عالم تمثال ۔۔۔ آدم شیر


عالم تمثال

آدم شیر

وہ، جس کے کئی نام ہیں ، ایک رات پلنگ پر چت لیٹا زیرو واٹ کے بلب کی پیلی مدھم روشنی میں چھت کو سوچیلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اُسے کئی تصویریں دکھائی دے رہی تھیں جو اُس نے کبھی بنائی تھیں اور چند ایسی بھی نگاہوں میں پھر رہی تھیں جو اس نے نہیں بنائی تھیں۔

یہ کیفیت پہلے بھی طاری ہو چکی تھی اور وہ نجات کے لیے خود کو کسی کام میں الجھالیتا تھا یا لمبی تان کر سو جاتا تھا ۔ تصویریں جب اُس کے حواس پر حملہ کرتی تھیں تب بے مائیگی کا احساس بڑھ جاتا تھا اور ناقدری کچوکے لگاتی تھی مگر اُسے یہ خیال بھی آتا تھا کہ ابھی برش کی وہ صفائی نہیں دکھا پایا جس کے بعد تسلی سے ہاتھ دھو لے۔

اُس کی چھت سے نظر ہٹی تو سامنے دیوار پر جا ٹکی اور جانے اُسے کیا سوجھی کہ غبار کا غلبہ دبانے کے لیے ماتھے پر ہتھیلی زور زور سے رگڑکر کسی فاتح کی طرح پلنگ کو تخت جان کر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ اُس نے چھوٹے سے کمرے کی ہر دیوار کو غور سے دیکھا ۔۔۔ دیر تک دیکھتا رہا۔ سر پر دونوں ہاتھ لے جا کر انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر سوچتا رہا۔۔۔ دیر تک سوچتا رہا۔

اگلے دن وہ بازار گیا اور رنگوں کے کئی ڈبے اور بَرش اٹھا لایا۔ اُس نے ایک ڈبے کا ڈھکن اُتارا اور مخصوص بالٹی میں آدھا انڈیل دیا۔ پھر تیل ملایا اور ایک بڑے سے برش کو اچھی طرح ڈبو کر شمالی دیوار پر پھیرنے لگا۔ دائیں سے بائیں، اوپر سے نیچے ، قلعی کرنے والے کی طرح مگر اس سے کہیں بہتر ہاتھ چلایا کہ صفائی دیکھ کر کسی کا بھی جی عش عش کر اُٹھے اور اُس پر بھی مسرت کے چھینٹے لحظہ بھر پڑے مگر اُسے اچھی طرح محسوس ہونے سے پہلے خشک ہو گئے۔

تین دن وہ اُس دیوار کو دیکھتا رہا جس پر پینٹ چمک رہا تھا۔ کہیں بدنما نشان یا ٹیڑھی میڑھی لکیر نظر نہ آتی تھی۔ وہ قمقمہ جلاتا تو روشنی چوگنا معلوم دیتی تھی لیکن اسے چین نہ پڑا۔ ایک رنگ میں رنگی دیوار ،جو پہلے بھلی لگتی تھی، اسے اکتانے لگی۔ اُس نے بے حد سوچ بچار کے بعد پہلے سے مختلف رنگ کا ڈَبا کھولا ، تیار کیا اور رات بھر جاگتا رہا۔ سحری کے وقت جب چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور مرغ بانگیں دے دے کر دانے دُنکے کے لیے خود ساختہ مالکان کو اُٹھانے کی کوشش کر رہے تھے ، وہ بھاری پپوٹوں کے ساتھ دھندلی نگاہوں سے دیوار دیکھ رہا تھا جو اسے آگے پیچھے جھولتی نظر آ رہی تھی۔

اُس کا دل پھر ٹوٹ گیا اور خوبصورت دکھائی دینے والی دیوار کو دو دن بعد دیکھنا تک محال ہو گیا۔ اُس نے پوچھا کہ سب سے اچھا رنگ چڑھایا ، پھر کیوں نہیں بھایا؟اور خود کو تسلی دی کہ ممکن ہے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو۔ دونوں دفعہ سوچ سمجھ کر ، محسوس کر کے، رنگوں کا انتخاب کیا لیکن گمان ہے کہ جمالیاتی حس کو متاثر نہیں کر پائے۔ یہ جان لینا آسان نہیں کہ آدمی کیا چاہتا ہے اور کیا اُسے واقعی چاہئے۔ اُس نے اپنی بہترین تصویروں کو دیکھا، ان میں موجود نمایاں رنگوں پر غور کیااور ایک رنگ میں ڈوب گیا۔ کئی دن اُس کے ساتھ تخیل کے لچکیلے برش سے اندر باہر خط کھینچتا رہا۔ غیر مرئی پنجرہ بنا کر خود کو اُس میں قید کر لیااور ایک دن اپنے کو آزاد کر کے بازار سے نیا ڈَبا خرید لایا۔ اُس نے رنگ تیار کیا اور دوپہر سے شام تک پسینہ پسینہ ہوتا رہا۔

