عتیق کی یاسمین ۔۔۔ مریم عرفان
عتیق کی یاسمین
مریم عرفان
یاسمین کے پاگل پن کو عتیق کا کمزور دماغ اندھیرے میں ٹٹولتاتھا۔ دو سائے ایک دوسرے میں مدغم تھے۔ باپ کی موت نے اسے پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر سے دوچار کر رکھا تھا۔ اس کا دماغ بجھے ہوئے چراغ کی طرح طاق پر رکھا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ علاج کے بعد وہ چیزوں کو پہچاننے کے قابل ہوئی۔ یاسمین سارا دن خاموش رہ کر گزارتی یا ٹی ۔ وی کی سکرین کو تصویریں بدلتے ہوئے دیکھتی رہتی ۔ اس ڈس آرڈر پر قابو پانے کے لیے ہسپتال والے جو ٹیکہ لگاتے تھے وہ پورا سال اسے نارمل رہنے میں مدد دیتا ۔ اس کے خون میں سرایت کرنے والی یہ دوا دماغ کو آسودہ رکھنے پر قادر تھی ۔ مگر جب اس کا اثر ختم ہونے لگتا تو وہ عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتی۔ ان حرکتوں میں سے سب گندی حرکت سر کھجانا تھا ۔ اس کے لمبے ناخن میل سے بھر جاتے لیکن وہ باز نہ آتی ۔
عتیق کے ساتھ ایسا نہیں تھا کیونکہ وہ سر کو چڑھنے والے بخار کے باعث سلو لرنر ہو گیا تھا ۔ دبلے پتلے جسم پر لمبا سا منہ ، باریک ہونٹ اور بڑی بڑی آنکھوں کو گھماتے ہوئے وہ دماغی کمزور محسوس ہوتا تھا۔ جسمانی کمزوری کے کوٹے پر بھرتی ہونے والاعتیق پرنٹنگ پریس کارپوریشن کا چوکیدار تھا۔ صاحب لوگ اسے روزانہ ‘‘ ٹھیک ہو ’’ کہہ کر گزرتے ۔ وہ ان دو حرفوں کے خمار میں سارا دن گزارتا ۔ بھابھی غزالہ اس کے لیے روٹی بنا کر صحن میں بچھی چارپائی پر رکھ دیتی اور وہ چپ چاپ کھا کر وہیں سو جاتا ۔ بھائیوں اور بھابھیوں سے بھرا گھر اور بچوں کی کُربل کُربل اس کے کانوں میں بجتی تو وہ اپنے باپ کے کمرے میں چلا جاتا ۔ باپ نے اس کے وجود میں اترتی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے گھر میں اس کی شادی کی بات چھیڑ دی ۔
‘‘ توبہ کرو جی ! اسے کس نے رشتہ دینا ہے ۔ ’’
‘‘ اباجی ! آپ کو لوگوں کے نخروں کا نہیں پتہ ۔ ’’
‘‘ اس کی دو روٹیاں ہم پر بھاری نہیں ۔ ’’ غزالہ یہ کہتے ہوئے کچن میں چلی جاتی ۔
عتیق کی بڑی بڑی آنکھوں میں دو دئیے جس تیزی سے جلتے تھے بھابھی انہیں پھونک مار کر بجھا دیتی ۔ باپ کے تجربے اور سوچ کے آگے گھر کی عورتوں نے ہتھیار ڈال دیے تو یاسمین کو اس کے لیے پسند کر لیا گیا ۔
‘‘ لگتی تو اچھی ہے ۔ بڑی چپ چپ سی ہے ۔ ’’
‘‘ چلو اچھا ہے ، اب عتیق کے سارے کام خود کر لے گی ۔ ’’
