ایندھن ۔۔۔ سارا احمد

فسانہ : ایندھن

سارا احمد

زندگی کسی کے انتظار میں آرزؤں کے چراغ آہستہ آہستہ بجھانے لگی تھی_سجنا سنورنا جذبوں نے تیاگ دیا تھا_یہ تو صرف تن کی ضرورت اور زمانے کے لئے دکھاوا تھا_ روحانہ بیگم نے گہرے جامنی رنگ سے رنگے اپنے ہونٹوں کو سکوڑا اور ٹشو پیپر کی گولی بنا کر کوڑے دان میں اچھال دی_
آنکھوں کا کاجل بھی گہرا تھا اور گالوں کا غازہ بھی دمک رہا تھا_اندر کہیں دل میں ایندھن ابھی تک سلگ رہا تھا_
“صغراں جلدی کر ، کام چور کہیں کی”_
” جی بی بی جی……….”،
صغراں اپنے ہاتھوں کی طشتری میں زری کی تاروں اور رنگدار پھولوں سے کڑھا کھسہ لے کر اس کے سامنے مودب کھڑی ہو گئی_
دبیز قالین پر شانِ تفاخر سے سبک خراماں روحانہ بیگم نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے اسے کھسہ پہنانے کا اشارہ کیا_
روحانہ بیگم کی پور پور میں بیزاری کی مکڑیاں ہر روز نئے جالے بُنتی تھیں_برسوں سے اس مکان کی ویرانی کسی مسجد کے مصلے کی طرح نمازی کی منتظر تھی_ صغراں کے جانے کے بعد روحانہ بیگم آرام دہ صوفے پر اپنی پشت دروازے کی جانب کر کے یوں بیٹھ گئی جیسے ابھی کسی کے آواز دینے پر اُٹھ کھڑی ہو گی_گھڑی کی سوئیاں آگے پیچھے دوڑتی رہیں اور وہ اپنی سماعتوں کو کسی کے قدموں کی چاپ سنانے کو بہلاتی رہی_جب مکین ہی منہ موڑ جائیں تو مکانوں میں آسیب پھرتے ہیں یا پھر اکلاپے کی زرد پرچھائیاں عمر کے خزاں رسیدہ موسموں سے چمٹی رہتی ہیں_
وہ کبھی اتنی ناسمجھ نہیں رہی تھی کہ کھرے اور کھوٹے میں فرق نہ کر سکے_اپنوں کی پہچان بھی تھی اور غیروں کی پرکھ بھی _ چُوک ہوئی تو مرد کے اس رُوپ کو سمجھنے میں جب محبت اس کے آئینہ ء ذات سے پھوٹ کر ظاہر ہونے لگی اور وہ اس میں اپنی مکمل شبیہہ بھی نہ دیکھ سکی_ نادان تھی یہ بھی نہ سوچا کہ آئینہ اگر چٹک جائے تو اپنی ہی ہزاروں تصویریں اس میں نظر آتی ہیں_ ظفر غلافوں میں لپٹا ہوا کوئی قیمتی پتھر نہیں تھا_ایک عام سا مرد تھا_ نہ انوکھا اور نہ انمول_سماج کے بنائے ہوئے راستوں پر چلنے والا ایک عام سا مرد جو اپنے مقدر سے لڑے بغیر معاشرے میں ایک پرآسائش زندگی برت رہا تھا_ روحانہ بیگم کو روحی اس نے تب کہہ کر پکارا جب ٹرانسپورٹ کی مسلسل ہڑتال کے تیسرے روز کے ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعوں میں وہ اس کی نظروں کے حصار میں یکدم ٹھہر گئی_ دوپٹے کے ہالے میں آتشیں چاند_ ایک بار ہی کی پیشکش میں وہ سمٹی سمٹائی گاڑی کا دروازہ کھول کر اس کے پہلو میں آن بیٹھی_
غریب نہیں لگ رہی تھی وہ ، اس کے جوتوں کو دیکھ کر اس نے اندازہ لگایا_ ایک سونے کی بریسلیٹ بھی اس کی بائیں کلائی میں خاموش جیسے اس کے نامعلوم جذبے کی تپش محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی_اس نے اپنی کلائی دوپٹے میں چھپا لی_ظفر کے ہونٹوں پر اِک مسکراہٹ کھل گئی_
