احمق ۔۔۔ شموئل احمد

احمق

شموئل احمد
’’ برف آیا ؟‘‘

          ’’ جی آیا ‘‘

          ’’ کہاں ہے ‘‘

          ’’ چولھے پر۔۔۔۔‘‘

          ’’ایسی تو احمق ہے۔۔۔۔لیکن کیا کروں ؟ پھوپھی جان مرتے مرتے اس کا ہاتھ  تھما گئیں۔ تب سے جھیل رہی ہوں۔‘‘

          اور مجھے باجی کی یہی بات پسند نہیں ہے۔پندرہ سال قبل ننھی بچّی کی زبان سے پھسلی ہوئی بات کو گرہ سے باندھ لینا اور وقتاً فوقتاً مذاق اڑانا کہاں کا شیوہ ہے ؟  تب سریہ کی عمر ہی کیا تھی ؟ محض چار سال۔۔۔! گھر میں برف آیا تھا۔اماں نے پوچھا برف کہاں رکھا ہے تو سریہ جھٹ بول اٹھی تھی چولہے پر۔سبھی محظوظ ہوئے تھے۔ابا ٹھہاکہ مار کر ہنسے تھے ۔اماں گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگی تھیں۔ یہ واقعہ سب کو یاد تھا لیکن کوئی دہراتا نہیں تھا۔ایک باجی تھیں کہ جیسے بات پکڑ رکھی تھیــــــــ ۔۔۔۔۔۔’’ ایسی تو احمق ہے ۔۔۔۔۔‘‘

          اور اسی احمق نے باجی کا گھر سمبھال رکھا تھا۔

          سریہ جب چھ سال کی تھی  تو پھوپھی جان داغ مفارقت دے گئیں۔پھوپھا پہلے ہی گزر گئے تھے۔سریہ یتیم ہو گئی ۔ ماموں نے اپنے پاس رکھ لیا۔جب باجی کی شادی ہوئی اور گھر بسا تو سریہ کو اپنے پاس بلا لیا۔تب وہ دس سال کی تھی لیکن اس عمر میں بھی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگی تھی۔شروع شروع میں باجی نے جھاڑو برتن کے لیے ملازمہ رکھا تھا لیکن سریہ کچھ اور بڑی ہوئی تو ملازمہ کو برطرف کر دیا ۔ سارا کام  سریہ ہی دیکھنے لگی۔

          ’’ سریہ چائے نہیں ملی ابھی تک ۔ ‘‘

          ’’ سریہ بٹن ٹانک دے۔‘‘

          ’’ سریہ مچھلی دھو کر فریج میں رکھ دیجییو۔ ابھی مرغی کا سالن بنایئو۔

          ’’ سریہ میرے جوتے میں پالش نہیں ہے۔‘‘

          سریہ مشین میں کپڑے لگا دے۔ آج چادر بھی دھلے گی۔‘‘

          ’’ سریہ ابھی تک گھر میں جھاڑو نہیں پڑا۔‘‘

          ’’سریہ ‘‘

          ’’سریہ ‘‘

          ’’ سریہ ‘‘

          اور سریہ صبح سے شام تک گھر میں گھرنی کی طرح ناچتی رہتی۔کبھی دوڑ کر ادھر۔۔۔۔کبھی دوڑ کر ادھر۔۔۔۔سب کی جھڑکیاں بھی سنتی۔

          ’’ اتنی دیر کہاں لگا دی ؟‘‘

          ’’ چائے میں تو چینی ہی نہیں ہے۔ ‘‘

          ’’برتن اسی طرح دھویا جاتا ہے ؟ دیکھ یہاں داغ لگا ہے ۔‘‘

          ’’ نکمّی۔۔۔۔کام چور ۔‘‘

          ’’ ایک دم پاگل ہے کمبخت ۔ ‘‘

          ایک نوشے بھائی تھے کہ سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے اور گال تھپتھپاتے ۔

