نئی کونپل ۔۔۔ انور سجاد

نئی کونپل

(ڈاکٹر انور سجاد)

کنواریوں، بہو رانیوں، ماوں کے سروں میں راکھ ڈال کر ان کے سروں کو چادروں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔

کنواریاں، بہو رانیاں، بستی کے چوراھے میں جلے بودھی کے درخت کے ٹھنٹھ کے گرد بیٹھی، سروں میں پڑی راکھ کو چادروں میں سمیٹے اپنی اُن نوحہ کرتی ماوں کے آنسو خشک کرتی ہیں جن کے نوجوان بیٹوں کو چوراہوں پر چھتر چھاں کئے بودھی کے درخت کے تنے کے ساتھ باندھ کر کوڑے مارے گئے ہیں۔ اُن کے ، بودھی کے تنے ایسے، تنومند جسموں پر برستے کوڑوں سے کُھدتے راجباہوں سے سرخ سرخ دھڑکتی زندگی قطرہ قطرہ ٹپک کر زمین میں پھیلی بودھی درخت کی جڑوں میں جذب ہو گئی ہے کہ ماوں کے ان بیٹوں نے، بہو رانیوں کے ان شوہروں نے، کنواریوں کے ان بھایئوں نے ان گِدھوں کے پنجوں سے بستی کی زندگی چھڑانا چاہی ہے۔ ان گِدھوں سے نکلتی تیز دھار، سرد آہنی سنگینوں پر چڑھا اپنا ھق چھیننا چاہا ہے۔ جن کی غذا مُردار ہے لیکن کھانے کی ہوس اتنی شدید ہے کہ زندہ بھی انہیں مردہ نظر آتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ہر غلام کا نام سپارٹے کس ہے جو بودھی درخت سے بغل گیر ہو کر اپنے جسم پر کوڑوں سے راجباہ کھدواتا ہے تاکہ سرخ سرخ ، دھڑکتی زندگی، قطرہ قطرہ، بودھی درخت کی زمین میں پھیلی جڑوں کو سیراب کرے اور بچے جب اسکی شاخوں سے لٹکتی داڑھیوں میں گرہیں دے کر ان میں جھولیں تو ان کے کانوں میں سرخ سرخ تازہ زندگی سنسنائے، سرسراتی ہوا ان کے کانوں کو زندگی کرنے کے راز سے آگاہ کرے۔

تو، بودھی درخت اب راکھ ہو کر خاک ہو چکا ہے جس کی داڑھی میں گرہیں دے کر بچے زمانوں سے جھولتے آئے تھے اور جس کی شاخوں میں سرخ سرخ لہو ایسے پھول دھڑکتے تھے۔ بستی کے چوراہے میں جلے ہوئے بودھی درخت کا ٹھنٹھ، اٹوٹ خاموشی اور ہوا کہ جہاں سے گذرتی ہے۔ اس کے ہونٹون پر چپ کی مُہر ثبت کر دی جاتی ہے۔ حتی کہ اس بستی کے بیشتر، جلے ادھ جلے گھروں کی دیواروں، سوختہ، نیم سوختہ کھڑکیوں دروازوں سے تو کیا جب صحیح سالم مکانوں کی کھڑکیوں دروازوں سے بھی گزرتی ہے تو چپ۔ اٹوٹ خاموشی۔ کنواریاں، بہو رانیاں، راکھ سے اَٹے سروں پر چادریں سنبھالتی بین کرتی ماوں کے آنسو خشک کر کے اب انہیں گھروں میں لے آئی ہیں، جن کی چاردیواریوں سے باہر تحفظ کے لئے پہرہ لگا دیا جاتا ہے۔

ماوں کے نوحوں پر بھی چُپ کی مُہر ہے

صرف خاموشی ہے اور ہوا، جس پر پڑے تالوں کو تجسس سے کانپتی مونچھوں اور حیرت سے تکتی آنکھوں والی گلہریوں کے نرم گدـے دار، بھاگتے پیر بھی توڑنے سے قاصر ہیں۔

