کھچڑی ۔۔۔ عرفان جاوید

کھچڑی

عرفان جاوید

اِمام دین نے جب اپنے نومولود پوتے کو شہد کی گھٹی دینے کے لیے اُس کے نرم و نازک ہونٹوں کو چھوا تو مُنّے نے اپنی آنکھوں کو تھوڑا سا کھولا،اُس کے ہونٹ نیم وا ہوئے، اُن میں سے ایک مہین سی کراہ نکلی اور شہد کے قطرے کو نگل کر وہ پھر سے مست نیند سوگیا۔ سارا شہد اِمام دین کی آنکھوں میں اُتر آیا۔ وہ والہانہ نگاہوں سے اُسے دیکھتا رہا اوراُس کے ننھے سے ہاتھ کو اپنی سال خوردہ اُنگلیوں پر دھر کر کچھ دیر سہلاتا رہا۔ پھر شدت ِ جذبات میں ’لنگور کہیں کا‘بول کر آہستہ آہستہ اُٹھ کھڑا ہوا۔سیاہ ہوتی دیواروں اور زنگ آلود پنکھوں والے وارڈ میں کھانستے کراہتے نیم جان مریضوں کے بیچ سے گزرتے اوراُن کے پھل کے چھلکے فرش پر بکھیرتے، مٹیالی چائے اور رنگین شربت کے چھینٹوں کی خستہ چادروں پر بوچھاڑ کرتے اور گٹھڑیاں سنبھالتے میلے سے تیمارداروں کو پھلانگتے ہوئے جب وہ وارڈ کی بھنبھناہٹ سے باہر کھلی تازہ فضا میں آنکلا تو اُس نے اپنے بیٹے شاہ دین سے دو ہی باتیں کہیں۔ پہلی یہ کہ اصل سے سُود کہیں زیادہ عزیز ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ وہ مُنّے کو جلدی سے گھر لے آئے۔ پھر اُس نے ایک لمبی آہ بھری’’پتانہیں میری کتنی زندگی ہے۔ بس دعا ہے کہ اللہ موت کے وقت کلمہ نصیب کرے۔‘‘

اِمام دین کا دیگراِنسانوں کی طرح اپنی سوچ پر کوئی اختیار نہ تھا۔ایک انسان کو کسی وقت کوئی بھی خیال آسکتا ہے۔ اپنی بیوی سے پیار کرتے ہوئے یکدم محبوبہ کا تصور،عبادت کے دوران یہی کھاتوں کے حساب کا خیال، کسی اَن جانے مقام پر جاکر اپنائیت کا احساس یا پھر کوئی کتاب پڑھتے ہوئے کسی پرانے دوست کا خیال۔ پھر اگر اِمام دین کوبہت بعد کے ایک وقت میں اُس بلبل کی یاد جھماکے سے آئی جو اُس کے بچپن میں بندو ق کا نشانہ خطا ہوجانے کے باوجود اُس کی دھمک کے صدمے سے مرگئی تھی تو یہ خیال ایسا بے محل بھی نہ تھا۔ اس سے کہیں زیادہ اہم ایک اور بات تھی لیکن یہ سب بہت بعد کی باتیں ہیں۔

مُنّے کی آمد نے تو گویا اِمام دین کی زندگی ہی بدل دی۔گویا قدرت نے اُسے ایک کھلونا دے دیا تھا۔ شاہ دین مُنّے کی محبت میں شرابوراپنے باپ کو اُس سے کھیلتے دیکھ کر ہی سمجھ پایا کہ کیونکریہ کہا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص بوڑھا ہوجاتا ہے تو وہ بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔آخر کواُس کا باپ بھی ایک ضدی بچے کی طرح ہوگیا تھا جسے کھیلنے کو ایک گڈا مل گیا ہو۔

مُنّے کا اپنے ماں باپ کی بہ نسبت زیادہ وقت اپنے دادا کے ساتھ گزرتا۔امام دین منے کے کومل پیروں پر گدگدی کرتا تواُس کی قلقاریاں دیر تک گھر میں گونجتی رہتیں۔پھر وہ منے کے پیروں پر اپنی انگلیاں چلاتا ہوا اُس کی ٹانگوں تک لے جاتا تو جب مُنّا منتظر مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ہونٹ کھولتا تواُس کے سرخ بوٹی کی طرح کے بے دانت مسوڑھے نمایاں ہوجاتے۔ پھر امام دین کی انگلیاں چلتی ہوئی منے کے پیٹ تک چلی آتیں اور گُڑگُڑ کی آواز کے ساتھ امام دین اپنے ہونٹ اُس کی ناف پر رکھ کر دبا دیتا تو منا یوں ہنستے ہنستے بے حال ہوجاتا کہ اُس کی آنکھوں کے کونوں سے پانی کی دھاریں بہہ نکلتیں۔اِس پر قریبی کھاٹ پر بیٹھا شاہ دین مصنوعی خفگی سے بول اُٹھتا۔

