مزار ۔۔۔ خالد فتح محمد

مزار

( خالد فتح محمد )

1

کھڑکی کے سامنے بیٹھی عورت میری ماں ہے !

وہ صبح سات بجے کھڑکی میں آکر بیٹھ جاتی ہے اور اس کی نظر گلی میں دور ایک ہی نقطے پر مرتکز رہتی ہے۔وہ زندگی کے معاملات میں الجھے رہنے والی ایک زندہ دل عورت رہی ہے ،اس کا اِس طرح اچانک سب سے کٹ کر ایک بت کی طرح بیٹھے رہنا جہاں پریشانی کا باعث بنا وہاں اردگرد چہ مگویوں کا ایک باب بھی کھول گیا۔ماں میرا واحد سہارا تھی یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ میں ہی اس کا اکیلا وارث تھا۔ میرے والد کے فوت ہوجانے کے بعدہم دونوں ایک دوسرے کو تھامے ہوئے تھے۔ مشکلات اور جدوجہد کی طویل سرنگ میں سے گزرنے کے بعدہم نے زندگی میں اپنی تعمیر کی ہوئی سہولتوں سے لطف کشید کرنا شروع کیا ہی تھا کہ ماں نے کھڑکی کو اپنا مسکن بنالیا۔وہ وہاں شام پانچ بجے تک بیٹھتی اور پھر میں اس کا اشارہ پاکر اسے خواب گاہ تک پہنچا دیتا جہاں وہ اپنے پلنگ پر نیم دراز ہو جاتی۔مجھے اس کا بے تاثر چہرہ دیکھ کے پریشانی تو ہوتی لیکن میں اس سے سوال نہیں کر سکتا تھا۔اس نے مجھے کبھی سوال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی اور سوال نا کرنا میری عادت بن گئی تھی۔سوال نا کرنے کی اِس عادت کی وجہ سے میں ہمیشہ نقصان اٹھاتا آیا ہوں۔جب میں ایک طفلانہ سے تجسس کے دور میں سے گزر رہا تھااور مجھے ہر چیز اجنبی اور ناشناسا لگتی تھی تو میں ماں سے سوال کیا کرتا تھا ۔ پہلے وہ میرے سوالوں پر چہرے پر ایسا تاثر لے آتی تھی کہ میں خوف زدہ ہو جاتا۔ وہ چاہتی تھی کہ میں اپنے جذبات چھپانا سیکھوں اور ان جذبات کی گہرائی کسی پر ظاہر نا ہونے دوں۔

والد کھلے دل والے تھے اور ان کا نظریہ ہر کسی سے اپنے خیالات کی ساجھے داری کرنا تھا۔ماں اِس سوچ کے اتنی مخالف تھی کہ ان دونوں نے اپنی زندگیاں ایک دوسرے کو سمجھے بغیر ہی گزار دیں۔ اس وقت ان کے اختلافات میں مجھے اپنے لیے ایک دل چسپی نظر آتی تھی اور میں دونوں کو پتا چلے بغیر ان کے اختلافات کو مزید گہرا کرتا رہتا۔ میں واحد اولاد ہونے کی وجہ سے گھر کا ایک اہم فرد تھا اور دونوں میری رائے کو اہمیت دیتے۔یہ وہ دور تھا جب میری کوئی ذمے داری نہیں تھی ۔ مجھے اپنی تعلیم میں ضرورت سے زیادہ دل چسپی تھی جو والد کو قطعاً پسند نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ کہتے:’’میں اتنا چھوڑ کے جارہا ہوں کہ تمھارے بچے بھی آرام کی زندگی گزار سکیں گے۔‘‘ ماں کو میرا تعلیم کو ترجیح دینا پسند تھا۔ وہ ہمیشہ میری حوصلہ فزائی کرتی اور کہتی کہ میَں زندگی میں اپنے لیے منصوبے بناؤں اور پھر ان کے حصول کے لیے خود کو وقف کردوں۔ٹونٹی سے لگاتار قطرہ قطرہ پانی گرنے سے کھرے کی سطح میں ایک ناہمواری آجا تی ہے اِسی طرح ماں کے مجھے مسلسل اکسانے سے میرے اندر ترقی کا جذبہ میری سوچ سے بھی بڑا ہوتا گیااور میں والد کی لاپرواہی کو کسی حد تک ماں کی آنکھ سے دیکھنے لگا۔

اِس کے باوجود والد میرے آئیڈیل تھے !

میں ان کے ساتھ چھٹی کا دن گزارتا۔مجھے محسوس ہوتا کہ انھیں میری طرح اتوار کا انتظار ہوتا۔ہم اتوار کسی نہر کے ریسٹ ہاؤس میں گزارتے جس کی انھوں نے بکنگ کروائی ہوتی،یا کسی تاریخی اہمیت کے مقام کو دیکھنے جاتے یا کہیں بیٹھ جاتے جہاں وہ اپنی باتیں سنا سکیں۔انھیں باتیں کرنے کا بہت شوق تھا اور میں ایک اچھا سننے والا۔ماں کو یہ سب پسند نہیں تھا،وہ اِسے وقت کا ضیاع سمجھتی۔وہ خود تو کافی باتیں کرتی تھی لیکن ایسی باتیں جوروزمرہ کے معاملات ہوں؛اسے تاریخ یا گفتگومیں اٹھنے والے متعدد علمی موضوعات سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ والد کافی گھومے ہوئے تھے اور کبھی کبھی اپنے آپ کو vagabond کہتے۔وہ اکثر اپنے سفروں کے قصے سناتے جن میں سے کچھ سچے لگتے اور چند من گھڑت لیکن ہوتے وہ سب بہت دل چسپ۔

