آدھی خود کُشی ۔۔۔ فارحہ ارشد

آدھی خود کشی

فارحہ ارشد

یہاں سب گورکن ہیں ۔ لاش ملتی ہے تو رزق کا بندوبست ہو جاتا ہے۔

  اور وہ لوگ  جوآدھے نوالے کے پیچھےخود لاش بن جاتے ہیں۔

انسان

جسم

زندگی ۔۔۔ موت

بھوک کے نیچے دبی لاوارث کہانیاں۔۔

ملتی جلتی کہانیاں۔۔۔

غریبی کی ساری کہانیاں اصلی ہونگی اور ہر کہانی پلیجرائزلگتی رہے گی ۔

نیوز سائیکل ہوتی رہتی ہے ہر سٹوری کی ۔۔

سٹوری بریک

غربت پرپینل ڈسکشنز ۔۔

بگ کلک ۔۔ہیش ٹیگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک طویل سرد ہال ہے۔ جہاں ہم سب  مختلف نمبروں کی میزوں پر سفید کپڑے کے نیچے پڑے ہیں۔  ہماری شناخت ہمارے پاؤں کے انگوٹھوں پر بندھے دھاگے کے ساتھ لگی چٹ پر ہماری میز کے نمبر تک رہ گئی ہے ۔

مجھے اپنا نام بھول گیا ہے مگر وہ مجھے میز نمبر سات کا جسم بُلاتے ہیں۔

انہیں لگتا ہے یہاں بہت ہولناک …

میرا کون آئے گا بھلا۔۔۔ میں تو خود بھاگ نکلی تھی وہاں سے جہاں ابے نے مجھے بڑی سی حویلی میں کام پر رکھوایا تھا۔ اتنے کنجوس حویلی والے کہ ایک روپیہ بھی تین بار ناخن پر بجا کردیتے۔

چوکیدار کے لمبے بالوں اور مفلر والے بیٹے  نے مجھے ایسے ایسے سبز باغ دکھائے کہ میں اس کے ساتھ وہاں سے بھاگ گئی۔

وہ مجھے شہر لے آیا۔۔ نکاح کے وعدے پر مجھے مرد بھگاتے رہے اور میں عزت کی روٹی کے لیے  ان کے ساتھ بھاگتی رہی ۔ اس لکڑی کی ٹانگ والے نے  تو مجھ سے دو بول  بھی پڑھوا  لیے ۔ سارا دن میں اس کی خدمت کرتی اور رات کو شکر کرتی کہ سکون سے اپنے گھر میں سوئی ہوں ۔ وہ لکڑی کی ٹانگ والا خود کچھ کر نہیں سکتا تھا اور اسے شک تھا کہ میں ایک بار پھر  کسی اور کے ساتھ  بھاگ جاؤنگی۔ کتنے دن شک پالتا؟۔۔۔ پیسے کھرے کر لیے۔  گویا میں اپنی ہی تلوار پر جا گری۔

ایک روز مچھلیاں بیچنے والے ایک شیطان نما آدمی کے ہاتھ مجھے بیچ دیا۔

وہ کبھی   مچھلی بیچنے والا  رہا ہوگا۔ بعد میں ایسا نشہ لگا کہ کام وام چھوڑ دیا ۔ اب اس بے رنگ وروغن سٹیمر کے پیچھے بنی جھگی میں پڑا اینٹھتا رہتا۔ جو ادھر ادھر سے لوٹ کھسوٹ کی وہ میری قیمت دے آیا۔ اس  نے مچھلیوں کی باس سے اٹی  نیم تاریک کھولی میں لا کر مجھ پر ہر نسل کے کتے چھوڑ دیئے۔ میں بھوکی پیاسی تڑپتی رہی اور وہ چند دنوں میں ہی کورے نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کرپاگل ہوگیا۔  سونے کے انڈے دینے والی مرغی کا پیٹ چاک کر کے انڈے نکالنے بیٹھ گیا۔

دن رات اس کے گاہک میرے بھوکے پیاسے جسم کے ہر ممکنہ عضوکو استعمال کرتے رہے ۔

آخری بار ۔۔۔ مچھلی کی سڑاند اور سستی شراب کے بھبھوکے والا منہ میرے منہ پہ ایسا چپکا کہ میری سانس پی کرہی رہا۔