’’ابا توُ بھی بس بچہ ہی ہوگیا ہے۔ اب بس کر۔ کہیں مُنّے کے گلے میں پھانس نہ آجائے۔‘‘

اِس پر امام دین اُسے کٹیلی نگاہوں سے دیکھتا اور دانت کچکچاکرسرگوشی میں پھنکارتا۔

’’یہ توُ نہیں تیرا جلاپابول رہا ہے۔توُ بس اپنے کام سے کام رکھ۔ہم دادا پوتے کے بیچ میں مت آ۔‘‘

اس پر شاہ دین بے بسی سے کہتا۔

’’ابا توُ نے کبھی میرے ساتھ تو ایسا لاڈ نہیں کیا تھا۔ تجھے دیکھ کر میرا تو بس مُوت ہی خطا رہتا تھا۔مُنّے کے تو بڑے نخرے اُٹھانے آگئے ہیں تجھے۔‘‘

اِس پر امام دین کھل کھلاتے ہوئے منے کو دیکھتا اور پیار میں ڈوبی آواز میں کہتا۔

’’بھلا تیرے جیسے نالائق کا میرے چاند سے کیا مقابلہ۔دیکھ ذرا منے کی پیشانی پر اُبھرتی لاٹ کو۔اللہ بخشے تیرا دادا کہتا تھا کہ یہ لاٹ یا تو ولیوں کے ہوتی ہے یا پھر مہاراجوں کے۔میرا مُنّا نہ صرف میرا بلکہ تیرے دادے کا بھی نام روشن کرے گا۔‘‘

اِس پر شاہ دین ایک مطمئن ’انشا اللہ‘ کہتا اور پھر سے اپنے دانتوں سے گنے کو چھیلنے میں مصروف ہوجاتا۔

دادا اور پوتے میں ایک عجیب مانوس باہمی ہم آہنگی قائم تھی۔

ایک نیم سرد رات کو جب منا پیٹ کی تکلیف یا پھر کسی اور درد سے بے چین ہوگیا اور دوا کھا کر بھی اپنے ماں باپ سے نہ سنبھلا اور ساتھ کمرے میں سوتے امام دین کی آنکھ کھل گئی تو اُس نے دھیمے قدموں سے کمرے میں جاکر منے کو آہستگی سے اپنی گود میں بھرلیا اوراُس پر کھیس ڈال کر اُسے باہر مکان کے برآمدے میں لے آیا۔وہ منے کو لوری دیتا جاتا’’منے نے پکائی کھچڑی۔ ساری کھا گئی چڑیا‘‘اورٹہلتا جلاتا اور بیچ بیچ میں دم درودکرکے اُس پر پھونکتا جاتا۔

باہر صحن کی کیاریوں میں اُگتی خود رو جھاڑیوں پر اوس اُترتی رہی اور سیاہ شفاف آسمان کی کانچ پر کڑھے موتیوں جیسے تاروں کی جگ مگ جگ مگ دھیمی پڑتی رہی۔دُورکہیں کُتّوں کے بھونکنے کی نوکیلی آوازیں خاموشی کی چادر میں چھید کرتی رہیں۔ یا پھر محلے کے چوکیدار کی سیٹی اوراُس کی سائیکل کی گھنٹی کی جَل ترنگ سطح سکوت پر ارتعاش کی لہریں جاری کرتی رہی۔

اِمام دین اپنی نیند سے سرخ ہوتی آنکھوں کے سامنے منے کے کانوں کو بار بارپھسلتے کھیس سے ڈھکتا رہا یہاں تک کہ منے کی گردن ڈھلک کر امام دین کے کندھوں پر ٹھہر گئی اور وہ دھیمے خراٹوں کے ساتھ سوگیا۔ ایسے میں امام دین نے منے کے ہونٹوں کو دھیرے سے چوما اور صحن سے ملحق اپنے کمرے میں کھاٹ پر سیدھا جا لیٹا اور منے کو اپنے سینے پر الٹا لٹا کر اُس کی قمیص کے اندر ہاتھ ڈال کر کمر پر ریڑھ کی نازک ہڈی کے اوپر ہاتھ پھیرتا گیا اور سرگوشیاں کرتا گیا۔

