توبہ سے ذرا پہلے ۔۔۔ فارحہ ارشد

توبہ سے ذرا پہلے

فارحہ ارشد

” مجھے تم سے نفرت ہے ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ایک کردار نے دوسرے سے کہا اور اس نے یوں اسے مڑ کر دیکھا کہ وہ خود بھی ایک لمحے کو ساکت ہو گیا بالکل اس کی نظر کی طرح ٹھنڈا ، یخ، ساکت ۔

” تو گویا محبت نہ ہوئی کوئی تھیٹر پلے ہو گیا ۔ چلیے جی یہ سین ختم۔۔۔ اُٹھائیے کرسی، میز اور دیوار ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگلے سین کے لیے ندی کا پُل اور دور تک ویرانی پھیلادیجیے ۔۔۔۔ ‘‘ تالیوں کے شور میں غریبوں کے امیرانہ سکول میں چلتا سٹیج ڈرامہ ختم ہوا تو بڑے جاگیردار صاحب کا اکلوتا ’’انسا ن دوست ‘ ‘ بیٹا اسٹیج پہ مائیک تھامے کھڑی سنہرےپانیوں سے نکلی مچھلی جیسی لڑکی کو دیکھتا رہ گیا ۔ و ہ دلچسپ سا مکالمہ بول رہی تھی جس میں خود ہی سوال کرتی اور خود ہی جواب دیتی ۔ اس نے سنا کھنکتے لہجے میں وہ کہہ رہی تھی

” کہانی۔۔۔۔ ؟؟ کہانی میں ہوتا کیا ہے وہی لگی بندھی متعین سمتوں میں چلتا قصہ۔۔۔۔ وہی بڑی بیگم صاحبہ جو ہمیشہ سوشل ورکر بنی ، میڈیا میں گھری تصاویر بنواتی۔۔۔۔ ؟؟ ارے نہیں بھئی۔۔۔ کہانی اب اتنی تھوڑا ہی رہ گئی ہے-اس کا کینوس وسیع ہو گیا ہے ۔ بڑے شغل ہوتے ہیں ان بڑی بیگم صاحبان کے ۔ فیشن بوتیکس، کاسموٹالوجی کے فائدے اٹھاتی بڑھاپے سے خوفزدہ بڑی بیگم صاحبان ۔۔۔۔۔۔۔ وہی کہانی مگر ذراسا کینوس وسیع۔۔۔۔ “

” مگر جوان طبقہ وہ تو ویسا ہی ہوگا نا جدید تراش خراش کے لباس تک محدود؟ ” خود ہی اگلا سوال اٹھایا

” ارے نہیں یہ موضوع بھی ذرا وسیع ہوگیا ۔ برانڈڈ لباس کے ساتھ امیج بلڈنگز کی کلاسز لیتی اور ٹیڑھی ناک سیدھی کرواتی لڑکیاں۔۔۔۔۔ ‘‘اس کے خود ہی جواب دینے کے انداز پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا

’’ ” اور غریبی امیری کا فرق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو وہی ہے نا ؟ ” ایک اور سوال

” کہاں بھئی؟؟ غریب لڑکی بھی اپنے اوپر دھیان دینے لگی ہے -مانو اس کی کہانی نے بھی اپنا کینوس وسیع کر لیا ۔۔۔۔ اور کیوں نہ دے اپنے اوپر دھیان وہ غربت سے نکلنا چاہتی ہے ۔ شارٹ کٹس لیتی ہے۔ اور میں نے کہا نا کہ کہانی اب اپنا رخ بدل چکی ہے ۔ لگی بندھی متعین سمتوں کو پھلانگتی، یہاں وہاں ، ادھر اُدھر سے رستے نکالتی۔۔۔۔ کہانی سیانی تو ہمیشہ سے تھی مگر اب ’’چالاک‘‘ ہو گئی ہے” وہ دلچسپی سے خود ہی سوال اٹھاتی اور خود ہی جواب دیتی من موہنی سی لڑکی کو دیکھنے لگا –

ھاھاھاھا ۔۔۔۔۔ ایک بھر پور قہقہہ اس طرف سے اٹھا جہاں بڑے جاگیردار صاحب کا اکلوتا انسان دوست بیٹا اپنے ہی طبقے کے بڑے بوڑھوں کے ساتھ قیمتی لباس پہنے اگلی نشستوں پہ براجمان تھا ۔نئی کہانی کے راگ الاپتی لڑکی نہ شرمائی، نہ لجائی بلکہ کچھ اور بھی اعتماد سے بڑے جاگیردار صاحب کے انسان دوست بیٹے کی ٓنکھوں میں ٓنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی۔