سانس تھی،  ہوا ہوگئی ۔ اور میں تلچھٹ کی طرح وجود کے پیندے میں بیٹھتی چلی گئی۔

موت کیا تھی ایک جھٹکا تھا کہ جو جسم کے ریکٹر سکیل پر نشان چھوڑ گیا، جس کی شدت ریکارڈ کی جائے تو  ہر بار پچھتاووں کے پیمانے پر بڑھتی جائے گی۔ ” کاش میں ایسا نہ کرتا، اے کا ش  یوں نہ ہوا ہوتا۔ ” جیسے پچھتاوے۔۔۔

 زندگی خود موت کو واقعہ بنا کر پیش کر دیتی ہےاور انسان ہاتھ ملتا رہ جاتا  ہےکہ کاش اس لمحے میں موت کو موقع نہ دیتا۔

 آہ بیچارہ انسان۔۔۔  بے خبر۔۔۔ بے بس

زندگی پانی کا بلبلہ ۔۔۔ کب پھٹ جائے کس کو خبر؟۔۔۔۔ اور غریب کی زندگی کا  بلبلہ تو  بس بہانہ مانگتا ہے  ۔ پیدا ہوتے ہی وہ اندر ہی اندر مرنے لگتاہے۔

وہ نشے میں دھت میرے ساکت جسم کو ہی ساری رات بھنبھوڑتا رہا۔ جب سارے نشے بہہ گئے توگٹھڑی بنا کر مجھے پرانے سٹیمر کے غلیظ ترین غسلخانے کے باہر پھینک آیا۔

پولیس آئی تو کوئی والی وارث نہ بنا۔

بہت سے بگلہ بھگت، بہت سے رنگے سیار، جو بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا بنے مہذب ہونے کا ڈھونگ رچا رہے تھے اسی بھیڑ کو چیرتا وہ  مچھلی والا بھیڑیا بھی کانوں کو ہاتھ لگاتا آگے بڑھا۔

 ” جی سردی سے کانپ رہی تھی میں اسے  اپنی کھولی  میں سونے کا کہہ کر مزدوری کرنے چلا گیا۔ اہل  کی قسم میں اسے نہیں جانتا تھا ۔ آخر ہم نے بھی اک روز مرنا ہے یہی سوچ کر میں نے اسے پناہ دی۔ بچیاں تو جی سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ نمانی ! جانے کہاں سے بارش میں بھیگتی میرے در پر اللہ نے بھیج دی تھی ۔ پناہ نہ دیتا تو میں  کل کو خدا کو کیا  منہ دکھاتا۔ اور جب میں دوسرے روز واپس  آیا تو وہ جا چکی تھی۔ ” مچھلی والا پان سے بھری  باچھوں سےتھوک اڑاتا رہا ۔

میرا لچکتی ڈال سا بدن جس کا روپ کبھی ایک آتش سیال اور شباب شعلہ سوزاں تھا ۔  جس کی زیبائی کسی وقت میں شب کا غرور اور اٹھان صبح کی انگڑائی جیسی تھی۔ اب لٹا پٹا ، شکست خوردہ ، تھکا ہارا کئی  مردہ مچھلیوں ، باسی گلی سڑی سبزیوں کے درمیان میلے کپڑوں کی گٹھڑی بنا پڑا تھا۔ اسٹیمر والے نیچے پھینک گئے تھے۔

 ٹھہری ہوئی پُتلیاں، ساکن زرد جلد، نیلے کچر ہونٹ ۔۔۔ موت کا عمل گذرے کئی گھنٹے بیت گئے ۔  ہڈیوں کی مُٹھ بنے مکھیوں بھرے چہرے والے نشئی میرے مردہ بدن کی رنگت اور ملائمت پر بھی  رہو مچھلی کا گمان کر کے رالیں ٹپکاتے رہے۔

ٹھہرے پانی کی امس ۔۔۔

چپچپاہٹ۔۔۔

چائنا کے سستے موبائلوں کی فلیش۔۔

 بلآخر کئی گھنٹے کے تماشے کے بعد لا وارث جان کر پولیس نے مجھے یہاں پہنچا دیا۔

 مجھے تو وارثوں کا انتظار ہی نہ تھا۔ سارے جسم وارث کب چاہتے  ہیں کہ کہیں ان کے وارث ان کی کہانی سن کر ان کی شناخت سے ہی انکار نہ کر دیں۔