یہ وہ دن تھے جب میں نے زندگی کو سمجھنا شروع کردیا تھا۔والد اور ماں ایک دوسرے سے بالکل دور ہوچکے تھے اور میں دونوں کے قریب ہوتے ہوئے ان سے کنارہ کر چکا تھا۔میں محسوس کرتا کہ اگر میں نا ہوتا تو والد شاید ماں سے علیحدگی اختیار کر چکے ہوتے کیوں کہ اس کاان کے ساتھ رویہ ہی ایسا تھا؛وہ انھیں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتی تھی اور ہمیشہ کسی نا کسی الزام کی زد پر رکھتی۔ بعض اوقات والد مایوسی کا شکار نظر آتے۔مجھے محسوس ہوتا کہ انھیں مایوس دیکھ کر ماں کسی قدر خوش ہوتی،اس کی مخمور سی آنکھوں میں چمک آجاتی اور ہونٹوں کے کنارے شرارت بھری خوشی سے کپکپانے لگتے۔ ماں کے ساتھ میرے تعلق میں ایک روحانی پہلو تھا؛مجھے اس میں ایک ایسا نور محسوس ہوتا جو مجھے روشنی میں نہلا دیتا۔میں اسے دیکھتے ہی چلے جانا چاہتا تھا۔شاید وہ بھی اپنے جادو کو سمجھتی تھی اور مجھے اس کیفیت میں دیکھ کے دھیرے دھیرے مطمئن سا مسکراتی رہتی۔مجھے اس کے سحر میں گم ہونے کا ایک مزہ آتا تھا لیکن اس کی برتر سی مسکراہٹ سے چڑ آجاتی۔ تب میں والد کی طرف مائل ہوجاتا !

ایک دن والد مجھے ایک مزار پر لے گئے۔وہ شاید اتنے مایوس ہو گئے تھے کہ انھوں نے مزاروں میں پناہ لینے کی کوشش کی۔

’’میں یہ دنیا بھی دیکھنا چاہتا تھا۔‘‘انھوں نے مجھے راستے میں بتایا۔یہ ایک خاصا طویل سفر تھا۔ ہم سیالکوٹ کے ضلع کے کسی دورافتادہ گاؤں میں گئے تھے جہاں ایک بوڑھے برگد کے سائے میں چھوٹا سا مزار تھایا مجھے چھوٹا لگا کیوں کہ اِس سے پہلے میں نے مزار دیکھے نہیں تھے۔یہ گنبد نما ایک چھوٹی سی عمارت تھی جس کے اردگردتھڑا تھاجس پر سفید رنگ کی ٹائلیں لگی ہوئی تھیں جن کو برگد میں سے چھن کر آتی ہوئی بیمار سی کرنیں نہلا رہی تھیں۔مزار میں داخل ہونے کے لیے تین سیڑھیاں چڑھنا تھیں جن کے ساتھ چند عورتیں جُڑ کے بیٹھی سیپارے پڑھ رہی تھیں۔مجھے یہ منظر دل چسپ لگنے کے ساتھ ساتھ ڈراونا بھی لگا؛مجھے ان کے چہروں پر جمی شدت سے گھبراہٹ ہوئی۔ہم جب مزار میں داخل ہوئے توایک سیلا سا اندھیرامیری نظروں سے ٹکرایا؛مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی خواب میں ہوں۔مزار کے اندر انسانی جسموں کی بو، گلاب اور اگربتیوں کی ملی جلی خوشبو کے ساتھ مل کے طبیعت کو بوجھل سا کر رہی تھی؛مجھے اپنا دم گھٹتے ہوئے محسوس ہوا۔میں نے گھبراہٹ کے عالم میں والد کی طرف دیکھا،وہ اطمینان سے کھڑے فاتح پڑھ رہے تھے ،میں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے۔ہمارے آنے سے وہاں ماحول کچھ بھاری سا ہوگیا:سب لوگ حیرت،دل چسپی اورمرعوبیت سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔وہاں موجود سب لوگوں کے چہروں پر اطاعت اور فرماں برداری کے تاثرات دیکھ کے میں کچھ خوف زدہ اور متاثر بھی ہوا۔والد نے جیب میں سے کچھ نوٹ نکال کر قبر پر بچھی سبز چادر پر رکھے۔ وہاں پہلے سکے اور چھوٹے نوٹ بکھرے ہوئے تھے۔سب لوگوں نے والدکے ہاتھ کا نظروں سے تعاقب کیا اور نوٹ دیکھ کرہمارے باہر نکلنے کے لیے تعظیم سے راستہ دیا۔

’’یہ ایک الگ دنیا ہے ۔‘‘والد نے راستے میں بات شروع کی۔’’اِس دنیا میں داخل ہونا جتنا آسان ہے نکلنا اتنا ہی مشکل۔میں نے زندگی میں کئی تجربے کیے ہیں اور یہ ان میں سے ایک ہے۔میں مزار پر جا کر بزرگ سے بھیک نہیں مانگتا،بس ماحول کی پر اسراریت مجھے ایک گہرا سکون دیتی ہے۔پر اسراریت سمجھتے ہو نا ؟‘‘انھوں نے میری طرف دیکھ کر میرے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی۔

’’جی ہاں !‘‘میں ان کی گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ اور اصطلاحات سے کافی حد تک واقف ہو چکا تھا۔

