نارنگ ۔۔۔ مریم عرفان

نارنگ

مریم عرفان

ہر انسان کے اندر ایک جانور چھپا ہے جو کبھی کبھی سراٹھاتا ہے جس کی اٹھان چیتے جیسی اور منھ سؤر جیسا ہوتاہے۔ اس جانورکے جسم پر کانٹے اُگے ہوتے ہیں اوراس کے دانتوں کی کاٹ جسم کو ہی نہیں بلکہ روح کو بھی چھلنی کر دیتی ہے۔ یہ بد ہیئت جانور نفس کو مارنا نہیں جانتا بلکہ اس کی رگوں میں صدیوں کی حرام کاریوں کا خون قطرہ قطرہ جمع ہو کر دریا بن جاتاہے۔ یہ گرم خون جب جوش مارتاہے تو عزّت اور غیرت کے بُت بھی پاش پاش ہوجاتے ہیں اور مائیں، بہنیں بیویاں بن جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک جانور نارنگ کے اندر پیدا ہوچکا تھا جو نسلاً جانگلیوں کی اولاد تھا۔ چھوٹی چھوٹی بنٹے جیسی آنکھوں، گہرے رنگ اوردرمیانے قد کا نارنگ بڑی غیر محسوس شخصیت کا مالک تھا۔اس کی ناک اورآنکھوں میں فاصلہ بہت کم تھا۔ گول گول نتھنے ایسے اُوپرکواُٹھے ہوے جیسے کچھ سونگھنے کی کوشش کررہاہو۔ اس کے چہرے پربال ہی بال تھے جبھی تووہ بے ترتیب داڑھی میں چھوٹاسابھوتنالگتاتھا۔ گہری سوچوں میں گم اس کاہاتھ بے اختیار اپنی گھنی داڑھی میں گھس جاتاتواس کی آنکھیں مندنے لگتیں۔ اس کے سرپربالوں کا چھجّادھرا تھا، گھنگھریالی جٹائیں اگرچہ گردن تک آتی تھیں لیکن بڑی عجیب سی بسانداس کے پسینے کے ساتھ مل کران میں رچ بس گئی تھی۔ بالوں والایہ ریچھ میلے چیکٹ سادھوؤں کی طرح اپنی ٹانگوں کے بوجھ پربیٹھتاتولگتااس کادماغ سوچوں کی اگنی میں خیالوں کی ہنڈیاچڑھاکرانگلیوں سے راکھ کریدتاہو۔

بارہ بہن بھائیوں میں آخری نمبرپرپیداہونے والا نارنگ لٹّو کی طرح دن بھرگاؤں کی گلیوں میں گھومتارہتا۔ نارنگ کا باپ گاؤں کا ماسٹر تھا۔ اس کا طنطنہ اور رعب صرف سکول کی حد تک قایم نہیں تھا بلکہ گھر میں بھی اسی کی چلتی تھی۔ خون کی یہ گرمی اس کے باپ کی رگوں میں فولاد بن کر دوڑ رہی تھی۔ اس کے لیے نارنگ کی ماں صرف عیّاشی کا ذریعہ تھی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے یہ بارہ بچّے ڈربے میں بھاگتی پھرتی مرغیوں کی طرح تھے۔ نارنگ اس جیل کا باغی قیدی تھا جسے اپنے باپ کی حرصی نظروں سے سخت نفرت تھی۔ وہ ماں کو ہمیشہ اپنی نظروں کے حصار میں رکھتا تھالیکن جیسے ہی اس کا باپ چیل کی طرح اسے اپنے پنجوں میں جھپٹ کر دبوچتا نارنگ کٹ کٹ کٹاک کرتا پورے صحن میں چکّر لگانے لگتا۔ بے خودی کے عالم میں وہ نجانے کتنی مرتبہ صحن کی دیوار اپنے گھٹنوں اور پنجوں کی مدد سے چڑھتا اور اُترتا۔ خود اذیّتی کی اس عادت نے اس کے نحیف و نزار جسم کو جگہ جگہ سے داغدار کر دیا تھااوروہ منھ زور گھوڑے کی طرح اتھرا ہوتا جارہا تھا۔ ماں باپ کی اس جذباتی زندگی اور لمحاتی کشمکش کے خیال کو مٹانے کے لیے وہ اکثر چاچارفیق کی سوڈا واٹرکی ریڑھی پر جا کھڑا ہوتاجہاں ٹھاہ ٹھاہ کی آوازوں سے کھلنے والے ڈھکّن اور گلاسوں میں شر۔۔۔ ررر۔۔۔ کی پیدا ہونے والی آوازیں اس کے دل کو تسکین پہنچاتیں۔ وہ گاہکوں کو کسی نادیدے بچّے کی طرح ٹکر ٹکرسوڈا واٹر پیتے دیکھتا رہتا۔ ایسے موقعوں پر اکثر اس کے ذہن میں پرانی باتیں سینما میں چلنے والی فلم کی طرح چلتی رہتیں اور وہ اپنے ناخن کترتا رہتا۔

