بوسیدہ آدمی کی محبت ۔۔۔ محمد حامد سراج

بوسیدہ آدمی کی محبت

محمد حامد سراج

وہ اتنی آہستگی اور خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا کہ مجھے خبر ہی نہ ہوئی۔ میں ٹالسٹائی کے ناول ’’آننا کا رینینا‘‘ میں کھویا ہوا تھا۔ کئی برس قبل کے روسی معاشرے میں اپنے آپ کو سانس لیتا محسوس کررہا تھا۔ تمباکو کی ناگوار بُو میرے نتھنوں میں گھس کر میری سانسوں کی آمدورفت میں رخنے ڈالنے لگی تو میں روسی معاشرے سے پلٹ کر اپنے کمرے میں آموجود ہوا۔ وہ میرے بستر پر آلتی پالتی مارے سگریٹ پی رہا تھا۔ ایش ٹرے کی بجائے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر راکھ جھاڑنا اس کا معمول تھا۔ وہ ایک بے ترتیب شخص تھا۔ اس کے اندر ہر لمحہ جوڑ توڑ اور توڑپھوڑ جاری رہتی اور اس سارے عمل میں وہ مجھے بھی اپنے ساتھ شریک کرلیتا تھا۔ اس کے گھریلو مسائل بڑے گمبھیرتھے وہ نظرانداز کیے جانے کے عذاب سے گزررہا تھا۔ وہ بلا کا ذہین تھا۔ اسے کثیر المطالعاتی شخصیت بھی کہا جاسکتا ہے لیکن اپنے آپ سے ناراض ناراض رہنے کے سبب اس کی شخصیت عجب ڈھب کی بن گئی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا کہ اس کے اندر کہیں ایک پھانس ہے جویوں اٹکی ہوئی ہے کہ اسے بے کل کیے دیتی ہے۔ میری اپنی مصروفیات تھیں جنہیں ہر بارتیاگ دینا میرے بس میں نہیں تھا۔ آج پھروہ اپنے دُکھوں سے اُلجھ رہا تھا اور میں ٹالسٹائی کے سحر سے باہر نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ اس پر ایک نظرڈال کر میں پھر روسی معاشرے کے ایک کردار سے گفتگو میں کھوگیا وہ اس گفتگو میں مخل ہوا۔

’’میری بھی ایک ’’آننا کارینینا‘‘تھی…..!‘‘اس نے راکھ ہتھیلی کے ایش ٹرے میں جھاڑی۔ میں نے ناول بند کردیا مجھے معلوم تھا کہ وہ مسلسل دراندازی کرے گا۔

اس کی باتیں سننانا گزیرتھا۔

’’کہو…..‘‘ میں ہمہ تن گوش ہوگیا۔

’’میری کہانی لکھوگے…..؟‘‘ اس کے چہرے پر راکھ پھیلی تھی۔

’’محبت اور صنفِ نازک کے موضوع پر۔‘‘ اس نے مجھے چونکادیا تھا کیوں کہ یہ اس کی فیلڈہی نہیں تھی۔ ’’تمہاری کہانی میں ہے کیا جسے قلم بند کیا جائے۔‘‘

’’میری بات سنو….. تم دُنیا کے ہر موضوع پر قلم آزمائی کرتے ہو۔ کرنٹ افیئرز میں سے افسانہ تراش لیتے ہو۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات تمہارے قلم کی زدپررہتے ہیں۔ عراق سے افغانستان تک امریکی جہازB-52سے گرایا جانے والا ڈیزی کٹربم یوں لگتا ہے تمہارے سامنے تیارہوا ہے۔ حکمرانوں اور نظام حکومت پر چوٹ کرنے سے تم باز نہیں آتے لیکن میری محبت کی کہانی رقم کرنا تمہارے لیے ایک مشکل امرہے۔ یہ ایسا جانگسل مرحلہ ہے کیا جس میں سے تم نہیں گزرسکتے!‘‘

اس نے دوسرا سگریٹ سلگاتے ہوئے ایک ہی سانس میں یہ ساری باتیں کہہ ڈالیں۔ تم اور محبت…..؟

’’کیا مجھے محبت نہیں ہوسکتی۔ شجر ممنوعہ ہے کیا میرے لیے…..؟‘‘

’’میرا مطلب ہرگزیہ نہیں ہے۔‘‘

’’انداز تو تمہارا ایسے ہے جیسے مجھ سے کوئی جرم سرزدہوگیا ہے۔‘‘

’’دوست اس موضوع پر اتنا لکھا جاچکا ہے کہ اب ایسی کہانیاں فرسودہ لگتی ہیں…..!‘‘

’’تم انسانیت کے لازوال جذبے کو فرسودہ کہہ رہے ہو…..؟‘‘

میں نے اس کی بات اُچک لی۔

’’مجھے محبت جیسے لافانی اور عالمگیر جذبے کی سچائی سے انکار نہیں لیکن…..‘‘

’’لیکن کیا۔‘‘ وہ اِموشنل ہورہا تھا۔ ’’کیا آدم کے لیے تنہارہنا ممکن نہیں تھا۔ جنت میں کس چیز کی کمی تھی۔ حوّا کی خواہش کیوں پیدا ہوئی؟ بولو….. کیوں، خلیفۃ الارض کی بقا عورت اور مرد کے وجود کی مرہونِ منت ہے۔‘‘

