گل رنگ ۔۔۔ ظہیر سلیمی

گل رنگ

ظہیر سلیمی

نیلی آنکھوں والی لڑکے سے میرا یہ  ساتواں بندھن تھا ۔ پہلی گرہ سے چھٹی تک میری ڈوری  بڑی الجھی الجھی سی رہی۔۔ میں تو بہت خلوص اور چاہت سے زندگی کی اس ڈوری میں گرہ باندھتی مگر چلتے چلتے۔ کچھ اس طرح کھل جاتی کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آتے۔  آتے۔ ایک روز میں نے سوچا کہ اپنی  اس ڈوری کو مخروطی انگلیوں کے گرد لپیٹ لوں اور پھر سفیدستانے پہن کر باہر نکلوں تاکہ کوئی بھی  اس ڈوری کو نہ دیکھ سکے ۔ میں نے یہ سوچ کر دستانے پہن لئے اور پرانا شہر چھوڑ کر اس شہر میں چلی آئی۔

اس نئے شہر میں سب میرے لئے اجنبی تھے ، مگر مجھے دیکھ کر سبھی مسکرانے لگے میں سوچنے لگی——

یہ  کیوں مسکراتے ہیں ؟

کیا میری ڈوری کی پہچان ہوگئی ہے ؟

میں گھبرا سی گئی۔ دل بھی عجیب  ہے ۔ کچھ نہ کچھ مانگتا ہے ، وہ نیلی آنکھوں والا  لڑکا ۔۔۔۔ میرے قریب سے گزرا تو ڈوری ہاتھوں سے پھسل گئی اور نیلی آنکھوں والے کی ٹانگوں سے الجھنے لگی ۔ میں نے کئی بار سوچا ۔۔۔۔۔اگرا سے پتہ چل جائے کہ میری ڈوری میں چھ بندھن اور ہیں  ۔۔۔۔۔ تو یہ کیا سوچے گا۔

پر اس نے کبھی سوچا تک نہیں ۔

پھر میں اور نیلی آنکھوں والا ۔۔۔۔۔ جسے میں پیار سے شفو کہتی ہوں ۔۔۔ اپنے سفر پر جارہے ہیں ۔ اس کی چھوٹی سی نیلی آسٹن میں بیٹھ کر یوں محسوس کرتی ہوں جیسے میں کپاس کا پھول ہوں جو  آنکھیں موندھے ہوئے بھی دیکھ رہا ہے۔ کچھ دنوں بعد شفو مجھ سے کہنے لگا

” آو ۔۔۔ با لکل ایک ہو جایئں۔۔۔۔۔”

میں نے ہاں کردی۔ انکار بھی کیسے کر سکتی تھی۔ میری ڈوری کی چھ گرہ ۔۔۔۔۔ زور زور سے ہلنے لگیں۔ ۔۔۔۔جیسے وہ مجھ سے پوچھ رہی ہوں۔

اے لڑکی نے یہ کیا کیا ؟

اگر میں ان سے کہہ دوں ۔۔۔۔ تم اکیلی نہیں ۔۔۔۔  تو وہ سب مچل جایئں گی اور وہ سب جو ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں، سب مل کر مجھ پر اس قدر گندگی اچھالیں گی کہ میں اس میں دفن ہو جاوں۔

مگر ہر روز سفید اپرن پہن کر جسم اور روح کی گندگی کو اس میں چھپا لیتی ہوں اور میری ڈوری اور سب  بندھن ایک دوسرے کے لئے اجنبی رہتے ہیں۔ ساتواں بندھن میرے

ساتھ سفر کر رہا ے۔

آخر مجھے بھی تو زندہ رہنا ہے

میرے  اور شفو کے ایک ہونے کی خبر شہر میں پھیل گئی۔ سچ اسی طرح ہی پھیلتا ہے۔

اس روز میں  اکیلی فٹ پاتھ پر جارہی تھی کہ اچانک چھٹی گرہ میرے قریب آ کر رک گئی۔ تیز ہارن  کے شور نے مجھے چونکا دیا۔ وہ میرے سامنے تھا۔ ۔۔۔  میں اسے بالکل پہچان نہ سکی۔

– “کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟” اس نے کہا۔

“نہیں ۔۔۔”

” ارے بھئی میں اقبال ہوں ۔۔۔۔۔ بالی ۔۔۔۔۔”

سفید ٹیوٹا میں بیٹھارہ مجھے بھلا لگا۔ میں نے فٹ پاتھ کے کنارے پراسے غور سے دیکھا اور سوچا کہ اسکی صحت پہلے سے بہت اچھی ہے ، مگر سرسے بال اڑ چکے ہیں ، اس نے میرے لئے دروازہ کھولا اور میں اس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔

سفید ٹوٹا میں بیٹھتے ہوئے میں نے سوچا۔

یہ بالی کتنی خوبصورت ڈرائیونگ کرنا ہوگا۔

آنے والے چوک پر ٹریفک کی وجہ سے رکنا پڑا۔ دائیں طرف بریکوں کی تیز چیخ نے مجھے متوجہ کیا۔ شفو اپنی نیلی  آسٹن میں تھا۔ میں بالی کے قریب جھک گئی سفید ٹیوٹا کھلی سڑک پر بھاگ  رہی تھی —-  میں سوچنے لگی ۔