افسوس کہ اِس بار بھی وہی ہوا اور اُسے سمجھ نہیں آئی کہ غلطی کہاں ہوئی ہے؟ سوال اُٹھا کہ ہاتھ میں لرزش ہے، برش کے تاروں کے کنارے ٹیڑھے ہیں یا رنگ کے انتخاب میں خطا کی؟ اُس نے اپنی کن پٹیوں پر انگوٹھوں سے دباؤ ڈالتے ہوئے جواب دیا کہ تینوں باتیں ایک وقت میں ایک ساتھ غلط نہیں ہو سکتیں لیکن سوال بدستور جواب طلب رہا کہ کیوں تیسری دفعہ بھی تین دن بعد پلنگ پر بیٹھ کر دیوار کو دیکھنا مشکل ہو گیا ہے؟ کہیں میرے دماغ میں کچھ اپنی جگہ سے ہل تو نہیں گیا جو مَیں صحیح فیصلہ نہیں کر پارہا؟ سوچ کی برق کوندی کہ ایک شے ایک دور میں اچھی ہوتی ہے مگر دوسرے زمانے میں بُری قرار پاتی ہے اور میں وقت کی ضرورت نہیں جان سکاجبھی بظاہر بے چینی حصے میں آئی۔ وہ اور بھی کئی سوال خود سے پوچھتا رہا اور جواب دیتا رہا لیکن تسلی بخش جواز ایک نہ ڈھونڈ سکا ۔

چوتھی دفعہ اسے گھر سے نکلنے میں کافی وقت لگا اور وہ اپنے تئیں بہت غور و فکر کے بعد بازار گیا۔ پہلے سے زیادہ بڑی دُکان سے انتہائی قیمتی رنگ خرید لایا جس کی قیمت چکانا اس کے لیے مشکل بھی تھا ۔ اِس بار تبدیلی یہ آئی کہ اُس نے دیوانوں کی طرح جٹ جانے کے بجائے ٹھنڈے پانی سے نہا دھو کر دیوار کا اچھی طرح جائزہ لیاجس پر مختلف رنگوں کے پے در پے استعمال سے ایک نیا رنگ نمودار ہو چکا تھا جو بے رنگ تھا لیکن وہ نئے منظر میں کچھ نیا ڈھونڈ نہ سکا اور پوری دلجمعی سے پُرانا عمل دہرانے لگا۔ جب کام ختم کر چکا تو کنکھیوں سے بڑے کینوس کو دیکھا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ نیا منظر جو پرانا ہو چکا تھا، ایک اور الجھاوے کے ساتھ اُس کا منہ چڑا رہا تھا ۔ اُس نے دماغ میں جاری جوڑ توڑ روکنے کی بہتیری کوشش کی لیکن آخر ہار کر اُس نے برش دیوار پر دے مارا اور پلنگ پر منہ پھیر کر لیٹ گیا۔ کب نیند آئی ، اُسے پتا بھی نہ چلا۔

صبح اٹھا تو دیوار پر پونچھا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اُس نے زمین پر زخمی پڑا برش پکڑا اور اِس کے کھردرے ، مڑے تڑے ، گھسے ہوئے بال کچھ دیر تکتا رہا۔ پھر اِسی شکستہ برش کو مختلف رنگوں کے ڈبوں میں ڈبو ڈبو کر دیوار پر آڑھا ترچھا پھیرنے لگا، کبھی چھینٹے اُڑاتا اور کبھی زور زور سے ضربیں لگاتا۔ اُس نے کئی دن یہ عمل وقفے وقفے سے جاری رکھا اورجب اُسے محسوس ہواکہ دیوار پر غبار مزید نہیں نکال سکتا تو گھر سے آوارہ گردی کے لیے نکل پڑا۔