” کہاں گاڑی روکوں”؟
ظفر نے سگریٹ سلگانے کا خیال ترک ہوئے پوچھا_
” اگر آپ نے آگے سڑک کے بائیں مڑنا ہو تو وہیں اتار دیں”_
اور اگر دائیں”،
“تو پھر چلتے رہیں”_
ظفر کا جی چاہا اپنی منزل کا ہر موڑ ہی وہ چھوڑتا جائے_ اگر وہ کہے دائیں تو دائیں مڑ جائے اگر وہ کہے بائیں تو بائیں…..راستے سیدھ میں نہ رہیں ، منزلیں آسان نہ ہوں ، ہر بات الجھ جائے ، سلجھانے کو بس خاموشیاں ہوں ، بوجھنے کو بس ایک ہی پہیلی ہو….. عورت اور مرد کی پہیلی_
گھر والے پہلے ہی اسے روحی کہتے تھے _ ظفر کی زندگی میں وہ اس کی روح بن کر شامل ہوئی_چند ملاقاتیں اور ڈھیروں باتیں_ اگر کسی کو چاہنے کا خیال اتنا دلفریب ہے تو چاہے جانے کا نشہ تو کمال ہو گا_ظفر گنگنانے لگا تھا_ روحی نے پہلی بار اسے گنگناتے سنا تو اپنے ہاتھ اس کے لب پر رکھ دیئے_
” یہ کیا…..؟
ظفر جان کر بھی انجان رہا_
روحی نے بنا جواب دیئے غزل چھیڑ دی،
میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجناں
“تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا “،
ایک گہرا سکوت اور اس کی آواز کا سوز گردشِ خون میں اتر کر اسے بہکانے لگا_کیوں نہ قیمتی چیزوں کو کھونے سے پہلے سنبھال لیا جائے_
روحی عام سی لڑکی نہیں تھی_دنیا کی کوئی بھی لڑکی عام اور معمولی کیسے ہو سکتی ہے_ہر چیز کے دام ہیں مگر دل کے نہیں اور روحی کا دل ظفر کے دل سے کوسوں دور تھا_
“مگر کیوں…….”،
اس کے لہجے میں اتنے دنوں کی رفاقت کا حق تھا_
“اس لئے کہ میں اس دن آپ کو بس اسٹاپ پر ملی تھی سڑک پر نہیں…….”،
لہجے میں اپنے حُسن کا غرور عود آیا تھا_
” میں نے بھی تمہیں خریدار بن کر اپنی گاڑی میں نہیں بٹھایا تھا_ ایک محافظ کی طرح تمہاری منزل تک تمہیں پہنچایا تھا_”
چاہیے تو تھا وہ اس دلیل کے آگے اپنا ماتھا ٹیک دیتی مگر اپنے انکار کو اسرار میں لپیٹ کر روپوش ہو گئی_
سارا شہر اس کی دسترس میں تھا اور وہ کہیں نہیں تھی_کھوئی ہوئی چیزوں کو ڈھونڈا جاتا ہے گزرے ہوئے کل کو نہیں_گلی کے جس موڑ پر وہ اس سے ملتی اور جدا ہوتی تھی نامعلوم اس میں اس کا گھر کون سا تھا_ دستک تو دینی ہی تھی_وہ اس کا بیتا ہوا کل نہیں اس کی تشنہ تمناؤں کا حاصل تھی_
“روحی……میرا مطلب روحانہ صاحبہ سے ملاقات ہو سکتی ہے”_
اس کی ہکلاہٹ میں جملہ ٹوٹ کر بکھر گیا_ سفید شلوار کرتہ میں ملبوس منحنی سی بزرگ شخصیت کی آنکھوں میں اجنبیت اور پھر انکار میں دائیں بائیں سَر ہلانے پر رکنا بیکار تھا_ وہ پلٹ آیااور باہر سڑک کے کنارے کچھ دیر اسی راہ کی طرف تکتا رہا_
کوئی تدبیر کوئی فریب کوئی چھل ہی ہوتا اس تک پہنچنے کا تو وہ رُکتا نہیں مگر وہ رُک گیا ، ٹھہر گیا اور خاموش ہو گیا_
صغراں نے رات کا کھانا میز پر لگانے کے بعد روحانہ بیگم کے کمرے میں جھانکا_یہیں کسی کا انتظار کرتے کرتےاسے جو اونگھ آتی وہی اس کی نیند ہوتی_ اس کے بعد ساری رات وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک پھرتی رہتی_ دالانوں اور دونوں باغیچوں میں اپنے ہی سائے سے دکھ سکھ کرتی_کبھی روتی کبھی ہنستی کبھی گنگناتی ،
“تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے”،
وحشت حد سے بڑھتی تو صغراں کے کوارٹر میں چلی جاتی_وہ بھی چٹخنی گرا چھوڑتی_اس کا خاوند کچھ عرصہ سے گاؤں میں اپنی بیمار ماں کے لئے رکا ہوا تھا اور اسے تاکید کر گیا تھا کہ اس کملی کا خاص دھیان رکھے_
“تجھے پتہ ہے صغراں میری اسوقت عمر کیا تھی”؟
” نہیں بی بی جی”،صغراں روز ایک کہانی سن کر بھی انجان رہتی_
” جھلی نہ ہو تو ، یہ کہانیاں بھولنے والی تھوڑی ہیں ، یہ تو ہم جیسوں کے ماتھے پر لکھی ہوتی ہیں ، اٹھ ادھر دیکھ ، انہیں پڑھ …..”، اور صغراں کو کہانی پڑھ کر سنانی پڑتی اور ساتھ ساتھ بی بی جی کے ماتھےسے رگڑ کر وہ تحریر مٹانی بھی پڑتی کیونکہ تاریکی سارے راز وہیں رات کے کونے کھدروں میں چھوڑ کر اجالے کی صورت میں ڈھل جاتی_
شہر کی معروف مارکیٹ میں سرِشام گاہکوں کی آمدورفت کے ساتھ بھکاریوں ، خواجہ سراؤں اور دستکاری کی مخلتف اشیاء بیچنے والوں سے گہماگمی میں اضافہ ہوتا رہتا_انہیں میں جب وہ آٹھ سال کی تھی اپنی ماں کے ساتھ کبھی فٹ پاتھ پر لگی کرسیوں پر بیٹھے لوگوں کے سامنے اور کبھی گاڑی والوں کے شیشے کھٹکھٹا کر تقاضا کرتی_ ماں نجانے کیوں خاموش رہتی مگر وہ کن اکھیوں سے اس کے سُرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں کو مسکراتے ہوئے ضرور دیکھتی_
ماں اکثر اسے آئسکریم دے کر کسی جگہ بٹھا دیتی اور ضروری کام کا بہانہ کرکے اتنی دیر لگا دیتی کہ اسے جمائیاں آنا شروع ہو جاتیں_ صبح وہ اسکول سے واپس آتی تو ماں ابھی سو رہی ہوتی اور ابا لوہے کی چارپائیاں بُن رہا ہوتا_اسنے یہ کام دادی سے سیکھا تھا اور اب آرڈر لے کر گھر میں چارپائیاں بُنتا رہتا تھا_ گھر میں سونے کے لئے کسی کے پاس چارپائی نہیں تھی_ سب فرش پر سوتے تھے_ دادی کے مرنے کے بعد اسی شام ابا اس کی چارپائی بھی بیچ کر کچھ جوئے میں ہار آیا اور باقی کے پیسوں سے اپنی بوتل خرید لی_
یہ اچھا تھا کہ ماں اسے پڑھا رہی تھی_پڑھنے سے اسے شعور آرہا تھا لیکن گھر میں سب کی ضرورتیں بڑھ گئیں اور تکرار بھی_چھوٹے تینوں بھائی کبھی فیل ہوتے اور کبھی فیس نہ دینے پر اسکول سے نکال دیئے جاتے_ماں ان کی زندگی بنانا چاہتی تھی اور اس کی زندگی کا مقصد کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی_چودہ سال کی عمر میں ماں نے اس کے کان میں ایک پھونک ماری تو وہ آدھی مر گئی اور جب اس کے انکار پر ابا نے اپنی بوتل توڑ کر اس کی گردن پر رکھی تو موت کے لزرے نے اسے پورا نہ مرنے دیا_
ماں کے ساتھ وہ انہی جگہوں پر جاتی مگر نقاب میں اور جہاں ماں کہتی وہ نقاب گرا کر اپنا چہرہ دکھانے کے بعد دوبارہ ڈھانپ لیتی_تینوں بھائی تو آوارہ ہوگئے مگر اس نے پرائیویٹ انٹر کیا_
