ڈاک بابو ۔۔۔ ڈاکٹر مریم عرفان

ڈاک بابو

مریم عرفان

راشدہ کی زندگی سلائی مشین کی سوئی بن چکی تھی۔حالات کے ناکے میں ڈالا گیا مجبوری کا دھاگہ سوت سی رہا تھا۔مشین سے نکلنے والی گرررر نے اس کے کان بند کر دئیے تھے۔ اسے اپنی ٹانگوں پر بڑا ناز تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ سلائی مشین کے پیڈل پر پاؤں رکھتے ہی تھرکنے لگتی تھیں۔ اس کی پنڈلیاں اور پاؤں مسلسل مشین چلاتے ہوئے سوج جاتے تھے۔ راشدہ کی زندگی میں مشین کی کھٹا کھٹ سے پہلے ساکن تھی۔ پینتیس سال کی عمر میں ہونے والی اس کی پہلی شادی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی۔ وہ جب اپنے سات ماہ کے بیٹے کو گود میں لیے ماں باپ کی دہلیز پر آئی تو سات مرلے کا گھر خاموش ہو گیا۔ بوڑھے باپ نے پلنگ پر کروٹ بدلتے ہوئے آنکھیں میچ لیں اور ماں بلاوجہ ہی دیگچی میں چمچ ہلانے لگی۔ سرکاری سلائی سکول کی استانی راشدہ اپنے بیٹے کے ساتھ ماں باپ کے گھر آ تو گئی تھی۔ مگر ٹوٹے ہوئے گھونسلے کی کسک اس کے دل سے نہ جا سکی۔ اس کے لیے اکیلے بچے کی کفالت کرنا مشکل نہیں تھا لیکن خوابوں کی پرورش کے لیے اسے سہارے کی تلاش تھی۔ بوڑھے ماں باپ کے کاندھوں پر اس گھرکی مزید تین بیٹیوں کی ذمہ داریاں گروی رکھی تھیں۔

زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ نوکری چل رہی تھی اور گڈوپل رہا تھا۔ صبح سے شام تک مشینوں کا شور اس کے کانوں میں گونجتارہتا۔ جب بھی اس کی ساتھی استانیاں دوسری شادی کے بارے میں اصرار کرتیں تو وہ کانوں کی لوؤں کو چھوتے ہوئے ہاتھ جوڑ لیتی۔ بظاہر ان جڑے ہوئے ہاتھوں کے نیچے اس کے ہونٹوں کی لوئیں گیلی ہو جاتی تھیں۔ سیدھی مانگ اس کے بڑے سے چہرے کو دو پاٹوں میں تقسیم کردیتی تھی۔ کبھی وہ سر کا زاویہ بدلنے کے لیے چھوٹی چھوٹی مینڈھیاں بنا لیتی۔ یوں اس کا سر دو سرحدوں پر بچھنے والی بارودی سرنگ بن جاتا۔ تیل لگے بالوں کی کس کر چٹیابنانا اس کے چہرے کی سختی کو مزید تقویت دیتا تھا۔ مایا لگے دوپٹے کا پلو آدھے سر کو ڈھانکتا تو اس کے چوڑے شانے مورچہ بندی کر لیتے تھے۔ ایسے میں وہ سامنے سے آتی ہوئی خاصی بارعب لیکن ہولناک بھی دکھائی دیتی تھی۔ جسم کی سختی نے اس کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس کا سپاٹ چہرہ دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا جیسے اس کے چوڑے سے سینے کے نیچے دل ہے ہی نہیں۔ ہونٹ بھی باریک سلائیوں کے طرح ناک سے نیچے دھرے تھے۔ گول گول وزنی ہاتھ گویا ہتھوڑے تھے۔ جیسے کوئی ویٹ لفٹر ابھی انہیں پکڑ کر ورزش شروع کر دے گا۔ رہی سہی کسر اس کے جاگرز نے پوری کر دی تھی۔جنہیں وہ ہمیشہ اپنے پیروں سے چمٹائے رکھتی تھی۔نسوانیت کے بوجھ تلے دبی ہوئی راشدہ سیدھی سپاٹ تارکول کی سڑک تھی۔ جسے زمانہ پیروں تلے روندرہا تھا۔