’’میرے بچے کے سارے روگ مجھے لگ جائیں۔ اللہ تجھے نظرِبد سے بچائے۔ تُو تو ہے ہی اتنا پیارا کہ دادے کی اپنی نظر لگ جاتی ہے۔‘‘

صبح سویرے جب شاہ دین فجر کی نماز کے لیے اُٹھا اور صحن میں لگے ہینڈپمپ کے بھاپ اُڑاتے پانی سے وضو کرکے اپنے باپ کے کمرے میں آیا تو خراّٹے لیتے باپ کے سینے پر سوئے منے کو دیکھ کر مسکراتا رہ گیا۔

صبح جب پھیرے والوں کی صداؤں’’آلولے لو، کدو لے لو‘‘ اوردفتروں کو جاتے بابوؤں کے اسکوٹروں اور موٹرسائیکلوں کے شور سے امام دین کی آنکھ کھل گئی تو وہ خالی نظروں سے اِدھراُدھر دیکھتا رہا۔ روشن دان پر پھڑپھڑاتی چڑیوں اور کھڑکی سے جھانکتی بجھی پیلی روشنی نے اُسے صبح کے ہوجانے کا احساس دِلایا تو اُس نے پیار سے منے کو پہلو میں لٹایا۔ منا ہڑبڑا کر کراہا اور نیند کے خمار میں پھر سے گم ہوگیا اور وہ باہر برآمدے میں لٹکتے پلاسٹک فریم میں جڑے شیشے میں دیکھ کر تیل میں چپڑے بالوں میں کنگھا کرتے شاہ دین سے لڑپڑا جس کی وجہ سے اُس کی نماز قضا ہوگئی تھی۔ شاہ دین گھبرا جانے کی ناکام اداکاری کرتے ہوئے باپ کی ڈانٹ سنتا رہا اور دفتر جانے کی تیاری کرتا رہا۔

سارے میں دیسی گھی میں تلے جاتے پراٹھوں، پیاز اور سرخ مرچ میں تیار ہوتے آملیٹ انڈوں اورآلو کے قتلوں کی مہک پھیلتی گئی۔ یہاں تک کہ جب بہوٹرے پر چنگیر اور پلیٹیں رکھے سر پر دوپٹہ سنبھالتی آگئی تو امام دین اُسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خاموش ہوگیا۔

جب بیٹا اپنی موٹر سائیکل پر سے کپڑا اُتار کراُسے اسٹارٹ کرکے دفتر جانے لگا تو وہ اپنے باپ کے پاس آیا اوراُسے منانے کے لیے اتنا ہی کہا’’ چل چھوڑ ابا۔توُ بھی جانتا ہے۔ یہ میں یا شیطان نہیں جو تیری نماز قضا کراتے ہیں بلکہ منا ہے۔‘‘امام دین نے اُس کی بات کاٹ دی۔

’’چل چل اپنا رستہ لے۔‘‘

اِس پر وہ مایوس ہو کر موٹر سائیکل کو پھٹپھٹاتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔

اُس کے جانے کے بعد امام دین نے اپنی بہو کو تنبیہ کی کہ وہ منے کا خیال کیا کرے اور یہ کہ اپنے نالائق شوہر کو بھی سمجھایا کرے۔ بہو سر جھکائے سنتی رہی۔ پھر اُس نے ناشتے کے بھرے برتن اُٹھا کر اندر باورچی خانے کا رخ کرلیا۔

ہمیشہ کی طرح اُس روز بھی امام دین نے ناراض ہو کر خالی پیٹ گلی کی نُکڑ پر قائم چائے خانے کا رُخ کیا۔ وہ چائے خانہ ایک اونچے چبوترے پر دو گلیوں کے سنگم پر واقع تھا اور دونوں اطراف سے کھلا تھا۔ اُس کے سامنے ایک چھوٹی سی سڑک مرکزی شاہ راہ سے جاملتی تھی۔ شاہ راہ پر چلنے والی بسوں، ویگنوں، کاروں اور رکشوں کی وجہ سے ایک پرُرونق ماحول چائے خانے کے گاہکوں کی نظروں کے سامنے رہتا تھا۔ ہوٹل کی ایک اندرونی نکڑ پر گڑے چوبی تختے پر ایک پرانا ریڈیو دھرا تھا۔ ریڈیو کے اوپر میلے ہوتے کپڑے اور گوٹے کاغلاف تھا جس پر اسپیکر کے سامنے گولائی میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کردیے گئے تھے تاکہ اُس سے پھوٹتی فلمی موسیقی کی رنگین آواز میں کمی نہ آئے۔

