گھر واپسی ۔۔۔ رابندر ناتھ ٹیگور

گھر واپسی

 رابندر ناتھ ٹیگور

ترجمہ : شگفتہ شاہ ( ناروے)

فوٹک چکروتی گاؤں کے لڑکوں کی ٹولی کا سرغنہ تھا۔ اسے ہرلمحہ کوئی نہ کوئی شرارت سوجھتی ہی رہتی تھی۔ آج بھی اس کے دماغ میں ایک نئی شرارت جاگی،دریا کے کنارے کشتی کے مستول میں استعمال ہونے والا درخت کا ایک بھاری تنا پڑا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سب مل کراسے اپنی جگہ سے کھسکا کرنیچے کی جانب لڑھکا دیں گے۔ جب مالک تنے کو اپنی جگہ پرموجود نہ پاکرسٹپٹا ئے گا تو انہیں بہت مزہ آئے گا۔ ٹولی کے سب لڑکوں نے اس کی تجویز کی حمایت کی،اور اس کام کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گئے۔

وہ اپنی شرارت کا آغاز کرنے ہی کو تھے کہ عین اسی لمحے فوٹک کا چھوٹا بھائی ماکُھن وہاں آ پہنچا،اور کسی سے ایک لفظ کہے بغیرسیدھا جا کرتنے پر بیٹھ گیا۔ ایک لمحے کوتوسب لڑکے حیرت زدہ رہ گئے۔ پھرایک لڑکے نے اسے ڈانٹا،اور دھکا دے کر اسے وہاں سے ہٹانا چاہا،مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ تو کسی فلسفی کی طرح وہاں یوں بیٹھاتھا،جیسے کھیل کود میں وقت کےزیاں پر غوروحوض کر رہا ہو۔ فوٹک یہ سب دیکھ کرغصّے میں آگیا۔ “ماکُھن،” وہ چلایا،” اگرتم فوراً یہاں سے نہ ہٹے تو میں تمہاری درگت بنا دوں گا! “

ماکُھن سیدھا ہو کراور بھی سکون سے اپنی جگہ پر براجمان ہو گیا۔

اب،اگرفوٹک کو لڑکوں کے سامنے اپنا وقار برقراررکھنا تھا،تو یہ صاف ظاہر تھاکہ اسے اپنی دھمکی کے مطابق کوئی نہ کوئی مظاہرہ توکرناہی تھا۔ سواس کے تیز دماغ نے فوراً ایک ایسی ترکیب سوچی،جو اس کے بھائی کو بھی سبق سکھا دے اور اس کے دوستوں کوتفریح کاموقع بھی مہیا کر دے۔ اس نے ماکُھن اور لکڑی کو اکٹھے ایک ساتھ لڑھکانے کا حکم صادر کر دیا۔ ماکھن نے بھی اس کا یہ فیصلہ سنا،مگراس نے وہاں بیٹھے رہنے کو اپنے وقار کا مسلۂ بنا لیا۔ اوراُن لوگوں کی طرح حقیقت کو نظرانداز کر بیٹھا،جو کچھ معاملات میں دنیاوی شہرت کی خاطرآنے والے خطرے کو بھی بھول بیٹھتےہیں۔

لڑکےاپنی پوری طاقت سے لکڑی کودھکیلتےہوئے،پکارے، “ایک،دو،تین،جاؤ!” اور لفظ “جاؤ” کے ادا ہوتے ہی لکڑی لڑھک گئی؛اور اس کے ساتھ ہی ماکھن کا فلسفۂ شان وشوکت بھی دھرے کادھرہ رہ گیا۔

سب لڑکے خوشی سے چیخ وپکارکررہے تھے،مگرفوٹک تھوڑا سا خوفزدہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب آگے کیا ہو گا۔ ماکُھن غصّے میں پھنکارتا ہوااٹھااور چیختا ہوا فوٹک کے پاس آ پہنچا۔ اس نے لاتوں اور گھونسوں سے اسے خوب پیٹا اور روتا ہوا گھر کی جانب چل دیا۔

