بے وقت کی راگنی ۔۔۔ آدم شیر

بے وقت کی راگنی

ّ آدم شیر ٗ
اس کے سر میں اکثر درد رہتا تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا اور گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں اس کے ہم عمر اپنی ماﺅں کی ڈانٹ ڈپٹ کے زور پر گھروں میں دبکے ہوتے تھے،وہ گلیوں میں پھرا کرتا تھا،یہ درد تب بھی اس کا ساتھی تھا۔ اب خیر سے وہ بڑا ہو گیا تھا لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ اسے بڈھا بابا کہا جائے۔ عمر پچیس سے تیس کے درمیان ہو گی لیکن دماغی طور پر وہ بابا ہی تھا۔ عمر کے حساب سے کچھ ایسا ویسا نہیں کرتا تھا۔ وہ بس کام پر جاتا اور واپس آ کر سو جاتا،یہی اس کی زندگی تھی۔ اس میں کہیں جوانی کا انگارہ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کرائے کے کمرے میں ہی فرصت کے لمحات کاٹتا حالانکہ اس کے زیادہ تر ہم کار کسی نہ کسی لڑکی کے چکر میں گھن چکر بنے ہوئے تھے، لیکن وہ کمرے میں کچھ اس طرح گھس بس گیا تھا کہ کمرہ اس کا حجرہ معلوم دیتا اور وہ حجرہ نشیں …. لیکن زمانہ اس سے پرے پرے بدل چکا تھا اور وہ زمانے کی رفتار کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا تھا۔ وہ خاص شرمیلا تھا نہ بھونچو لیکن شکاری بھی نہ تھا۔ اس کے جال میں کوئی مچھلی پھنسی نہیں تھی یا شاید اس نے جال صحیح طرح پھیلانے کی کوشش نہ کی تھی۔

وہ اکیلا تھا یا اکلاپا ایسے ہی اس کے رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا۔ احساسِ تنہائی ایسے ہی اس کے ساتھ تھا جیسے سانس …. لیکن سانس تو چلتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے۔ اکلاپا بھی سانس روک دیتا ہے اور سانس رکنے سے پہلے گھٹن ہونے لگتی ہے۔ جسے یہ مرض لاحق ہو، اس سے بچنا چاہیے کیونکہ مادی ترقی کا راز یہی ہے۔ اس کو بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا گو اس کی وجہ تنہائی نہ تھی بلکہ مالی حالت تھی جو ہمیشہ سے پتلی تھی جسے اس نے دس پندرہ لگاتار سدھارنے کی کوشش کی۔پھر تھک گیا بلکہ قدرت پر ایمان لے آیا۔ اب وہ جس حال میں تھا، راضی تھا۔ وہ چاہتا تھا زندگی میں کچھ تو نیا ہو۔ کبھی تو یہ ذلالت ختم ہو۔ وہ پتا نہیں کیوں اپنی زندگی کو ذلالت سمجھتا تھا۔ وہ کمرے میں اکیلا بیٹھا خود کلامی کرتا کہ تبدیلی نہیں آنی تو پھر خاتمہ ہونا چاہئے لیکن تبدیلی آتی تھی نہ ذلالت ختم ہوتی تھی۔ بس اسی گھسی پٹی ڈگر پر زندگی گھسٹ رہی تھی لیکن کب تک ….؟ ہر رات وہ یہی سوچتا اور سوچتے سوچتے تھک جاتا لیکن نیند نہ آتی۔ پھر وہ اٹھ کر حجرے سے باہر نکل جاتا اور اندھیری گلیوں میں چلتا رہتا۔ کہیں کہیں میونسپلٹی کا لگایا ہوا قمقمہ روشن نظر آتا تو اسے کچھ تسلی ہوتی۔ وہ تنگ اور آڑی ترچھی گلیوں میں بے مقصد گھومتے گھومتے تھک جاتا تو گھر آ کر دھڑام سے چارپائی پر گر جاتا اور آنکھیں بند کر لیتا۔