بستی بستی خاک چھان کر لوٹا تو دیوار دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمک اُٹھیں کہ اُس کے لیے پرانے منظر میں نیا چہرہ نمودار ہو چکا تھا۔ اُس نے ایک اَنجانی مسرت کے ساتھ پلنگ پر لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں کہ اَن دیکھے جہاں میں پہنچ جائے لیکن خیال کی وادی میں دیکھے مناظر اُمڈ آئے اور اُسے صحراؤں کے بیچوں بیچ نخلستان، سمندروں میں سانس لیتی مخلوقات، پہاڑوں کے غار اور آبی ڈھلوانیں، سبزے سے ڈھکی چٹانیں، ہری اور پیلی کھیتیاں، نگر نگر میں بھانت بھانت کی بولیاں، کچے پکے مکان، کنکریٹ کے منتظراونچے نیچے راستے، فضا میں اُڑتے جہاز، نظر کی پکڑ میں نہ آنے والی ریل کی پٹڑیاں اور ٹیڑھی میڑھی سڑکیں ، اِن پر دوڑتی ، رعب جماتی ، چمچماتی گاڑیاں، مال بردار ٹرک اور ٹرالے اور زندگی کا بوجھ ڈھوتے چھکڑے یاد آئے۔ اُس نے لاشعور کی رو میں سر اٹھا کر نیلا آسمان دیکھا جسے وہ آوارہ گردی کے دوران میں رات بھر تکتا تھا کہ اس پر چاند اور ستارے چمکتے تھے۔ کبھی کالی گھٹائیں چھا جاتی تھیں اور کبھی صاف شفاف پسِ منظر میں طرح طرح کے پرندوں کی اڑان دلکش پیش منظر بن جاتی تھی۔نیلی چھتری کے سائے میں مختلف اشکال بناتے، ہلکورے کھاتے، پانی کے غبارے لبھاتے تھے لیکن یک رنگ آسمان پر سورج پوری آب و تاب سے اپنا بیش بہا تحفہ بانٹتے ہوئے دیکھا نہیں جاتا تھا اور اُسے یاد آیا کہ جب ہر طرف سیاہ چادر تن جاتی تھی تو اُس کا جی گھبراتا تھا ۔

وہ ایک نئے عزم کے ساتھ بازار میں دُکان دکان پھر رہا تھا اور رنگ اکٹھے کر رہا تھا۔ اُس نے چھوٹے بڑے برش بھی خریدے اور واپس آکر پوری دیوار پر سفیدی پھیرنے کا آغاز کیا۔ اُسے کئی لیپ کرنے پڑے تب جا کر پچھلے نشان چھپے ، دیوار گوری گوری نظر آنے لگی اور وہ جوش سے بھر گیا۔ اُس نے برش ہاتھ میں پکڑے رنگوں کے ڈبوں کو دیر تک دیکھا جیسے چناؤ کر رہا ہو۔ پھر ایک ڈبے میں ڈبو کر دیوار کے ٹھیک درمیان میں دائرہ بنا دیا جس کی گولائی سنوارنے میں بنانے سے بھی زیادہ محنت کی۔ دائرے کے ساتھ دوسرے رنگ سے ایک چوکور خانہ بنایا جس کے چاروں ضلعے مقدار میں برابر اور زاویے قائمہ رکھے اور اِس مربع کے گرد چار متوازی خطوط کھینچ دیے۔ یہ عمل ختم ہوا تو وہ دائرے اور خانے کو سر پر دایاں ہاتھ رکھے بغور دیکھتا رہا۔ تسلی ہونے پر اُس نے کسی اور رنگ سے چوکور کے کناروں کے ساتھ کنارے جوڑ کر برابر حجم کا مربع بنایا ، خطوط بھی کھینچے اور اِسی طرح رنگ بدل بدل کر ایک دوسرے کے ساتھ مِلا مِلا کر ایک سی لمبائی ،چوڑائی کے خانے بناتا رہا ، روغنی خطوط کھینچتا رہا، ٹھہر ٹھہر کر دیکھتا رہا ۔ جب وہ چھت کے قریب پہنچا تو اُس نے قدرے بڑے خانے نچلوں سے یوں جوڑ کے بنائے کہ بڑوں کی چھوٹوں کے بغیر موجودگی بے معنی معلوم دیتی تھی اور چھوٹوں کا بڑوں کے بغیر حسن ماند پڑتا تھا۔ اس کے بعد وہ دیوار کے نچلے نصف پر خانے بناتا رہا اور جب فرش کے قریب پہنچا تو مربع جات ایک دوسرے سے یوں جوڑے کہ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود برا معلوم دے۔ پھر اس نے ژرف نگاہی سے دیوار دیکھی، اطمینان سے پلنگ پر لیٹا اور چند لمحوں بعد کمرے میں خراٹے بے سرا الاپ دے رہے تھے۔