اسے ماسی برکتے کی بیٹی کی بارات کا دن بھی یاد تھا جب اس کے باپ نے سب بچّوں کو قطار بنا کر شادی والے گھر میں بھیجا اور خود آنکھ بچا کر گھر بھاگ آیا۔ نارنگ شکاری کُتّے کی طرح تاک میں تھا۔ وہ اپنے باپ کی بُو سونگھتا ہوا گھر داخل ہوااور کمرے کی کھڑکی کی اُدھڑی ہوئی جالی میں سے جھانکنے لگا۔ تھوک نگلتاہوا نارنگ اپنے باپ کے لمبوترے چہرے کو تصوّر میں لیے اپنے بِنا تسموں کے بوٹوں تلے روندتارہا۔ اسے اپنی ماں پرترس آنے لگا۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی چلی جارہی تھی۔ ماتھے پرپسینے کی بوندیں اسے ناک کے کونے پرمحسوس ہونے لگیں۔ وہ صحن کی طرف بھاگا،اس کی نظریں کھرے کے کنارے رکھّے ڈنڈے پر پڑیں۔ اس نے ڈنڈااٹھایااوردیوارکے ساتھ لگی چارپائی پرتڑاتڑبرسانے لگا۔اسے محسوس ہوا چارپائی کی جگہ اس کاباپ پیٹھ پرہاتھ باندھے کھڑا ہے اوروہ اس کی پشت پرڈنڈوں کی برسات کررہا ہے۔ اس کی ماں ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی صحن کی طرف آئی تونارنگ چارپائی پرڈنڈے برسارہاتھا۔ وہ نارنگ کی طرف خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوے بولی:”ایس کھسماں نوں کھانی منجی نوں وِن کے رکھ دے، حرام دے کھٹمل نے سوناحرام کردتّا اے۔“نارنگ کولگاجیسے وہ توپ کے سرہانے کھڑا ہو اور انگریز فوجی کے ’فائر‘کہتے ہی اس نے گولے داغنے شروع کردیے۔

نارنگ جیسے لوگ دنوں میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ صدیوں اور سالوں کی ناپاکیوں اور نجاستوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ کسی بددعا کی طرح ان کی زندگیاں بھی نجس ہوجاتی ہیں۔ نارنگ کے اندر گندگی کے اس انبار نے اس قدر جگہ بنا لی تھی کہ اب اسے اپنی صفائی ستھرائی کا بھی خیال نہیں رہتاتھا۔ دن ہفتوں اورہفتے مہینوں میں بدل جاتے اور وہ منھ ہاتھ دھوئے بِنا ہی کھائے چلا جاتا۔ جانگلیوں کے دل اور ذہن بھی جنگل کی باس سے بھرے ہوتے ہیں جہاں سورج کی کوئی کرن اپنا رستہ نہیں بناتی۔ اسے گھرسے کوئی لگاؤنہیں تھا۔ وہ سارادن گاؤں کی گلیوں کی خاک چھانتارہتا۔ پہلے اسے بلیرڈکھیلنے کاچسکاپڑااوروہ لوٹے کی دکان کابہترین کھلاڑی مشہورہوگیا۔بلیرڈٹیبل اس کے گھرکاصحن تھا جہاں اس پر پڑی رنگ برنگی گیندیں گھرکی عورتیں تھیں اورسرخ گینداس کی ماں تھی۔ وہ ڈنڈے کوانگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان میں رکھ کرایک آنکھ میچتے ہوے اس زورسے چوٹ لگاتاکہ ساری گیندیں ٹیبل کے کناروں پرجاکرسرپٹخنے لگتیں۔ نارنگ کے چہرے پر تسکین کے چھینٹے پڑنے لگتے، دکان ’نارنگ زندہ باد‘کے نعروں سے گونج اٹھتی۔ پھرلوٹے نے ایک اورٹیبل بڑھالیاجس پرباوے والی گیم کھیلی جانے لگی۔ بڑی سی ٹیبل پرآٹھ سے دس چھوٹے بڑے ڈنڈوں کے درمیان ایک بال نارنگ تھا۔ ڈنڈوں میں کھبے ہوے باوے اُسے اِدھرسے اُدھردھکیلتے رہتے اوروہ سکورکرتاچلاجاتا۔ ان باووں سے کھیلتے اور سکور کرتے اس کے بازوشل ہونے لگتے، ہانپتے ہوے اس کی نظرایک جگہ ٹک جاتی اوردیکھنے والوں کولگتا اس پرکوئی جن آگیاہے۔