اب فوٹک نے اپنا چہرہ صاف کیا اوردریا کنارے کھڑی ایک ناؤ میں جا بیٹھا،اس نے گھاس کا ایک تنکا منہ میں ڈالا اور دانتوں تلے چبانے لگا۔ تبھی ایک کشتی کنارے آلگی اور اس میں سے سرمئی بالوں اورگھنی مونچھوں والے،ایک عمر رسیدہ شخّص نے قدم باہر نکالے۔ اس نے ان لڑکوں کو وہاں بیٹھے دیکھا تو ان سے چکروتی کنبے کے گھر کا پتہ پوچھا۔ فوٹک نے گھاس کا تنکا چباتے ہوئے،ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا: “وہ رہا،” مگراس سے یہ اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہی تھا کہ اس نے کس گھر کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اجنبی نے دوبارہ پوچھاتو اس نے اپنی ٹانگیں جھلاتے ہوئے جواب دیا: “جا کر خود تلاش کر لیں،” اور پہلے کی طرح تنکا چبانے لگ گیا۔

تبھی ان کے گھر کا نوکر وہاں آ پہنچا اور اس نے فوٹک کو بتایا کہ اس کی والدہ اسے گھر بلا رہی ہیں۔ فوٹک نے جانے سے انکار کردیا،مگر نوکر جو اس لمحے اس کے آقا کی مانند تھا،اسے اٹھا کے گھر کی جانب چل دیا۔ فوٹک چیختا چلّاتا رہا،مگر نوکر نے اس کی ایک نہ مانی۔

جب وہ گھر پہنچے تو اس کی ماں نے اسے ڈانٹتے ہوئے پوچھا:”تم نے آج پھر ماکُھن کو مارا ہے؟”

“نہیں،میں نےتواسےنہیں مارا!آپ کو یہ بات کس نے بتائی ہے؟” اس نےغصّے سے جواب دیا۔

“جھوٹ مت بولو!تم نے اسے مارا ہے۔” اس کی ماں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

“ماں،میں آپ کو سچ بتارہا ہوں کہ میں نے اسے نہیں مارا۔ آپ ماکُھن سے پوچھ لیں!” فوٹک نے افسردگی سے کہا۔ مگر ماکُھن نے اپنے پہلے بیان پر قائم رہنے میں ہی عافیت جانی اور کہا:

“جی ہاں،ماں، فوٹک نے میری پٹائی کی تھی۔”

اب فوٹک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ یہ الزام برداشت نہ کر سکا،اورماکُھن کے پاس جا کر اسے دھڑا دھڑ پیٹتے ہوئے بولا: “یہ لو،اور یہ بھی،اوریہ رہی تمہارے جھوٹ کی سزا۔”

ان کی والدہ فوراً ماکُھن کی طرف داری کے لئے آگے بڑھی اورفوٹک کو دونوں ہاتھوں سے پیٹنے لگی۔ جب فوٹک نے اسے ایک طرف دھکیلا تو وہ چیخ اٹھی:

“ارے بدمعاش،کیا اب تم اپنی ماں کو بھی مارو گے؟”

عین اسی نازک لمحے میں وہ سرمئی بالوں والا اجنبی شخّص اندر داخل ہوا۔ جب اس نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟تو فوٹک بہت کھسیانا اور شرمندہ سا نظرآنےلگا۔ لیکن جب اس کی ماں نے پیچھے مڑ کر اجنبی کی طرف دیکھا تو اس کا غصّہ حیرت میں بدل گیااور وہ اپنے بھائی کو پہچان کر چلّا اٹھی:”کیوں، بھائی!آپ اتنی مدت بعد کہاں سے ٹپک پڑے؟”

اوریہ الفاظ ادا کرتے ہوئے وہ نیچے جھکی اوراپنے بڑے بھائی کے پاؤں چھو لیے۔ اس کا بھائی،اس کی شادی کے فوراً بعد ہی کاروبار کی غرض سے بمبئی چلا گیا تھا۔ اس دوران وہ بیوہ ہو چکی تھی۔ بیشامبر اب کلکتہ واپس آیاتو اپنی بہن کو ملنے کے لئے بےتاب ہو اٹھا اوراس کا پتہ پوچھتا ہوا یہاں آ پہنچا۔

