشبو آ رہی ہے اس میں سے ۔۔ 
” ۔۔ دماغ چل گیا ہے میری بچی کا۔” ماں میرے سر میں تیل لگاتیں اور بال کھینچ کھینچ کر میری دو چوٹیاں بناتیں۔ ابا کی بس ایک بات پر مجھے بہت غصہ آتا تھا ۔ وہ اپنی تنخواہ والی رات کبھی میری پسند کی تلی ہوئی مچھلی ، دِلن کی دکان کے سیخ کباب اور کبھی مٹی کے خورے میں رس گلے یا گلاب جامن وغیرہ لایا کرتے تھے اور گھر آتے ہی مجھے سوئی ہوئی کواُٹھا کر کھلا بھی دیتے تھے ۔ میں سوئی جاگی بند آنکھوں کے ساتھ کھا پی کر اگلے دن سب بھول جاتی کہ رات کیا کھایا تھا ۔ ” ۔ دن میں نہیں لا سکتے تھے آپ “۔ میں دکھ اور غصے کی کیفیت کو الگ نہیں کر پاتی تھی ۔” فائدہ کیا ہوا ۔۔؟ میں وہ سب مزہ جاگی ہوئی ہوتی تو یاد بھی رکھتی ۔ جلدیاں کتنی ہوتی ہیں آپ کو ۔ سوتے میں ہی کھلا دیا پکڑ کے “۔ 
” : بھئی بڑی ہی نیت خراب بِٹیا ہے۔ “
میں غصے میں اور بھی پھول جاتی، ” اچھا چلو اتوار کو حلوہ پوری کا ناشتہ “۔۔ میری لڑائیوں سے گھبرا کے صلح کی پیشکش ہوتی ۔۔ نہیں۔ میں منہہ پھلائے رکھتی ۔
” اچھا نہاری کا ناشتہ”
” نہیں بس “
” برفی ؟”
” نہیں نہیں نہیں”۔
” ارے وہ آئی ۔۔۔۔۔ “۔
” کون ؟ “۔۔۔۔۔
“ہنسی ۔۔۔ وہ ماتھے پہ آئی ، آنکھوں میں آئی۔ ارے ارے وہ ناک میں گھس گئی۔” ۔ اور میری ہنسی چھوٹ جاتی ۔۔ ہنس لینے کے بعد نیا ٹنٹا شروع ہو جاتا ۔۔” ہنسایا کیوں ۔۔۔۔ “
” چلوچلو بہت ہو گیا اب اُٹھ کر سکول کا سبق یاد کرو ۔۔ “
امی کا وہی فرمائشی پروگرام شروع ہو جاتا۔ 
” تیرے ابا نے تو قران ِ کریم کے اٹھاراں پارے حفظ کئے تھے۔” ایک دن ماں نے مجھے بڑے فخر سے بتایا۔ 
” تو پھر تیس پورے کیوں نہیں کئے ؟ ” میں نے پوچھا۔
” یہ تو میں نے اُن سے کبھی پوچھا ہی نہیں ۔ “
” میں پوچھتی ہوں۔ “
“ا ابو جی آپ نے قران پاک پورا کیوں نہیں حفظ کیا تھا۔ اٹھاراں تو کر لئے تھے آپ نے”
کہنے لگے ۔۔ ” بھئی قصہ یوں ہے کہ میں قران پاک پڑھنے مسجد میں جایا کرتا تھا ۔ میرے حافظ صاحب نابینا تھے ۔ ان سے میں نے اٹھاراں سیپارے حفظ کر لئے تھے لیکن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن کسی وجہ سے مجھے سبق یاد نہیں ہو سکا ۔ تو میں نے سوچا کہ چلو حافظ صاحب تو نابینا ہیں ، دیکھ تو سکتے نہیں لہذا میں نے اُنہیں قران پاک کھول کر سبق سنانا شروع کر دیا ، حافظ صاحب نے سنتے سنتے کیا کام کیا کہ ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھ لیا کہ رحل پر قران مجید کھلا ہوا ہے اور میں دیکھ کرسبق سنا رہا ہوں ۔ قران پاک تو انہوں نے بند کر دیا لیکن چھڑی اُٹھا لی ۔ حافظ صاحب نے کہا کہ برخوردار مجھے دھوکا دے رہے تھے تمہیں تو سبق یاد نہیں ہے ۔