نارنگ کے شوق دن بدن بدلتے جارہے تھے بلیرڈاورفٹ بال کھیل کربھی وہ تھکنے لگاتھاکہ نمبرداروں کی بیٹھک نے اسے اپنی طرف متوجّہ کرلیا جہاں ہرہفتے کی رات سے اتوارکی صبح تک وی سی آر پر فلمیں چلتیں۔ نارنگ بھی اب اس بیٹھک کاحصّہ تھالیکن اس کی سیٹ کمرے کے سب سے آخر میں رکھّی جاتی۔ سکرین پرتھرکتی لڑکیاں اورکمرے میں بجتی سیٹیاں اس کے جسم میں ہیجانی تلذّذ پیدا کردیتیں اوروہ بے ساختہ کرسی سے اٹھ کرناچنے لگ جاتا۔ نارنگ اپنے حصّے کی عیّاشی کوڑااٹھانے والے بچّوں کی طرح اپنے دماغ کے تھیلے میں ڈالتاجارہاتھا۔اخباروں میں فلمی اشتہاروں والے صفحے بھی اس کی توجّہ کامرکزتھے جن پرہیروئنوں کی آڑی ترچھی لکیروں سے جھانکتی فربہ رانوں والی تصویروں پرہاتھ پھیرتے ہوے اس کی انگلیاں نشئی کی طرح کانپنے لگتیں۔

نارنگ کو ا ن دنوں نگّو سے محبّت ہوگئی۔ ہمسایوں کی یہ سانولی سلونی لڑکی اکثر اسے خوابوں میں ملنے لگی۔ یہ محبّت بھی اس کے لیے خام تیل کی طرح تھی جس کی قیمت کبھی بڑھتی اورکبھی گھٹتی رہتی تھی۔ نارنگ بھی توخام حالت میں تھا، کچّے پھل کی طرح، جس کی بُو میں مٹھاس نہیں تھی اوررس ابھی کسیلا تھا۔ وقت سے پہلے ہی پیڑسے گرنے والاپھل اس جیساہی ہوتاہے اسی لیے وہ کبھی دیکھنے والوں کوان کے پیروں میں پڑانظرنہیں آیا۔ نگّوسے محبّت دودھ میں آئے اُبال کی طرح تھی جوجتنے جوش میں پتیلی سے اُوپر آیا اتنی ہی جلدی بیٹھ بھی گیا۔ پھراسے اپنی بڑی بہنوں کی چیزوں سے انسیت ہونے لگی۔ وہ انوراور اختر کے درازوں کی تلاشیاں لیتارہتا تھا۔ انورکی شادی اپنے ہی گاؤں میں ہوئی تھی اور وہ مہینے میں دو تین مرتبہ ماں کے گھر چکّر لگالیتی تھی۔ اختر ابھی کنواری تھی۔ اس کے جسم کا کنوار پن گنّے کے رس کی طرح چھلکتارہتاتھا۔ وہ اب نارنگ کی نظروں کی زد میں رہتی تھی۔ دھپ دھپ کرتی کپڑے دھوتی اخترجب شراپ۔۔۔پ۔۔۔کی آوازیں نکالتے ہوے نچڑتے کپڑے تار پر ڈالتی تو نارنگ اس کی کمر کو چھوتی ہوئی چوٹی باندھنے لگ جاتا۔ ”بس وے کملیا! تو جا۔“ اختر کے منھ سے نکلنے والے یہ الفاظ اس کا دل نکال لیتے۔