یہ کہانی کی شروعات تھی ۔

وہ کہانی جس کا ایک کردار بڑے جاگیردار صاحب کا بگڑا ہوا۔۔۔ ارے نہیں نہیں ‘انسان دوست’ بیٹا ، بہت پڑھا لکھا ، بہت سنجیدہ سا۔ جس کے اپنےطبقے کے دوست جب بھی اکٹھے ہوتے انسانیت کے بھاشن چلتے، انٹرنیشنل این جی اوز کے دوست اس کے توسط سے اردگرد اور خود اس کے گاؤں میں ترقی کے پروجیکٹ چلاتے، ہاسپٹل، سڑکیں اور سکول بناتے۔ بڑے جاگیردار صاحب کا یہ انسان دوست اکلوتا بیٹا غریب ، امیر ہر ایک کا پسندیدہ تھا ۔ چناب کے کنارے محفلیں سجتیں اور ترقی پسند گروپس کو ان جیسے کچھ لوگوں کی آشیرباد نہ ہوتی تو کتنا کچھ جو بآسانی ممکن ہوجاتا تھا کبھی نہ ہوپاتا ۔

اور وہ جو ابھی کہانی کی کہانی سنا رہی تھی وہ ایک غریب عورت مائی بلقیسی کی اکلوتی جوان اور خوبصورت بیٹی اس کہانی کا دوسرا کردار ۔شارٹ کٹس مارتی بڑے جاگیردار صاحب کے اکلوتے بیٹے کے دل کے سنگھاسن پہ جا براجمان ہوئی۔کہانی یہیں مکمل ہو جاتی اگر اس میں تیسرا کردار نہ ہوتا ۔

مائی بلقیسی ۔اس کہانی کا تیسرا کردار۔

دو عشرے پہلے سیلاب زدگان کے ساتھ بڑے جاگیردار صاحب کی پناہ میں آنے والی مائی بلقیسی ۔

علاقے والے صرف اتنا بتاتے ہیں کہ مائی بلقیسی جوانی میں اپنی بیٹی سے بھی زیادہ حسین تھی کبھی کبھار وہ باپ کے ساتھ بڑے جاگیردار صاحب کے ڈیرے پرآتی جاتی نظر آتی تھی ۔۔ کوئی اس کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہ بتاتا ۔ بس اتنا بڑے بوڑھوں کو یاد تھا کہ ایک اس کی بیٹی ہے جو یہاں آنے کے بعد پیدا ہوئی۔ مائی بلقیسی کا خاوند شاید سیلاب میں گائے بھینسیں بچاتا ان کے ساتھ ہی ڈوب گیا ہوگا۔ کیونکہ کسی نے بھی ان باپ بیٹی کے علاوہ اور کسی کو نہ دیکھا تھا۔

وہ بلقیسی جوبڑے جاگیردار صاحب کی زندگی میں درختوں کے جھنڈ میں گھری سفید حویلی جانے کے خواب دیکھتی تھی مگر اس کے سیمنٹ سے بنے دوکمروں سے حویلی تک کے فاصلے کے درمیان وہ پگڈنڈی حائل ہی رہی جو بڑے جاگیردار صاحب کے ڈیرے کی طرف جاتی تھی جاگیردار صاحب وعدے قسمیں اس کے پلو میں باندھتے باندھتے مٹی میں جا سوئے۔ بیٹی ابھی چھوٹی تھی بلقیسی کا بوڑھا باپ بڑی بیگم صاحبہ کی خدمت کے لیے ہر روز بیٹی اور نواسی کو چھوڑ آتا۔ جوں جوں وقت گذرتا رہا بلقیسی کی محرومیوں نے غصے کی شکل اختیار کر لی اور اس نے اپنے تصور میں ایک نئی کہانی بُن لی۔ وہ بڑی بیگم کی طرح اس گھر پر خیالوں ہی خیالوں میں سارا دن راج کرتی مگر جونہی خواب کا ناطہ حقیقت سے جڑتا وہ اپنی ذات کی کرچیاں سمیٹتی بیٹی کی انگلی تھامے واپسی کی راہ لیتی اور دوکمروں کے سیمنٹ سے بنے مکان میں ساری ساری رات روتی رہتی ۔