” پھر کیا ہوا۔ ” ؟ ۔میں نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔ 
” سزا تو تم کو ضرور ملے گی میاں”۔ حافظ صاحب نے کہا ۔ 
” پھر کیا ہوا ابو جی ؟ ” میں ڈر کے مارے کانپ اٹھی۔ 
” بس پھر ہونا کیا تھا حافظ صاحب چھڑی گھما کر مجھے اس قدر زور سے ماری کہ میری ایک آنکھ ہی نکل گئی اور دور دروازے کے پاس جا کے گری ۔”
” لیکن۔ ابو جی۔ آپ کی تو دونوں آنکھیں ٹھیک ہیں۔ “
” بیچ میں مت بولو۔ “
” پھر آپ نے کِیا کیا ؟”۔ میں نے ابوجی کی آنکھوں کو خوب گھور گھور کر دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔
” کرنا خدا کا کیا ہوا کہ مجھ میں کسی طرح ایک دم کہیں سے ہمت آ گئی اور میں حافظ صاحب کے سامنے سے اُٹھا ، دروازے میں پڑی ہوئی اپنی آنکھ اُٹھائی واپس لگائی اوربھاگا وہاں سے ۔۔۔”
” ابوجی آنکھ واپس لگ جاتی ہے کیا ۔؟ ” میں ان کی آنکھ کے بارے میں کافی متفکر اور کچھ مشکوک بھی تھی۔
” بھئی ہمارے زمانے میں تو لگ جاتی تھی اب کا پتہ نہیں ۔۔۔ “
” میرے خیال میں تو اب نہیں لگ سکتی ۔ آپ اپنی آنکھ نکال کر دکھائیں ناں۔”
“نہیں نہیں اس کے دو نقصان ہو سکتے ہیں “
” وہ کیا ؟ “
” ایک تو تمہاری ماں ہمیں کھانا نہیں دے گی دوسرے ہو بھی سکتا ہے اب کی بار واپس نہ لگ سکی ، تو پھر؟”
” رہنے دیں پھر۔ لیکن پھر ہوا کیا ؟”
“میں جو بھاگا ہوں وہاں سے , تو مُڑ کر نہیں دیکھا ۔ مسجد کے اور میرے گھر کے بیچ کا راستہ بہت ویران سنسان ہوا کرتا تھا گھر سے فاصلہ بھی کافی تھا ۔ بادل بھی گھِر کے آیا ہوا تھا اور بادل کہتے تھے ابکے برسں کے پھر نہ برسیں گے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب جل تھل ہو گیا ، اس قیامت کی بارش میں اُس دن پہلی بار مجھے ایک خالی ویران حویلی دکھائی دی جو اس سے پہلے وہاں کبھی نہیں دیکھی تھی ، اس حویلی کے دروازے پر ایک عورت کھڑی تھی ، انتہائی خوبصورت ، اُس نے مجھے آواز دی ” اے لڑکے یہاں آوْ مجھے تم سے کام ہے بتاوْ کر دو گے ؟ ” اُس نے پوچھا۔ ” جی کر دوں گا۔ کیا کام ہے” ۔۔ میں بارش سے بچنے کے لیئے جلدی سے مان گیا ” اندر آوْ ” ۔ میں اُس حویلی کے اندرچلا گیا تو مجھے وہ ایک کمرے میں لے گئی ۔۔۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں پر پورے کمرے کی لمبائی کے جتنی لمبی ایک چادر سے ڈھکی ہوئی کسی شخص کی لاش پڑی ہے ۔ اُس عورت نے مجھے ایک موٹی سُتلی دی اور کہا جب ہمارے ہاں کوئی مر جائے تو ہم اس کے دونوں پاوْں کے انگوٹھے آپس میں باندھ دیتے ہیں تم اِس مُردے کے پاوْں کے دونوں انگوٹھے آپس میں باندھ دو۔ میں اُس لاش کو چھونا نہیں چاہتا تھا۔ ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن میں نے اُس مردہ آدمی کے انگوٹھے باندھ دیئے ۔ کہنے لگی ” کھانا کھاوْ گے” ۔۔۔ میں نے کہا نہیں میں جاوْں گا اب ۔۔۔ بولی کہاں جاوْ گے باہر تو بارش ہو رہی ہے اور تم نے اتنا کام بھی کیا ہے لہذا کھانا تو تمہیں کھا کے ہی جانا پڑے گا۔ بہت اچھی پلاوْ بنائی ہے میں نے ابھی لاتی ہوں ۔ بس پھرایک پلیٹ میں وہ پلاوْ لے آئی اور میں وہ پلاوْ کھانے لگا ۔۔ کھاتے کھاتے کیا دیکھتا ہوں چاولوں کے نیچے انسانی ہاتھ کا پنجہ ۔۔۔ میں نے خوف سے وہیں ہاتھ روک دیا۔ ڈر گئے ؟ ۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔ ارے ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہم گوشت کو پنجے کی طرح شکل دے کر پلاوْ میں ڈالتے ہیں۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ اسنے کانٹے سے پنجے کا گوشت الگ الگ کر کے بکھیر دیا۔ میں پھر کھانے لگا اس قدر لذیذ پلاوْ میں نے اپنی زندگی میں نہیں کھائی تھی ۔ لیکن کھاتے کھاتے کیا دیکھتا ہوں کہ چاولوں میں سے ایک انسانی ناخن بھی نکل آیا اب تو میں نے وہ پلیٹ وہیں پھینکی اور بھاگا وہاں سے اور اپنے گھر پہنچ کر ہی دم لیا “۔
” پھرکیا ہوا ؟ “
” بس پھر اتنا تیز بخار ہوا مجھے ، کہ مہینوں میں بستر پر پڑا رہا ۔۔۔ گھر والوں کو میں نے جب یہ واقعہ سنایا تو کہنے لگے کہ وہاں تو کوئی حویلی نہیں ہے اور نہ ہی کبھی پہلے تھی۔”
میں مبہوت ہو کر ایک عجیب سناٹے کے عالم میں سارا قصہ سن رہی تھی ۔۔۔۔
” کھانا تیار ہے آجایئے دسترخوان پر۔۔۔ ” ماں نے طلسمِ ہوش ربا داستان کے سارے حصار کا سلسلہ ہی توڑ دیا ، “جانے باپ بیٹی گھنٹوں کیا باتیں کرتے رہتے ہو ۔ بس بھئی اب باقی باتیں پھر ۔۔۔”
ابو جی کا وہ باقی پھرکا وعدہ اورانتظار بہت صبر آزما ہوا کرتا تھا ۔ یہ سب یونہی ہنستے کھیلتے چلتا رہتا ، لیکن ، وہی ہوا کہ جو کبھی نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔ 
مقدر کی موسلا دھار بارش میں میرے مٹی گارے کے ابو جی گھل گئے ۔ 
اب ذہن کی سلیٹ سے وہ خوبصورت قصے بُجھ رہے ہیں ، یادوں کے کئی صد رنگ و خوشنما طائر اپنا بسیرا چھوڑ کر اُڑ بھی چکے ۔۔ ہاں کبھی کبھی کوئی اندھیرا گوشہ اچانک روشن ہو جاتا ہے ، کچھ بھولے بسرے پنچھی اور پھول اپنی چہکار اور مہکار کا جادو جگانے لگتے ہیں ، تب کسی بجھتے ہوئے ملگجے سے دھندلکے میں میرے ابو جی پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں ، پھر ان کی کہانیاں روشن ہو جاتی ہیں ۔
لیکن بارش ان کہانیوں کا حصہ ہی رہتی ہے ، بلکہ مسلسل تیز ہوتی چلی جاتی ہے 
تیز ۔۔۔ اور بھی تیز ۔۔۔
اور میرے مٹی گارے کے ابو جی ۔۔۔
اس بارش میں گھلتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031