اگلے چند روز بچھڑے ہوؤں کے ملاپ کی خوشی میں گزر گئے۔ بیشامبر نے دونوں لڑکوں کی تعلیم کا پوچھا تو بہن نے بتایا کہ فوٹک تو اس کے لئے مستقل ایک دردِسر ہے۔ وہ سست،نافرمان اور اجڈ ہے۔ لیکن میرا ماکُھن تو سونا ہے سونا،وہ بہت نیک ہے اورپڑھنے لکھنے کابھی شوقین ہے۔ بھائی نے بہت محبّت سے پیش کش کی کہ وہ فوٹک کو اپنے ساتھ کلکتہ لے جائے گا۔ اوراسے اپنے بچّوں کی طرح تعلیم دلوائے گا۔ بیوہ ماں فوراً ہی اپنے بیٹے کو کلکتہ بھیجنے پر راضی ہو گئی۔ جب فوٹک کے ماموں نے اس سے ساتھ چلنے کے بارے میں پوچھا تواس کی خوشی کا توکوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا،وہ ایک دم سے بول اٹھا:”جی ہاں،ماموں جان!” اوراس نے جس انداز سے حامی بھری،اس سے اس کی خوشی صاف عیاں تھی۔

فوٹک کی ماں خوش تھی کہ اسے فوٹک سے چھٹکارا مل جائے گا۔ وہ اپنےچھوٹے بیٹےکی بے جا طرف دارتھی۔ اسے ہر لمحہ یہی خوف گھیرے رکھتا کہ فوٹک کسی روز ماکُھن کو دریا میں ڈبو دے گا،یا لڑائی میں اس کا سر پھوڑ دے گا،یااسے کسی خطرے سے دوچار کر دے گا۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ فوٹک کے گھر چھوڑ جانے کے اشتیاق کو دیکھ کرقدرے پریشان بھی ہو گئی۔

جب اس کے جانے کے سب معاملات طے پاگئے تو وہ جلد ازجلد کلکتہ پہنچنے کے لئے بےتاب رہنے لگا،ہر وقت اپنے ماموں سے پوچھتا رہتا کہ وہ کب روانہ ہوں گے۔ وہ دن بھر کانٹوں پرلوٹتا اور رات کا بیشترحصّہ تارے گننےمیں گزار دیتا تھا۔ اس نے پہلے ہی اپنی ماہی گیری کی چھڑی،بڑی پتنگ اورکینچے ماکُھن کو وراثتاً عطا کر دئیے تھے۔ دونوں بھائیوں میں محبّت تو تھی،مگر روانگی سے قبل ماکُھن کے لئے اس کی فراخ دلی اپنی انتہا کو چھو رہی تھی۔

جب وہ کلکتہ پہنچے،تووہ زندگی میں پہلی باراپنی ممانی سے ملا۔ ممانی اپنے کنبے میں اس غیر ضروری اضافے سے کسی طور خوش نظر نہیں آ رہی تھیں۔ ان کے لئے اپنے تین لڑکوں کی پرورش کی ذمہ داریاں ہی کافی تھیں۔ اب ایک چودہ سالہ گاؤں کے لڑکے کا گھرمیں آجانا انہیں سخت ناگوار گزرا۔ بیشامبرکوواقعی اس طرح کی ناسمجھی کرنے سے پہلے دوبار سوچ لینا چاہیے تھا۔ اس نےتلخی سے سوچا۔

