نظم ۔۔۔ نصیر احمد ناصر

نظم

نصیر احمد ناصر

جہاں اُس نے پڑھتے ہوئے مجھ کو چھوڑا تھا
اب تک وہیں ہوں
کسی نے کتابِ محبت پلٹ کر نہ دیکھی
زمانہ کہیں کا کہیں جا چکا ہے
مگر میں ادھوری کہانی میں اٹکا ہُوا
منتظر ہوں کہ وہ آئے
آ کر کتابِ محبت کے اوراق پلٹے
کہانی کو آگے بڑھائے ۔۔۔۔۔۔

اُسے زندگی میں بہت آگے جانے کی خواہش تھی
شہرت، گلیمر سے بھرپور
اونچے سہانے دنوں کی تمنا تھی
عمرِ گریزاں کی مصروفیت میں
اُسے پھر سے پڑھنے کی فرصت کہاں تھی
کتابوں کو الماریوں میں سجا کر
اُسے بھول جانے کی عادت تھی ویسے بھی
وہ جانتی تھی
پرانی کتابوں سے مِلتا ہی کیا ہے
فقط چند سوکھے ہوئے پھول،
بے لمس پتّے، مَری تتلیاںِ،
لفظ دیمک کے کھائے ہوئے،
خط بطورِ نشانی چھپائے ہوئے،
نام کچھ دوستوں کے ۔۔۔۔۔۔۔

جہاں اُس نے پڑھتے ہوئے مجھ کو چھوڑا تھا
اب تک وہیں ہوں
کہ میں بھی فقط اک نشانی ہوں
گزرے تعلق کی بُھولی کہانی ہوں
یادوں کی بوسیدگی کی علامت ہوں
آدھی محبت کی پاکیزگی کی ندامت ہوں میں بھی
مقدس صحیفے میں رکھا ہُوا مور کا پنکھ ہوں
لذتِ اشک میرا مقدر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930