چائے خانے کے اندر فلمی پوسٹر چسپاں تھے جن پر نیم برہنہ ہیروئنیں مختلف پوزوں میں دعوت ِ نظارہ دیتی تھیں۔ البتہ اُن کے جسموں کے عریاں ہوتے حصوں پر نیلے اورسیاہ مار کروں سے جالیاں سی بُن دی گئی تھیں۔اُنھی پوسٹروں کے بیچ میں ایک تختی آویزاں تھی۔

’’یہاں پر ٹوٹی ہڈی جوڑنے کا بہترین انتظام موجود ہے۔ نیز موچ اور سوجن کا شرطیہ علاج بھی کیا جاتا ہے۔علاج کے لیے رابطہ کریں۔ برکت پہلوان۔‘‘

بورڈ پر ایک تیر بنا ہوا تھا جو ایک متصل کوٹھڑی کی جانب اشارہ کرتا تھا۔

چائے خانے میں پتیلوںاورپتیلیوں کے سامنے ایک اونچی گدی پر براجمان برکت پہلوان،امام دین کو شڑشڑ چائے کے ساتھ پاپے نگلتے ہوئے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جب اُسے گاہکوں سے کچھ فرصت ملی تو وہ اونچی پیڑھی سے نیچے اُترکر اخبار پڑھتے امام دین کے پاس لکڑی کے بنچ پرآبیٹھا۔

’’کیوں سرکار!لگتا ہے کہ آج پھر شہزادے سے جھگڑا ہوگیا۔‘‘

امام دین نے تہ کرکے اخبار ایک طرف رکھ دیا اور گلی سے سائیکل پر پرانے اخباروں کے بنڈل لاد کر جاتے ردی فروش پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔

’’یار برکت قصور میرا ہی تھا۔ کیا کروں جب سے پوتا ہوا ہے اُس سے نظریں ہی نہیں ہٹتیں۔ کبھی نماز چھوٹ جاتی ہے تو کبھی وہ لنگور کپڑے پلید کردیتا ہے۔‘‘

برکت نے چھوٹے کو آواز لگائی جو محلے کے یار بیلیوں سے گپیں ہانکنے میں جت گیا تھا اور اُسے گُھرکنے لگا۔

’’کیوں بے یہ برتن تیرا ابا اُٹھائے گا۔ چل ٹاکی لگا اور وہ سامنے بالٹی میں پڑے تازہ دودھ کو پتیلے میں ڈال کر چولہے پراُبلنے رکھ دے۔آنچ آہستہ رکھنا۔ اور ہاں نظریں دودھ پر رکھنا۔پھر دوبارہ ضائع ہوگیا تو کیا دودھ تیری بڑی۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ پھر سے امام دین کی طرف متوجہ ہوگیا۔

’’دیکھ دینیا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ نے تجھے بچہ نہیں کھلونادے دیا ہے اور بھلا پاک بچے کے مُوت سے کوئی ناپاک کیسے ہوتا ہے جھلیا۔ پھر اللہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے۔‘‘

اس پر امام دین نے ایک چھابڑی والے کو دیکھاجوگلی میں سورج کی ترچھی کرنوں میں گرما گرم شکرقندی کے قتلے نمک مرچ اور لیموں کا رَس لگا کر بیچ رہا تھا اور جواب دیا۔

’’کہتا تو توُٹھیک ہے برکت۔اللہ دلوں کا حال بہتر جانتا ہے۔بس دعا ہے کہ وہ ایمان کی حالت میں کلمے کے ساتھ اٹھائے۔ کسی کا محتاج نہ کرے۔‘‘

اب برکت کی توجہ پھر سے چھوٹے کی جانب مبذول ہوگئی تھی جو دودھ کے پتیلے کو بڑی سی صافی کے ساتھ چولہے پر سے سِرکنے سے بچا رہا تھا۔

’’چَل پُتر شاباش اب ذرا ایک مگا پانی کا ملا دے۔‘‘

پھر وہ دوبارہ امام دین کی طرف متوجہ ہوگیا۔

’’دینیا پانی تو تھوڑی دیر میں اُڑجائے گا صرف دودھ رہ جائے گا۔ پانی ملانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دونوں میں، یعنی جذبات میں بھی اور دودھ میں بھی۔ اب اس ٹوُٹے ہاتھوں والے لڑکے کو دیکھ۔ آج کل کے چھوکروں میں تو جان ہی نہیں۔ میں اِس جتنا تھا تو اچھے خاصوںکوپچھاڑدیتا تھا۔ بجلی کی طرح لپک تھی میری اور چھلا وہ تھا چھلاوہ میں۔ادھر سامنے والا پہلوان جھکتا تھااُدھر میں اُس کی ٹانگوں میں سے نکل کر ایسا پٹڑا کرتا تھا کہ اُسے دن میں تارے نظر آجاتے تھے۔‘‘