اسے ایک نوجوان سائیکل چلاتا نظر آتا جس کا کیرئیر لکڑی کی پیٹی نے چھپایا ہوتا اور اس پیٹی میں میٹھی گولیوں، چیونگم اور لالی پاپ کے پیکٹ ہوتے۔ ان کے اوپر سستے بسکٹ کے وہ ڈبے ہوتے جن میں دکاندار کے لئے زیادہ منافع رکھا جاتا ہے اور ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو جلد بو آنے لگتی ہے۔ وہ کبھی بند روڈ کے پار بسے کسی گاؤں کی دکان پر بھاؤ تاؤ کرتا دکھائی دیتا اور کبھی اکبری منڈی میں کسی تاجر سے ٹافی کا پیکٹ پچاس پیسے سستا کرنے کے لئے الجھتا نظر آتا۔ وہی لڑکا شام کے وقت ادھیڑ عمر عورت کو سکے اور نوٹ الگ کرنے کے لئے دیتا اور دو سو تو کبھی ڈیڑھ سو روپے اسی عورت کی مٹھی میں دبا دیتا جس کی آنکھیں تشکر ملی خوشی سے پیلی روشنی پھینکنے والے سو واٹ کے بلب کی طرح چمک اٹھتیں۔

یہ لڑکا سر درد کی طرح پرانا ساتھی تھا جو اس کے خوابوں میں مختلف روپ بھر بھر کر آتا۔ ایک وقت تھا وہ دوسروں کی کتابیں جلد کرتا نظر آتا اور کبھی اسے ٹھٹھرتی راتوں میں اپنی کتاب پر جھکا ملتا اور کبھی پلاسٹک کے سوئچ بنانے والے چھوٹے سے کارخانے میں مولڈنگ مشین پر پسینے میں شرابور نظر آتا۔ پھر یہی لڑکا اسے ایک چھوٹے سے دفتر میں چپڑاسی کے روپ میں ملا کرتا جو چائے کے کپ دھو دھو کر پریشان رہتا کہ کب اس پر لگے غربت کے داغ دھلیں گے جنہیں صاف کرنے کے لئے اس نے خود کو اندر سے مزید داغی کر لیا۔ وہ دن کو میزیں صاف کرنے کے ساتھ رات کو ردی کاغذ سے بنے رجسٹر کالے کرتا رہتا۔ اس نے اتنے رجسٹر کالے کئے اور کتابیں آنکھوں کے راستے ٹھونس ٹھونس کر اپنے اندر جمع کر لیں کہ بلاشبہ اپنے محلے کا ہی کیا دفتر کا بھی سب سے پڑھا لکھا شخص بن گیا گو محلے میں کسی کو پتا چلا نہ دفتر والے ہی جان پائے اور داغ وہیں کا وہیں رہا جیسے تنہائی تھی حالانکہ اب وہ گاؤں میں رہنے والے بہن بھائیوں اور بوڑھی ماں کے لئے کافی کما لیتا تھا۔