دراصل انسانی مسائل کی اس دنیا میں ایک چودہ سالہ لڑکے کی دیکھ بھال سے زیادہ پیچیدہ کوئی مسئلہ ہو بھی نہیں سکتا۔ وہ کسی کے کام تو آ نہیں سکتا،چھوٹے بچّوں کی طرح اس پر محبّت نچھاور کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے؛وہ ہمیشہ ہی – – اگر وہ معصومانہ گفتگو کرے تو اسے بچّہ کہا جاتا ہےاور اگر بڑوں کے لہجے میں بولےتواسے گستاخ تصّور کیا جاتا ہے۔ دراصل اس کے ہر انداز،ہر بات کو ہی ناپسند کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی عمر کے ایسے دور میں داخل ہوگیا ہوتا ہے،جب وہ کسی کے لئے بھی جاذبِ نظر نہیں رہتا۔ وہ تیزی سے اپنے کپڑوں کے سائز سے بڑا ہو جاتا ہے؛اس کی آواز بدل جاتی ہےاورچہرے کی معصومیت اچانک غائب ہو جاتی ہے۔ بچپن کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کرنا آسان ہوتا ہے،مگرایک چودہ سالہ نوجوان کی لغزشوں کو معاف کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پھروہ آپ بھی خودآگاہی کے تکلیف دہ مراحل طے کر رہا ہوتا ہے۔ بزرگوں سےبات کرتے ہوئے وہ نہ توشرما تا ہےاورنہ بے جھجک بات کر پاتا ہے،بلکہ وہ تواپنے ہونے پر ہی نادم ہو رہا ہوتا ہے۔

دراصل وہ عمر کے اس حصّے میں ہوتا ہے،جب ایک نوجوان کو پیار اور توجہ کی اشّد ضرورت ہوتی ہے؛اور جو بھی اسے پیار دے وہ اس کا بےدام غلام ہو جاتا ہے۔ مگر جب ہر ایک اس سے محبّت وشفقت کا برتاؤ کرنے کو ناجائز سمجھے اور صرف ڈانٹ ڈپٹ ہی کرے،تو وہ اس آوارہ کتّے کی مانند ہو جاتا جو اپنے آقا کو کھو چکا ہو۔

ایک چودہ سالہ لڑکے کی واحد جنّت اس کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ اجنبی لوگوں کے ساتھ ایک اجنبی گھر میں رہنا اس کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے،اس کی کامل مسرت تواس بات میں چھپی ہوتی ہے کہ خواتین اسے محبّت سے دیکھیں اور کبھی بھی تحقیر کا نشانہ نہ بنائیں۔

فوٹک کے لئے ممانی کے گھر میں بن بلائے مہمان کی طرح رہنا سخت پریشان کن تھا۔ وہ خاتون ہر موقع پراسے نظر انداز کرتیں اور تحقیر آمیز رویہ روا رکھتیں؛ جب کہ فوٹک کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ اسے کوئی کام کہہ دیتیں تووہ خوشی سےان کے کہے سے کچھ زیادہ ہی کر دیتا؛اورپھراسے یہ سننےکو ملتا کہ اتنے احمق مت بنو،جو کہا جائے وہی کیا کرو۔

فوٹک کوغفلت اور گھٹن کے اس ماحول میں سانس لینا بھی دشوار محسوس ہونےلگا،اس کا دل چاہتا کہ باہرکھلی فضا میں جا کر اپنے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا سے بھر لے،مگر کلکتہ تو چاروں جانب سے بڑے بڑے گھروں اوراونچی عمارات سےگھرا ہوا تھا۔ اب اسے اپنا گھر یاد آنے لگا،اسے ان دل کش سبزہ زاروں کی یاد ستانے لگی،جہاں وہ سارا سارا دن پتنگ اُڑایا کرتا؛دریا کا وسیع کنارہ جہاں وہ خوشی کے گیت گاتا،دن بھر گھومتا پھرتا،اور وہ ندی جس میں وہ دن کےکسی بھی پہر ڈبکی لگا سکتا،اور تیراکی کر سکتا تھا۔ اسے اپنے دوستوں کی یاد ستانے لگی،جن پراس کا حکم چلتا تھا؛اورسب سے بڑھ کراپنی ماں،جو اسے ہروقت ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی تھی،مگراب دن رات اس کے حواس پرچھائی ہوئی تھی۔ جانوروں کی مانند اسے کسی چاہنے والے کی موجودگی کی شدید طلب محسوس ہونے لگی،شام ڈھلے گھر لوٹتے ایک بچھڑے کی مانند،ماں کی غیر موجودگی میں اس کے لئے دل کی گہرائیوں سےایک ناقابلِ بیان حسرت آمیز پکار ابھرتی۔ محبت کی ایک ایسی پکارجوصرف جانوروں کی جبلّت ہے،مگراس نے اس پریشان وبدحال،دبلے پتلےاوراجڑی صورت والے لڑکے کو بے چین کر دیا تھا۔ کوئی فردِ واحد اس کی اس بے تابی کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا،جس نے اس کے دل ودماغ کومستقل جکڑ رکھا تھا۔

