سازشی ۔۔۔ ڈاکٹر انور سجاد
سازشی
(انور سجاد )
ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے سارا دن مٹی کی ٹوکریاں اٹھا اٹھا کر ٹرکوں میں ڈالتے رہے ہم آزاد تھے ، صرف ایک دوسرے کو دیکھ کر یاد آتا تھا کہ ہم قید میں ہیں۔
ہم چھوٹے سے ٹیلے پر سستانے کے لیے بیٹھے تھے ۔ہیوں، ہم نے سوچا ، نہر کھودرہے ہیں۔
ہوں
ہم سورج کی آخری کرن تھا مے بند لاری میں بیٹھے لوٹ رہےتھے اور اپنے جسم پ بھاگتی ہوئی نیلی پیلی سلاخوں کو دیکھ رہے تھے ۔
روشنیاں
روشنیوں کے سیلاب میں نوجوان لڑکیاں نظر آئیں. لاری کی رفتار کم ہوگی.. ہم نوجوان مسکرائے. بوڑھا سنجیدہ ہوگیا ۔تانگے میں پچھلی گدی پر بیٹھی لڑکیوں نے اپنے سینوں پر گرم گرم چادریں سرکادیں۔. بوڑھا مسکرایا ۔ہم نے کہا ۔۔۔” لڑکیاں “
ایک نے کہا ۔” آہ ۔۔۔ بمبے۔۔۔یہ سب سالا ہوچ پوچ ہے۔ وہاں اپنا کھولی اس شیش محل سے بہت اچھا تھا۔ “
ہم نے سوچا ۔یہ نہر کب مکمل ہوگی۔
“قیدی ” ٹانگے کی پچھلی گدی پر ایک لڑکی نے دوسری سے کہا.. ہم حیران رہ گئے. لاری تانگے سے آگے بڑھی. تانگا میلوں پیچھے رہ گیا ۔ہم پھر روشنی کی لکیروں کا پیچھا کرنے لگے. ہم سب جانتے تھے کہ یہ لکیریں ہمیں کہاں لے جائیں گی ۔۔۔ہم نے سلاخوں سے دیکھا ایک نے کہا میرا شہر.۔۔۔ دوسرے نے آنکھیں بند کر لیں. دلی. چاندنی چوک.. امبرسر. نان کلچے، باقرخانی ،ہال بازار، دربار صاحب۔”
“سکھ دا پتر”.. تیسرے نے مجھ سے بیڑی مانگ کر سلگائی ۔۔۔۔لاہور لاہور اے ۔۔۔بھاٹی لوہاری، موچی.
بوڑھا مسکرایا ۔۔۔”تم کہاں تھے ؟”
میں؟. اس کی مونچھیں نئی نئی پھوٹی تھیں۔۔۔میں، کہاں ہوں ؟
. ہم سب ہنس پڑے۔ وہ جھینپ گیا اور ہمیں بھی اپنے ساتھ لے ڈوبا.
میں موہنجو ڈارو میں تھا”۔. بوڑھے نے کہا
ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا. موہنجو ڈارو میں ؟
ہاں. بوڑھے کے چہرے پر جھریاں اور بھی گہری ہو گیئں آنکھوں میں بجھتی چمک بھڑکی۔
لیکن وہ تو بہت قدیم زمانے کا شہر ہے.
کیا میں قدیم نہیں ہوں
. یہ وہی شہر ہے جہاں سے وہ رقاصہ
ہاں
لیکن وہ تو معدوم ہو چکا ہے. ایک زمانے کی بات ہے
ہر شے معدوم ہو چکی ہے.. ایک زمانے کی بات ہے۔ بوڑھے نے آنکھیں جھپکیں۔
ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور ہم نے سلاخیں تھام لیں۔
بوڑھا ہنسا۔ وہ مشہور رقاصہ میری بیوی تھی. اس نے آہ بھری۔
میرا شہر
ہم سب کو سانپ سونگھ گیا.
پھر میرے قریب بیٹھا وہ لڑکا جس کی مونچھیں نئی نئی پھوٹی تھیں یکلخت چیخا..” جھوٹے تم سب جھوٹے ہو ہم سب کھوئےہوئے ہیں. ہم سب نہیں ہیں… جھوٹے مکار بڈھے۔ اس نےبوڑھے کو داڑھی سے پکڑ لیا۔.
. پہرے دار لپکے۔ لڑکے کی آنکھوں میں خون ابلا ۔جھاگ بنا. ہم نے ایک دوسرے سے پوچھابھلا یہ کیا بچکانہ حرکت تھی.. جب پہرےدار لڑکے کو لے گئے تو ہم میں سے ایک نے سرگوشی کی۔
. یہ اس مشہورقاصہ کا حرامی بچہ ہے
ہی ہی ہی ہی ہی ہی
. ہم سارا سارا دن مٹی کی ٹوکریاں اٹھاکر ٹرکوں میں ڈالتے رہتے ہیں
چپ چاپ
ہم قیدی نہیں ہیں.
. صرف ایک دوسرے کو دیکھ کر یاد آتا ہے کہ ہم قید میں ہیں. ہمارے ہونٹوں پر خاموشی کی مہریں ہیں
ہم چھوٹے سے ٹیلے پر سستانے کے لیے بیٹھے ہیں
اٹھو اٹھو کام کرو. بھاگنے کی سوچ رہے ہو? سازشی. ان میں سے ایک آپکے غرایا ۔.
ہماری چپ سازش ہے اور ہم سوچتے رہتے ہیں کہ یہ نہرکب مکمل ہوگی.۔