تنہائی کا احساس اس میں سرطان کی طرح پھیلا ہوا تھا اور اس مرض کا شروع میں علاج ہو جائے تو ٹھیک ورنہ بھری محفل میں بھی اکلاپا کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ چاہے کوئی چاند سے مکھڑے والی رقاصہ ہاتھ تھامے کتنی دیر ہی کیوں نہ ناچتی رہے۔چھوٹی چھوٹی خواہشیں صحیح وقت پر پوری نہ ہوں تو ناسور بن جاتی ہیں گو اس نے بہتیری کوششیں کیں اور اپنی اکثر خواہشیں پوری کر لیں لیکن صحیح وقت گزر چکا تھا۔ وہ بنیادی ضروریات خریدنے کے قابل ہو چکا تھا مگر کبھی کبھی تنگی ہو جاتی۔ اگر وہ آسودہ نہیں تھا تو فاقہ کش بھی نہیں رہا تھا لیکن مایوسی کا جان لیوا احساس جان نہیں چھوڑتا تھا۔ اسے یہی فکر رہتی کہ وہ کیا کرے جو اسے فتح مندی کے احساس سے مخمور کر دے۔ وہ کچھ ایسا کرنا چاہتا جو گدھے کی طرح چارہ کمانے سے کچھ ہٹ کر ہو اور اسے اطمینان ملے کہ اس نے واقعی میں کچھ کیا ہے ورنہ پیٹ پوجا تو حیوان بھی بہت اچھے طریقے سے کرنا جانتے ہیں۔ یہ صرف اس کا مسئلہ نہ تھا بلکہ اس کے اکثر ہم عمر اسی بیماری کا شکار تھے۔ کچھ نوجوان تھے جو اس پریشانی سے آزاد تھے کیونکہ ان کو پہلے ہی بتا دیا جاتا کہ کیا کرنا چاہیے اور ایسا کرنے کے لئے موقع بھی دیا جاتا مگر اس جیسوں کو یہی پتا نہ چلتا اور جن کو پتا چل جاتا، ان کو موقع نہ ملتا۔ اس کے پاس جب وقت تھا، تب اسے علم نہیں تھا اور جب پتا چلا تو وقت نہیں تھا مگراس نے پھر بھی محنت کی لیکن مسئلہ وقت کا تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ مزدور سارا دن پسینہ بہاتا ہے اور بمشکل راشن پورا کر پاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کلینک آتے ہیں،بیٹھتے ہیں، اٹھتے ہیں، چلے جاتے ہیں اور جیب بھری ہوتی ہے۔ کبھی اسے لگتا کہ فرق صرف محنت کرنے کے وقت کا ہے اور کبھی اسے صرف موقع ہی محسوس ہوتا جو سب کچھ بدل دیتا ہے۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ ہر ہم کار سے یہی کہتا۔

’’یہاں وہی ترقی کرتا ہے، جسے موقع ملے۔‘‘

موقع کا لفظ وہ اتنی بار دہرا چکا تھا کہ ہم کاروں کے کان پک گئے۔ اصل میں دفتری ساتھیوں کو اس کے لفظ موقع کا مفہوم بھی تو واضح طور پر معلوم نہ تھا۔ اکثر کے خیال میں موقع یہ تھا کہ وہ دفتر بیٹھے کام کر رہے ہیں اور ساتھ والی کرسی پر بیٹھا شخص اٹھ کر باہر گیا ہے لیکن اپنا موبائل فون میز پر ہی بھول گیا ہے تو آپ آنکھ بچا کر فون اٹھا لیں اور اس میں سے سم نکال کر ٹوکری میں پھینک کر فون چھپا لیں۔پھر دوسرے دن بازار جا کر بیچ دیں تو یہ موقع تھا جس سے فائدہ اٹھا لیا گیا۔

قصور اس کے ہم کاروں کا نہ تھا کیونکہ وہ موقع موقع کی رٹ لگائے رکھتا لیکن کبھی اس کی وضاحت نہیں کی۔ اس کا ایک دوست سمجھتا کہ اگر کوئی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا تو اسے کسی مہ جبیں سے یاری گانٹھنے کا موقع نہیں ملا۔دوسرا دوست کہتا کہ وہ سرکاری ملازم نہیں تو اسے رشوت لینے کا موقع نہیں ملا ورنہ وہ کم مال نہ بناتا۔ تیسرے کے خیال میں وہ ایوان اقتدار میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں تو اس لئے شریف اور محب وطن ہے ورنہ بڑے جھنڈے گاڑتا لیکن اس کے نزدیک موقع یہ نہیں تھا۔ موقع تو ایک اور تحفہ ہے، جو کم لوگوں کو ملتا ہے۔ کبھی اسے لگتا کہ زندگی میں ہر کسی کو ایک بار موقع ضرور ملتا ہے،جس نے استعمال کیا، اس کے پو بارہ،نہیں تو تینوں کانے نکلتے ہیں۔ اس کے خوابوں میں ایک سائیکل سوار آتا اور ہر بار اسے ایک ہی بات بتاتا۔