دیہات سے آئے ہونے کی وجہ سے وہ اسکول کی پڑھائی میں بھی جماعت کے باقی لڑکوں کی نسبت کافی کمزور تھا۔ جماعت میں جب استاد اس سے کوئی سوال پوچھتے،تو وہ منہ کھولے چپ چاپ بیٹھا رہتا،اورایک تھکے ہارے گدھے کی مانند اپنی پیٹھ پر برسائی جانے والی ہر چابک کو صبروتحمل سے برداشت کر لیا کرتا تھا۔ جب دوسرے لڑکے میدان میں کھیل رہے ہوتے،تو وہ کھڑکی کے قریب کھڑا حسرت ویاس سے دور کےگھروں کی چھتوں کو گھورا کرتا۔ اوراگر اتفاق سے اسے کسی گھر کی کھلی چھت پر کھیلتے بچّے دکھائی دے جاتے تو اس کا دل شدتِ خواہش سے تڑپ اُٹھتا تھا۔

ایک دن اس نے اپنی ساری ہمت مجتمع کرکے اپنےماموں سے پوچھ ہی لیا:”ماموں جان،میں گھر کب جا سکوں گا؟”

تو اس کے ماموں نے جواب دیا: “تعطیلات ہونے تک انتظار کرنا ہو گا۔”

مگرچھٹیاں تواکتوبرکے مہینے میں ہونی تھیں،اور اکتوبر آنے میں ابھی بہت دن باقی تھے۔

ایک دن فوٹک کی ایک کتاب کہیں کھوگئی۔ اس کے لئے توکتابوں کی مدد سے ہی پڑھائی کرنا خاصا مشکل تھا،اب اس مشکل میں مزید اضافہ ہو گیا،توسبق یاد نہ کرنے پراستاد اسے ہر روز بے رحمی سے پیٹتے؛اس کی حالت اس قدر دگرگوں تھی کہ اس کے ماموں زاد بھائی اسے اپنا رشتےدار بتاتے ہوئے شرم محسوس کرنے اوردوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر اس کا مذاق اڑانے لگے۔ آخر ایک روزتنگ آ کراس نے اپنی ممانی کو بتا ہی دیا کہ اس کی کتاب کھو گئی ہے۔ اس کی ممانی نے اپنے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا:

“تم بہت اناڑی اور گنوار ہو! میں اپنے کنبے کےاخراجات کےساتھ،تمہارے لئے ہر مہینےپانچ پانچ مرتبہ نئی کتابیں خریدنےکی متحمل کیسے ہو سکتی ہوں؟”

اس روزاسکول سے واپسی پر فاٹک کوسردرد کے ساتھ جسم میں شدید کپکپاہٹ محسوس ہونے لگی،اسے لگا کہ شاید اسے ملیریا بخار نے آ لیا ہے،اس کے ساتھ ہی اسے یہ فکر بھی لاحق تھی کہ اس کی یہ حالت اس کی ممانی کے لئے سخت ناگواری کا باعث بنےگی۔

