دانائی کی تلاش میں ۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

مذہبی سچ، روحانی سچ اور سائنسی سچ

ڈاکٹر خالد سہیل

بعض لوگوں کا ایمان ہے کہ ساری دنیا میں صرف ایک ہی سچ ہے

بعض لوگوں کا کیال ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان

اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سچ کو تین حصوں میں بانٹ سکتے ہیں

مذبی سچ

دنیا کے وہ بچے جو مذہبی گھرانوں اور سکولوں میں پلتے بڑھتے ہیں نوجوان ہونے تک مذہبی سچ کو ہی صحیح ماننے لگتے ہیں۔ یہ سچ موروثی سچ ہوتا ہے۔ سماجی سچ ہوتا ہے۔ اجتماعی سچ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے بچے مسلمان، عیسایئوں کے بچے عیسائی، یہودیوں کے یہودی اور ہندووں کے ہندو بن جاتے ہیں۔ دنیا کی ایک بھاری اکثریت مذہبی سچ کو مانتی ہے۔ اس سچ میں خدا پر ایمان، پیغمبروں ، آسمانی کتابوں پر، جنت اور دوزخ پر ایمان شامل ہے۔

مذہبی سچ پر ایمان لانے والوں کا انسانی مسائل اور انکے حل کے بارے میں یہ موقف ہے کہ کائنات کا خالق ایک خدا ہے۔ جس نے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر قوم میں پیغمبر اور آسمانی کتابیں بھیجیں جو مقدس ہیں۔ جب انسان ان پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کے سچ کو مانتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں تو وہ خوشحال زندگی گزارتے ہیں اور جب وہ ان کو رد کرتے ہیں تو بے سکونی، بے اطمینانی اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

روحانی سچ

مذہبی گھرانوں میں پلنے والوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو مذہب کے مقابلے میں ذاتی سوچ اور تجربات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ وہ خدا سے بلا واسطہ تعلق قائم کر لیتے ہیں۔ وہ مذہب سے دور اور غیر روایتی روحانیت کے قریب آ جاتے ہیں۔ وہ مذہبی سچ کی بجائے روحانی سچ پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ وہ شریعت سے دور اور طریقت کے قریب آ جاتے ہیں۔ ایسا سچ انفرادی ہوتا ہے۔ ذاتی سچ ہوتا ہے۔ داخلی سچ ہوتا ہے۔

روحانی سچ پر ایمان لانے والوں کا انسانی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں یہ موقف ہے کہ انسانی پریشانیوں کی بنیادی وجہ مادی زندگی سے قلبی لگاو ہے۔ جب انسان دولت و عشرت سے دل لگاتے ہیں تو پریشان رہتے ہیں اور جب دنیاوی چیزوں سے قطع تعلق ہو کر خدا سے لو لگاتے ہیں تو پر سکون زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے لوگ آہستہ آہستہ سنت، صوفی اور سادھو بن جاتے ہیں۔

سائنسی سچ

مذہبی سچ اور روحانی سچ ماننے والوں کے علاوہ دنیا میں ایک اور اقلیت پائی جاتی ہے جو سائنس کو سچ مانتی ہے۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے سچ کو ماننے کو تیار نہین جس کی بنیاد روایت یا ذاتی تجربے پر ہو۔ وہ روایتی مذہبی سچ اور ذاتی روحانی سچ کی بجائے سائنسی سچ کو مانتے ہیںکیونکہ ان کی نگاہ میں سائنسی سچ ایک معروضی سچ ہے۔ اس سچ کو ہم منطق سے سمجھ سکتے ہیں اور دوسروں پر ثابت بھی کر سکتے ہیں۔ ایسے سچ کو ماننے کے لیے اندھے ایمان کی ضرورت نہیں ہوتی۔

سائنسی سچ ماننے والوں کا یہ موقف ہے کہ انسانی مسائل ان کے نفسیاتی ، سماجی، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی حالات سے جڑے ہوتے ہیں۔ انسان ان حالات کا منطقی طور پر تجزیہ کر سکتا ہے اور ان کے حل تلاش کر سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے انسانی شعور نے اتنا ارتقا کر لیا ہے کہ اب اسے کسی خدا، کسی پیغمبر، کسی آسمانی کتاب کی ضرورت نہیں رہی۔ اب وہ اپنی عقل، اپنے ضمیر اور سماجی شعور کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتا ہے۔ ، ایک بہتر انسان بن سکتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک پر سکون اور پر امن زندگی تخلیق کر سکتا ہے۔

جب ہم مختلف لوگوں اور قوموں کے باہمی رشتوں کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں کے درمیان تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص، گروہ یا قوم اپنے سچ کو ازلی، ابدی اور حتمی سچ سمجھ کر پیش کرتا ہے اور دوسرے کے سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح ایک نظریاتی تضاد کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ نظریاتی تضاد دو انسانوں، دو گروہوں یا دو قوموں کے درمیان جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ نظریاتی تضاد کسی بھی گروہ یا قوم میں قتل و غارت کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔

پچھلی چند صدیوں میں ساری دنیا میں جو سماجی، سیاسی، معاشی اور نظریاتی تبدیلیاں آئی ہیں ان میں سے ایک اہم تبدیلی روحانی سچ کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ روحانی سچ کی مقبولیت میں بدھا کی تعلیمات اور بلھے شاہ، کبیر داس، رابندر ناتھ ٹیگور، ولیم بلیک، والٹ وٹمین اور جلال الدین رومی جیسے سنت سادھو اور صوفی شعرا کی شاعری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

روحانی سچ کے ساتھ ساتھ سائنسی سچ ماننے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 1900 ء مین ساری دنیا میں صرف ایک فی سد لوگ ایسے تھے جو یہ کہتے تھے کہ وہ کسی مذہبی یا روحانی سچ کو نہیں مانتے۔ اس گروہ کی تعداد 2000ء میں بڑھ کر پندرہ فیصد ہو گئی ہے۔ کینیڈا میں ایسے لوگوں کی تعداد میں بیس فیصد اور سکینڈینیویں ممالک میں ان کی تعداد پچاس فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔

ان لوگوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سائنسی تحقیقات اور معلومات کی مقبولیت ہے۔ ان تحقیقات میں چارلس ڈارون کی حیاتیاتی تحقیق، سگمنڈ فرائڈ کی نفسیاتی تحقیق، کارل مارکس کی معاشی تحقیق، سٹیون ہاکنگ کی افلاکی تحقیق اور دوربینوں اور خورد بینوں کے مشاہدات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ان ماہرین حیاتیات ، نفسیات، سماجیات، معاشیات اور افلاکیات کی تحقیق نے انسانوں پر یہ واضح کیا ہے کہ وہ انسان اور کائنات کے رشتے کو معروضی انداز سے سمجھ سکتے ہیں اور بہتر انسان بن سکتے ہیں اور کرہ ارض پر انسان دوستی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ایک پر امن معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔

اگر ہم اکیسویں صدی کے سات بلین انسانوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان سات بلین انسانوں میں سے چار بلین مذہبی سچ کو، دو بلین روحانی سچ کو اور ایک بلین سائنسی سچ کو مانتے ہیں۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031