یہ سرد ہال  جس میں ہلکی کسیلی موت کی بساند پھیلی ہے۔ ٹھنڈے جسموں سے بھری ایک پوری دنیا ہے جہاں سب کی اپنی اپنی کہانی ہے ۔۔۔۔ میں کتنوں کی کہانیاں سناؤں بھلا۔۔۔؟ کون یاد رکھے گا۔۔۔ ہم سب ان میں سے نہیں جن کے قصے عمر بھر یاد رکھے جاتے ہیں۔  کچے پکے قصے  اور قصوں کے    ہم جیسے بونے کردار۔

سانپ چنبیلیوں پر زہر تھوکتے رہیں گے اور  خوشبو وہیں پڑی  کہیں گلتی سڑتی رہے گی۔۔۔

 دور کہیں چٹخنی گرا دی جائے گی ۔ لالٹین  منڈیر پر جلتی رہ جائے گی مگر جانے والے نہیں آئیں گے۔  گُم ہو جائیں گے۔

سرد ہال کی نمبروں والی میزوں کی گنتی بنتے رہیں گے۔

میرے جسم کو “عزت” دینے کی تاکید کرتے ہوئے اس سفید کوٹ والے بوڑھے نے اردگرد کھڑے لڑکے لڑکیوں کو دکھانے کے لیے سفید کپڑا میرے جسم سے ہٹا دیا ہے۔۔۔۔ دو گھنٹے بوڑھا میرے اعضا کو چھوکر سفید کوٹ والے لڑکے  لڑکیوں کو کچھ بتاتا رہا ہے۔

میرا جسم تھک چکا ہے۔ موت کے بعد قبر سکون دیتی ہے مگر مجھے لگتا ہے ہم ” آدھی خود کشی” کیے  لوگ ہیں جنہیں زندگی کی اذیت کے ساتھ ہر لمحہ مرتے رہنا تھا اور مرنے کے بعد بھی نمبروں کی چٹیں پاؤں سے باندھے اپنی باری کا انتظار اس سرد ہال میں پڑے کر رہے ہیں۔ کب ہماری ہڈیوں کی گنتی شروع ہو ۔۔۔ کب ہمارے پیٹ چاک کیے جائیں۔

  پوری زندگی کا سکھ نہ پوری موت کا۔

ہم وہی ہیں جنہیں بد دعا دی گئی کہ ہمیں قبر بھی نصیب نہ ہو۔

مقدس بھیڑوں کے جلنے کی بُو کسی قدیم قصے سے آ رہی ہے ان کے مقبرے تیار ہو رہے ہیں اور ہمیں زمیں نے  اپنی گود میں اتارنے کا اذن نہیں بخشا۔

ہمیں کوئی چٹھی نہیں آتی  نہ ہی ہمارےلیے چھال میں لپٹی کوئی مقدس کھجور آتی ہے۔

ہماری گواہی کے لیے  غیب سےکوئی آیت نہیں اترتی۔

ہم آسمان   اور زمین کے درمیاں معلق ہیں۔

ہم مجبور ہیں۔

مہجور ہیں۔

  رنجور ہیں۔

مجھے قبرستان میں مختلف ناموں کے کتبوں والی قبروں پر  پڑے زرد پتے اور خشک  کالے گلاب اتنے اچھے کیوں لگتے تھے یہ اب مجھے پتہ چلا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ خودکشی میں بھی ایک قاتل ضرور ہوتا ہے۔۔ کیا آدھی خود کشی میں بھی کوئی قاتل ہوتا ہے؟۔۔۔

میں  رضیہ تھی کہ رادھا۔۔۔ مالتی تھی کہ نور۔۔۔ جانے میرا نام کیا تھا

اب تو میں صرف میز نمبر 7 کا جسم ہوں۔

میز نمبر سات کا اسسٹنٹ لڑکا اس میز پر پڑے جسم کو گھور رہا ہے اور ایسا بھرپور جوان جسم دیکھ کر اسے چھونے کی بے چین کر دینے والی خواہش کے زیر اثر ، اس کی بھیگتی مسوں کے اوپر ناک کے نتھنے پھڑاپھڑا رہے  ہیں کیونکہ اس نے ابھی تک کسی لڑکی کے ممنوعہ اعضا کو چھو کر نہیں دیکھا۔۔۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031