اذیّت اب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے لگی تھی کہ ایک دن، جب گھر میں کوئی نہیں تھا، نارنگ نے اختر کی کپڑوں والی الماری کھولی اور اس کی بنیان اور جانگیا اپنی شلوارقمیض کے نیچے پہن کرباہرنکل گیا۔ اختر ہفتے بھر اپنے گم شدہ کپڑوں کا رونا روتی رہی۔ سارا گھر چھان مارا، کچن کے کنستر تک کھنگال ڈالے، سامان کھول کر پھر لگا دیا لیکن اس کی چیزیں نہ ملیں۔ نارنگ کتنے ہی دن اس کی بنیان اور جانگیے میں سوتا رہا جیسے اس نے اختر کی دولت چرا لی ہو اور اب وہ اس زرکے سرہانے سانپ بنا بیٹھا تھا۔ اس دن بھی وہ ایسی ہی ناکارہ سوچوں میں گم تھا کہ گلی سے آواز آئی:

”گھگھو گھوڑے لے لو، اے ہاتھی آ، شیر آ،بھالو آ۔۔۔“کھلونے والی نے سر پر سے ٹوکری نیچے اُتارتے ہوے آواز لگائی۔

”اے ماسی!کوئی نیا کھلونا نہیں تیرے پاس۔“نارنگ نے زمین پر بیٹھتے ہوے پوچھا۔

”تے کوں کیہڑا کھڈونا چائی دا اے۔مڑُاے ویکھ لمّی دُم دا باندر۔“

”نانانا۔۔۔ماسی کوئی کڑی والا کھڈونا دکھا۔“

”ایں ں ں ں ں۔۔۔جنانی؟؟؟؟“

”میں کوں تے گھگھو گھوڑے ہی ہو سن۔ جنانی کتّھوں آئی؟“

نارنگ کو مورتیاں بہت پسند تھیں چاہے وہ پلاسٹک کی ہوں یا مٹّی سے بنی گڑیاں۔ وہ جہاں ایسی چیزیں دیکھتا کتنی ہی دیرانھیں تکتارہتااوربالآخر اپنی آنکھیں میچ لیتاتھا۔ اس کے پاس ایک پلاسٹک کی باوی بھی تھی جسے اس نے بھینسوں کی کھرلی کے پاس دفنایاہواتھا۔ جب بھی اس کی ماں دودھ دوہنے جاتی وہ چپکے سے اُپلوں والی کوٹھڑی کی اوٹ میں ہوکرگڑیانکال لیتا۔ وہ اس ننگ دھڑنگ باوی کی خوشبواپنے نتھنوں سے سینے کے اندرکھینچنے لگتا۔ وہ باوی اس کے تیزدانتوں کی کاٹ کے باعث جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔ اب یہ باوی اسے اپنی بڑی بہن انور جیسی لگنے لگی تھی۔ ویسی ہی تنے ہوے جسم کی مالک، سڈول ٹانگیں اور بلند چھاتیاں۔ ایک دن وہ بہن کوملنے اس کے گھر گیا جہاں باوی چولھے میں لکڑیاں جھونک رہی تھی۔ پھونکنی سے لکڑیوں کو سلگاتی ہوئی انور کاچہرہ سرخ ٹماٹر ہورہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے نکلنے والا پانی اس کے گالوں کو بھگوچکاتھا۔ سارا دن وہ انور کو کام کرتے دیکھتا رہا۔ شام کو کمرے میں بیٹھنے کا موقع ملا تو وہ انور کی ٹانگوں پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ بد ہیئت جانور نے انگڑائی لی اور نارنگ نے انور کے پاؤں چوم لیے۔ ”صدقے جاواں! میرے بھرا، خیر تے ہے ناں، اَج بڑا پیار لٹاون ڈیاں ایں۔