ٹیوٹا، آسٹن سے مہنگی ہے اور خوبصورت بھی۔ ۔۔۔۔ ہم دونوں دیر تک ادھر ادھر گھومتے رہے۔

رات جب گھر پہنچی تو بالی سے آج کی ملاقات کا تحفہ ۔۔۔۔ لاکٹ میرے گلے میں تھا۔ میں رات گئے سفو اور بالی  ۔۔۔۔  ٹیوٹا اور آسٹن کا موازنہ کرتی رہی۔

پھر سوچا ۔۔۔۔۔ ٹیوٹا اچھی گاڑی ہے ۔۔۔۔۔

میرے ہاتھ کی ڈوری اب تیزی سے سمٹنے لگی۔ نہ جانے اس نے دسمٹنا کب سے سیکھ لیا ہے۔

ایک کے بعد ایک ۔۔۔ساری کی ساری گرہ ۔۔۔۔ کھل کر میرے سامنے کھڑی ہیں اور میں بٹ بٹ ان کا منہ تک رہی ہوں اور یوں محسوس کرتی ہوں جیسے میں با لکل عریاں  ۔۔۔۔ ان کے درمیان کھڑی ہوں۔ میں نے اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے۔ ان سب کی تیز آنکھیں میرے جسم میں اتر رہی ہیں۔

میں نے احساس کی آنکھ کو بند کر لیا ہے۔

 ہم اس وقت کلب کے فلور پرقص کررہے تھے۔ وہ سب باری باری میرے قریب آگئے

کہ میرے دل کی دھڑکنیں ان کو سنائی دینے لگیں۔ رقص کے خاتمے پر سعید میرا ہاتھ پکڑ کر پورچ میں  لے گیا اور دیر تک وہ اپنی آنکھوں کی زباں سے مجھ سے باتیں کرتا رہا اور پھر کہنے لگا۔

“آو، تمہیں  سمندر کے کنارے لے چلوں۔ صاف ہوا صحت کے لئے اچھی ہوتی ہے ۔اس کی اوپل  اور  طبی مشورہ دونوں مجھے پسند آئے۔ چلتے چلتے میں سوچنے لگی۔

” میرے یہ چھ بندھن کیسے اکٹھے ہوگئے۔ “

میں نے تو انہیں الگ الگ باندھا تھا، جگہ کا انتخاب میراتھا۔ پھر میں نے اپنے بالوں کو جھٹک دیا جیسے یہ سوچ بھی گر جائے گی۔

کلب کے فکشن کے بعد ہم سب اکٹھے باہر نکلے۔

آسٹن، ٹیوٹا ، ا و پل میں، میں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی ۔ جمشید مجھے اپنی نئی ڈاج  کے بارے میں بتانے لگا۔

خالد بھولی ۔۔۔۔ چیکے سے میرے کان میں شیور لٹ کے نئے ماڈل کی افادیت بیان کرنے لگا۔ میں خالد کی بات سن کر غلام حسین سوز کی طرف جھکی ۔۔۔۔  اس نے اپنی ذیفرکی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔۔  میں نے غور سے دیکھا۔

سب میرے لیے اشتیاق  کی آنکھ کا دروازہ کھولے کھڑے ہیں ۔ میں نے سب کی آنکھوں

میں باری باری جھانکا اور چپکے سے سیٹھ لوٹے جی کا ہاتھ پکڑ کر چل دی . لوٹے جی کی آنکھوں میں ایک فاتح کی سی چمک ابھری۔  میں  اسکے جھریوں  والے ہاتھ کو اپنے کو مل اور نرم ہاتھوں میں تھامے ہوئے سرخ مرسیڈیز میں جا بیٹھی۔

یہ  سارا رنگوں کا کھیل ۔۔۔۔۔  مجھے اس وقت بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔

یہ تو مجھے بہت دیر بعد محسوس ہوا کہ  رنگوں کے اس کھیل میں ہیں تو صرف ایک گیند تھی جو ہر ایک کے ہاتھوں میں سفر کرتی رہی۔

جس نے چاہا مجھے اپنے ہاتھوں میں بندکرلیا ۔میرے وجود کی گرمی سے اپنے ہاتھوں کو حرارت  بخشتے رہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ میرے جسم میں تیزاب سے زیادہ کاٹ بے۔ جیسے تیزاب زدہ ہوں۔

میں اب بھی وہاں ہوں، جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ وقت کے ہاتھوں نے مجھ سے میرے سارے رنگ چھین لئے ہیں۔

میں آج ایک گہری شام کی طرح ہوں۔ اس کے بعد تاریکی اور گھپ اندھیرا ہے میرے گھر کے راستے میں بیٹھا ہوا جوتشی ایک روز مجھ سے کہنے لگا

” بی بی ۔۔۔ تمہارا ہاتھ کہتا ہے، “

” تم دل کی بڑی دیالو ہو ۔۔۔۔”

میں نے سوچا ۔۔۔۔ ” دل کی بربادی کا کون رازدار ۔۔۔۔۔۔ ؟ “

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031