سالگرہ کا تحفہ ۔۔۔ راحیلہ خان

سالگرہ کا تحفہ

راحیلہ خان

میاں جی کی سالگرہ قریب آرہی تھی۔مہ پارہ مشکل میں تھیں کہ آخر میاں جی کو سالگرہ پر کیا تحفہ دیا جائے ۔مردوں کے استعمال کی گنتی کی تو چیزیں ہوتی ہیں ۔پچھلی سالگرہ پر انہوں نے بہت چاہ سے کلاسک فرنچ فریگرینس اریمس 900 کا تحفہ دیا تھا۔برنارڈ شان کی تخلیق کردہ یہ مردانہ خوشبو انہیں اپنی نو عمری سے پسند تھی ۔یہ خوشبو ان کے بچپن اور نوجوانی میں گھر میں ہر  طرف سرایت کئے ہوتی تھی۔ آج بھی اس کی مہک انہیں اپنے والد کی یاد دلاتی تھی ۔بازار میں اس لیبل کے بہت سے پرفیوم انہیں دکھائے گئے مگر خوشبو اس شدومد سے ان کی حس شامہ میں محفوظ تھی کہ ایک لمحے میں اصل اور نقل کا فرق واضح ہوجاتا۔بڑی تلاش بسیار کے بعد اصلی اریمس 900 ملا خوبصورت گفٹ پیپر ۔میں لپیٹ کر میاں جی کو دیتے ہوئے اس خوشبو کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کا ذکر بھی کر دیا۔بس یہی غلطی ہوگئی۔میاں جی کسی معاملے میں کلاسک کے قائل نہیں تھے ،ادب،فلم،مزاح ،تو بھلا کلاسک پرفیوم کیونکر پسند کرتے لیکن چونکہ مہ پارہ اپنی بے تحاشا پسندیدگی اور جذباتی وابستگی کا ذکر کر چکی تھیں اس لئے مروت میں کچھ کہہ نہ سکے تاہم اس تحفے کو اپنی تالے والی الماری میں رکھ کر جیسے بھول گئے۔یہ تالا  مہ پارہ کو بہت کھٹکتا تھا۔بھلا میاں بیوی کے درمیان کیسی پرائیویسی مگر میاں جی کا کہنا تھا کہ شادی ضم ہونے کا نام نہیں بلکہ وہ میاں بیوی کے ایک جان دو قالب ہونے کے قائل ہیں اور ہر قالب کو تھوڑی بہت پرائیویسی کا حق تو ملنا چاہیے۔ چند دن پہلے اتفاق سے مہ پارہ کی موجودگی میں کسی کام سے وہ الماری کھلی تو مہ پارہ یہ دیکھ کر رنجیدہ ہوگئیں کہ پرفیوم کی بوتل کی پیکنگ بھی نہیں اتری تھی ۔میاں جی ان کے ملال کو بھانپ گئے اور بولے  “وہ، دراصل، ابھی دوسرے پرفیوم ختم نہیں ہوئے اس لئے نہیں کھولی .”

“کوئ بات نہیں ! تحفہ دیتے وقت مجھے آپکی پسند کا خیال رکھنا چاہئے تھا ۔مہ پارہ نے دل کو سنبھال کر اعتراف کیا ۔

اچانک میاں جی کو جیسے کچھ یاد آگیا جلدی سے اپنی بائیں کلائی پہ بندھی گھڑی دکھاتے ہوئے کہنے لگے

 “یہ دیکھو یہ بھی تو تمہارا دیا ہوا تحفہ ہے میں کس قدر چاہ سے استعمال کرتا ہوں”

تین سال پہلے نیلے ڈائل کی جدید آٹومیٹک گھڑی مہ پارہ نے میاں جی کی سالگرہ ہی پر دی تھی ۔گھڑی خریدنے سے پہلے اس کی تصویر واٹس اپ کرکے میاں جی کی رضامندی حاصل کرلی تھی لہذا یہ ان کی پسند کے عین مطابق تھی اور وہ اسے بہت شوق سے پہنتے تھے ۔یہ گھڑی شب و روز ان کی کلائی پربندھی رہتی کبھی کبھار اترتی تو کلائی کا وہ دودھ پتی کے رنگ کا ٹکڑا سلیمانی چائے کے رنگ کے بازو سے علیحدہ ہی دکھتا۔ مہ پارہ اپنے تحفے کی قدر افزائی پر بہت نہال ہوتیں۔