“ انور کے نتھنے سؤر جیسے جانور کی سانسوں کی بُو سونگھ نہیں پارہے تھے۔ ”انوری! مینوں پیار کر۔“ چیتے نے جست لگا کر انور کے ہاتھ پکڑ لیے۔ وہ لمحے بھر کو سٹپٹائی، جیسے اس کے نتھنے بُو سونگھنے کے قابل ہوچکے ہوں۔ اسے نارنگ میں سے انسانی خون کی تیزبُو محسوس ہوئی۔ اس نے سؤر کے منھ والے جانور کو جھٹ گلے سے لگایا اور گالوں پر بوسہ دیتے ہوے بولی:”کملیا! گھر جا، شام توں بعد جنور رستہ نپ دے نیں۔“ انور کو معلوم نہیں تھا کہ جو جانور اس کے سامنے بیٹھا ہے اس کے سامنے گلی کے جانورکچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ گھر واپس آکر بھی وہ ناخوش ہی تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا اختر کو بھینچ کر گلے لگا لے یا پھر اپنی ماں کی چھاتیاں نوچ ڈالے۔ سارے رستے وہ پریشان رہاکہ کہیں انوری گھروالوں کواس کی اس حرکت کے بارے میں بتانہ دے لیکن پھرکچھ سوچ کراس کے باریک ہونٹ مسکراہٹ سے لمبے ہوگئے۔اب وہ ہردوسرے دن انوری کے گھرجانے لگا۔ پہلے تو وہ اسے نظراندازکرتی رہی لیکن پھرایک دن وہ بھی صحن میں بندھی گائے بھینس کی طرح ڈکرانے لگی۔ نارنگ پلے ہوے سانڈھ کی طرح جگالی کرتااوردُم ہلاتا ہوا انوری کے گلے لگ جاتا۔جانگلیوں کی قسم انسانوں کی بستی میں دندنارہی تھی لیکن اتنی بہت سی آنکھیں بھی ان کاتعاقب کرنے میں ناکام ہوچکی تھیں۔ نارنگ انوری کے شانے دباتاتواس کاکسرتی وجوداس کی پتلی پتلی انگلیوں کے نیچے تھرکنے لگتا۔ اسے لگتاجیسے انوری طبلے کی سیٹ ہے جس پروہ اپنی انگلیوں سے جیسابھی چاہے سُرنکال سکتاہے۔ وہ کتنی ہی دیرہلکے ہلکے سروں میں طبلے کی تھاپ پررقص کرتا رہا اور انوری بدمست شرابی کی طرح دائرے میں گھومتی رہی۔ انوراوراختردونوں اس کی انگلیوں کے نیچے طبلوں کی طرح دھری ہوئی تھیں،وہ ان پرمن چاہے سروں کی مالاپرونے لگا۔ انوراوراخترکے لیے نارنگ کی جنورطبیعت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ کیونکہ ان کاگھراس حمام کی طرح تھاجس پرچھت نہیں تھی، جس کی چھوٹی دیواریں نہانے والوں کے آدھے جسموں کی نمائش کرتی ہیں۔ ایسے میں نارنگ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دونوں کونہاتے ہوے دیکھتا۔ انورکے بھرے بھرے بازوصابن کی جھاگ سے اور بھی چکنے ہوجاتے، جیسے وہ مکھّن سے بلوکرچاٹی میں لسّی بننے کے لیے رکھ دی گئی ہو۔ نارنگ شہدکی مکھّی کی طرح دیوار میں اپنا چھتّہ بنا چکا تھا جہاں اس کی غلاظتوں کاشہداکٹھاہورہاتھااوروہ اپنے ہی صحن میں اُگے پھولوں کارس پی پی کراپنے موم کے چھتّے کوپروان چڑھارہاتھا۔