’’ہر مزار کا ماحول دوسرے جیسا ہی نظر آتا ہے لیکن ایسے ہوتا نہیں۔ہر مزار کے ماحول میں بزرگ کی شخصیت بھی شامل ہوتی ہے جو یقیناًدوسروں سے مختلف ہی ہونی ہے اِس لیے ماحول بھی مختلف ہوگا لیکن عام آدمی کو نظر نہیں آتا۔وہ ہر مزار کو اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لیے استعمال کرتاہے حالانکہ مزار توایک روحانی تسکین کے لیے ہوتے ہیں۔میں جب کسی مزار پر آتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ایسے گھر میں ہوں جہاں سکون کا غلبہ ہے۔‘‘اس وقت ہم قلعہ سوبھا سنگھ،جس کا اب نام بدل دیا گیا ہے،میں سے گزر رہے تھے۔ریلوے لائن کے پارشیشم کے گھنے جنگل تھے اورخشک ڈیگھ ندی میں ریت چمک رہی تھی۔میں نے اس مصروف قصبے کو ایک نظر دیکھا۔ والد کی نظر سامنے سڑک پر تھی۔مجھے احساس ہواکہ وہ سکون کے متلاشی ہیں۔گھر میں سکون کے نا ہونے کا ذمے دار کون ہے ؟بنیادی طورپرگھر کو پر سکون رکھنے کی ذمے داری تو ماں کی بنتی ہے لیکن اس کا رویہ اتنا غیر لچک دار ہے کہ وہ والد کی برابری کو قبول نہیں کرنا چاہتی اوروالد اتنے کمزور کہ اپنی برتری ثابت نہیں کر سکتے۔ والد کا مزاروں پر جانا جہاں مجھے exciting لگا ان پر اتنا ہی ترس بھی آیا۔انھیں سکون میسر نہیں تھا جسے وہ مزاروں کی پراسرار خاموشی میں ڈھونڈتے تھے۔میں ان کے ساتھ کئی مزاروں پر گیا،ہر جگہ ان کا ایک ہی معمول تھا۔وہ فاتح پڑھ کے خاموش کھڑے رہتے،قبر پر پیسے رکھتے اور الٹے قدم رکھتے ہوئے باہر آجاتے۔

میں وہاں سکون محسوس کرنے کی کوشش کرتا لیکن مجھے اسرارمیں ڈوبی ہوئی خاموشی کا احساس ہوتا!

ایک دن ماں کو پتا چل گیا کہ میں والد کے ساتھ مزاروں پر جاتا ہوں۔والد اور میں نے یہ طے تو نہیں کیا تھا لیکن ہم دونوں کے درمیان میں مزاروں پر جانا ایک راز تھا جو میری لاپرواہی سے فاش ہو گیا۔والد ہمیشہ کی طرح اپنے کمرے میں تھے اور میں ماں کے پاس بیٹھا اس کی روزانہ کی کہی ہوئی باتیں اس شام بھی سن رہا تھا۔ہمیشہ کی طرح میں ان باتوں سے اکتایا ہواتوتھا لیکن عدم دل چسپی کا مظاہرہ کرنامیرے لیے ممکن نہیں تھا۔ماں اتنی سخت مزاج تھی کہ وہ مجھے کبھی معاف نا کرتی۔میں و ہ اکتا دینے والی باتیں سنتے ہوئے اتنابیزارہوگیا کہ میں نے اسے بے ڈھڑک بتا دیا کہ اس کی ایسی باتوں سے بچنے کے لیے والد مزاروں پر جانا شروع ہو گئے ہیں۔یہ سنتے ہی مجھے لگا کہ وہ سکتے میں آگئی ہے۔اس کا رنگ زرد اور ہونٹ نیلے ہوگئے،میں خوف زدہ ہو گیا کہ اس کا دل بند ہو رہا ہے۔میرے ذہن میں والد کو بلانے کا خیال آیالیکن میں نے سوچا کہ شاید ماں اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں انھیں دیکھنا نا چاہے۔پھر اس کے چہرے کا رنگ معمول پر آنے کے بعد وہاں ایسا تاثر آیا جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہ اتنے غصے میں تھی کہ مجھے لگا کہ اس کے چہرے کی بوٹیاں بکھر جائیں گی۔اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی؛مجھے لگا کہ وہ میرے اوپر جسمانی حملہ کر دے گی۔

’’تم بھی ساتھ جاتے ہو ؟‘‘اس نے بھینچے ہوئے ہونٹوں میں سے بمشکل یہ الفاظ نکالے۔اِن لفظوں میں کھبی ہوئی نفرت جھلسا دینے والی لو کے تھپیڑے کی طرح مجھے اپنی لپیٹ میں لے گئی۔میں اسے خاموشی سے دیکھتا رہا؛شاید خود کو مجتمع کرہا تھا۔مجھے ماں کی شعلہ برساتی آنکھیں اپنے پر محسوس ہوئیں۔سچ تو یہ ہے کہ میں اتنا ڈرا ہوا تھاکہ جھوٹ بولنے کی کوشش کے باوجود سچ بول گیا۔

’’ہاں !‘‘ مجھے لگا کہ میں نے دانستہ والد کے ساتھ بے وفائی کی ہے۔مجھے ان کی معصومیت کا تحفظ کرنا چاہیے تھا۔

’’وہ بزدل ہے جو دیکھے کے بجائے ان دیکھے کے تعاقب میں ہے۔‘‘یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ماں نے کسی طرح والد کا ذکر کیا ہو۔والد نے اپنی کبھی ختم نا ہونے والی باتوں میں ماں کاکسی طرح ذکر نہیں کیا تھا۔شاید دونوں ایک غیر تحریر شدہ معاہدے کے تحت ایک دوسرے کا ذکر کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔ مجھے ماں کے فقرے سے بھی حیرت ہوئی۔ وہ تو ہروقت سبزی اور گوشت پکانے کی ترکیبوں کے بارے میں باتیں کرنا پسند کرتی تھی؛دیکھے اور ان دیکھے کے فرق نکالنا تو والد جیسے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگوں کا کام تھا۔

میں حیرت زدہ اسے دیکھتا رہا !