رات کے سناٹے میں ہُو کا عالم اس کی خاموشی کو توڑ دیتا تھا۔وہ گڈو کے سو جانے کے بعد کمرے میں جلتے زیرو کے بلب کی روشنی میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو جاتی۔ وہ قمیض کی سلوٹیں سیدھی کرتے ہوئے اپنے کسے ہوئے بالوں کی گرہیں کھول دیتی۔ سر کی مانگ کھلنے کے باوجود سیدھی جمی رہتی تھی۔پھر وہ اپنے لمبے بالوں میں کنگھی پھیرتے پھیرتے گنگنانے لگتی۔ پلنگ کے سرہانے پڑے ٹیپ ریکارڈرکا بٹن دب جاتا اور کمرہ ہولے ہولے سروں سے گونجنے لگتا۔ ”تصویر تیری دل میں، جس دن سے بسائی ہے۔“ اس کے باریک ہونٹ گہری سرخی کی تہہ کے نیچے پھیل جاتے اور لکیر موٹی ہونے لگتی۔ وی شیپ گلے سے جھانکتی گردن پر بنی گہری لکیریں مزید واضح ہوجاتیں۔ کمرہ تھیٹر بن جاتا اور کبھی وہ ریڈیوڈرامے کی ہیروئن بن کر بولیاں بولنے لگتی۔ ایسے میں کبھی اس پر شہزادی بننے کا خبط سوار ہو جاتا اور کبھی وہ بیوی کا روپ دھار تی۔اسے اچانک محسوس ہوتا کہ تھیڑ کی کرسیوں پر براجمان مجمع اس کی پرفارمنس پر تالیاں پیٹ رہا ہے۔ پھر یکدم وہ ریڈیو پاکستان کے سٹوڈیو میں خود کو کھڑا پاتی۔ اس کے کان اپنے اندر کا شور سن کر باہر کی دنیا کا جواب دینے لگتے۔

صبح ہوتے ہی یہ طلسم ختم ہوجاتا اور اس کے اعصاب پر دوبارہ سختی سوار ہوجاتی۔ وہ سر پر سیدھی مانگ نکال کر بالوں کا بڑا سا جوڑا کیے لیٹ جاتی۔ سویرے ٹھیک سات بجے اس کے ریڈیوسے آواز ابھرتی:”یہ آل انڈیا ریڈیو سروس ہے اور آپ سن رہے ہیں بمبئی سٹوڈیو سے کامنی کی آواز۔“ راشدہ خود کو کامنی سمجھ کر بڑے سے مائیک کے آگے منہ کیے گانوں کا چترہار پیش کر تے ہوئے تیار ہوتی۔ ”تصویر تیری دل میں جس دن سے سجائی ہے۔“وہ من ہی من میں گنگناتی ہوئی سیڑھیاں نیچے اتررہی تھی۔ ماں نے پیچھے سے آوازدی: ”اے راشدہ! کل گڈو تجھے تنگ کر رہا تھا کیا؟“

”نہیں تو۔۔۔کیوں؟“اس نے بیگ بغل میں اڑس کر چادر کی بکل مارتے ہوئے پوچھا۔”اچھا۔۔پتہ نہیں کیوں کل تیرے کمرے سے دھڑام دھڑام کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں سمجھی گڈو پلنگ سے چھلانگیں مار رہا ہے۔“

راشدہ نے خشمگیں نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔وہ بنا جواب دئیے جلدی سے باہر نکل گئی۔ ”تاڑا تاڑی کرتے ہیں میری۔ چور سمجھتے ہیں، میں کوئی بچی ہوں۔“ راشدہ جز بز ہوتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی ہوئی دوڑے چلی جارہی تھی۔ اسے سکول پہنچ کر بھی چین نہیں مل رہا تھا۔ کبھی دھاگہ ٹوٹنے پر کسی کو ڈانٹنے لگتی تو کبھی پیڈل پر پیر تیزتیز مارنے پر چیختی۔ اسی کشمکش میں اس نے کاغذ پر اپنا غصہ نکالنا شروع کر دیا۔کاغذکو خط کے لفافے میں اڑس کر اس نے اس پر زبان پھیری اور بھاری بھرکم ہاتھ سے اسے بند کر کے دھپ دھپ مکے مارنے لگی۔ خوب تسلی کرنے کے بعد اس نے واپسی پر لفافہ لال بکسے کے منہ میں ڈال دیا۔ شہرکا ایک عام سا پرچہ راشدہ کی ڈاک وصول کرتا تھا اور پھر گاہے بگاہے اس کی شاعری چھپنے لگی۔ بظاہر حلیے سے سخت مزاج نظر آنے والی راشدہ موم بتی بن چکی تھی۔ جس کا کام رات بھر جلنا اور اپنی لَو سے کمرے کی دیواریں سیاہ کرنا رہ گیا تھا۔

وہ چھت پر بال سکھانے کے لیے گئی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے نیچے اتری: ”کون ہے؟“

