اصل بات ۔۔۔ سید کامی شاہ

Syed Kami Shah is a brilliant short story writer and has a unique and direct approach towards his characters.

اصل بات

( سید کامی شاہ )

گھر کی گھنٹی بجنے کے ایک آدھ منٹ کے دورانیے میں ہی بڑے بھائی نے دروازہ کھولا اور میرے اندر داخل ہوتے ہی مجھے بازو سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے میرے کمرے کی طرف لے گیا۔
میں اس اچانک حملے سے گھبرا گیا۔
ہوا کیا ہے بھائی۔۔۔؟
بھائی نے میرے سوال کا جواب دیئے بغیر دروازہ بند کرکے کنڈی چڑھائی اور میری طرف مڑا۔۔۔
تم پاگل واگل تو نہیں ہوگئے ہو۔؟ اس نے میرا بازو پکڑ کر جھٹکا دیا۔۔۔
اس کی آنکھیں شعلے برسارہی تھیں۔۔
پر ہوا کیا ہے۔؟
اوپر کیا کررہے تھے تم۔۔۔۔ اس کے ساتھ۔۔۔؟
اس نے اوپر رہنے والے کرایہ داروں کی چھوٹی بیٹی کا نام لیا۔۔۔
کیا مطلب۔؟
میں نے کچھ نہ سمجھنے کی اداکاری کی۔۔
مطلب کے بچے۔۔۔ “فستاڑو” تو نہیں ہوگئے ہو تم۔۔۔؟
بھائی نے اسی تند لہجے میں پوچھا
سچ سچ بتاؤ 
ہوا کیا ہے۔۔۔ پہلے بات تو بتاؤ۔؟
میرا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔۔ لگتا تھا کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے۔
بیٹھو
بھائی نے کہا اور سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گیا
اس کی ماں اور خالہ آئی تھی۔۔۔
اس نے اسی چھوٹی لڑکی کا نام لیا۔
وہ کہہ رہی تھی تم نے اسے سیکچوئلی ہراس کیا ہے۔۔ سامان وامان دکھا دیا اسے سب کھول کے۔۔۔۔
بھائی نے کہا اور پیکٹ سے سگریٹ نکال کر جلانے لگا۔۔۔
چھ سال کی ہے یار وہ۔۔ اس کا باپ وکیل ہے اگر وہ پولیس کے پاس چلے گئے تو ہم سب کی جیب پھٹ جانی ہے۔۔۔
اس نے سگریٹ سلگا کر پیکٹ میری طرف پھینکا۔
پتہ ہے سیکچوئل ہراسمینٹ کی کتنی سزا ہے۔؟ اور محلے میں جو بدنامی ہوگی وہ الگ۔۔۔
اس کے چہرے پر تشویش کے آثار تھے اور وہ اضطراب کی کیفیت میں سگریٹ کے لمبے لمبے کش کھینچ رہا تھا۔۔
اگر کوئی بارہ چودہ سال کا لڑکا ایسی حرکت کرے تو سمجھ میں آتی ہے کہ تازہ تازہ جوان ہوا ہے بہک گیا ہوگا۔۔ مگر یارررر۔۔۔ تم اچھے خاصے سمجھدار ہو۔۔۔ پچیس سال کے جوان جہان آدمی ہو ۔۔۔ پھر یہ کیا فستاڑپا لگا رکھا ہے؟
وہ غصے میں تیز تیز بولے جارہا تھا۔۔ ہم دونوں کی سگریٹوں سے اٹھتے دھویں نے ماحول کو عجیب نیلگوں سا بنادیا تھا۔۔۔ کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند تھیں جس کی وجہ سے کمرے میں تیزی سے دھواں بھرتا جارہا تھا۔۔
بھائی نے اسی اضطرابی کیفیت میں بجھتی ہوئی سگریٹ سے دوسری سگریٹ جلائی اور لمبے لمبے کش کھینچنے لگا۔۔