اس کی آنکھوں میں مجھے پہلے ویرانی اور پھر وحشت نظر آئی۔اس کی کیفیت اس آدمی کی سی تھی جس کا اپنے باپ کے قاتل سے اچانک سامنا ہو گیا ہو۔مجھے لگا کہ ان چند لمحوں میں وہ ایک شدید کشمکش میں سے گزر رہی ہے۔مجھے وہ ایک چپک جانے والے مومی جالے میں سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی؛اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔’’اسے اگر فرار کی ضرورت تھی تو کوئی اور راستہ ڈھونڈتا؛جوگی بن جاتا۔‘‘مجھے اِس فقرے نے بھی الجھن میں ڈال دیا۔اگر وہ ایک شدید کشمکش میں سے گزر رہی تھی تو میں بھی ایک طرح کی کشمکش کی کیفیت میں تھا۔ وہ مجھے حیران کر گئی تھی؛مجھے ماں کے بجائے وہاں کوئی اور ہستی بیٹھی نظر آئی جس سے میری شناسائی نہیں تھی۔میں اس سے اِس اچانک تبدیلی کی وجہ جاننا چاہتا تھالیکن اسے سوال کرنا پسند نہیں تھا۔میں خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔وہ بھی مجھے دیکھے جا رہی تھی۔اس کے چہرے کے تاثرات معمول پر آنا شروع ہوگئے اور وہ مجھے اپنی ماں ہی لگنے لگی۔’’تم میری باتوں سے حیران ہوئے ہو ؟‘‘اس کی آواز میں اب ایک ٹھہراؤ تھا جو مجھے گہرا لگا اور مصنوعی بھی۔مجھے حیرانی اِس بات سے بھی ہوئی کہ اس نے ایک سوال پوچھا تھا۔میں اثبات میں سر ہلانا چاہتا تھا لیکن اب اس کی ہیبت پھر سے مجھے اپنی گرفت میں لینے لگی تھی؛اس کی جگہ اگر والد ہوتے تو میں یقیناًجواب دے دیتا۔ماں ایک نا پیش گفتنی ہستی تھی اِس لیے میرا خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔’’آؤ میرے ساتھ !‘‘اور وہ آہستہ سے اٹھی،مجھے اس کے کھڑے ہونے کا عمل کافی با اطمینان لگا؛جیسے وہ میری بے یقینی کی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہی ہو۔اس نے چاروں طرف دیکھا،والد کے بند کمرے پر نظر ڈالی اور پھر اپنی آنکھیں میرے اوپر روک دیں۔اس کے ہونٹوں پر شرارت سے بھری مسکراہٹ تھی جیسے ماں کو غچہ دے کر بھاگ جانے والے بچے کے ہونٹوں پرہوتی ہے۔میں بھی اپنے آپ کو سنبھال چکا تھا۔میں اس کی باتوں سے حیران ہواتھا،وہ ایسی فلسفیانہ باتیں کہہ گئی تھی جو اس کے ساتھ وابستہ نہیں کی جاسکتی تھیں ۔

ماں کے کمرے تک کے چند قدم میں اس کے پیچھے چلا۔والد اور ماں ایک عرصے سے الگ الگ کمروں میں رہ رہے تھے اورلاؤنج جو مشترک بیٹھنے کی جگہ تھی اس پر ماں قابض تھی اور والد کو میں نے کئی سالوں سے وہاں بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا تھا،ماں ہمیشہ اپنی مخصوص کرسی پر سارا وقت بیٹھے گھر کو اپنی نظر میں رکھتی۔ ماں کمرے تک ایک اعتماد کے ساتھ چلتے ہوئے گئی۔عموماً وہ ایک ٹانگ دبا کر چلاکرتی تھی لیکن اس سہ پہر وہ مجھے چند برس پہلے والی ماں لگی۔اس کے کمرے کے ساتھ ایک طرف جُڑا ہو ا غسل خانہ تھا اور دوسری طرف چھوٹا سا سٹور روم۔وہ سیدھا سٹور روم میں گئی اور روشنی جلا کے اس نے ٹین کی چادر کے تین بڑے ٹرنکوں کے منہ کھول دیے۔وہ ٹرنک کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔میں حیرت سے ترتیب سے لگی ہوئی ان کتابوں کو دیکھتا تھااور وہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتی تھی؛ایسے لگا کہ ہم دونوں کسی سازش میں شریک ہیں۔