پچھلی سے پچھلی سالگرہ پر انہوں نے قلم والے موبائل کا تحفہ دیا تھا۔وہ بھی میاں جی کو اچھا لگا تھا مگر مہ پارہ اس تحفے کو دینے کے بعد کچھ خوش نہ تھیں ۔میاں جی ہر وقت اس موبائل پر لگے رہتے بس شاید اس کا کیمرہ ٹھیک کام نہیں کرتا تھا ،میاں جی نے کبھی مہ پارہ کی تصویر نہ کھینچی ۔اتوار کی صبح  میاں جی دیر تک سوتے رہتے ایک اتوار انہوں نے فون کی تلاشی لینے کی کوشش کی مگر انہیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اس موئے فون پر سیکیورٹی لاگو تھی انہیں فون بنانے والی کمپنی سے شدید شکوہ تھا سیکیورٹی میں بیگم کو استثنیٰ ملنا چاہیے تھا۔مہ پارہ سب سے زیادہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتیں جب رات کو میاں جی بستر پر اوندھے لیٹ کر یو ٹیوب پر کامیڈی ویڈیوز چلاتے۔مہ پارہ کے نزدیک وہ چھچھورے مزاح اور گھٹیا مکالمات ہوتے مگر  میاں جی اس سے محظوظ ہوتے اور خوب قہقہے لگاتے۔مہ پارہ ناگواری کا اظہار کرتیں تو کہتے

 “تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے کامیڈی سے ۔پتہ نہیں تمہیں کیوں بیر ہے”

اب وہ کیا کہتیں کہ انہیں کامیڈی سے بیر نہیں بلکہ عامیانہ جگت بازی سے چڑ ہے ۔خواتین کے لئے  توہین آمیز مکالمات پر ہنسی کے بجائے انہیں غصہ آتا ہے ۔ پوچھا وہ آپ کی ہینڈ فری لیڈ کیا ہوئ تو کہنے لگے اس کی عمر تمام ہوئ۔

اگلے روز ہائپر مارکیٹ جانا ہوا تو داخل ہوتے ہی ایک سیلز مین دوڑ کر ان کی طرف آیا اور طوطے کی طرح فر فر بولتا چلا گیا۔وہ وائرلیس بلو ٹوتھ ہیڈ فون کی پبلسٹی کر رہا تھا “دیکھئے میم اوریجنل برانڈ دھماکے دار آفر میں ہے صرف آج کے لئے ۔لایٹ ویٹ ،اسپیڈی چارجنگ دس منٹ میں فل چارج۔۔ آواز کی کوالٹی ایک دم فرسٹ کلاس۔

مہ پارہ کو اچانک خیال آیا کیوں نہ سالگرہ پر یہ وائرلیس بلو ٹوتھ ہیڈ فون ہی دے دیں ۔کامیڈی ویڈیوز کی سمع خراشی سے بھی نجات ملے گی۔وہ ہاتھ میں اٹھا کر جائزہ لینے لگیں۔بے شمار خصوصیات اور قلیل مدتی پیشکش کی تکرار سے متاثر ہوکر وہ لینے ہی لگی تھیں کہ سیلز مین کے ایک فقرے پر ٹھٹک گئیں ۔وہ کہہ رہا تھا” اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نوائز فری ہے “

“مطلب ؟”

“،مطلب یہ کہ صرف آپکی آواز کالر تک جائے گی بیک گراؤنڈ آوازیں نہیں ۔”