‘‘ بھابھی ! آپ کو بھی کچھ آرام تو ملے گا نہ ۔’’ چھوٹی بہو نے غزالہ کو کہنی مارتے ہوئے خواب سے جگایا ۔ وہ کھلی آنکھوں عتیق سے ملنے والی تنخواہ کو جاتا ہوا دیکھ کر صدمے میں تھی ۔ یوں عتیق اور یاسمین چھت پر دوسرے کمرے میں شفٹ ہو گئے ۔ سارا گھر چیختا چلاتا اور شور مچاتا رہتا لیکن ان کے کمرے سے مجال ہے جو ذرا سی بھی آواز آئی ہو ۔ عتیق چپکے سے سائیکل صحن میں لگا کر سیڑھیاں چڑھ جاتا ۔ دونوں دروازہ بند کرنے کے تکلف سے عاری تھے ۔ تجسس سانپ بن کر غزالہ کے سینے پر لوٹتا تھا ۔ وہ جب بھی بہانے سے چھت پر جاتی تو دو لاشیں بے گورو کفن پلنگ پر چت دھری ہوتیں۔ وہ اس احتیاط سے سانس لیتے کہ ان کے جسموں کا اتار چڑھاؤ بھی محسوس نہ ہوتا تھا ۔ لاشیں ہاتھوں میں ہاتھ پھنسائے چھت پر ٹکٹکی باندھ لیتیں۔ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانے والا عتیق گھر کی ڈیورھی میں سائیکل لگاتے ہی خاموشی کا کمبل اوڑھ لیتا۔ پھر چار آنکھیں آپس میں باتیں کرتیں ۔ یاسمین سائیکل کی گھنٹی سنتے ہی دوپٹے کو سینے پر وی کی طرح دھرتی۔ اس کے ہونٹ گاڑی کی ونڈ سکرین پر چلنے والے وائپربن جاتے ۔ بے چینی اور سرشاری اس کے وجود سے پھوٹنے لگتی۔ سر پر اونچی پونی باندھ کر بالوں کو پیچھے سے ہلاتے ہوئے اسے آئینے میں عتیق نظر آتا ۔ دو وائپربڑی تیزی سے چلنے لگتے ۔ دونوں چھت سے نیچے تنگ سیڑھیوں پر بانہوں میں بانہیں ڈالے اترتے تو صحن قہقہوں سے ابل پڑتا۔ عتیق سائیکل پر ہاتھ رکھتے ہی ٹرن ۔ ٹرن ۔ ٹرن کی آواز منہ سے نکالتا اور وہ ٹاؤ ۔ ٹاؤ ۔ ٹاؤ کرتی سٹینڈ پر بیٹھ جاتی۔ یاسمین کو پیپسی اور برگر بہت پسند تھا اکثر وہ یہی کھاتے ہوئے گھر لوٹتے ۔ سائیکل صحن میں لگاتے ہی لاشیں بانہوں میں بانہیں ڈالے سیڑھیاں چڑھ جاتیں ۔ دو روبوٹ صبح شام یوں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے جیسے کوئی انہیں آف کرنا بھول گیا ہو ۔ سات مہینے خیریت سے گزر گئے تو غزالہ نے ان کی ٹوہ بازی چھوڑ دی ۔
پھر کچھ دن بعد گھر والوں کو یاسمین میں بدلاؤ محسوس ہونے لگا ۔ وہ مسلسل اپنا سر کھجانے لگی تھی ۔ خارش بڑھتے بڑھتے اس کی ٹانگوں تک پہنچ گئی ۔ ایک دن تو یاسمین کے کمرے میں گھستے ہی غزالہ کی چیخ نکل گئی ۔ وہ سنگھار میز کے سامنے کپڑے اتارے کھڑی تھی ۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کر کے اسے کپڑے پہنائے اور بال بنا کر پلنگ پر بٹھا دیا ۔ غزالہ کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے ۔ اتنی دیر میں یاسمین سر کھجاتے ہوئے باہر نکل گئی ۔ اس کے ٹیڑھے میڑھے ناخن میل سے بھرے ہوئے تھے ۔
‘‘ اللہ ! یاسمین ۔ تیرا کوئی حال نہیں ۔ میں ہی تیرے ناخن کاٹوں تو کاٹوں ۔ چل سیدھی ہو ۔ ’’