ہمارے گھر کی اوپر والی منزل پر جو کرائے دار رہتے تھے ان کی دو بیٹیاں تھیں بڑی کوئی دس گیارہ سال کی تھی اور چھوٹی پانچ چھ سال کی۔۔۔ وکیل صاحب کی تیس بتیس سال کی بھدی سی سالی بھی ان کے ساتھ رہتی تھی جس کی شادی کی عمر تیزی سے نکلی جارہی تھی اور بدن فربہی کی جانب مائل تھا۔۔ کئی بار آتے جاتے وہ مجھے متوجہ کرنے والی نظروں سے دیکھا کرتی تھی۔۔ حسن کے روایتی معیار پر پوری نہ اترنے کے باعث اس کی شادی نہیں ہوپارہی تھی۔۔۔ محلے میں تقریباً سبھی کو معلوم تھا کہ اسی وجہ سے اس کے کئی رشتے واپس جاچکے تھے۔۔
اس کی کئی شعوری کوششوں کے باوجود میں نے کبھی اسے توجہ نہیں دی تھی۔
میرا بڑا بھائی مجھ سے عمر میں تین چار برس ہی بڑا اور شادی شدہ تھا اور ہم دونوں آپس میں بہت اچھے دوست بھی تھے۔۔۔ ہمارے گھر میں ہماری اماں، دو چھوٹی بہنیں، بھابھی، بھائی ان کا اکلوتا اور پیارا سا بیٹا اور میں رہتے تھے۔۔ اوپر والے کرایہ دار تھوڑا عرصہ قبل ہی شفٹ ہوئے تھے ان کی دس گیارہ سال کی بڑی بیٹی تیزی سے بڑی ہورہی تھی اور اس کے سینے پر چھوٹے چھوٹے بلبلے نمودار ہوچکے تھے۔۔۔ میں نے آتے جاتے اسے کئی بار کھڑے کھڑے ٹانگوں کے بیچ میں انگلی سے کھجاتے دیکھا تھا اسی وجہ سے مجھے اس میں دلچسپی محسوس ہوئی تھی۔۔ میں اسے توجہ سے دیکھا کرتا اور وہ میری نظروں سے گھبرا کر ہاتھ ہٹالیا کرتی اور ایسا ظاہر کرتی جیسے مجھے دیکھا ہی نہیں۔۔۔
میں سوچا کرتا کہ مجھے دیکھ کر وہ جان بوجھ کر ایسا کرتی ہے یا ہر جوان ہوتی لڑکی ایسا ہی کرتی ہے۔۔۔۔ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی لڑکی کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔
سگریٹ فلٹر تک جل چکی تھی اور اب میری انگلیوں کو جلا رہی تھی، میں نے ہاتھ بڑھا کر سگریٹ ایش ٹرے میں مسلا۔۔۔ بھائی غصیلی نظروں سے میری طرف ہی دیکھے جارہا تھا۔۔۔
اتنی عزت ہے یار محلے میں۔۔ خاندان میں۔۔۔ تم تو سب کی واٹ لگانے پر تُلے ہوئے ہو۔،،
بھائی نے کہا
میں ساری بات بتاتا ہوں۔۔ مگر پہلے یہ بتاؤ انہوں نے کیا کہا۔۔۔؟
کہنا کیا تھا۔۔ جو گھٹیا پن تم نے کیا وہ انہوں نے بتادیا۔،، بھائی نے غصے سے کہا
میں نے جو کیا وہ میں تفصیل سے بتادوں گا مگر میرے بھائی پہلے مجھے یہ بتا اوپر سے کون کون آیا تھا اور انہوں نے کیا کہا۔۔؟
میں نے بھائی سے التجا کی۔
اس کی ماں اور خالہ آئی تھیں اور اماں کو شکایت کی کہ آپ کے بیٹے نے ان کی چھوٹی بیٹی کو سیکچوئلی ہراس کیا ہے۔۔ اور یہ یہ یہ۔۔۔ بھائی تفصیل سے بتانے لگا۔۔۔
میں سرجھکائے سگریٹ پیتا رہا اور اس کی بات توجہ سے سنتا رہا۔
انہوں نے اس کا نام لیا۔؟
میں نے ان کی چھوٹی بیٹی کا نام لے کر اس سے تصدیق چاہی۔
ہاں۔۔۔ اسی کا نام لیا تھا اور وہ کہہ رہی تھیں کہ تم پر کیس کریں گی۔۔،، وہ بولے جارہا تھا