’’ میں نے بھی چار حرفوں کے ساتھ شناسائی پیدا کی ہوئی ہے۔‘‘اس نے باری باری ڈھکنے بند کرتے ہوئے کہا،’’مطالعہ کسی کی جاگیر نہیں۔میں ایک کم مطالعہ عورت نہیں ہوں۔تمھارا باپ وہاں بیٹھ کر ۔‘‘اس نے لاؤنج کی طرف اشارہ کیا،’’کتابوں اور علم کی باتیں کیا کرتا تھااور میں جاہلوں کی طرح منہ کھولے اس کی باتیں سنا کرتی تھی۔وہ باتیں جہاں میرے لیے ایک اذیت تھیں اور مجھے شدیداحساسِ کمتری میں مبتلا کرتی تھیں وہاں میرے اندر ایک نئی عورت جنم لیتی تھی جو نا کسی کی بیوی تھی اور نا ہی ماں ،وہ بس ایک عورت تھی جس نے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔‘‘اس نے ایک لمبی سانس لی اورمیری طرف دیکھا۔میں اس سے نظر ملانا چاہتا تھا اور مجھے کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی۔میں پھر بھی خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا؛یہ میرے لیے ایک revelation تھا۔وہ لاؤنج کی طرف چل پڑی۔ میرا کمرہ اوپر والی منزل میں تھا لیکن اس وقت میری وہاں جانے کی ہمت نہیں تھی؛ماں نے مجھے زندہ گاڑ دینا تھا۔

میں لاؤنج میں آکر بیٹھ گیااور وہ دن یاد کرنے لگا جب ہم تینوں یہاں بیٹھے گھنٹوں باہمی دل چسپی کی باتیں کیا کرتے تھے،پھر کہیں سے اکتاہٹ اور ناپسنددیدگی چوتھے فرد کی طرح بیچ میں آن موجود ہوئیں اور وہ دونوں دور ہوتے چلے گئے۔اب میں نے ماں کو ایک اور نظر سے دیکھنا شروع کردیا۔میں اس کی باتوں میں معنی تلاش کرنے لگااوراس نے بھی سبزی گوشت پکانے کی ترکیبیوں پر بات کرنا چھوڑ دیا ۔والد،ماں اور میرے درمیان میں پیدا ہونے والے نئے رشتے سے واقف نہیں تھے۔وہ اسی طرح چھٹی والے دن مجھے ساتھ لے جاتے۔اب انھوں نے مزاروں پر جانے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے میچ دیکھنے لگے تھے۔ان کے حبیب بینک میں تین اکاؤنٹ تھے اور انھوں نے بینک کی کرکٹ ٹیم کا ہر میچ دیکھنا شروع کر دیا۔چھٹی والے دن وہ مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ان کے پاس ہر کھلاڑی کا مکمل ڈاٹا ہوتا تھا اور وہ موقع ملنے پر انھیں مشورہ اور ہدایات بھی دیتے۔

ہم اقبال سٹیڈیم فیصل آباد سے آرہے تھے۔’’دیکھو بیٹا!‘‘انھوں نے کبھی مجھے بیٹا کہہ کر نہیں بلایا تھا،وہ مذاق میں کہا کرتے تھے کہ وہ مجھ سے تھوڑا ہی بڑے ہیں۔انھوں نے ایک لمبی سانس لی جس میں ایک چھوٹی سی آہ تھی۔میں نے تھوڑی دل چسپی اور کسی حد تک حیرانی کے ساتھ ان کی طرف دیکھا۔میں نے ان کا چہرہ کبھی غور سے نہیں دیکھا تھا۔والد مجھے وہ نہیں لگے جو میں روز دیکھتا آیا تھا۔ان کے چہرے پر عمر کے پنجوں کی خراشیں جا بجا لگی ہوئی تھیں۔ٍوالد کی آنکھوں کے گرد جھریوں نے ایسے گھونسلا بنا رکھا تھاجس کے تنکے گردن تک پھیلے ہوئے تھے اور وہ مجھے پہلی مرتبہ بوڑھے دکھائی دیے۔ان کی باتیں،قہقہے،مسکراہٹیں اورآنکھوں کی چمک اتنی جوان لگا کرتی تھی کہ میرے خیال میں انھوں نے ہمیشہ جوان رہنا تھا۔ میں پریشان سا انھیں دیکھے جا رہا تھااور وہ سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔’’دیکھو بیٹا!‘‘انھوں نے دہرایا۔ میں نے اپنی سوچ کی ڈبکی سے باہر نکل کے سانس لی۔’’زندگی میں کوئی commitmentہونی چاہیے۔میں نے زندگی بغیر commitmentکے گزار دی۔ڈاک بنگلوں میں دن گزارنا،تاریخی مقامات کی سیر اور پھران پر تحقیق،مزاروں پر حاضری دینا،کئی گھنٹوں کی لمبی ڈرائیو پر جانااور کرکٹ کے میچ دیکھنا زندگی تو نہیں لیکن میں نے بنا لی تھی۔میں نے اتنا ہی کام کیا جس سے گھر چلے اور تم پڑھ سکو۔ مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ دراصل زندگی کے ساتھ بے وفائی تھی۔ میں نے سنا ہے کہ تاش کے پتوں کی طرح زندگی کبھی معاف نہیں کرتی۔کہا جاتا ہے کہ اچھے پتوں والے ہاتھ کو اگر صحیح طرح استعمال نا کیا جائے تو پتے معاف نہیں کرتے۔‘‘وہ خاموش ہوگئے۔مجھے ہمیشہ ان کی باتیں سننے کا مزہ آتا رہا ہے۔اس دن میں کچھ خوف زدہ ہو گیا۔ان کی باتوں میں ہمیشہ امید ہوتی تھی اوراس دن مایوسی مجھے سردیوں کے بادلوں کی طرح بھاری لگی۔میں چاہتا تھاکہ وہ بولتے جائیں تاکہ ان کے اندر کی گھٹن کسی طرح ختم ہو جائے۔’’یہ یکسانیت شاید میری سزا ہے۔ میں دراصل جو بھی کر رہاہوں اس یکسانیت کو دور کرنے کے لیے ہے۔‘‘وہ تھوڑا سا ہنسے،ان کی نظر سڑک پر ہی تھی،’’تم زندگی میں یکسانیت کے بجائے تبدیلی کو ترجیح دینااور اپنے خیالات اور سوچ کی تعلق داروں کے ساتھ ساجھے داری کرنا۔‘‘مجھے پہلی مرتبہ والد کی الجھن اورناکامی کی وجوہات کا احساس ہوا۔ماں کے بھی کچھ ایسے ہی مسائل تھے جن کا حل اس نے ،کسی کو پتا چلے بغیر،کتابوں میں ڈھونڈ لیا تھا ؛دونوں ہی یکسانیت کا شکا رتھے۔والد کی فرار میں لپٹی ہوئی سوچ ان کی زندگی کے عملی پہلوؤں پر بھاری تھی۔ماں کی سچوئشن اِس سے مختلف تھی؛وہ ساجھے داری کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ماں کے رویے میں ایک درشتی تھی جسے اس نے کبھی درست کرنے کی سعی نہیں کی۔’’میں اِس طویل یکسانیت کی وجہ سے اکتاہٹ کا شکار ہوتا چلا گیااور پھر سہارے ڈھونڈنے لگا۔‘‘انھوں نے میری طرف دیکھا،میں نے ان کے بڑھاپے سے نظر بچانے کے لیے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔مجھے لگا کہ وہ کچھ بے چین سے ہیں ؛مجھے ان پر ترس آیا۔’’مجھے اب احساس ہوا ہے کہ زندگی نے مجھے معاف نہیں کیا۔‘‘ہم نے باقی کا سفر خاموشی میں طے کیا۔

