رنگ فارسی ۔۔۔ اسداللہ خان غالب

غالب
در پردہ شکایت ز تو داریم و بیاں ہیچ
زخمِ دلِ ما جملہ دہان است و زباں ہیچ
ترجمہ: ہمیں تجھ سے درپردہ شکایت ہے جو لفظوں میں بیان نہیں ہوتی۔ ہمارے دل کا زخم پوری طرح دہن ہےیعنی منہ کی طرح کھلا ہے لیکن اس میں زبان نہیں ہے۔ یعنی زخمِ دل سے ہماری حالت کا پتا چل سکتا ہے، زخمِ دل بول کر کچھ نہیں بتا سکتا۔

اے حسن گر از راست نہ رنجی سخنے ہست
ناز ایں ہمہ، یعنی چہ ، کمر ہیچ و دہاں ہیچ
ترجمہ: اے حسن یعنی محبوب اگر تو سچ بات سے ناراض نہ ہو تو ایک بات کہوں؟ یہ جو تُو اتنا ناز کرتا ہے تو کس برتے پر؟ تیری کمر ہے تو وہ نظر نہیں آتی اور دہان ہے تو وہ غائب ہے۔
صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے، کس طرف کو ہے، کدھر ہے؟

در راہ تو ہر موج غبارے ست روانے
دل تنگ نہ گردم ز ہر افشاندن جاں ہیچ
ترجمہ: تیری راہ میں گرد و غبا کی جو لہر اٹھتی ہے وہ ایک روح ہے یعنی زندگی لئے ہوئے ہے۔ اس لئے میں تیری راہ میں ہر مرتبہ جاں نثار کرنے سے میرا دل تنگ نہیں ہوتا یعنی نہیں گھبراتا (کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں تیری راہ میں مر کر زندہ جاوید ہو جاؤں گا)

بر گریہ بیفزود، ز دل ہر چہ فرد ریخت
در عشق بود تفرقہ سود و زیاں ہیچ
ترجمہ: جو کچھ بھی ہمارے دل میں (عشق کے نتیجے میں) کم ہوا، اسی قدر اس نے ہماری گریہ و زاری میں اضافہ کیا۔ (حقیقت یہ ہے کہ) عشق میں نفع اور نقصان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ کم اور اضافہ کے حوالے سے سود و زیاں کی بات کی ہے۔

تن پروری خلق فزوں شد زریاضت
جز گرمیِ افطار نہ دارد رمضاں ہیچ
ترجمہ: ریاضت یعنی روزہ رکھنے سے لوگوں کی تن پروری میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ رمضان تو گرمیِ افطار کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ یعنی افطار میں ہلکا پھلکا کھانا چاہیے لیکن لوگ اتنا زیادہ کھاتے ہیں کہ روزے کا کوئی فائدہ نہیں رہ جاتا۔

دنیا طلباں عربدہ مفت است بجوشید
آزادیِ ما ہیچ و گرفتاریِ تاں ہیچ
ترجمہ: اے دنیا کے طالبو! یہ لڑائی جھگڑا کس بات پر ، یہ بیکار ہے۔ تم جس جوش و خروش سے طالبِ دنیا بنتے یا بن رہے ہو اسے جاری رکھو اگر ہم خود کو دنیا سے آزاد سمجھتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے اور اگر تم اپنی دنیاوی خواہشات کا شکار ہو تو پھر کیا؟ یعنی تم اپنی دنیا میں مست رہو اور ہمیں اپنی دنیا میں مست رہنے دو اس بات پر ہم سے جھگڑا مت کرو۔

پیمانہ رنگے است دریں بزم بگردش
ہستی ہمہ طوفانِ بہار است، خزاں ہیچ
ترجمہ: اس دنیا کی محفل میں رنگ کا ایک جام ہر وقت گردش میں رہتا ہے اور زندگی تمام تر ایک طوفانِ بہار ہے اس میں خزاں کا کوئی وجود نہیں۔

عالم ہمہ مرآتِ وجود است، عدم چیست؟
تاکار کند چشم، محیط است و کراں ہیچ
ترجمہ: یہ کائنات مکمل طور پر وجود کا آئینہ ہے، عدم کیا چیز ہے؟ (یعنی عدم نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں) جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے زندگی یا وجود کا ایک سمندر نظر آتا ہے، جس کا کوئی ساحل نہیں۔

درپردہ رسوائی منصور نوائے است
رازت نہ شنودیم ازیں خلوتیاں ہیچ
ترجمہ: منصور کی در پردہ بدنامی میں بھی ایک نوا ہے یعنی اس میں بھی ایک بات ہے کہ اس نے کوئی آواز تو بلند کی۔ جبکہ ان خلوتیوں سے ہم نے تیرے راز یعنی تیری حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ خدا سے خطاب ہے کہ کم از کم منصور نے اناالحق کا نعرہ بلند کر کے تو تیری حقیقت سے ہمیں آشنا کیا وہ الگ بات ہے کہ اسے سولی پر چڑھا کر رسوا کی گیا لیکن یہ خلوتی تو صرف ظاہری عبادات ہی میں کھوئے رہتے ہیں۔

غالب زگرفتاریِ اوہامِ بروں آی
باللہ جہاں ہیچ و بد و نیک جہاں ہیچ

ترجمہ: اے غالب! تو اوہام کا شکار ہے ان سے باہر نکل، یعنی وہم اور شکوک و شبہات سے اپنا دامن بچا۔ خدا کی قسم یہ کائنات بھی ہیچ ہے یعنی اس کا کوئی وجود نہیں اور اسی طرح اس نیک و بد کا بھی کوئی وجود نہیں۔

(مرزا اسد اللہ خان غالب)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031