اگلی صبح وہ گھرسے غائب تھا۔ اسے گلی محلے میں بہت ڈھونڈا گیا،مگراس کا کہیں سراغ نہ ملا۔ کل رات سے مسلسل مینہ برس رہا تھا،جو لڑکے اس کی تلاش سے ناکام لوٹے تھے،وہ بھی سرسے پاؤں تک بھیگے ہوئےتھے۔ آخرکار بیشامبرنے پولیس سے مدد کی درخواست کی۔ شام ڈھلے جب پولیس کی گاڑی ان کے دروازے پرآ کر رکی تو بارش اب بھی مسلسل برس رہی تھی،سڑکیں زیرِآب آ چکی تھیں۔ پولیس کےدوسپاہی فاٹک کو اٹھا کر لائےاوربیشامبرکے حوالے کر گئے۔ وہ پانی میں شرابواور کیچڑ میں لت پت تھا،اس کاچہرہ اورآنکھیں بخار سے دہک رہی تھیں،اورانگ انگ پر ایک کپکپی طاری تھی۔ بیشامبراسے اپنی بانہوں پر اُٹھا کرگھر کے اندر لے آیا۔ جب اس کی بیوی نے دیکھا تو اس نے ایک فریادی لہجے میں اپنے شوہر سے کہا:”اس لڑکے نے ہمیں کس مصیبت میں ڈال رکھا ہے،کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ اسے گھر بھجوا دیں؟”

فوٹک نے ممانی کے یہ الفاظ سنےتو ہچکیاں لیتے ہوئے بلند آواز میں کہا:”ماموں جان،میں تو گھر ہی جا رہا تھا؛یہ لوگ مجھے دوبارہ یہاں گھسیٹ لائے ہیں۔”

اس کا بخار بہت تیز ہو گیا تھا،وہ رات بھرہذیان بکتارہا۔اگلی صبح بیشامبر نے ڈاکٹر کو بلوایا،فوٹک نے اپنی بخار سے تمتماتی آنکھیں کھولیں اور چھت کو دیکھتے ہوئے پوچھا:”ماموں جان،کیا چھٹیاں ہو گئی ہیں؟”

بیشامبر نے اپنے آنسو پونچھےاور فوٹک کے لاغراور دہکتے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ وہ رات بھر اس کے سرہانے بیٹھا رہا۔ فوٹک پھر بڑبڑانے لگا۔ اب اس کی آواز قدرے پرجوش تھی:”ماں!” وہ پکارا، “مجھے اس طرح مت مارو،ماں! میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں!”

اگلے روزفوٹک کو تھوڑی دیر ہوش آیا تو اس نے آنکھیں کھول کرسارے کمرے کا یوں بغور جائزہ لیا،جیسےوہ کسی کا منتظرہو۔ اور پھر سخت مایوس ہو کر اپنا سر تکیے پر ٹکایا،ایک گہری سانس لی اور اپنا رُخ دیوار کی جانب موڑ لیا۔

بیشامبر اس کے جذبات کو خوب سمجھ رہا تھا،وہ اس کے اوپر جھکا اور سرگوشی کی:” فوٹک،میں نے تمہاری امّی کو بلوا بھیجا ہے۔”

اگلا دن بھی بیت گیا۔ ڈاکٹر نے انتہائی تشویشی لہجے میں بتایا کہ لڑکے کی حالت بہت نازک ہے۔

فوٹک پھربڑبڑانے لگا:”اس نشان سے- تین قعرپیما گہرائی۔ اس نشان سے- چار قعرپیما گہرائی۔ اس نشان سے- – ۔” اس نے دُخانی کشتیوں کے ملاحوں کو یہ الفاظ پکارتے سن رکھا تھا۔ اب وہ خود ان دیکھے سمندر کی گہرائی ناپ رہا تھا۔

دن چڑھے فوٹک کی ماں طوفان کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی،اوردائیں بائیں جھولتے ہوئےاونچی آواز میں چیخ وپکار کرنے لگی۔ بیشامبر نے اسے صبر کی تلقین کی،مگر وہ فوٹک کی چارپائی پرگرگئی اورروتے ہوئے اسے پکارنے لگی: “فوٹک،میرے پیارے،میرے بیٹے۔”

ایک لمحے کوفوٹک کی بے قراری کو قرار آ گیا۔ اس کے بے چینی سے حرکت کرتے ہاتھ بھی تھم گئے اور اس کے حلق سے ایک آہ سی نکلی۔

اس کی ماں نے پھر پکارا:”فوٹک،میری جان،میرے بچّے۔”

فوٹک نے بہت آہستہ سے اپنا سرگھمایا اور کسی کی طرف دیکھے بغیر پوچھا:

“ماں،کیا چھٹیاں ہو گئی ہیں؟”

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031