اس سفر کے چند دن بعد وہ فوت ہوگئے !

والد کے فوت ہونے کے بعد کھلا کہ ہم مالی طور پر اس طرح مستحکم نہیں تھے جس طرح والد کی زندگی میں ہمارا خیال تھا،ان کے مالی معاملات بھی لاپرواہی کا شکار تھے۔ان کی وفات کے بعد ماں نے معاملات اپنے ہاتھ میں اِس انداز میں لیے گویا وہ میری ماں ہونے کے ساتھ باپ بھی ہو۔یہ ایک طویل جدوجہد تھی جس میں ہم دونوں نے شکست کو نزدیک بھی نہیں پھٹکنے دیا۔میں نے والد کے ڈوبے ہوئے کاروبار کو گہرے پانی میں سے نکال کرکنارے پر کھڑا کردیا۔ماں اِس تمام عرصے میں میرے پیچھے ایک ستون کی طرح کھڑی تھی۔ہم ایک طویل سرنگ میں سے گزر کر روشنی میں آگئے تھے اور کسی حد تک اپنی کامیابی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ،والد کے برعکس ،زندگی کو اپنا خیرخواہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔اب وقت آگیا تھا کہ میں اپنی شادی کے بارے میں بھی سوچتا۔ ماں کی دھاک کچھ ایسے بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کے ساتھ ایسی کوئی بات کرنا ممکن نہیں تھا جس کے بارے میں اسے پیشگی مطلع نا کر دیا گیا ہو۔میں اپنے اکیلے پن سے اکتا گیا تھا اور والد کی یکسانیت اوراس کے ساتھ وابستہ اکتاہٹ کی وجوہات میری سمجھ میں آنے لگی تھیں۔مجھے کبھی محسوس ہوتا کہ وہ میری شادی نہیں کرنا چاہتی؛شاید اس کے لیے شادی ایک ناکام تجربہ تھا اور وہ اپنے بیٹے کو اِس عمل کا حصے بننے سے روکنا چاہتی ہو!مجھے ایسے ہی لگااورشاید یہ میرا وہم بھی ہو سکتا ہے۔میں انتظار کے علاوہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتا تھا۔ٍ

ہمارے درمیان میں کسی قسم کا کھچاؤ نہیں تھا،ماں ہر وقت خوش اورمطئمن نظر آتی۔مجھے حیرت بھی ہوتی کہ کیا اسے والد کے فوت ہونے کا ہی انتظار تھا ؟ٍماں اب اپنی مخصوص نشست پر بیٹھے رہنے کے بجائے گھرمیں ہر وقت ادھر ادھر چکر کاٹتی رہتی لیکن والد کے کمرے میں کبھی نا جاتی۔ان کے کمرے کا دروازہ ہمیشہ بند ہوتا اور مجھے محسوس ہوتا کہ وہاں گرد،جالوں اور چھپکلیوں نے قبضہ کر لیا ہوگا۔والد کی جوانی کی ایک تصویر ان کے رائٹنگ ٹیبل پر پڑی ہوتی تھی جسے میں اپنے کمرے میں رکھنا چاہتا تھالیکن ماں کا مجھ پر اتنا دبدبہ تھا کہ میں اس سے والد کے کمرے اور اس تصویر کے بارے میں پوچھنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتا تھا۔اس تصویر میں وہ کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے معصومیت سے مسکرا رہے ہیں اور یہ وہ معصومیت تھی جو مرنے کے بعد ان کے چہرے پر تھی۔ان کے بند دروازے کو دیکھ کر میں ان کی زندگی سے لاتعلقی اور اپنی ذات سے پیار یادآنے کے ساتھ ہی اداس ہوجاتا،میرا دل بھی کسی مزار کی پراسرار خاموشی میں کھڑے ہونے کو کرآتا لیکن مجھے زندگی میں ابھی بہت کچھ کرنا تھا۔مجھے ان کے لاتعلق رویے کا سوچ کررشک کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوتی۔