اماں کا کیا ردعمل تھا۔؟ میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔
اماں شدید غصے میں ہیں۔۔۔۔ اسی لیے تمہیں ادھر لایا ہوں۔۔ ان کے سامنے مت جانا ورنہ انہوں نے چپل اتارلینی ہے اور تمہارے سر پر ایک بال بھی نہیں چھوڑنا۔،،
وہ چھوٹی والی آئی تھی ان کے ساتھ۔؟
میں نے پوچھا
نہیں وہ تو نہیں آئی۔،،
اور وہ اس سے بڑی۔۔۔۔؟
میں نے اس کا نام لیا
نہیں وہ بھی نہیں۔۔۔۔ مگر ان کے آنے نہ آنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے یہ سب کیا ہے یا نہیں۔۔۔۔۔؟
اس کی ماں اور آنٹی بہت غصے میں تھیں۔۔۔ اور وہ آنٹی تو بہت بڑبڑ کررہی تھی۔۔ گالیاں دے رہی تھی تمہیں۔،،
بھائی اسی اضطراب اور بے چینی کی کیفیت میں تھا۔
پتہ ہے اماں کو ہاتھ جوڑ کر معانی مانگنی پڑی ان سے۔،،
بھائی نے زیرلب گالی دی
تم نے بڑی والی کو دیکھا ہے.؟
میں نے ایسے کہا جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے یار۔۔۔؟
بھائی اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے بولا۔۔
پڑتا ہے جانی۔۔ بہت فرق پڑتا ہے۔،،
میں نے کہا
ہاں دیکھا ہے۔،،
بھائی نے پیکٹ سے ایک اور سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوئے کہا
بڑی ہورہی ہے وہ۔،،
میں نے کہا
تو۔۔۔؟؟؟ تمہیں اس سے کیا۔؟ دس گیارہ سال کی ہے وہ یار۔۔۔،،
تم نے اسے کبھی کھجاتے دیکھا ہے۔؟
میں نے اس جگہ کا نام لیا۔
ہاں دیکھا ہے۔۔۔ ساری جوان ہوتی ہوئی لڑکیاں ایسے ہی کرتی ہیں۔۔ جیسے لڑکے بڑے ہوتے ہیں تو بار بار وہاں ہاتھ لگاتے ہیں۔،،
بھائی نے کہا
وہی تو۔۔۔ کسی لڑکی کو ایسا کرتے دیکھ کر کسی بندے کا متوجہ ہونا نیچرل ہے یا نہیں۔؟
میں نے پوچھا۔۔۔
ہاں مگر وہ جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کرتی ہوگی۔،،
بھائی نے کہا
مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر مجھے دیکھ کر ایسا کرتی ہے۔،،
ارے نہیں یار۔۔۔ پتہ نہیں تمہارے دماغ میں کیا بھوسہ بھرا ہوا ہے۔۔۔ وہ ایسا کیوں کرے گی۔۔۔ اتنی سی تو ہے وہ۔۔۔ اسے کیا پتہ ان چیزوں کا۔،،
بھائی نے جھلاتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ انہوں نے چھوٹی والی کا نام کیوں لیا۔،،
میں نے اطمینان سے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔۔۔
کیوں۔؟ بھائی نے پوچھا
یار میں نے تو بڑی والی کے چوتڑ دبائے تھے۔۔ پتہ نہیں اس کی اماں اور خالہ چھوٹی والی کا نام کیوں لے رہی ہیں۔۔؟
میں نے خالہ پر زوردیتے ہوئے کہا اور اطمینان سے سگریٹ کے پیکٹ کی طرف ہاتھ بڑھادیا. —-

Facebook Comments Box

4 thoughts on “اصل بات ۔۔۔ سید کامی شاہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031