          باجی کے ساتھ رہتے ہوئے اسے دس سال ہو گئے تھے۔وہ اس بات پر نازاں تھی کہ باجی اس کی اپنی ماموں زاد بہن تھیں ۔ وہ فخر سے جتاتی ۔۔۔۔’’ میری سگّی ممیری بہن ہیں۔۔۔۔سگّی۔۔۔سگّی کا لفظ زور دے کر ادا کرتی۔۔۔۔ایک ہاتھ سینے پر ہوتا ۔ آنکھیں باہر کی طرف پھیل جاتیں اور پیشانی پر لکیریں سی پڑ جاتیںلیکن ’’ سگی ‘‘  کوگوار ہ نہیں تھا کہ کمبخت ہر جگہ رشتے کا بکھان کرے ۔ خصوصاً اس وقت جب گھر میں کوئی مہمان آتا تو باجی کے لیے یہ بات برداشت سے باہر ہوتی کہ سریہ ان کے درمیان بیٹھ کر گفتگو میں حصہ لے۔اور یہ اس کی عادت تھی۔گھر میں کوئی آتاؤ تو میز پر  ناشتے کی ٹرے رکھ کر کونے میں کھڑی رہتی ۔ باجی اسے گھورتیں اور وہاں سے ہٹنے کے اشارے کرتیں۔ایک بار کسی نے ٹوک دیا۔

          ’’ یہ لڑکی کون ہے ؟ ‘‘

          اس سے پہلے کہ باجی کچھ کہتیں ،سریہ اپنے مخصوص انداز میں بول اٹھی۔

          ’’ باجی میری سگّی ممیری بہن ہیں ۔۔۔۔سگّی۔۔۔۔! ‘‘

          ’’  معاف کرنا۔۔۔۔میں اسے نوکرانی سمجھ رہی تھی۔‘‘

          ’’ ماموں جان نے مجھے گود لیا ہے۔ پھر باجی نے اپنے پاس رکھ لیا۔‘‘

          مہمان کے جانے کے بعد باجی نے اس کے کان کھینچے۔

          ’’ بہت زبان کھل گئی ہے تیری۔۔۔۔ہزار بار سمجھایا کہ کوئی آئے تو سر پر کھڑی مت رہ لیکن احمق کے پلّے کوئی بات نہیں پڑتی۔‘‘  اور دوچار تھپّڑ جڑ دیے۔

          سریہ بالکنی میں گئی اور مڈّی کو لپٹا کر رونے لگی۔مسلسل سسکیوں کے درمیان  الفاظ گھٹ گھٹ کر نکل رہے تھے اور آنسو رخسار پر ڈھل رہے تھے۔

          ’’ بتاؤ مڈّی۔۔۔میں نے کیا غلط کہا۔۔؟ باجی میری سگّی ممیری بہن ہیں کہ نہیں ؟‘‘

          مڈّی اس کی واحد دوست تھی۔اس کی ہم دم۔۔۔۔اس کی ہمراز۔ وہ جب  بھی تناو میں ہوتی مڈّی کو لپٹا کر روتی اور اپنا دکھڑا شیئر کرتی۔

           چار سال قبل نوشے بھائی دوبئی گئے تھے تو وہاں سے اس کے لیے ایک بڑی سی باربی ڈال لے کر آئے تھے۔ ڈال کی آنکھیں بلّوری تھیں اور بال سنہرے۔ ہونٹ سرخ سرخ۔۔۔۔۔۔اس نے جینز اور ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔سریہ تو نہال ہو گئی۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ گڑیہ اس کے لیے آئی ہے۔لیکن نوشے بھائی نے سر پر ہاتھ پھیرا  ۔