کیسی زندگی تھی ، کیسے موڑ تھے اور کیسی خواہشیں تھیں_زندگی گاڑی ضرور تھی مگر وہ کوئی اس کا کل پرزہ نہیں تھی صرف دھول تھی جو خود کو کبھی یہاں اور کبھی وہاں اڑائے پھرتی تھی_ ماں اور وہ گھر کی کفیل تھیں اور وہ چاروں مرد اڑاتے تھے اور پیتے تھے_اس جگہ کے سارے مرد ہی ایسے تھے اس لئے کسی کے لئے کوئی طعنہ اور کوئی باعث شرم نہیں تھا_
اس کا من کرتا اسے بھی کوئی ایسے چاہے جیسے مومن اپنے ایمان کو ، دعا قبولیت کو اور موت زندگی کو چاہتی ہے_
اس بوڑھے کھوسٹ نے اپنے اردوں کے بچھو اس کے چہرے کا نقاب اترتے ہی اپنے کرارے نوٹوں میں لپیٹ کر واپس اپنی جیب میں رکھ لیے_ماں نے کبھی اسے کسی کے ٹھکانے تک کبھی نہیں جانے دیا_
” ہمارا بس اتنا ہی کام ہے ، پانچ دس منٹ کا ، دیکھتے نہیں یہاں سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں”_
سبھی اپنے اپنے دھندے پر تھے_کوئی ڈرامہ باز فقیر تھا تو کوئی الاسٹک کے بنڈل اٹھائے جھوٹی کہانی لوگوں کو سنا رہا تھا_کسی کی گمنام ماں کینسر سے قریب المرگ تھی اور کوئی مسافر کے روپ میں اپنے لٹنے کی دہائی دے کر کرایے کے پیسے بٹور رہا تھا_سبھی ضروتوں اور خواہشوں کے ایندھن میں اپنی اپنی مجبوریاں جھونک رہے تھے_
اسے بولنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ماں ہی جھٹ سے بول پڑتی_ماں دور کھڑی ہوتی اور وہ گاڑی کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتی_یہاں سارے دروازے ہی جہنم کے تھے_ جنت کا دروازہ تو اسے اپنے پیدا ہونے پر بھی نہ ملا_
اب ایک دریچہ ایسا کھلا تھا جہاں وہ چاہت کے بن موسم کے پھولوں کی خوشبو میں چند دن اپنی روح مہکا سکتی تھی_ابا کو پولیس اٹھا کر لے گئی اور ماں غم سے بستر پر پڑ گئی_دو بھائی پہلے ہی قرض لے کر مفرور تھے_ تیسرا نشے کی کثرت سے دیوانگی میں اول فول بکتا رہتا تھا_
اسے آزادی کے یہ چند دن میسر کیا آئے وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی_کام کی تلاش میں اس دن اسے مجبوری میں ظفر کی گاڑی میں بیٹھنا پڑ گیا_اس نے سوچا تھا کسی جگہ انٹرویو دے کر نوکری کر لے گی مگر اس عام سے مرد نےاسے اعتبار کے جو پل دیئے وہ بے مول تھے_عورت کو مان دینے والا کوئی مرد عام اور معمولی کیسے ہو سکتا ہے_
کچھ پل جو اس نے چرائے تھے وہی اس کا سرمایہ ء حیات تھے جو دل اس نے گنوایا تھا وہ اس کا اپنا نہ تھا_اس کے اختیار میں لمحہ بھر کی نیند میں عمر بھر کے خواب دیکھنا تھے_حالات کے دھارے پر تعبیروں کے بادبان لہرانا اس کے بس میں نہیں تھا_
صغراں اکثر اس سے پوچھتی، ” بی بی جی شہر چھوڑنے کے بعد ظفر صاحب آپ کو دوبارہ نہیں ملے”،
خاموش حسرتیں وہ عمر بھر کے ایندھن میں پھونک دیتی_
” وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا”_

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031