مجھے ماں کا اِس طرح پرُ اطمینان ہوناناپسند ہونے کے ساتھ پسند بھی تھا۔اس نے اپنا ایک حلقہ بنا لیا تھا جس میں وہ بیٹھتی اور سب ایک دوسرے کے گھروں میں دعوت کھاتے۔ اپنے گھر میں ا یسی دعوتیں میرے لیے ایک امتحان ہوتیں۔ ماں بہترین کے علاوہ کسی اور معیار سے مطمئن نہیں ہوتی تھی اِس لیے مجھے اس کے معیار کی سطح کو قائم رکھنے کے لیے کافی پریشانی اٹھانا پڑتی۔ہر چیز مشینی طریقے سے ہونی چاہیے تھی اور انسانی غلطی کا امکان قابلِ قبول نہیں تھا۔یہ ماں کی ہم عمر آسودہ حال عورتوں کا ایک گروپ تھا جو ایک اجتماعی بے فکری کی زندگی گزار رہی تھیں۔وہ پکنکوں پر جاتیں،تاش پارٹیاں کرتیں،ایک دوسرے کے لیے تحائف خریدتیں،ریستورانوں میں کھانے کھاتیں اوربیوٹی پارلروں کے چکر لگاتیں۔والد کے فوت ہونے کے بعد ماں کی زندگی ایک مسلسل قہقہ تھاجسے میں سمجھنے یا اپنی گرفت میں لینے سے قاصر تھالیکن ماں کی خوشی میرے لیے باعث اطمینان بھی تھا۔وہ گھر سے سج دھج کے نکلتی اور تازہ دم واپس آتی۔مجھے اس کی قوتِ ارادی پر حیرت ہوتی اور خوشی بھی اور بعض اوقات جب میں مایوسیوں کے گھیرے میں ہوتاتو حسد کا احساس بھی ہوتا۔

ماں نے ایسا معمول بنا یاہواتھا جس میں تبدیلی ممکن نہیں تھی۔وہ دوپہر سے پہلے روزانہ کہیں نا کہیں چلی جاتی،جاتے وقت اس کے ہونٹ ایک مسرت سے چمک رہے ہوتے اور واپسی پر اس کی چال میں ایک غرور ہوتا جواس کے اطمینان کی سرگوشی کر رہا ہوتا۔اگر میں گھر پر ہوتا توہم دونوں اکٹھے بیٹھتے،وہ ایک میٹھی سی آہ بھرتی،پانی کے چند گھونٹ پی کے گھر پر ایک ناقدانہ سی نظر دوڑاتی اور یہاں سے وہ ایک عام گھریلو عورت بن جاتی ،میری وہ ماں جس کے ساتھ میری ساری عمر سے شناسائی رہی تھی۔وہ ملازمہ کو ہدایات دیتی،جواب طلبی کرتی اور پھر اسے اپنے کام کرتے ہوئے دیکھتی۔اس کے چہرے کی نرماہٹ،غرور اورمٹھاس کے بجائے خاتونِ خانہ کا’یہ کیا ہے ‘یا ’یہ کیوں نہیں ‘والا تاثر ہوتا جو مجھے اطمینان بھی دیتا اور خوف زدہ بھی کر دیتا۔

مجھے وہ کبھی مصنوعی لگتی،اس گڑیا کی طرح جو چابی سے چل رہی ہو !

پھر مجھے محسوس ہونے لگا کہ وہ گڑیا سے ماں بنتی جا رہی ہے !

وہ اسی طرح خوب صورت تھی لیکن اس خوب صورتی میں ایک اداسی در آتی جا رہی تھی،جیسے وہ کسی گم شدہ چیز کو ڈھونڈتے ہوئے ڈھونڈنا بھول گئی ہو۔اس کی اداسی میں ایک لاتعلقی بھی تھی جس میں سے میَں اسے شناخت کرنے کی کوشش میں رہتا۔میں اب شادی کرنا چاہتا تھا،میری نظر میں کوئی لڑکی تو نہیں تھی ،میں چاہتا تھا کہ وہ خود نا صرف میرے ساتھ بات کرے،میرے لیے بیوی ڈھونڈنے کے عمل کا آغاز بھی کرے۔میں اسے اپنی مصروفیات،تنہائی اورمستقبل کے اپنے ارادوں سے آگاہ کرتا رہتالیکن وہ کوئی ردِعمل ظاہر نا کرتی،بس ایک خاموش سی لاتعلقی سے میری بات سنتی رہتی۔