          ’’ اس کا نام کیا رکھوگی۔؟‘‘

          ’’ نام ۔۔۔۔؟ ‘‘ سریہ نے ایک پل سوچا پھر جھٹ سے بولی۔

          ’’ مڈّی۔۔۔۔! ‘‘

          ’’واہ۔۔۔! اچھا نام ہے۔ ‘‘ نوشے بھائی مسکرائے۔

          اس دن سے وہ تھی اور مڈّی تھی۔ پہلی بار اس نے مڈّی سے بات کی تو بولی تھی۔

           ’’ باجی میری سگّی۔۔۔۔۔‘‘

          لیکن باجی نے مڈّی کے ساتھ اس کی والہانہ گفتگو کو ’’ بھنر بھنر ‘‘ کا نام دیا تھا۔

             مڈّی سے اس کو بات کرتے ہوئے دیکھتیں تو ڈپٹ دیتیں ۔

          ’’ کیا ہر وقت بھنر بھنر کرتی رہتی ہے ۔ ؟ ‘‘

          سریہ ڈر جاتی اور مڈّی کو جلدی سے بکس میں چھپا دیتی۔ اس کے پاس ٹین کا بڑا سا بکس تھا جو ماں سے وراثت میں ملا تھا ۔سریہ کی دنیا اس میں سمائی ہوئی تھی۔ مڈّی کو بکس میں کپڑے کی تہوں کے اندر رکھتی۔مڈّی کے لیے اس سے زیادہ محفوظ جگہ دوسری نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کو جب بھی کام سے فرصت ملتی گڑیا سے باتیں کرتی۔ اس کے بال سنوارتی گھر کا قصّہ بیان کرتی۔ کون آیا کون گیا۔کس کو ڈانٹ پڑی۔ کبھی کبھی   اتنا کھو جاتی کہ ہوش نہیں رہتا کہ کام ادھورے پڑے ہیں۔ایک بار سالن چڑھا کر بھول گئی۔ سارا سالن جل گیا۔باجی نے کئی تھپّڑ لگائے۔گڑیہ چھین کر الماری میں بند کر دی۔ سریہ کا روتے روتے برا حال ہو گیا۔شام تک بھی گڑیہ نہیں ملی تو اس نے باجی کے پاوں پکڑ لیے۔باجی نے تنبیہ کی کہ آئندہ غفلت برتے گی تو گڑیہ سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔

          سریہ حساب کی کچّی تھی۔اس کو دس سے آگے کی گنتی نہیں آتی تھی۔ باجی کہتی تھیں ’’ اس کا مینٹل گروتھ ‘‘ نہیں ہوا ہے۔کسی کام کی نہیں ہے یہ لڑکی سوائے اس بات  کے کہ اس سے گھر کا کام لیا جائے۔ اور وہ ہر طرح کا کام لیتی تھیں۔ سودا سلف لینے  باہر نہیں بھیجتی تھیں لیکن خود بازار جاتیں تو اس کو ساتھ لے لیتیں ۔ سبزیاں خریدنے میں وہ بہت مددگار ثابت ہوتی۔اسے تازہ اور باسی سبزیوں کی تمیز تھی۔ایک بار باجی پرول لینا چاہ رہی تھیں تو اس نے منع کیا تھا کہ پرول رنگے ہوئے ہیں۔

          سریہ کی زبان سے اکثر بے ربط جملے نکل جاتے تھے۔ایک بار باجی کو چھینک آئی تو اس کے منھ سے برجستہ نکلا ۔

          ’’ اللہ خیر۔۔۔۔میری عمر آپ کو لگ جائے ۔۔۔۔۔‘‘

          باجی چڑ گئیں۔

          ’’ کمبخت۔۔۔۔بولنا چاہیے الحمدو ﷲ تو عمر کی دعائیں مانگتی ہے۔ کیا سمجھتی ہے ایک چھینک سے مر جاؤں گی۔‘‘

          اور باجی کو متواتر کئی چھینکیں آیئں،

          چل دور ہو میری نظروں سے۔۔۔۔‘‘

          اور باجی کو نزلہ ہو گیا۔۔۔۔پھر وائرل بخار۔۔۔۔!  سرسامی کیفیت ہو گئی۔ زور زور سے چیخنے لگیں۔

          ’’ کل جبھّی ہے کمبخت۔۔۔۔۔ایک دم کالی زبان ہے اس کی ۔۔۔۔۔میں تو سچ میں مر رہی ہوں۔۔۔۔ہائے۔۔۔۔۔ہائے۔۔۔۔!‘‘