یاسمین کی آنکھوں میں مزید بے چینی پھیل گئی۔ غزالہ اسے اپنے کمرے میں چھوڑ کر کچن تک ہی گئی تھی کہ واپسی پر پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ یاسمین پاگلوں کی طرح اپنی شلوار میں ہاتھ ڈالے خارش کرنے میں مگن تھی ۔ پورا گھر اس ناگہانی خارش کو اپنے جسموں پر محسوس کرنے لگا تھا ۔ یہ بات سب کے لیے پریشان کن تھی کہ چار مہینے بعد لگنے والے ٹیکے کا اثر ختم ہو چکا تھا۔ عتیق کے لیے یاسمین کی خارش کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ وہ اپنی روٹین کے مطابق گھر واپس آیا اور اسے بازو سے پکڑ کر کمرے میں لے گیا ۔ وہ یاسمین کا ہاتھ لبوں سے مس کرتا اور پھر چومنے لگ جاتا ۔ یاسمین اوں آں کرتے ہوئے ہوا میں ہاتھوں کو حرکت دینے لگتی۔ لاشیں کمرے میں خاموش فلم کی طرح چل پھر رہی تھیں ۔ اسے عتیق کو گدگدی کرنے میں مزہ آنے لگا تھا ۔ رات کا سناٹا اس کی آواز سے گونج اٹھا۔ ‘‘ عتیق ! اٹھو۔ عتیق اٹھو ۔ ’’ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہی ورد کرتی ۔ کبھی عتیق کی ٹانگوں کو سہلانے لگتی تو کبھی اس کے سر میں ہاتھ پھیرتی۔ گھر کے لڑکوں کی مسیِں بھیگ رہی تھیں ان کے لیے چھت کا یہ کمرہ سینما گھر بن گیا تھا ۔ ‘‘آج رات چھت پر چلیں گے۔ ’’
غزالہ اپنے بڑے بیٹے کے منہ سے نکلا یہ جملہ سن کر رہا سہا سکون بھی کھو چکی تھی ۔ پھر اس دن خوب لڑائی ہوئی ۔ اباجی بیچ بچاؤ کرواتے لیکن غزالہ کا پارہ دوبارہ چڑھنے لگتا ۔ یاسمین کی بہن ذہنی طور پر اس لڑائی کے لیے تیار ہو کر آئی تھی۔ سو وہ اسے لے کر میکے چلی آئی ۔
یاسمین جا چکی تھی۔ خالی کمرہ دیکھ کر عتیق کے کمزور کندھے مزید ڈھے گئے ۔ اس رات پلنگ پر ایک ہی لاش دھری تھی۔ جس کی آنکھیں چھت پر پنکھے کے پروں کے ساتھ گھومتی تھیں۔ اسے اپنے جسم پر دو ہاتھ چلتے پھرتے محسوس ہوتے رہے جو آنکھ کھلتے ہی غائب ہو جاتے تھے ۔ اس نے صبح اٹھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا ۔
‘‘ یاسمین کو لاؤ۔ یاسمین کدھر گئی ۔ بھابھی تو بڑی گندی چوڑی شدین ہے ۔ باؤ جی اسے بھی اس کی ماں کے گھر چھوڑ آؤ ۔’’
عتیق کا لاغرجسم اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ وہ غزالہ کے بال نوچنے کو دوڑا ۔ اس کی یہ حالت دیکھتے ہوئے یاسمین کو دوبارہ گھر لانا پڑا۔ وہ ایک بار پھر ٹیکے کے اثر میں تھی۔ دوادارو کے بعد اس کا جسم کچی دیوار بن کر ڈھے جاتا تھا ۔ وہ پلنگ پر بے سدھ پڑی رہتی تو عتیق گیلے تولیے سے اسے صاف ستھرا کرتا۔ پھر اپنی ٹانگوں سے ٹیک لگا کر اس کے کپڑے بدلتا اور گود میں سر رکھ کر بال بناتا ۔ وہ کومے کے مریض کی طرح بس آنکھیں بند کیے پڑی رہتی ۔ پھر دھیرے دھیرے اس کے کان کے پاس دو ہونٹ سرسراتے: ‘‘ چنا جور گرم ، جیوے دل دا چور صنم ۔ ’’
لاش کی آنکھیں پٹ سے کھل جاتیں اور اس کے ہونٹ سکرین پر چلنے والے وائپر بن جاتے ۔ ایک مہینہ یونہی گزرتا اور پھر یاسمین سنگوبیان کی گولیاں کھا کر ہوش کی دنیا میں آنکھ کھولتی ۔ دونوں بانہوں میں بانہیں ڈالے سیڑھیاں نیچے اترتے ۔ زندگی کی گاڑی اسی سٹیشن سے آگے چل پڑتی جہاں کچھ دیر دم لینے کو رکی تھی۔ دونوں کھانا بھی ایک ہی پلیٹ میں کھاتے تھے ۔ اگر دال میں سے نکلا کنکر منہ میں آ تا تو یاسمین فوراً عتیق کے سامنے اپنی ہتھیلی کھول دیتی ۔ وہ بھی لعاب میں تر نوالہ اس کے ہاتھ پرتھوک دیتا ۔ پھر دونوں بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنستے اور مجمع تاسف سے ان کی طرف دیکھتا ۔