ایک دن ماں باہر نا گئی اور میں نے اس کے گھر میں رہنے کو کوئی اہمیت نا دی۔اس دن میں بھی گھر ہی رہا۔وہ کھڑکی کے سامنے بیٹھی اپنی انگلیوں سے کھیلتی رہی اور میں اس کی خاموشی کی وجہ کا پتا چلانے کی خواہش کے باوجوداس سے کچھ پوچھ نہیں سکتا تھا۔پھراس کاوہاں بیٹھے رہنا ایک معمول بن گیا۔میں جب اپنے دفتر کے لیے نکلتا تو وہ وہاں بیٹھ چکی ہوتی اور اس کی نظرسامنے گلی میں ایک نقطے پر ٹکی ہوتی۔ وہ وہاں کیا دیکھتی تھی؟ میں اور کئی باتوں کے ساتھ یہ بھی جاننا چاہتا تھا لیکن اس سے پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا اور وہ بھی میری پتا چلانے کی بے تابی کو سمجھتی تو ہوگی لیکن اپنی کسی سوچ کے ساتھ ساجھے داری کرنا اس کی زندگی کا معمول نہیں تھا۔وہ گلی میں دیکھتی رہتی اور میں اسے دیکھتا رہتا۔ میں اپنے کام کو نظر انداز کر رہاتھا اور میری اِس نظر اندازی کی تائید کیے جانا اس کے اصولوں میں سے نہیں تھا لیکن اس نے میرے اپنے پاس رہنے پر اعتراض بھی نہیں کیا تھا۔میں نے محسوس کیا کہ گھر میں رہنے سے میرے کاروباری معاملات پر منفی اثرات ثبت ہونا شروع ہو گئے ہیں تو میں نے ماں کا خیال رکھنے کے لیے ایک نرس رکھ لی۔اب شام کو وہ ماں کو اس کے کمرے میں پہنچاتی۔

ماں نے باہر جانا مکمل طور پر چھوڑ دیا تھا!

ایک دن اس نے مجھے کام پر جانے سے روک دیا۔ اس کا یہ تقاضا معمول سے ہٹا ہوا عمل تھا۔ اس نے کبھی والد یا مجھے کام پر جانے سے نہیں روکا تھا۔مجھے اس کا روکنا اچھا لگا اور میں کچھ پریشان بھی ہوا۔مجھے والد کے ساتھ فیصل آباد سے واپسی کے سفر پر ہونے والی گفتگو یاد آگئی۔ماں اپنی کرسی پر بیٹھی گلی میں دیکھتی رہی اور میں اسے دیکھتا رہا۔اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا؛وہ بس گلی میں دیکھے جا رہی تھی۔نرس کچھ دیر اسی کمرے میں بیٹھی رہی اور پھر وہاں سے اٹھ گئی۔ ماں کو بھی شاید اس کے اٹھنے کا انتطار تھا۔

’’میرے پاس آؤ !‘‘مجھے ماں کی بات سمجھنے میں کچھ وقت لگا۔مجھے اس کے کسی بھی قسم کی بات کرنے کی امید نہیں تھی۔اس کا لہجہ ہمیشہ درشت رہا تھااور مجھے اس کی آواز میں گندھی مٹھاس پر حیرت بھی ہوئی ۔ میں کچھ کہے بغیر اس کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی کرسی پر حرکت کی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہم دونوں نے خالی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا ،مجھے لگا کہ ہم ایک دوسرے کو تول رہے ہیں۔ میری نظر میں شک اور تجسس آگئے تھے جب کہ وہ اسی طرح مجھے دیکھتی رہی۔اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔اس مسکراہٹ میں مجھے ماں کی ایک نئی شکل نظر آئی۔میں بھی جواب میں مسکرانا چاہتا تھا لیکن اِس انوکھی سچوئیشن سے کچھ خائف ہو گیا۔

وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے والد کے بند کمرے کے سامنے کھڑی ہوگئی اور خوف ،بے یقینی اور کم اعتمادی ایک برقی رو کی طرح میرے جسم میں دوڑ گئے۔مجھے وہ وقت یاد آگیا جب دونوں ،ایک دوسرے کو بتائے بغیر،گویا کسی معاہدے کے تحت،الگ الگ کمروں میں چلے گئے تھے۔ وہ مجھے وہاں کیوں لائی تھی ؟میں متجسس تو تھا ہی مجھے ایک انجانا سا خوف بھی اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پھر مسکراہٹ پھیل گئی؛اِس مسکراہٹ میں اداسی اور محرومی تھے۔میرے اندرایک خلا وجود پا کر پھیل گیااور میں اس خلا میں اپنے آپ کو تلاش کرنے لگا۔مجھے اچانک ایک گہری تنہائی نے اپنی گود میں لے لیا۔

’’میرے خیال میں میَں تھک گئی ہوں یا ہار بیٹھی ہوں۔‘‘اس کی آواز میں تھکاوٹ تھی؛پتا نہیں کیوں ؟ پر مجھے اس پر ترس آیا۔’’تمھارا باپ جیت گیا۔وہ جب رخصت ہواتو میں سمجھی کہ میں جیت گئی ہوں لیکن اب مجھے شدید قسم کی تنہائی کا احساس ہو رہا ہے۔ وہ جب تھا تو میں اکیلی ہونے کے باوجود تنہا نہیں تھی ،اب تنہا بھی ہوں۔‘‘اس نے بڑھ کر والد کے کمرے کا دروازہ کھولا اور میرا خیال تھا کہ وہاں گرد،جالے،چھپکلیاں،لال بیگ ،ٹڈیاں،بند کمرے کی سیلی سی ہواڑ ہو گی۔مجھے ایک خوش گوار جھٹکا لگا،والد کا کمرہ صاف،باترتیب اورروشن تھا۔ میری نظر فوراً والد کی تصویر کے تعاقب میں گئی۔وہ ان کے میز پر سے میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔’’میں اِس کمرے میں منتقل ہو رہی ہوں۔ اب شاید تنہا نا رہوں۔‘‘اس نے شرماتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ میں نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ہم چند لمحے جو میری زندگی جتنے طویل تھے،کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ مجھے اسی طرح کھڑے کھڑے اپنی تنہائی کا پھر احساس ہوااور ماں اسی وقت کمرے کی طرف چل پڑی۔میں نے سوچاکہ ماں بھی کہیں مزاروں پر جانا نا شروع کر دے !

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031