          سریہ مڈّی سے لپٹ کر خوب روئی۔

          ’’ بتاؤ مڈّی۔۔۔۔میں باجی کا کبھی برا چاہوں گی ؟ ‘‘

          باجی تو جلد اچھی ہو گئیں لیکن سریہ کو ایک اور خطاب مل گیا ۔ ’’ کل جبھّی ‘‘

          سریہ پھر بھی باجی کے نام کی تسبیح پڑھتی تھی۔ سگّی ماموں ذاد بہن جو ٹھہریں ۔ یہی احساس اسے گھر میں آئے مہمانوں کے ساتھ بیٹھنے کا حوصلہ بخشتا تھا ۔ لیکن یہی  احساس باجی کو الجھن میں مبتلا کرتا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی اسے نوکرانی کی طرح کام کرتے ہوئے دیکھے اور پوچھے کون ہے یہ ۔۔۔۔۔؟

          جس دن باجی اچھی ہوئیں اسی دن رشیدہ ملنے آئی۔ رشیدہ پرانی سہیلی تھی لیکن خستہ حال تھی۔باجی  اس کو چائے کے لیئے کم ہی  پوچھتی تھیں۔ باجی کو دھڑکہ ہوا کہ اپنا جھمکا لینے تو نہیں آئی ہے ؟

          دو سال قبل وہ  پانچ ہزار روپے قرض مانگنے آئی تھی اور باجی نے انکار نہیں کیا تھا۔اس سے پہلے بھی اس نے ہاتھ پھیلائے تھے تو باجی نے خوبصورت بہانے بنائے تھے۔لیکن اس بار وہ بڑا سا جھمکا پہن کر آئی تھی اور باجی حیرت میں پڑ گئی تھیں۔ان کی نظر جھمکے پر ٹھہر سی گئی ۔۔۔۔۔جھمکے کا بالائی حصّہ بیضوی تھا جس میں جگہ جگہ رنگین نگینے جڑے ہوئے تھے۔حاشیئے پر جالیاں بنی ہوئی تھیں جن سے لگی لڑیاں جھول رہی تھیں۔باجی کو یاد آیا کسی فلم میں ہیما مالنی کو  ایسا ہی جھمکہ پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ان کو حیرت ہو رہی تھی کہ پھکّڑ عورت اتنا قیمتی زیور کہاں سے لائی ۔جی میں آیا پوچھیں لیکن ہتک کا احساس ہوا۔ سوچا پوچھنے پر اترائے گی ۔سریہ اس وقت شوکیس کی ڈسٹنگ کر رہی تھی۔رشیدہ  کو دیکھ کر سلام کیا۔

          رشیدہ نے جوا ب  میں خیریت پوچھی

          ’’ کیسی ہو سریہ ۔ ‘‘

          ’’ ا للہ خیر ۔۔۔۔‘‘ سریہ خوش ہو گئی اور ڈسٹنگ چھوڑ کر کونے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔

          باجی نے گھور کر دیکھا۔وہ اٹھ کر پھر ڈسٹنگ کرنے لگی۔ باجی نے اسے  اندر جانے کا اشارہ کیا۔

          سریہ وہاں سے ہٹ گئی تو رشیدہ نے باجی کو مخاطب کیا۔

          ’’ ایک ضروری کام سے آئی تھی ۔ ‘‘

          باجی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

          ’’ چند پیسوں کی ضرورت تھی ۔ ‘‘

          ان کی نظر جھمکے پر گئی۔

          ’’ کتنا چاہیے ؟ ‘‘

          ’’ پانچ ہزار ! ‘‘

           ’’ جھمکا تو بڑا خوبصورت ہے ۔۔۔۔ ’’ ذرا دیکھوں  ؟ ‘‘

          ’’ اماں نے دیا تھا۔میرے پاس سارا زیور انہیں کا تو دیا ہوا ہے ۔‘‘

          رشیدہ نے جھمکہ اتار کر ان کے ہاتھوں میں دیا۔ ہتھیلی پر رکھ کر وزن کا اندازہ کیا اور مسکرا کر بولیں۔

          ’’ بھاری بھی ہے۔‘‘

          ’’  ایک ایک ڈیڑھ بھر کا ہے۔‘‘ رشیدہ بھی مسکرائی۔

          باجی اندر گئیں ۔ آینے کے سامنے اپنی بالیاں اتار کر ان کی جگہ کانوں میں جھمکا ڈالا۔ ایک دو بار گردن گھما کر اپنے کو دیکھا۔۔۔۔۔ اور یہ سوچ کر مسکرائیں کہ پچاس ہزار سے زیادہ کا ہوگا۔پھر الماری سے پانچ ہزار کی گڈّی نکالی اور ر ڈرائنگ روم میں واپس آئیں۔رشیدہ کے منھ سے برجستہ نکلا۔