امام دین مسکراتے ہوئے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اب تک اُس کے چہرے پر طمانیت آچکی تھی۔

’’ہاں یار برکت مجھ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے۔ آخرکو میں بھی تو ایک وقت میں چھلاوہ تھا۔ جو موٹرسائیکل ہیرو نہیں دوڑا سکتا تھا میں اُڑاتا تھا۔ کیسے دہکتی آگ میں سے ہَوا کی طرح گزر جاتا تھا اور حرام ہے کہ کبھی شعلوں نے چھوا بھی ہو۔آگ میں برف تھا میں۔‘‘

برکت نے اثبات میں سرہلایا اور بولا۔

’’چل توُ نے تو دوچار فلموں میں اسٹنٹ مینی کرکے اپنا شونق پورا کرہی لیا۔ مجھے تیری طرح فلموں میں کام کرنے کا شونق تو نہیں تھا پر دیکھنے کا ضرور تھا۔ توُ بڈھا ہوگیا ہے لیکن فلمیں تیرے اندر گھس بیٹھی ہیں۔اب بھی توُ جو فلموں کا ذکر لے بیٹھتا ہے تو یہ عشق عمر سے ختم نہیں ہوتا۔ میری تو اور بات تھی۔ اُستاد فلمیں دیکھنے سے سختی سے منع کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اِس سے ترخواب آتے ہیں جو کسرت کرنے والے کی ہڈیوں میں گودے کی جگہ پانی بھر کر اُنھیں کم زور کردیتے ہیں۔‘‘

دونوں نے اثبات میں سرہلایا اور امام دین گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

دن ہفتوں میں بدلنے لگے۔

مُنّے نے اب چلنا شروع کردیا تھا۔ جب اُس نے پہلا قدم اُٹھایا تو اس خوشی میں اِمام دین رات بھر نہ سویا۔ ایک روز وہ شاہ دین سے کہنے لگا۔

’’پُتر جب مُنّا اپنی نازک انگلیوں سے میری داڑھی کے بال کھینچتا ہے تو مجھے اتنی تسلی ہوتی ہے جومیں تجھے بتا نہیں سکتا۔ چھوٹے ہوتے توُ بھی مجھے بہت پیارا تھا۔ تب شاید میں روٹی کے چکر میں اِس برُی طرح گم تھاکہ پتا ہی نہیں چلا کہ توُ کب ایک دم سے بڑا ہوگیا۔ اب میرے پاس وقت ہے۔ سو منے کو دیکھ کر میرا جی کرتا ہے کہ اس کی ساری خواہشیں پوری کروں۔ اسے حافظِ قرآن بناؤں۔‘‘

اِس پر شاہ دین نے منے کو میٹھی نظروں سے دیکھا جو صحن میں بیٹھا اپنی ماں سے بالوں میں تیل لگوا رہا تھا۔ وہ جب کبھی کانچ کے رنگین بنٹوں سے کھیل رہا ہوتا یا پھر پھڑپھڑاتی مرغی کا ننھے ڈولتے قدموں سے بچکانہ قہقہے لگاتے ہوئے پیچھا کررہا ہوتا ایسے میں شاہ دین باپ کی ایسی ہی کسی بات پر بے اختیار بول اٹھتا’’انشا اللہ۔‘‘

ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے۔ امام دین کی چست چال میں سستی آنے لگی اور کمر کا خم بڑھنے لگا۔

جب منا پہلی مرتبہ اپنے باپ اوردادا کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے گیا تو امام دین کی خوشی دیدنی تھی۔

ماں نے منے کو فجر کے وقت ہی اٹھا دیا تھا۔ وہ نیند کے سرخ خمار میں بار بار بستر پر ڈھے جاتا تھا۔ ایک رات پہلے تک وہ عید کی نماز پڑھنے کی توتلی تکرار کرتا رہا تھا۔ پر اب جب سر پر آن پڑی تھی تو کروٹیں بدل رہا تھا۔

جب امام دین بیٹے کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ کر واپس لوٹا تو اُس کی بہو روہانسی ہوکر بولی۔

’’ابا جی دیکھیں منا تو اٹھنے کانام ہی نہیں لے رہا۔‘‘

وہ بہو کے پیچھے پیچھے کمرے تک گیا اور سامنے ترچھے لیٹے منے کو پیار سے دیکھ کر بولا۔