مہ پارہ نے ہاتھ میں پکڑا ڈبہ نیچے رکھا اور آگے بڑھ گئیں سیلز مین آوازیں ہی دیتا رہ گیا اب اسے کیا بتاتیں  کہ جسے وہ خوبی کہہ رہا ہے ان کے نزدیک خرابی ہے ۔کئ بار میاں جی کے جھوٹ کو بیک گراؤنڈ آوازوں  ہی سے پکڑا تھا۔مثلا” ایک بار انہوں نے فون کیا تو میاں جی کہنے لگے میٹنگ میں ہوں تب ہی انہوں نے بیک گراؤنڈ میں انگریزی میوزک اور کراکری کی کھنک سنی تو اندازہ ہوا کہ موصوف کسی ریسٹورنٹ میں ہیں ۔بعد میں یہ کہہ کر قبول کیا کہ آفیشل لنچ تھا ۔ایک بار فون کیا تو کہنے لگے باس کے ساتھ لنچ پر ہوں ۔مہ پارہ نے کہا “آپ کی آواز گونج رہی ہے کسی خالی کمرے میں ہیں “بھڑک کر بولے “ہاں جیل میں ہوں .”

اس دن وہ کچھ لئے بغیر ہائپر مارکیٹ سے نکل ائیں۔اتوار کے دن وہ لانڈری کرتی تھیں ۔ملازمہ کے ہونے کے باوجود وہ یہ کام خود کرتی تھیں۔ ملازمہ نے  بے ڈھنگے پن سے استعمال کرکے پچھلی  آٹومیٹک مشین کا وہ حال کیا کہ کوڑے دان میں ہی پھینکتے بنی ۔ پھر   موٹے،نازک سفید، رنگین سارے کپڑے ایک ساتھ مشین میں ڈال کر سر سے بلا اتارتی اب لیس کی آستین اکھڑے یا سیاہ ٹراؤزر کا رنگ سفید کرتے پر چڑھ کر ٹائ اینڈ ڈائ کردے  اس کی جانے بلا ۔بس کھی کھی کرکے رہ جاتی۔صلواتیں سنا کر اپنا ہی فشار خون بڑھا لو۔

پس یہ کام وہ خود ہی کرتی تھیں ۔فل آٹومیٹک مشین میں یوں بھی کچھ ایسا مشکل نہ تھا ۔اس دن مشین میں کپڑے ڈالتے ہوئے انہوں نے نوٹ کیا کہ میاں جی کے سارے  بنیان ناکارہ ہو چکے ہیں ۔کسی میں سوراخ ہیں تو کسی کا رنگ پیلا پڑ  چکا ہے۔کوئ کھنچ کر بے ڈھب ہو چکا ہے تو کوئ سکڑ کر چھوٹا ہوگیا ہے ۔انہیں انور مسعود کی مشہور پنجابی نظم “بنیائن”یاد آگئی۔

“, بنین لین جاندے ہو بنین لے کے آؤندے ہو

پاندے ہو تو پیندی نئیں،پے جائے تےلیندی نئیں

لے جائے تو دوجی واری پان جوگی رہندی نہیں”

آکسفورڈ کے ایک پروفیسر نے انور مسعود سے کہا تھا”آپ کی یہ بنیان مغربی تہذیب ہے جسے ہم پہننے کی کوشش کرتے ہیں مگر پہن نہیں پاتے ۔”

مہ پارہ نے میاں جی سے کہا ‘نئے ‘ بنیان لے آئیں ۔اردو میں بنیان مذکر جبکہ پنجابی میں مونٹ ہے۔نصرت ظہیر اپنے مضمون’ اردو میں  تذکیر و تانیث’ میں رقمطراز ہیں۔