          ’’ ماشااللہ۔۔۔۔ بہت جچ رہا ہے ۔‘‘

          ’’میں کچھ دن پہن کر دیکھوں۔۔۔؟ تمہیں کوئی پرابلم تو نہیں۔۔۔۔؟‘‘ باجی نے اس کی طرف رقم بڑھائی۔

          ’’ نہیں نہیں۔۔۔۔کوئی پرابلم نہیں۔ ‘‘ رشیدہ رقم لیتی ہوئی بولی۔

          ’’ شکریہ ۔‘‘

          ’’ یہ پارٹی جھمکا ہے۔ میں اسے صرف پارٹی میں پہن کر جاتی ہوں۔‘‘

          ’’ یہاں کون سی پارٹی ہے جو پہن کر آئی ہو ۔‘‘ باجی چڑ گئیں۔

          رشیدہ ہنسنے لگی۔وہ زیادہ دیر نہیں رکی۔اس کے جانے کے بعد باجی پر آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور اپنے کو کئی بار دیکھا۔

          باجی نے جھمکالاکر میں رکھ دیا ۔ کہیں پارٹی میں جاتیں تو پہن کر جاتیں۔    انہیں یقین تھا کہ نچ ہزار کی رقم رشیدہ کے لیے بڑی رقم ہے ۔ وہ قرض جلدی نہیں اتار سکے گی ۔

          رشیدہ وقتاً فوقتاً آتی رہتی لیکن جھمکے کا نہیں پوچھا۔ باجی نے بھی کبھی پیسے کا تقاضا نہیں کیا  پھر بھی دھڑکہ لگا رہتا کہ پتا نہیں کب واپس مانگ لے۔

          آج اچانک رشیدہ کو دیکھ کر وہ چونک گئی تھیں۔ وہ خوش حال نظر آ رہی تھی۔ نئے لباس میں تھی اور پاوں میںلباس سے میچ کرتی ہوئی نئی چپّل تھی ۔ کان میں موتیوں والے ٹاپس چمک رہے تھے۔

          ’’ بہت دنوں بعد۔۔۔خیر تو ہے۔‘‘باجی نے اسے حیرت سے دیکھا۔

          ’’ کچھ گھریلو الجھنوں میں مبتلا رہی۔۔۔۔۔کہیں آنا جانا نہیں ہوا۔‘‘

          رشیدہ کی آواز سن کر سریہ کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم میں آئی اور رشیدہ کو سلام کیا۔

          ’’ کیسی ہو سریہ ‘‘

          ’’ جی خیر اللہ۔۔۔۔!‘‘ سریہ خوش ہو گئی۔

          باجی نے اسے چائے بنانے کے لیے کہا۔

          ’’ سریہ لمبی ہو گئی ہے۔ ‘‘

          ’’ اور بیوقوف بھی۔۔۔۔کیا بتاؤں جھیل رہی ہوں ۔‘‘ باجی نے حسب معمول  شکایت کی۔

          ’’کیا بات ہے ؟ بہت نالاں نظر آ رہی ہو۔‘‘

          ’’ کل جبھّی ہے کمبخت۔۔۔۔اس کی وجہ سے میں بیمار پڑ گئی۔‘‘

          باجی نے چھینک والا واقعہ سنایا ۔ رشیدہ ہنسنے لگی۔

          ’’ چھینک کا عمر سے کیا تعلق ؟ ‘‘

          ’’ بتاو۔۔۔ کہتی ہے میری عمر آ پ کو لگ جائے اور خدا کا کرنا کہ میں بیمار بھی پڑگئی۔‘‘

          ’’ سچ مچ احمق ہے ۔ ‘‘ رشیدہ پھر ہنسنے لگی۔

          ’’ ایک دم گئی گذری ہے ۔ جھیل رہی ہوں کہ رشتہ دار ہے۔‘‘

          ’’ تم تو ثواب کما رہی ہو۔آخر یتیم ہے۔ کہاں جاتی ؟ ‘‘

          ’’ پھوپھی نے مرتے وقت اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا۔تب سے اسے سینے سے لگا رکھا ہے۔اتنی بڑی ہو گئی ہے لیکن مینٹل گروتھ نہیں ہوا۔ ابھی تک گڑیہ سے باتیں کرتی ہے ۔