یہ بستی اب ان بستیوں میں سے ہے جہاں خاموشی ہو تو بولے ہوئے لفظ کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ وہ بولا ہوا لفظ، جو ہر منہ میں زبان بن جاتا ہے۔ جو سپارٹے کس کو خطرناک باغی بنا دیتا ہے تو آقا ان کے تنو مند جسموں کو بودھی کے تنوں کے ساتھ باندھ کر کوڑوں سے ان پر راجباہ کھدودتے ہیں۔ جسم جو پھر مجسم زبانوں کا روپ ڈھال لیتے ہیں، انہیں کال کوٹھریوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جب یوں ہوتا ہے کہ وہ اَن دیکھا، اَن سنا، اَن چھوا جذبہ لفظوں کے اختیار سے نکل جاتا ہے تو ان خلاوں کو خلق کرتا ہے جو ایسی ہی حقیقت ہوتے ہیں، جسے دیکھا جا سکتا ہے، سنا جا سکتا ہے، چھوا جا سکتا ہے۔ تب وہ باپ، بھائی، بیٹے، شوہر جنہوں نے اپنی زبانوں کو اپنے منہ کی قید میں ڈال رکھا تھا، جن کے جسم  برستے کوڑوں کے تصور ہی سے لرز لرز اٹھتے تھے، جن کے سر نیوڑھا کر، جن کی آنکھوں کو چھکا کر ان کے بوں، ان کی محبتوں، ان کی زندگی کرنے کی خواہشوں کو ان کی رانوں کے بیچ خصـی کر کے ہلوں میں جوت دیا گیا تھا، اس خلا کی حقیقت کو اپنی آنکھوں، اپنے کانوں، اپنے جسموں، اپنی زبانوں میں سر اٹھاتا محسوس کرتے ہیں کہ مایئں اپنی گودیں ان پر وا کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔۔  بہنیں، بیٹیاں اپنے خواب اپنے اوپر حرام کر لیتی ہیں اور بیویاں بستروں پر پھیلے اپنے بدن سمیٹ لیتی ہیں۔ چُلہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ ان پر چڑھانے کے لئے بھوک، ننگ، حسرت و یاس، امید و بیم کے سوا کچھ نہیں، صرف ہوا ہے یا اٹوٹ خاموشی۔

اتنی خاموشی کہ ساری کائنات کا جسس لئے، چوراہے سے ہٹ کر رُوڑی کے گرد کھیلتے بچوں کا شور، چیخ چہاڑا، کھکھلاہٹیں بھی سنائی نہیں دیتیں۔ وہ رُوڑی میں قلعے بناتے ہیں، ڈھاتے ہیں، پھر بناتے ہیں۔ ان قلعوں میں خزانوں کی تلاش کرتے ہیں کیونکہ بودھی درخت کی شاخین، سرخ سرخ پھول، اسکی داڑھیوں کے جھولے تو سب راکھ ہو کر خاک ہو چکے ہیں، صرف ٹھنٹھ باقی رہ گیا ہے جو انہیں اپنے چمکیلے پتوں، سرخ سرخ پھولوں ایسے روشن جزیروں کی کہانیاں نہیں سنا سکتا۔

خاموشی، اٹوٹ خاموشی

یا پھر ہوا ہے کہ جس کے اپنے لبوں پر تالے پڑے ہین کہ ابھی کنواریاں، بہو رانیاں، اپنے سروں سے چادریں نوچ پھینک کر، چاردیواری کے حصار توڑ کر مستقبل کو جنم دینے کی خواہش میں باہر نہیں نکلتیں۔ ابھی بستی کے جوانوں کا بودھی کی جڑوں میں ٹپکتا ہوا لہو ان کی کوکھوں میں نوحہ کناں ہے، تڑپ بن کر لہروں کی صورت میں ان کے بطن میں نہیں جاگا کہ مایئں ابھی چاردیواریوں میں محصور آیت ِ کریمہ کا ختم پڑھتی ہیں اور آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا کر رب العزت سے سوال کرتی ہیں، ان کا یہ کشٹ کب کٹے گا َ ؟ بودھی درخت کی شاخوں سے لٹکتی سرخ روشن قندیلیں بجھا دی گئی ہیں، اب روشنی کہاں سے آئے گی۔

پھر ایک زمانے کے بعد کنواریاں، بہو رانیاں روز روز کی اس آہ و بکا سے اکتا جاتی ہین جس کا کوئی ثمر نہیں اترتا۔ آسمان سے نہ زمین سے، ان کی اکتاہٹیں، بے چینیوں میں اور بے چینیاں ہیجانوں میں بدل جاتی ہیں۔ ان کی رانوں کے اندرون تنے ہوئے تار جھنجھنا جاتے ہیں، دودھ کے سوتے جگانے کے اہتمام میں ان کی چھاتیاں گُڑھکنے لگتی ہیں اور تاریک کال کوٹھڑیوں ایسی کوکھوں میں نئے سورج کو جنم دینے کی خواہش جوالا بن جاتی ہیں۔ وہ باہر کو لپکتی ہیں، مایئں کہتی ہیں۔