اسے حیرانی ہوئی کہ اِس مرتبہ اسے تیسرے ہی دن اکتاہٹ کا دورہ کیوں نہیں پڑا ؟ لیکن وہ ہر رات سونے سے پہلے ایک دائرے اور چھوٹے بڑے رنگ برنگے خانوں سے سجی دیوار کو دیکھتا رہا اور خوش ہوتا رہا۔ یہ فرحت بخش احساس مہینوں اُس کے ساتھ رہا لیکن ایک دن دوبارہ اُس کی انگلیوں میں بے چینی ہونے لگی تو اُس نے برش پکڑا اور دیوار کے سامنے کھڑا سوچتا رہا ۔۔۔ دیر تک سوچتا رہا۔ تھک گیا تو پلنگ پر آ بیٹھا لیکن زیادہ دیر ٹِک نہ سکا کہ اُس کی بڑی سی کھوپڑی کی چھوٹی سی کھڑکی پر خیال نے دستک دی اور اُس نے ایک چھوٹا برش لے کر خانوں میں خوب صورت بیل بوٹے اِس اہتمام کے ساتھ بنانے شروع کیے کہ تمام کی خوش نمائی ایک سی ہو۔ اِس عمل میں اُس کے کئی دن صَرف ہوئے تب جا کرجاذبِ نظر نَقاشی مکمل ہوئی لیکن جب اس نے پوری دیوار کو تنقیدی نظر سے دیکھا تو اُسے کچھ کمی محسوس ہوئی اور اُس نے چند خانوں میں گُلکاری بڑھا دی ۔ اب صرف دائرہ یک رنگ تھا ،اِس میں کوئی بیل تھی نہ بوٹا تھا اور یہی بات اسے پریشان کر رہی تھی کہ کیا کرے؟ کبھی خیال آتا کہ اِسے یونہی خالی رہنے دے اور کبھی صدا پڑتی کہ اس میں ایک پیڑ بنائے جس کی شاخیں پھلوں سے جھکی ہوئی ہوں اور ڈالیوں پر طرح طرح کے مہکتے پھول بھی ہوں لیکن وہ جھجکتا رہا اور ڈرتا بھی رہا کہ کہیں کُل محنت چھوٹی سی غلطی سے رائیگاں نہ چلی جائے۔ کئی روز اسی مخمصے میں گزر گئے تو ایک رات اسے نیند میں کیا دکھائی دیا کہ یک رنگ دائرے میں کئی مدور رونما ہوچکے ہیں اور جب بیدار ہوا تو وہ حیران ہو گیا۔ اُس نے آنکھیں مَلتے ہوئے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہو کر مختلف زاویوں سے جائزہ لیا تو اطمینان اور خوشی کی لہر اندر باہر دوڑ گئی اور اُس نے برش اور رنگ سنبھال کر رکھ دیے۔ اُس نے خود کو یقین دلادیا کہ اب اِن کی مزید ضرورت نہیں، فن پارہ تخلیق ہو چکا ہے جس میں تنظیم ایسی ہے کہ ہر خانہ دوسرے سے اِس طرح جڑا ہے جیسے ایک بدن کے اعضا، رنگوں کا امتزاج کہ قوس قزح کا شائبہ ہوتا ہے اور توازن یوں ہے کہ ایک نکتہ اور ایک چھوٹی سی لکیر بھی سارا حسن غارت کر سکتی ہے۔

اُس دن کو بیتے اک مدت ہوچکی ہے ، برش اور رنگ الماری میں پڑے ہیں مگر وہ ،جس کے کئی نام ہیں، انہیں کبھی کبھی اچھی طرح دیکھ لیتا ہے کہ کہیں خراب نہ ہو جائیں گو وہ خود کو تسلی دیتا رہتا ہے کہ ضرورت نہیں پڑے گی۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031