’’لاڈلے کو صبح جلدی اٹھنے کی عادت جو نہیں بیٹا۔‘‘

شاہ دین نے لقمہ دیا۔

’’ابا جی اِسے چھوڑنہ جائیں؟‘‘

امام دین تڑپ کربولا۔

’’چل چل اپنا رستہ لے۔ یہ ہمارے ساتھ ضرور جائے گا۔‘‘

اتنا کہہ کر امام دین نے پیار سے منے کو اٹھا لیا۔ منے نے کسمسا کر ایک لمبی ہونک بھری اور دادے سے لپٹ گیا۔ دادا اُس کا سر سہلا نے لگا اوراُسے لے کر باہر صحن میں آگیا۔

سر پر سفید ٹوپی، جسم پر منی سی روپہلی پھول دار شیروانی ، پیروں میں سنہری تاروں والا کھسہ پہن کر، آنکھوں میں سرمہ لگوا کر اور کپڑوں پر عطر چھڑکوا کر منے نے جب اپنے دادا کی اُنگلی تھامی تو اُس کے اعتماد میں معصومانہ پختگی تھی۔

نماز تو خیر اُسے آتی ہی نہ تھی پر ساتھ کے نمازیوں کی پیروی میں اُس نے اِس خوبی سے نماز کی نقل کی کہ دادا صد قے واری ہوگیا۔ پھر نماز کے بعد وہ اپنے چند ہم عمروں سے بہت اہتمام سے گلے ملا۔

عیدگاہ سے واپسی پر امام دین نے اُسے ایک اٹھّنی دی کہ وہ اسے خیرات کردے۔اُس نے ضد کرکے اُس اٹھنی کو اپنی شیروانی کی اندرونی جیب میں ڈال لیا۔بہت بہلا پھسلا کر وہ اٹھنی اس کے ہاتھوں سے گداگروں کی قطار میں کھڑی ایک بڑھیا کو دلوائی گئی۔

پھر امام دین نے عید کی سنہری صبح کو جب ابھی ہوا میں سویرے کی تازگی تھی موتیے کا ایک ہار خرید کر جس کے وسط میں ایک سرخ گلاب پرویا گیا تھا اوراُس میں بھینی کنواری مہک تھی، کو منے کے گلے میں ڈال دیا۔

واپسی پر منے نے گداگروں پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالی۔ البتہ فُٹ پاتھ پرشیشے کے شوکیس میں سجے رنگین دمکتے پتھروں کے بیوپاری نے اُسے مختصر وقت کے لیے متوجہ ضرور کیا لیکن پھر ایک رنگا رنگ غبارے اور میٹھے چھلے بیچنے والا اُس کے جی کو بھاگیا اوراُس نے مچل کر دونوں چیزیں خرید لیں۔

جب منا گھر میں داخل ہوا تو اس کے گلے میں پھولوں کا ہار، ایک ہاتھ میں گیس والا نیلا غبارہ اور دوسرے میں سرخ میٹھا چھلا تھا۔ ماں اُسے دیکھ کر صدقے واری ہوگئی اور پیار سے اُس سے میٹھا چھلا شرارتاً مانگا تو وہ باقاعدہ نخرے میں ناراض ہوگیا اور دادے سے لپٹ گیا۔

جب دادے نے ماں کومارنے کی اداکاری کی تو وہ مطمئن ہوکر چھلا کھانے لگا۔

سبھی اُس کی اس معصومانہ حرکت پر ہنس پڑے تھے۔

عید کے چند رو ز بعد منا باقاعدہ طور پر امام دین کے ساتھ سونے لگا۔

اُس کے ماں باپ نے بھی کچھ دادا کی خواہش کو دیکھتے ہوئے اور کچھ بنیادی انسانی جبلت کے تقاضوں کے زیرِ اثر اس پر اعتراض نہ کیا۔

اب امام دین رات کو عشا کے بعد منے کو اپنے ساتھ لٹا لیتا۔ ہاں وہ اس سے پہلے اس کو ماں کے حوالے ضرور کرتا، تاکہ وہ اسے پیشاب کروالائے۔ آخر کو دادے نے فجر کی نماز پاک لباس کے ساتھ پڑھنی ہوتی تھی۔ اس کے بعد جب منا گرم بستر میں دادا کے ساتھ اس کے پیٹ پر اپنی منی سی ٹانگ ڈال کر لیٹ جاتا تو دادا اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتا جاتا اور کہانیاں سناتا جاتا۔ کبھی جنوں چڑیلوں کی کہانیاں منے کی حیران آنکھوں کو پھیلا پھیلا دیتیں تو کبھی پیغمبروں کی کہانیاں اُسے گہری معصوم سوچ میں گم کردیتیں۔ یہاں تک کہ اُس کی آنکھیں مند جاتیں اور وہ ایک لمبی سسکی بھر کر سوجاتا۔ امام دین ہاتھ بڑھا کر بلب بند کردیتا جو تب تک اس لیے جلتا ہوتا کہ منے کو اندھیرے سے ڈر لگتا تھا۔ تھوڑی دیر میں کمرے میں ہلکی خرخراہٹ اور بھاری خراٹوں کی آوازیں گونجنے لگتیں۔