“اردو میں تذکیر و تانیث کا مسئلہ بڑا ٹیڑھا اور پیچیدہ ہے۔جانداروں کے علاوہ بے جان چیزوں کے لئے بھی تذکیر و تانیث طے کرنی پڑتی ہے اور وہ بھی کسی طے شدہ اصول کے بغیر۔بے جان چیزوں کے لئے تذکیر و تانیث اسی اصول کے تحت طے کی جاتی ہے جس طرح مردانہ سماج نے مرد اور عورت کی طے کی ہے ۔یعنی جو چیز دیکھنے میں بڑی اور طاقتور ہو وہ مذکر اور جو چھوٹی اور کمزور ہو وہ مؤنث۔مثلا” پراٹھا مذکر ہے چپاتی مونث،پہاڑ مذکر ہے پہاڑی مونث۔لیکن یہاں بھی ایک قباحت ہے پہاڑی پہاڑ سے چھوٹی ہوتی ہے لیکن ٹیلہ پہاڑی سے چھوٹا ہوتا ہے مگر مذکر کہلاتا ہے۔کچھ اور بھی مثالیں ہیں ۔قالین ،دری اور غالیچہ،کوٹ قمیض اور بنیان۔پس یہ اصول دکھائ دیتا ہے  کہ سب سے بڑی چیز مذکر ،اس سے چھوٹی مونث اور مونث سے چھوٹی پھر مذکر ۔”

لہٰذا بنیان مذکر ہوا۔تو جب مہ پارہ نے میاں جی سے ‘نئے ‘ بنیان لانے کی کہا تو وہ لاپروائی سے بولے “رہنے دو کیا فرق پڑتا ہے کونسا دکھتا ہے “

“ہائیں یہ آپ نے کیسی بات کہی ۔کیا آپ غلام عباس کے ‘اوورکوٹ کا نوجوان’ ہیں یا پھر لیاقت علی خان کے مقلد جن کے خوش نما لباس کے تلے خستہ حال بنیان پائ گئ۔

میاں جی بولے”بیگم آپ ہمیں جن سے ملا رہی ہیں ان دونوں کے بنیان کا راز ان کی موت کے بعد کھلا تھا “

“اللہ آپ کو سلامت رکھے

بقول غالب “تم جیو ہزار برس

ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار

“یعنی پچاس ملین دن  ایک ہی بیگم کے ساتھ ۔اتنی لمبی سزا تو قتل عمد کی بھی نہیں ہوتی ۔میاں جی نے دبی ہوئی آواز میں خود کلامی کی ۔

مہ پارہ نے کہا “بس میں یہ سارے بنیان پھینک رہی ہوں آپ اور لے آئیں”

“ٹھیک ہے کل لے آئیں گے “

لیکن میاں جی کی وہ کل ہی کیا جو آج ہو جائے ۔سارے بنیان وہ تلف کر چکی تھیں اور اب میاں جی لکھنؤ کے بانکے کی مانند بغیر بنیان کے ململ کے کرتے پہن رہے تھے ۔اخر مہ پارہ نے الٹی میٹم دے دیا کہ اگر سالگرہ کے دن تک نہ لائے تو برتھ ڈے گفٹ بنیان ہی ہوگا۔

سالگرہ کی تاریخ آگئ مگر بنیان نہیں آئے مہ پارہ نے مارکیٹ سے درجن بھر بنیان خریدے ،زردوزی کاغذ میں لپیٹے اور گفٹ تیار۔شام کی چائے پر ایک پونڈ کا بلیک فارسٹ کیک کاٹا گیا ۔میاں جی کو تو ڈیڑھ انچ کا مخروطی ٹکڑا ہی کھانے کی اجازت ملی اس کے بعد بیگم نے ذیابیطس یاد کرادی البتہ بچوں نے خوب ڈٹ کے اپنا پسندیدہ کیک کھایا۔اصل لطف تو تب آیا جب میاں جی نے زردوزی کاغذ میں لپٹا تحفہ کھولا ایک دو نہیں پورے بارہ بنیان دیکھ کر بچے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے ۔میاں جی کھسیا کر کہنے لگے

“بیگم آپ شاید بھول رہی ہیں صرف تین دن کے بعد آپ کی سالگرہ آتی ہے ۔اب ہم نہیں جانتے بنیان کی مونث کیا ہوتی ہے لیکن معلوم کرلیں گے۔”

“شمیض”

 ہنسی کو ایک لمحے کا بریک لگا کر ان کی بیٹی شہ پارہ نے ان کی جنرل نالج میں اضافہ کیا اور پھر ایکسلیریٹر دبادیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031