ان کے کمرے کو کسی تالے کی حاجت نہیں تھی۔ چھت پر آنے والے حفظِ ماتقدم کے طور پر دروازہ بھیڑ دیتے یا کبھی پردہ آگے کر دیا جاتا ۔ یاسمین دورے کی حالت میں سڑک کنارے ہگنے موتنے والے جانور کی طرح اکڑوں کھڑی رہتی ۔ جب تک اباجی زندہ تھے وہ اسے بات بات پر ٹوکتے لیکن ہمیشہ پیار سے سمجھاتے ۔ اگر کبھی غزالہ غصہ کرتی تو یاسمین زخمی ناگن کی طرح اسے مارنے کو دوڑتی ۔ غلط سلط گنتی سناتے سناتے سب کے کان کھا جاتی ۔ اس کے بے سروپا جملوں کی تکرار سے گھر میں شور مچ جاتا۔ ‘‘ میں چھپکلی تو کَکڑی ، کھا لے تجھے جگ سارا ۔ ظالم زمانہ ۔ ایک دو تین چار ۔’’
ایسے بے ربط جملے بولتے بولتے اس کا سانس پھولنے لگتا ۔ غزالہ نے یاسمین کو ٹیکہ لگوانے کی ذمہ داری اٹھا لی تھی ۔ شادی کو بارہ برس کا عرصہ گزر چکا تھا ۔ کتنے موسم آئے اور گئے لیکن دونوں کی زندگی ایک ہی معمول پر چل رہی تھی ۔ وہ کبھی بہت دور سیر کرنے نہیں نکلے لیکن ایک دن پتہ نہیں عتیق کو کیا سوجھی۔ وہ اسے اپنی سائیکل پر بٹھا کر راوی کا کنارہ پار کر گیا ۔ شہر کی بے ھنگم ٹریفک اور لوگوں دیکھ کر سائیکل کے پیچھے بیٹھی یاسمین بار بار اپنے بال کانوں کے پیچھے کرتی رہی ۔ وہ پرانے لاہور کے راستے لنڈا بازار گھس چکے تھے ۔ ‘‘ یاسمین ، یاسمین ۔ میکسی لے لو ۔ ادھر آؤ ۔’’
بیسمنٹ کی دکان میں ہر طرف گوری میموں کی میکسیاں لٹکی ہوئی تھیں ۔ نیلی ، پیلی اور خاص کر سفید جالی دار فرل سے بھری ہوئی میکسیاں اور فراکیں دیکھ کر یاسمین بار بار ہتھیلی سے ناک کھجانے لگتی ۔ رات کے نو بجے جب سائیکل اپنے سٹینڈ پر لگی تو گھر والوں نے پریشانی کے عالم میں انھیں کچھ کہنا چاہا۔ مگر وہاں تودو بھوت اپنے ہی سایے پر پاؤں رکھتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ یاسمین بڑے بڑے ڈکار لیتی عتیق کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی۔ جسے وہ مسلسل چومے جا رہا تھا ۔ صحن کی دیواروں سر پٹخ رہی تھیں کہ ٹیکے کا اثر ختم ہونے والاہے ۔ اس رات بھی کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ یاسمین میکسی پہنے پلنگ پر دراز تھی۔ لاشیں چھت کے پنکھے کو گھور رہی تھیں کہ اچانک یاسمین نے اٹھ کر عتیق کے جسم کو سہلانا شروع کر دیا ۔ وہ اس کا ہاتھ جھٹکنے لگا۔ یاسمین ضدی بچے کی طرح اس کے جسم سے اٹھکیلیاں کرنے لگی۔ جب وہ تھک جاتی تو سر کھجاتے ہوئے الٹی سیدھی باتیں شروع کر دیتی ۔ صبح عتیق کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ ساری رات نہیں سو سکا ۔ غزالہ نے اپنے خاوند سے کہہ دیا تھا کہ اس بار یاسمین کو دورہ پڑا تو وہ برداشت نہیں کرے گی ۔ دورہ پڑنے کے لیے کسی وجہ کی ضرورت ہی کب تھی ایک ہفتے سے مسلسل جاگنے کے باعث یاسمین کی حالت بھی خراب رہنے لگی تھی ۔ وہ دن بھر صحن میں چارپائی پر اکڑوں بیٹھی رہتی۔ کبھی اس کی آنکھیں بند ہو نے لگتیں۔ کبھی وہ دیوانوں کی طرح ایک ہی سمت دیکھے چلے جاتی ۔
‘‘ یاسمین کا علاج اب فاؤنٹین ہاؤس سے ہی ہو گا ، پاگل خانے سے نہیں ۔ ’’ یاسمین کی بہن نے دو ٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے فون بند کر دیا ۔ غزالہ کبھی غصے سے یاسمین کو دیکھتی تو کبھی اس کی خون خوار آنکھیں اپنے خاوند پر ٹک جاتیں ۔
‘‘ کتنی بار سمجھایا ہے کہ دوسری جگہ سے علاج کروانا ٹھیک نہیں ہے۔ اسے ٹیکے کی ضرورت ہے دوائیوں کی نہیں ۔’’
‘‘ ظاہر ہے جی ، مصیبت ہمیں سنبھالنا پڑتی ہے اس کے پچھلوں کو نہیں ۔ ’’
‘‘ میں نے کہہ دیا ہے جی ، اب چاہے کچھ بھی ہو جائے یاسمین کو اس کے بھائی کے گھر چھوڑو ۔ بس۔ ’’
اس کی واپسی کا اعلان ہو چکا تھا۔ اگلی صبح عتیق کے دفتر جاتے ہی غزالہ نے چادر لپیٹی اور یاسمین کا بازو پکڑ روانہ ہو گئی ۔ یاسمین کے بڑے بھائی دل کے مریض تھے۔ وہ اپنا سینہ سہلاتے ہوئے کمرے میں چلے گئے ۔ یاسمین صوفے پر اکڑوں بیٹھی سامنے دیکھے جاتی تھی ۔ شام کو واپسی پر عتیق نے پورے گھر کا طائرانہ جائزہ لیا اور چارپائی پر بیٹھ گیا ۔ پھر اپنی بیٹھی بیٹھی آواز میں یاسمین کو پکارنے لگا ۔
‘‘ چلی گئی ہے وہ اپنے بھائی کے گھر ۔ اب جب ٹیکہ لگے گا تو ہی آئے گی ورنہ نہیں ۔ ’’
غزالہ نے کچن کی کھڑکی سے قیدی کو سزا سنائی ۔ اب یہ معمول بن چکا تھاکہ عتیق گھر آتے ہی یاسمین کو پکارتا اور غزالہ روز اسے ایک ہی خبر سناتی۔ عتیق یاسمین کو پکارتے پکارتے تھک ہار کر چارپائی پہ لیٹ جاتا ۔ یاسمین کے لیے زندگی مشکل بن چکی تھی ۔ اس کی بہنوں کی خودسری ایک طرف اور دوسری جانب بھابھیوں کے تیوروں نے اس کی ذہنی حالت کو مزید بگاڑ دیا تھا ۔ دل کے مریض بھائی کو یقین تھا کہ اس کی بہن پاگل ہو چکی ہے ۔ وہ روز اسے دیکھ کر کڑھتا اور سینے پر ہاتھ ملتے ہوئے کمرے میں چلا جاتا ۔ اس رات بھی وہ بڑی شد و مد سے اپنا سر کھجا رہی تھی ، ٹی ۔ وی لاؤنج کا صوفہ اس کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا ۔ اچانک بھائی صاحب وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اس کا ایک ہاتھ اپنی شلوار میں ہے اور دوسراہاتھ شدت سے سر کھجا رہا ہے۔ پھر وہ ٹانگیں کھجاتے کھجاتے اپنے پورے جسم پر خارش کرنے لگی جیسے نہاتے ہوئے صابن مل رہی ہو ۔ بھائی سے یہ منظر دیکھا نہیں گیا اور وہ گھبرا کر کمرے میں آ گئے ۔ شاداب کالونی کی کوٹھی فکر کے جالے میں لپٹی ہوئی تھی ۔ وہ کمرے میں دائیں سے بائیں گھومتے چلے جاتے تھے ۔