’’معلوم ہے مجھے…..!‘‘ میں نے دفاع کرتے ہوئے کہا۔

’’توپھر میری کہانی لکھو…..‘‘

’’بولو…..‘‘

’’وہ لیلیٰ ہے….. نہیں نہیں….. ہیرؔ ….. بلکہ وہ لیلیٰ ہے نہ ہیراور نہ ہی سوہنی۔ وہ اِن سب روایتی قصوں سے زیادہ خوب صورت اور نفیس ہے۔ بالکل کرسٹل پیس….. ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرلگتا ہے کہیں ٹوٹ نہ جائے۔ وہ جہاں سے گزرتی ہے اس کا نقشِ پاپھولوں کی کیاری میں بدل جاتا ہے ہرپھول میں اس کے بدن کی مہک ہوتی ہے۔‘‘

’’یہ کہانی مجھ سے نہیں لکھی جائے گی…..!‘‘

’’کیوں…..؟‘‘

’’وہی روایتی باتیں، روایتی قصے، لبِ لعلیں، کاکل و رُخسار کی باتیں۔‘‘

’’یار….. جس انہماک سے تم آنناکارینینا کا مطالعہ کررہے تھے اسی انہماک سے میری کہانی نہیں سن سکتے کیا۔ یہ ناول بھی تو ایک کہانی ہے۔ تم اور کہانیاں لکھو گے۔ مجھے معلوم ہے تم پندرہ روزمیں بدلنے والی پٹرولیم کی قیمتوں کااِن میں ذکرکروگے۔‘‘

’’میں ایسا افسانہ لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا…..!‘‘

’’ایک روز تم لکھو گے کیونکہ تم لکھاری ہو۔ تمہارے دماغ کے خلیوں میں جس روزیہ بات جڑ پکڑگئی کہ ہر پندرہ روزبعد پٹرولیم کی قیمتیں بدلنے سے پندرہ کروڑعوام پر کیا گزرتی ہے وہ کس ذہنی عذاب اور کرب سے گزرتے ہیں تو تم اس میں سے افسانہ تراش لوگے لیکن میری محبت کا قصہ تمہیں فرسودہ دکھائی دیتا ہے۔‘‘ آج وہ واقعی مجھے اپنی کتھاسنانے پر تُلاہوا تھا۔ جس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔

’’سن رہے ہو….. نا….. وہ جہاں پاؤں دھرتی تھی وہاں پھول کھِلتے تھے۔‘‘

’’اب آگے بھی کہو۔ میرے پاس میرؔ امن دہلوی کا قصہ چہاردرویش سننے کا وقت نہیں ہے۔ یہ نئی صدی ہے نئے تقاضے ہیں۔ اب افسانہ بھی داستان کی طرح متروک ہونے والا ہے اور صرف دو سطری افسانچہ ہی تراشاجائے گا کیونکہ آج کے انسان کی برق رفتار مصروفیات اسے اتناوقت ہی نہیں دیتیں کہ وہ مطالعہ کرے۔ بسترپر گرکراسے صرف اتنا یاد رہتا ہے کہ مجھے سلیپنگ پِلز لینی ہیں اور صبح ہونے پر پھر اِنسانوں کے جنگل میں گم ہوجانا ہے۔ رزق تلاشنا ہے عجیب عہد ہے یہ! یہاں تو قیر کا معیار دولت ہے یہاں کامیاب اِنسان اُسے گردانا جاتا ہے، جس کے پاس مرسڈیز ہو، لینڈکروزر، کوٹھی، بینک بیلنس، شاندار بین الاقوامی بزنس، آئے دِن نئے ماڈل کی کار اور عورت خریدنا اس کا مشغلہ ہواور تم قدیم عہد کے اِنسان اپنی نامعلوم محبت کا قصہ لے بیٹھے ہو۔ متروک عہد کی تواب باقیات بھی کہیں نظر نہیں آتیں۔‘‘

میری گاڑھی گفتگو سے شاید اسے دھچکا لگا وہ اُٹھنے لگا تو میں نے سوچا چلو ایک اِنسان کی دِل جوئی کے لیے ہی اس کی پوری کتھاسن لی جائے۔

کارِ ثواب کا سوچ کر میں اپنے آپ پر ہنسا۔

ہرکام کا ہم ریٹرن چاہتے ہیں….. وہ کیش کی شکل میں ہویا ثواب کی شکل میں!