عید کی نماز کے بعد سے امام دین منے کو نماز کے لیے تیار کرنے لگا۔ جب شاہ دین نے اعتراض کیا کہ ابھی وہ بہت چھوٹا ہے تو باپ نے یہ کہہ کر اُس کی بات کو جھٹک دیا کہ وہ اپنا رستہ لے اور یہ کہ منے کے لیے مسجد سے مانوس ہونا ہی بہت کافی ہے۔

دادا صبح کی نماز پر تو منے کو نہ لے جاتا مگردوپہر کو منے کو بہت اہتمام سے وضو کراتا اور انگلی تھام کر اُسے ساتھ لے جاتا۔ مسجد میں منا مستقل نمازیوں سے گھلنے ملنے لگا تھا۔ بلکہ ان میں سے چند ایک اس کے لیے کبھی کاغذ میں لپٹی برفی اور کبھی ٹافیاں لے آتے جو وہ واپسی پر بہت نفاست سے کاغذ کھول کر کھاتا۔ ایسے میں اُس کی رال ٹپکتی رہتی اور وہ قمیص کے بازو سے اُسے پونچھتا رہتا۔ راستے میں امام دین ملنے والوں سے علیک سلیک کرتا جاتا۔ کبھی کہیں رک جاتا اور پھر سے چل پڑتا۔ کبھی کبھار برکت کے چائے خانے پر ٹھہرجاتا اور پیالی سے پرچ میں چائے اُنڈیل کر پھونکوں سے ٹھنڈا کرکے منے کو پلاتا ۔ برکت نے پیار سے منے کا نام باؤ پہلوان ڈال دیا تھا اور وہ اکثر اُسے پنجیری کی ڈلیاں تھما دیتا تھا۔ ایسے میں وہ کن انکھیوں سے امام دین کی آنکھوں میں بڑھتی چمک کو بھی پڑھ لیتا تھا۔

ایک روز جب شاہ دین کے آنے کا وقت تھا اورعصر کی اذان ہوچکی تھی تو امام دین منے کی انگلی تھامے مسجد میں داخل ہوا۔ اندر صفیں بندھ رہی تھیں۔ باہر ایک سفید سناٹا تھا۔ نمازی صفوں کے بیچ پیدا ہونے والے خلا کو پرُ کررہے تھے۔ اُس وقت مسجد میں گنتی ہی کے نمازی آئے تھے اور بچوں میں تو صرف منا ہی تھا۔ جب صفیں مکمل ہوگئیں تو امام کی پچھلی صف میں کھڑے موذن نے تکبیر پڑھنی شروع کردی۔

اچانک پچھلی صفوں میں ایک فرلاتی ہوئی آواز بلند ہوئی اور ایک زوردار دھماکا ہوا۔ ہرطرف سنسناتی ہوئی آوازیں بکھر گئیں اور ایک کٹا ہوا دھڑ امام دین کے کندھے سے ٹکراتا ہوا سامنے آن گرا۔اِردگرد سیمنٹ،پلستر اور دھواں پھیل گیا۔امام دین ایک دھکے سے سامنے دیوار کے ساتھ پیٹھ کے ٹیک کی حالت میں اس طرح جاگرا کہ اُس کا رخ باہر کے دروازے کی طرف ہوگیا۔ اُسے کسی تکلیف کا احساس نہ ہوا۔ جب گردبیٹھی تو کراہیں اورچیخیں بلند ہوئیں۔ اُس نے گویا خواب کی سی بے حسی سے سامنے دیکھا تو کچھ لوگ باہر کو بھاگتے اور چند اندر آتے نظر آئے۔ چند انسانی جسم اِدھراُدھر بکھرے اور گھسٹتے نظر آئے۔ سب کچھ ایک مائع میں تیرتا محسوس ہوا۔ جیسے یہ سب کسی اور کے ساتھ بیت رہا ہو۔اچانک اُسے ایک شناسا سا شخص اندر کی جانب بھا گ کر آتا دکھائی دیا۔ اُس شخص نے اندر آکر ایک کونے میں پڑے چھوٹے سے انسانی جسم کو ٹٹولا اور دیوانہ وار اُس کے سینے سے کان لگانے لگا۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آوازیں امام دین کی سماعت سے یوں ٹکرائیں جیسے پانی میں غوطہ کھا کر نکلنے والے نیم بے ہوش شخص کی سماعت سے باہر کی آوازیں ٹکراتی ہیں۔ بے معنی آوازیں۔ بس وہ ایک ہی آواز کچھ سن ، کچھ سمجھ پایا۔