—- بیٹیو، بہو رانیو، سب بے سود ہے، چوراہے کی روشنی تو انہوں نے راکھ کر دی۔

کنواریاں بہو رانیاں، ماوں کی سُنی، ان سنی کر دیتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ جس بودھی کے درخت کو جلا دیا گیا ہے، جس کے تنے کے ساتھ تنو مند جوانوں کو باندھ کر ان کے جسموں پر کوڑے برسا کے راجباہ کھودے گئے ہیں، ان راجباہوں سے سرخ سرخ ، دھڑکتی زندگی، قطرہ قطرہ، قطرہ قطرہ ٹپک کر بودھی کی جڑوں میں جذب ہو چکی ہے اور اب ایک زمانے کے بعد اس جلے ہوئے ٹھنٹھ کی نیو سے سرخ سرخ، کومل کومل، ننھی منی کونپل پھوٹ نکلی ہے اور مایئں جو اپنے زمانوں میں اپنے سورجوں کو جنم دے چکی ہیں، ان کے بطن سے اٹھتی، درد کی لہروں کے عذاب کو نہیں جان سکتیں۔

 کنواریاں  بہو رانیاں اپنے سروں سے چادروں کو نوچ پھینک کر ، چادیواری کے حصار کو توڑ کر نئے سورج کو جنم دینے کی خواہش  میں اینٹھتی تڑپتی کوکھوں کے درد کو ہاتھوں سے سنبھالتی باہر نکل آتی ہیں۔ ان کے سیلاب کے سامنے  پہرے دار، گدھ، سنگینیں، آنسو گیس، گولیاں، فیتے، تمغے، سب خس و خاشاک  ہو جاتے ہیں۔ ہلوں میں جُتے، خصی شوہروں کی زبانوں، ان کے جسموں سے ان خلاوں کی حقیقتیں آزاد  ہو جاتی ہیں جو لفظوں کے اختیار سے باہر، اَن چھوئے، اَن دیکھے، ان سنے جذبے خلق کرتی ہیں کہ وہ اپنی ماوں کی گود وا ہونے کے لئے ترستے ہیں، بہنوں بیٹیوں کے خواب ان کی حُرمت ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کی بیویوں کے بدن ان کے بستروں پر کسی اور کے لئے پھیل جایئں۔

یہ سیلاب کٹتا کاٹتا، اٹھتا گرتا گراتا، اُس اور رواں دواں ہے جہاں مجسم زبانوں کو زنجیریں پہنا کر کال کوٹھریوں میں پھینک دیا گیا ہے۔

تو دیکھو، جب کنواریوں، بہو رانیوں کی رانوں کے اندروں تنے ہوئے تار جھنجھنا جاتے ہیں، دودھ کے سوتے جگانے کے اہتمام میں چھاتیاں گڑھکنے لگتی ہیں اور تاریک کال کوٹھریوں ایسی کوکھوں میں نئے سورج کو جنم دینے کی خواہش اینٹھتی، تڑپتی، جوالا بن جاتی ہے تو ایسے ہی میں کال کوٹھریوں میں کئی زبانیں زمین میں جڑ پکڑ لیتی ہین، جہاں روشنی، ہوا، نمی کا گزر تک نہیں ہوتا، صرف  زبانوں کی نم آلود سرخی ہوتی ہے۔ جب ان میں پہلی کونپلیں پھوٹتی ہیں تو اندھیرا چٹتا ہے، خاموشی کے تالے ٹوٹتے ہیں، ہوا آزاد ہو کر گنگناتی ہے، ان پودوں کے بیچ بستی بستی چوراہوں میں بودھی درختوں کی صورت چھتر چھاوں بنتے ہیں۔ اور ان کے بطن سے تنو مند کنوارے جسموں کی خوشبو لئے، وہ سرخ سرخ پھول طلوع ہوتے ہیں جن کی کرنوں کو اپنے بس میں کر کے تاریک دنیاوں کے تاریک انساں اپنا مقدر روشن کرتے ہیں۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031