’’حسبِ معمول‘‘ اس نے سگریٹ کا سِرا زبان کے لعاب سے ترکیا۔ لائٹرکے شعلے اور اس کی آنکھوں کے رنگ میں مماثلت تھی اور اسی رنگ میں اس کی کہانی پنہاں تھی!

میرے ذہن کی منتشرسوچوں کو اس کی کہانی نے ایک نقطے پر مرتکزکردیا۔ میں ہمہ تن گوش تھا۔ سگریٹ کا دھواں اور اُس کی ہتھیلی پر راکھ تھی جو ہاتھوں کی آڑی ترچھی لکیروں کو دُھندلاتی تھی۔ وہ بولتا تھا تو لفظ پھولوں میں بدلتے تھے۔ وہ پیکرتراشی کرتا تھا اور اپنی محبوب کی اداؤں سے ماحول کو معطر کرتا تھا۔ وہ لڑکی جس سے اسے محبت تھی اس کا ہیولا سانس لیتا محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ متشکّل ہوتی چلی گئی اپنی تمام تراداؤں سمیت وہ میرے سامنے نہیں تھی، پھر بھی تھی!

اُس کا انتخاب اُسی کو معلوم تھا لیکن جانے کیوں وہ میری بھی رُوح میں اُترنے لگی تھی۔ میں اس کی آنکھوں، چہرے اور باتوں میں مناسبت تلاش کرتا رہا وہ اس کی آنکھوں میں تھی، چہرے اور باتوں میں بھی اس کی خوشبو تھی۔ وہ اسے کہاں ملی، کیسے ملی؟ ان باتوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا بس وہ مجھے مل گئی اور میں موسموں کی پہچان بھول گیا۔

کہانی میں کوئی ٹرننگ پوائنٹ نہیں تھا…..

وہ بول رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔

’’وہ مجھے اتنا ٹوٹ کے چاہنے لگی تھی کہ کسی نے کسی کو کیا ٹوٹ کے چاہا ہوگا۔ صرف وہی تھی جو میرے دُکھ سکھ محسوس کرتی تھی، بانٹتی تھی، میرا خیال رکھتی تھی، میں جسے گھر کے ہر فرد نے نظر انداز کیا۔ میں تو خود کشی کے آخری کنارے پر کھڑا کسی اور جہاں کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، جب اس نے مجھے اپنی مرمریں بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ اس روز مجھے یقین ہوگیا زندگی میں ایک ہستی ایسی ضرور ہو جو اُسے ٹوٹ کر چاہے جس سے دُکھ بانٹے جا سکیں۔ جو اپنا وقت واردے۔ جب وہ فون کے اس سرے پر ہوتی جو بے جان پلاسٹک سے بنا تھا تو اس کی آواز بے جان چیزوں میں جان ڈال دیتی۔ اس کی آواز میرے بدن اور رُوح کے خلیوں میں زیست بن کے تیرتی، میں میں نہ رہتا وہ ہوجاتا….. میں گراہم بیل کو دُعائیں دیتا۔ وہ میرا اتنا زیادہ خیال رکھتی تھی کہ تمہیں اب بتاپانا میرے لیے ممکن نہیں ہے، بالکل ایسے جیسے آنگن میں لگے گملوں کے پودوں کا خیال رکھنا اسے اچھا لگتا تھا۔ اس کی باتوں کی پھوار سے میں بھیگتااور نموپاتا تھا۔ میں باتوں کی اور یادوں کی ڈائری کا ایک ایک ورق کھول کر تمہارے سامنے رکھ دوں تو تمہارے اس ٹالسٹائی کے ناول سے بڑا ناول تیار ہوجائے گا۔ موسیقی میں وہ نصرت فتح علی خان کی پوجا کی حدتک پر ستار تھی، سردھنتی تھی سُروں پر!اسے موسیقی کا دیوتا مانتی تھی۔ کبھی کبھی کمرہ بند کرکے ڈیک پوری آواز میں کھول لیتی۔

آ جا تینوں اکھیاں اُڈیکدیاں، دِل واجاں ماردا…..