’’بچہ دھماکے کے صدمے سے مرگیا ہے۔‘‘

پھراُس نے نیم سیاہی میں اُسی شناسا سائے کو اپنی طرف چیخ کر لپکتے دیکھا۔

اوراُس وقت اُس کے ذہن میں دو ہی جھماکے ایک لحظے کے لیے بجلی کی طرح لپک گئے۔ پہلا یہ خیال کہ فلموں کے برعکس موت کتنی اچانک اور حقیقی چیز ہے اور دوسراایک نقش اُس بلبل کا آیا جو اُس کے بچپن میںبندوق کا نشانہ خطا ہوجانے کے باوجوداُس کی دھمک کے صدمے سے مرگئی تھی اور وہ مدتوں حیران ہوتا رہا تھا کہ کیا کوئی بغیر چوٹ کے صرف صدمے سے بھی مرسکتا ہے۔

اتنی دیر میں روشنی کی ایک دھارآسمان سے اُتری اور زوردار دھماکے سے چھت نیچے آن گری۔

بات یہاں پرختم نہیں ہوتی کیوں کہ اصل بات تو وہ ہے جو شاہ دین نے اس واقعے کے بہت بعد اپنی بیوی سے کہی۔ اُس نے ایک رات جب اس کی بیوی منے کو یاد کرکے رورہی تھی اوراُن تمام ماؤں کی طرح جن کے چھوٹے چھوٹے بچے مرجاتے ہیں وہ صرف راتوں کو چھپ کر نہیں بلکہ دن کو بھی زارو قطار روتی رہتی تھی، تو اُس رات اُس نے اپنی بیوی سے کہا تھا۔

’’مجھے ابّے اور منے کے چلے جانے کا تو دکھ ہے ہی پر ایک اور دکھ بھی ہے۔‘‘

اُس کی بیوی نے سرخ زخمی نظروں سے اُسے دیکھا تو وہ بولا تھا۔

’’میرا خیال ہے کہ ابا کافر موت مرا ہے۔کیوں کہ جب میں منے کو گود میں اٹھائے ابّے کی طرف گیا تو وہ شہتیرکے نیچے دبا ہوا تھا اور نیم بے ہوش تھا۔ میں نے اُسے جھنجھوڑا تو اُس نے آنکھوں کو آہستہ سے تھوڑا سا کھولا اور منے کی لاش کو دیکھ کر بڑبڑایا’’منے نے پکائی کھچڑی۔‘‘پھر اُس نے پھٹی چھت سے باہر آسمان کو دیکھا یہاں تک کہ اُس کی آنکھوں میں وہی سفیدی اُترنا شروع ہوگئی جو قربانی کے بکروں کی آنکھوں میں گلے پر چھری پھرتے ہوئے اُترآتی ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اُس کا آخری وقت آگیا ہے۔ ایک دَم مجھے اُس کی خواہش یاد آگئی۔‘‘

یہاں پہنچ کر شاہ دین کا جسم لرزنے لگاتھا۔ اُس کی بیوی اُسے خالی نظروں سے دیکھتی رہی تھی ۔ وہی خوف زدہ کردینے والی نظریں جن سے صرف ایک زخمی عورت ہی دیکھ سکتی ہے۔

پھر وہ بولا۔

’’میں ایک لمحے کے لیے منے کو بھول گیا اور ابّے کے ترلے کرنے لگا کہ وہ کلمہ پڑھ لے۔پر ابا پتھر آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہا یہاں تک کہ اُس کے ہونٹ تھوڑے سے ہلے۔ میں سمجھا وہ کلمہ پڑھ رہا ہے مگر جب میںنے اپنے کان اُس کے ہونٹوں سے لگائے تو وہ کہہ رہا تھا’’چل چل اپنا رستہ لے۔‘‘

اور تب وہ دونوں اُن زخمی بلیوں کی طرح رونے لگے جن کے بچے کوئی اُٹھا کر لے جاتا ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031