’’موقع ایک فرشتہ ہے جو ہر شخص کے دروازے پر ایک بار دستک دیتا ہے، جس نے دروازہ کھول دیا، وہ امر ہو گیا۔‘‘

وہ اپنے اس خواب سے بڑا تنگ تھا کیونکہ یہ اسے خوش فہمی میں مبتلا کر دیتا تھا۔ اسے لگتا کہ خدا اس سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے اور وہ ضرور اپنی زندگی میں کچھ ایسا کر جائے گا جو پیٹ بھرنے کے سوا معنی رکھتا ہو۔ وہ کچھ ایسا کرنے کی باتیں کرتا جو سند رہے کہ اس کی زندگی ضائع نہیں ہوئی۔ ایسی باتیں سن کر ہم کار اسے تھوڑا سا کھسکا ہوا سمجھتے اور وہ بھی ان کے متعلق کچھ ایسے ہی خیالات دماغ میں اچھلتے کودتے پاتا۔ پھر بھی موقع کا ذکر کئے بغیر نہ رہتا اور ایک بار اسے بتانا پڑ ہی گیا کہ یہ موقع ہے کیا بلا؟

’’ایک لڑکا تھا۔ اس نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایف ایس سی کی۔ اس کے باپ نے اسے گاڑی کی چابی دی۔ اس کے ہاتھ میں موٹی رقم تھمائی اور کہا کہ تم دل لگا کر پڑھو ا ور بس پڑھو۔ تین سال تک کسی لڑکی کی طرف نہ دیکھنا۔ پھر دیکھنا کتنی لڑکیاں تمہارے پیچھے آتی ہیں۔ یہی موقع ہے۔ ‘‘

وہ اتنا کہہ کر چپ ہو گیا۔ اس کے دوستوں کو موقع کے معنی سے نہیں بلکہ لڑکے کی کہانی سے زیادہ دلچسپی تھی۔انہوں نے فٹ پوچھا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

اس کا دل چاہا جیب سے قلم نکال کر ان کے کانوں میں گھسیڑ دے لیکن اس نے ایسا کیا نہیں۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا اور دوست انتظار کرتے رہے جیسے کسی زمانے میں سردیوں میں بوڑھی اماں کے بولنے کا انتظار لحاف لیے چھوٹے چھوٹے بچے کیا کرتے تھے۔ بوڑھی اماں بھی توقف سے بولا کرتی تھیں اور بچے ہوں….ہاں….پھر…. کہا کرتے تھے۔ وہ بوڑھی اماں کی طرح بولا۔

’’ کبھی ہم صحیح وقت پر محنت نہیں کرتے اور کبھی ہمیں موقع نہیں ملتا جس کے نتیجے میں رائج الوقت نظام کے تحت کلرک ہی بن پاتے ہیں اور ساری عمر دال روٹی کے چکر میں گزار دیتے ہیں جبکہ زندگی اس سے پرے ایک شاندار سفر ہے لیکن اس لڑکے نے بیس اکیس سال کی عمر میں برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے دو تین پیشہ ورانہ ڈگریاں لے لیں۔ پھر اسی یونیورسٹی نے اسے سال بعد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی سند دے دی۔ وہ پچیس سال کا بھی نہیں ہوا اور لاکھوں روپے ماہانہ کماتا ہے۔ اس کے پیچھے کئی لڑکیاں بھی آتی ہیں اور وہ کئی ایسے اچھے کام بھی کر لیتا ہے جو ہم چاہتے ہوئے بھی نہیں کر پاتے کیونکہ وہ حیوانوں کی بنیادی فکر سے نجات پا چکا ہے۔ بس یہی موقع ہے۔ وہ جو کرنا چاہتا تھا،اس کے باپ نے کرنے کے لئے پورا پورا موقع دیا۔‘‘وہ چپ ہوا تو ایک دوست نے شرارت سے پوچھ لیا۔

’’تمہارے باپ نے تمہیں موقع کیوں نہیں دیا؟‘‘

’’اس نے بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کر لی تھی۔‘‘ وہ اٹھا اور سر جھکا کر چلا گیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031