ڈیک کی آواز سے کھڑکیوں کے شیشوں میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی وہ لرزتے، تھرتھراتے یوں لگتا ابھی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اس کی آنکھوں سے بھی موسیقی بہنے لگتی بچوں کی طرح کھلکھلاتی، چھیڑتی تنگ کرتی اور کہتی….. سن رہے ہو….. دھیان سے سنا کرو اور نصرت فتح علی خان مسلسل کہہ رہا ہوتا۔

’’تینوں اکھیاں اُڈیکدیاں، دِل واجاں ماردا‘‘

وہ کہتی ’’تم جہاں بھی رہوگے یہ دل تمہارے لیے دئیے کی مانند جلتا رہے گا۔ میں آنسوؤں کے تیل سے اسے روشن رکھوں گی۔ اگر میں مربھی گئی نا….. تو میری کھلی آنکھوں میں تیرا انتظار ٹمٹماتارہے گا۔‘‘

’’میں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا۔ میں اور کربھی کیاسکتا تھا۔‘‘

’’ایسی دُکھ دینے والی باتیں نہ کیا کرو…..‘‘

وہ کھلکھلاکرہنستی اور کہتی ’’موت تو اَزلی حقیقت ہے۔‘‘

میں پہروں سوچتا رہتا اپنے آپ سے اُلجھتا رہتا۔ ’’یہ ایسا کیوں سوچتی ہے شاید میں اس سے پہلے گزر جاؤں۔‘‘

راکھ ہتھیلی پر جھاڑتے ہوئے اس کی آنکھوں میں بادل اُترآئے۔ پوہ کی جھڑی سی لگ گئی۔

وہ خبر نہیں تھی….. وہ رودیا۔

موت کی خبر تھی یا اَزلی حقیقت مجھے نہیں معلوم لیکن میرے اندر میری پوری زندگی مرگئی۔ میرے جنازے کے اردگرد اس کی یادیں بیٹھی بین کررہی تھیں۔ ہریاد الگ کُرلاتی اور ماتم کرتی تھی۔ مجھے خبرہی نہیں تھی میں کب فنا کے دروازے سے گزرا ہوں، مجھے اپنے جنازے کاوقت بھی معلوم نہیں تھا۔ کندھا کس نے دینا ہے؟ فنا کے دروازوں سے گزر جانے والوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ اس سے بھی بے خبر ہوتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے سوگواری کا کفن پہنا، بس وہ گزر جاتے ہیں۔ نئے جہانوں کی خبر بھی پلٹ کر نہیں دے سکتے۔

’’میں بھی فنا سے بقاکونکل گیا۔‘‘

’’اب کوئی نقشِ پاپھولوں کی کیاری میں نہیں بدلے گا۔‘‘

’’رنگِ حنامخروطی اُنگلیوں کے کنارے اٹھکیلیاں نہیں کرے گا۔‘‘

’’کیا اس کی آنکھیں اب بھی کھلی ہوں گی۔‘‘

’’کیاوہ فناکے جہاں سے گزر کر بھی مجھے اُڈیک رہی ہوگی۔‘‘

سوالوں کا لامتناہی سلسلہ میرے اندر پھیلتا سمٹتا رہتا ہے۔ سینکڑوں یادیں میرے اندر ماتم کناں رہتی ہیں۔ میرے دل کی سرخ زمین پر کُرلاتی اور اُسے تلاش کرتی ہیں۔

میں اس کے گھر تک کیسے پہنچتا ہوں؟ مجھے نہیں معلوم! مگر جب میں وہاں جاتا ہوں تو وہ صحن کے وسط میں بچھی چارپائی پر پرُسکون، نیند کی وادیوں میں ہمیشہ کے لیے اُترچکی ہوتی ہے۔ کفن میں چہرے کوچھپائے ہوئے۔ مگر مجھے یوں لگتا ہے درونِ کفن آنکھوں میں میرے انتظار کی قندیل روشن ہے۔

میز پررکھے ٹالسٹائی کے ناول آنناکارینینا کے سارے کردارناول سے نکل کر میرے اردگرد اکٹھے ہوگئے۔ ان میں استی پان ارکاویچ تھا، ڈالی اور لیوین، گریشیاء اور ابلونسکی! پورے ماحول پر مرگ کا دھواں پھیلا تھا…..

وہ میرے سامنے بیٹھا تھا، چپ، سوگوار اور اُجڑا اُجڑا سا ناول کا ایک زندہ کردار!

’’میرے دوست تمہاری محبت کا انجام انتہائی دردناک اور الم ناک ہے۔‘‘

’’میری کہانی تواب شروع ہوئی ہے…..‘‘ اس نے سگریٹ کی خالی ڈبیا موڑ توڑ کر ڈسٹِ بن میں پھینکتے ہوئے کہا’’میں سمجھا نہیں…..‘‘

اُس نے راکھ ہتھیلی پر جھاڑتے ہوئے کہا….. ’’میں بھی نہیں سمجھا، مجھے کیسے ملی تھی اور ملتی بھی کیسے یار….. مجھ ایسے بدصورت اور بوسیدہ آدمی سے بھلاکون محبت کرے گا…..؟‘‘

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930