غزل ۔۔۔ صغیر ملال

غزل

( صغیر ملال )

حیرت زدہ وہی گئے آخر جہان سے

آئے تھے لوگ چند یہاں آسمان سے

پھیلا رہا ہوں خود کو خلائے بسیط میں

حیرانیاں سمیٹ کے اس خاک دان سے

ہوتا ہے اک اشارہ جو طوفان کے لیے

آگے نکل گیا ہوں میں اس کے نشان سے

بہلاوے مانگتے ہیں مکینوں کے روز و شب

آسیب کیوں نکال رہے ہو مکان سے

جن موسموں سے ہو گئے ہم جیسے بے لباس

تیرے لیے ہمیشہ رہے مہربان سے

بویا تھا شک کا بیج کھلے ذہن میں ملال

کونپل یقین کی نکل آئی گمان سے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930