پھر سیدھی چلتی کہانی میں ایک موڑ آیا۔۔۔

ایک دن بڑے جاگیردار صاحب کا انسان دوست بیٹا اس کی چوکھٹ پہ مائی بلقیسی کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا تو ہاتھ میں پکڑا کچے چاولوں سے بھرا تھال اس کے ہاتھ سے گر کر شور مچانے لگا ۔ وہ گم صم سی ایک ایک چاول اٹھانے لگی۔

ساری رات پہلو بدلتے گذری مائی بلقیسی کی بھی اور اس کی بیٹی کی بھی ۔

اگلے روز وہ پھر آیا ۔۔۔

” دیکھ مائی میرا بھروسہ کر۔ میں اس کو اپنا نام دونگا باقاعدہ دھوم دھام سے بیاہ کر لے جاؤنگا ۔ بڑی اماں بھی مان گئی ہے اس کی بھی فکر نہ کر ۔۔۔ وہ اس کی سناٹے سے بھری نگاہوں کے ہر ممکنہ سوال کا جواب دے رہا تھا ۔ بنا پوچھے بنا جانے کہ وہ اتنی گہری قبر جیسی خاموشی میں خود کو گم کیوں کیے جاتی ہے- مگر وہ سوالی بڑے جاگیردار صاحب کا انسان دوست بیٹا تھا اور مائی بلقیسی کو سمجھ نہ آتی تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے ۔

بڑے جاگیردار صاحب اور بلقیسی کا باپ مٹی کا ڈھیر بن چکے تھے بس ایک راز تھا جس کو صرف ایک کردار جانتا تھا اور وہ کردار مائی بلقیسی تھی ۔

اور تب سب نے دیکھا ۔ ہاں کہنے سے لے کر بیٹی کی ڈولی اٹھ جانے تک مائی بلقیسی کچھ نہ بولی ۔

بیٹی کو رخصت کر تے ہی وہ تیز تیز قدموں سے قبرستان کی طرف بھاگتی دکھائی دی۔

مائی بلقیسی کی کہانی راز تھی وہ راز جو بڑے جاگیردار صاحب ، بلقیسی کا بوڑھا باپ اور خود بلقیسی کے علاوہ کون جانتا تھا ۔ ایک کسی دور دراز کے شہر کا نکاح خواں اور دو بالغ گواہان جو نکاح خوان ،  بڑے جاگیردار صاحب سے زیادہ پیسے بٹور نے کے لیے اپنے مدرسے سے ہی ساتھ لے آیا تھا

یا پھر بڑے جاگیردار صاحب کا وہ ڈرائیور جو سانپ کے ڈس لینے سے اس واقعہ کے چند روز بعد ہی ہلاک ہو گیا تھا ۔

بوڑھا باپ اور بڑے جاگیردار صاحب رزقِ خاک ہوئے اور یوں وہ راز بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گیا ۔

وہ راز نکاح سے شروع ہوا اور مائی بلقیسی کی بیٹی پر جا کر ختم ہوا۔

ایک قبر، ایک دل اور ایک راز جو مائی بلقیسی کی محرومیوں کے ساتھ ہی مٹی ہو جانا تھا

مگر کہانی اپنا نیا موڑ مڑ چکی تھی

کوئِی محرومیوں کی آگ تھی جو دیوانہ وار سلگ اٹھی تھی اور اس کے شعلے ایک نیا باب تعمیر کرنے جا رہے تھے

کوئی انتقام سا انتقام تھا ۔

” مجھے معاف کر دیں بڑے جاگیردارصاحب ۔۔ مجھے معاف کر دیں۔ ” وہ ہاتھ ملتی جاتی تھی اور کانوں کو ہاتھ لگاتی بڑے جاگیردار صاحب کی قبر پہ کھڑی مجرموں کی طرح سر جھکائے توبہ کیے جاتی تھی ۔

ہر طرف ایک سناٹا تھا ۔ کہانی اپنے رستے خود تلاشتی اسے توبہ کے در پہ بٹھا کے کہیں اور نکل چکی تھی ۔

” تو گویا محبت نہ ہوئی کوئی تھیٹر پلے ہو گیا ۔ چلیے جی یہ سین ختم۔۔۔ اُٹھائیے کرسی، میز اور دیوار ۔۔۔اور اگلے سین کے لیے ندی کا پُل اور دور تک ویرانی پھیلادیجیے ۔۔۔۔ “

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031