گھر والے اس جانور کی للکار سے بے خبر تھے۔ کسی کو یہ جاننے کی جستجو ہی نہیں تھی کہ نارنگ پاگل پن کی کس سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔ پھر ایک دن اس کی ماں کو اندازہ ہوگیاکہ یہ جانوراپنے ہی خون کا پیاسا ہوچلا ہے۔ وہ ایسے ہی ایک دن نارنگ کے جھاڑجھنکاڑ بالوں میں تیل ڈال کر مالش کر رہی تھی۔ سؤر ہولے ہولے سانسیں لے رہا تھا۔ چیتے کی انگڑائی میں ابھی وہ زور نہیں تھاکہ ماں کے ہاتھوں کی گرمی نے اسے لوہے کی طرح سخت کر دیا۔ اس کی گردن فالج کے مریض کی طرح بے سُدھ ہوکر کانپنے لگی تھی اوروہ اپنی ماں کو چارپائی پر گراکر خود اس پر لیٹ گیا۔ ماں کو لگا جیسے کوئی برفانی تودہ اس پر آگرا ہو۔ وہ بے حس و حرکت پڑی تھی۔ نارنگ بچّوں کی طرح اوں… اوں کرتا اپنی ماں کی چھاتی سے لگا ہوا تھا۔ پھر اکثر ایسا ہونے لگا جب چیتے جیسی پھرتی اور سؤر جیسی آنکھوں والا جانور اپنی ماں کی بوٹیاں نوچنے کے لیے اس کی چارپائی تک آتا، پھراپنے باپ کی ٹانگ سے ٹکرا کر”ماں یک“بڑبڑاتے ہوے واپس مڑ جاتا۔ نارنگ کی ماں تپتی دوپہروں میں فالج کے مریض کی طرح اس کے ساتھ لیٹی رہتی۔ جن چھاتیوں سے اس کے لیے دودھ اُترتا تھا اب وہاں مامتا مرچکی تھی۔ نارنگ کے لیے وہ پتنگ کی طرح تھی جس کی ڈوراس کی اُنگلیوں میں ہلکورے لیتی تووہ آسمان پراُڈاریاں بھرنے لگتی۔اس کاباپ جیسے ہی پتنگ کوکنّی کراتانارنگ جھٹکے سے اس کی ڈورکھینچ کرمشّاق پتنگ بازوں کی طرح تماشادکھانے لگ جاتا۔

دن بڑی تیزرفتاری سے گزر رہے تھے اور نارنگ کڑاہی میں رکھّے تیل کر طرح پک پک کر سیاہ ہوتا جارہا تھا۔ اختر کی بھی شادی ہوچکی تھی۔ اب نارنگ کا دل گھر میں نہیں لگتاتھا۔ اس کے اندر کا پاگل کھل کر سامنے آنے لگا تھا۔ وہ کتنے ہی گھنٹے سوچوں میں گم رہتا، یہاں تک کہ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کی وجہ سے اس کے پاؤں سوج جاتے۔ ماں اسے کاندھوں سے جھنجھوڑتے ہوے اٹھاتی اور گھسیٹتے ہوے چارپائی پر دھکّا دے دیتی۔ باپ اس کی حالت سے بے خبر تھا۔ جب بھی اس کی ماں روتے ہوے دہائی دیتی کہ اسے شہر کے کسی ڈاکٹر کو دکھا دو تو باپ حقّہ گڑگڑاتے ہوے کہتا: ”او ماں یَکئے! منڈے نوں سایہ اے، ڈاکٹر کی کر لے گا؟“ پھر ایک دن اس جانور کو سایہ بھگاکر لے گیا۔ ماں نے سار اگھر چھان مارا، بھائیوں نے گاؤں کی گلیاں اور کھیت تک کھنگال ڈالے لیکن نارنگ کا کہیں کوئی نام و نشان نہ ملا۔ باپ نے اس کی گمشدگی کو اللہ کی رضا سمجھ کر حقّہ گڑگڑانے میں ہی عافیت جانی۔ وہ اپنی جانگلی قوم اور خون سے بغاوت کیسے کر سکتا تھا جس کے لیے اولادبھی پیشاب کے جھاگ کی طرح تھی۔ لاہورشہر کے شمالی علاقے بادامی باغ کی طرف ریل کی پٹڑی کے دونوں اطراف فقیروں کا بسیرا ہے جن کی جھگیاں ریلوے پھاٹک کے سامنے ایک ہی قطار میں آباد ہیں۔ آج کل وہاں اکثروبیشتر ایک جانورنما انسان نظر آتاہے جس کے جسم پر ایک پرانے اور میلے چیکٹ کوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کی بڑھی ہوئی داڑھی اور بال اس کے منھ سے نکلنے والے جھاگ سے اَٹے رہتے ہیں۔ وہ یا تو گھٹنوں کے بل کہنیوں پر منھ ٹکائے کسی سوچ میں گم رہتاہے یا اپنے جسم کی گندگی کے پاس سادھوؤں کی طرح چوکڑی مارے اپنی بنٹے جیسی آنکھیں گھماتا رہتاہے۔ چیتے جیسی پھرتی اور سؤر جیسی تھوتھنی والا یہ جانور اب شہر کے لوگوں کے لیے نوٹنکی بن چکا ہے جو اپنے اُوپر ہنسنے والوں کو ”ماں یک“ کہتے ہوے تیزی سے گزر جاتاہے!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031