          ’’میں آئی تھی تمہیں دعوت دینے۔ ‘‘

          ’’ کیسی دعوت ۔۔۔۔؟‘‘

          ’’بیٹے کو  بینک میں نوکری مل گئی ہے۔ اس نے پہلی تنخواہ ہاتھ میں لا کر دی تو سوچا ملاد کردوں۔‘‘

          ’’ مبارک باد ۔ ‘‘

          ’’  آج بعد مغرب میلاد ہے۔ کھانا کھا کر جاؤگی ۔‘‘

          رشیدہ چائے پی کر چلی گئی۔جھمکے کا ذکر نہیں نکالا۔ با جی کو اطمنان ہوا۔وہ میلاد میں گئیں لیکن جھمکا نہیں پہنا۔ کیا پتا مانگ لیتی۔

          ایک دن باجی کے چہرے پر نیلی لکیر ابھر آئی۔ اس دن انہیں ایک تقریب میں جانا تھا۔باجی صبح ہی لاکر سے جھمکا نکال لائیں۔ شام کو کپڑے تبدیل کرنے لگیں  تو کان میں جھمکا نہیں تھا ۔ ان کی تو جیسے جان نکل گئی۔سنگھار میز کی دراز میں دیکھا ،  الماری میں تلاش کیا، ہینڈبیگ میں جھانکا جھمکا کہیں نہیں تھا۔پھر اچانک یاد آیا کہ صبح غسل خانے میں اتارا تھا۔ غسل خانے کی طرف دوڑیں لیکن دروازہ اندر سے بند تھا۔ سریہ نہا رہی تھی۔باجی نے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔

          ’’ جلدی کھول احمق۔۔۔۔کھول جلدی۔۔۔۔! ‘‘

          سریہ اس حال میں نہیں تھی کہ دروازہ فوراً کھول دیتی۔وہ اس وقت جسم میں صابن مل رہی تھی۔

          ’’ کھولتی ہے کیوں نہیں ری کل جبھّی۔۔۔۔! ‘‘ باجی زور زور سے دروازہ پیٹنے لگیں۔

          سریہ گھبرا گئی کہ باجی کو اتنی جلدی کیا ہے ؟ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ  صابن لگا برہنہ جسم کس طرح ڈھکے ؟

          ’’ کھول۔۔۔۔کھول ۔۔۔۔کھول ۔۔۔۔۔حرامزادیــ۔۔۔۔‘‘ باجی دروازہ لات سے بھی پیٹنے لگیں۔

           سریہ نے تولیے سے ہی کسی طرح اپنا آدھا جسم ڈھکا اور دروازہ کھول دیا۔

          ’’  اتنی دیر کیوں لگائی کمبخت۔۔۔؟ میرا جھمکا کہاں ہے ؟‘‘

          جھمکا آئینے کے شیلف پر پڑا ہوا تھا۔باجی نے جھپٹ کر اُٹھا لیا۔

          ’’ دُر باجی۔۔۔۔آپ بھی پیتل کے جھمکے پر جان دی ہوئی ہیں۔‘‘ سریہ نے کبھی غصّے کا اظہار کیا تھا تو یہ اس کا پہلا غصّہ تھا۔

          ’’ پیتل کا جھمکا۔۔۔۔؟ کیا بکتی ہے احمق۔۔۔۔؟‘‘

          ’’ اور نہیں تو کیا۔۔۔۔‘‘ سریہ نے باجی کے ہاتھ سے جھمکا لیا اور اپنی ہتھیلی پر دو تین بار زور سے رگڑا۔

          ’’ یہ دیکھیے۔۔۔۔یہ پیتل نہیں ہے تو کیا ہے ؟ کوئی احمق ہی اس کو سونا کہے گا ۔ ‘‘

          سریہ کی ہتھیلی پر اگی ہوئی نیلی لکیر باجی کے رخسار پر ا بھر آئی۔۔۔۔۔!!!

٭

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930