‘‘ غزالہ کو فون کرو اور کہوکہ یاسمین کو لے جائے ۔۔۔ بلکہ سنو پہلے اسے مینٹل ہاسپٹل ضرور لے کر جاؤ ۔ جہاں سے اس کا علاج ہو رہا ہے وہیں سے کروانا چاہیے ۔ بشریٰ کون ہوتی ہے اپنی من مانی کرنے والی ۔ ’’ بھائی صاحب کی آواز گونج رہی تھی اور لاؤنج کا صوفہ خارش کا شکار ہو چکا تھا ۔
‘‘ بھائی جی ! یاسمین لے آؤ ۔ ’’
‘‘ یاسمین لا دو ۔ ’’
‘‘ یاسمین کب آئے گی ۔ ’’
‘‘ میری یاسمین ، لا دو ۔ ’’ عتیق روزانہ فقیروں کی طرح کاسہ لیے گھر والوں کے آگے بھیک مانگتا رہتا ۔ گھر والے اس میں تھوک کر آگے نکل جاتے ۔ چار مہینے کی جدائی نے اسے بھی پاگل بنا دیا تھا ۔ لمبوترے منہ پر اب استرا نہیں چلتا تھا۔ نا ہی وہ اپنا لباس جلدی تبدیل کرتا ۔ پھر ایک دن وہ بنا سوچے سمجھے یاسمین کے گھر کی جانب چل پڑا ۔ اس کی سائیکل لوگوں کی گردنوں کے بیچوں بیچ بل کھاتی لڑکھڑاتی چل رہی تھی ۔ جیسے ہی وہ کوٹھی کے دروازے پر پہنچا تو کتنی ہی دیر گیٹ کے باہر کھڑا رہا اندر جانے کی ہمت جواب دے چکی تھی ۔ وہ کوٹھی کی دیوار کو چومتا چلا جا رہا تھا اور آنسوؤں نے دیوار پر لکیریں کھینچ دی تھیں ۔ وہ کچھ دیر اسی کیفیت میں وہاں کھڑا رہا ۔ پھر اس نے ہمت ہار کر واپس سائیکل گھر کی طرف موڑ لی ۔ رات دیر سے گھر آنے پر سب اس پہ پل پڑے ۔
‘‘ کہاں چلے گئے تھے ؟’’
‘‘ حد ہے بھئی ، یاسمین نے تو تجھ پہ جانے کیا پھونک دیا ہے ۔ ’’
عتیق نے آنکھیں موند لیں تو بھائی جی نے ترس کھاتے ہوئے اپنا فون اس کے ہاتھ میں دے کر کہا : ‘‘ یہ لو یاسمین کی بھابھی کا نمبر ملا دیا ہے ۔ کر لو اس سے بات لیکن اب جلدی گھر آ جایا کرنا ۔ سنا تم نے ۔ ’’
عتیق نے جھپٹ کر فون پکڑا اور لڑکھڑاتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا ۔ وہ اندھیرے کمرے میں داخل ہو کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔ دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا تھا ۔ پنکھا چلنے کی مدھم سی آواز نے بتا دیا تھا کہ یاسمین لائن پر ہے ۔ کوٹھی کے لاؤنج کا صوفہ خارش کرتے ہوئے پکارا :‘‘ ھم م م م م ۔۔۔۔ ’’
‘‘ چنا جور گرم ، جیوے دل دا چور صنم ’’
یاسمین کے سر کی کھجلی بڑھ گئی تھی۔ لڑکھڑاتی زبان پکاراٹھی : ‘‘ ٹا ؤ ، ٹاؤ ، ٹاؤ۔’’
کوچوان چابک مار کر گھوڑے کی سرزنش کر رہا تھا ۔ کتنی دیر فون پر دونوں طرف سے یہی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ لاشیں اکڑوں بیٹھی چھت کے پنکھے کے پروں کو گھور رہی تھیں۔ قیدی زنداں خانوں کی دیوار سے کان لگائے چیخ و پکار کر رہے تھے۔
‘‘ چنا جور گرم ، جیوے دل دا چور صنم ’’
‘‘ ٹا ؤ ، ٹاؤ ، ٹاؤ ’’
٭٭٭٭٭٭٭