اس سے پہلے کہ وہ دروازے کو زور سے دھکیلتی۔ باہر سے آواز آئی: ”ڈاک بابو۔“ راشدہ کی سختی نرمی میں بدل گئی۔ ان دو لفظوں نے اسے گوند سے جوڑ دیاتھا۔ اس نے دروازے کی اوٹ سے ڈاک بابو کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کے ہاتھ میں رسالہ تھما کر پیچھے سے ہی نکل گیا۔ راشدہ رسالہ ہاتھ میں پکڑے اسے پیچھے سے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔وہ بابو اس کے ذہن کی سکرین پر کائی بن کر جم گیا۔ نجانے اس کی آواز میں ایسا کون سا لوچ تھا کہ یہ دو لفظ اسے سلائی مشین کی گررر گررر میں بھی سنائی دینے لگے۔ اس کی کیسٹوں کی ترتیب بدلنے لگی تھی۔ گانوں کے بول کبھی افسردہ ہو جاتے تو کبھی فوراً رومان پروری غالب آجاتی۔ دوسری ملاقات میں دو مہینے لگے۔ حالانکہ وہ تو دروازے کے اوپر اپنے کان رکھ چکی تھی۔

“ڈاک بابو“۔ یہ آواز سنتے ہی اس نے چھپاک سے دروازہ کھول دیا۔ سامنے ڈاکیے کی سفاری وردی میں ملبوس ایک درمیانے قد کاٹھ کامرد کھڑا تھا۔ اس کی باریک مونچھیں ہونٹوں کی مسکراہٹ کو پکڑے ہوئے تھیں۔ ”میڈم! آپ کا رسالہ۔“ بابو نے رسالہ تھماتے ہوئے پیلی بال پوائنٹ کان کے پیچھے اٹکائی۔ راشدہ رسالہ ہاتھ میں پکڑے وہیں اسے خاکی لفافے سے باہر نکالنے لگی۔ ”ارے ارے میڈم! رسالہ ہی ہے، سکون سے اندر جاکر دیکھ لیجیے۔

راشدہ کے چہرے پر نرمی ابھرنے لگی۔ پانی کو پتھروں کے درمیان میں سے گزرنے کا راستہ مل گیا تھا۔کبھی پارسل کے بہانے تو کبھی رسالے کی آڑمیں گلی نمبر پانچ اب ”ڈاک بابو“ کی پکار گونجنے لگی تھی۔

 سلائی مشین کی سوئی کے نیچے کھدرکا کپڑا سل رہا تھا۔ جہاں جہاں سوئی چھوٹے ناکے بننے لگتی تو وہ مشین کی ہتھی کے دائیں طرف لگی ڈنڈی کو نیچے کردیتی۔ اس کے پاؤں پیڈل پر چلتے چلتے تھکنے لگے تھے۔ وہ سانس لینے کے لیے رک گئی۔ ”بس بھی کرو راشدہ، تم تو لڑکیوں کے ساتھ لڑکی بن جاتی ہو۔ ابھی پریکٹیکل میں پندرہ دن پڑے ہیں۔“ اس کی ساتھی استاد نے جھنجھلاتے ہوئے اس کی چلتی مشین کی ہتھی پر ہاتھ رکھ دیا۔ راشدہ نے تھکی ہوئی گردن کو پیچھے کرتے ہوئے لمبا سا سانس لیا۔ وہ آج واقعی خود کو لڑکی ہی سمجھ رہی تھی۔ اسے اپنا جسم ہوا میں لہراتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ محبت کی منزلیں سر کرنے کے لیے دشوار راستے پر بھی چلنا پڑتا ہے۔ راشدہ اپنے ڈاک بابو کے قدموں پر قدم جما چکی تھی۔ سکول سے واپسی پر وہ کھجوروں والی سڑک کے پاروالے گراؤنڈ کی طرف چل پڑی۔ ڈاک بابو نے اپنا بیگ بنچ پر رکھ دیا۔ وہ دونوں اپنے بیتے ہوئے دنوں اور مہینوں کا حساب کتاب لگانے میں مصروف تھے۔ گندمی رنگت والے ڈاک بابو کانام سلیم تھا لیکن راشدہ بضد تھی کہ وہ اسے ڈاک بابو ہی کہے گی۔ دونو ں عمرمیں برابر تھے اور حالات زندگی بھی تقریباً ایک جیسے ہی تھے۔ سلیم اپنے بھائی اور بھابھی کے ساتھ رہتا تھا۔ راشدہ کتنی دیر اسی سوچ میں گم رہی کہ اتنا معقول مرد اب تک کنوارہ کیوں ہے۔ ”جب دل مل گئے تو کون قسمت کی راکھ کریدتا پھرے۔“راشدہ نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی۔ سکول کی سہیلیاں اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا کرتیں۔”اتنی جلدی کسی اجنبی پر اعتبار کرنا ٹھیک نہیں۔“ راشدہ ان کی باتوں کو جس کان سے سنتی اسی سے نکال دیتی۔ اس کا سپاٹ چہرہ اب ہنستے ہوئے خندق لگنے لگا تھا۔

ڈاک بابو کے ساتھ اس کی ملاقاتوں کا سلسلہ طویل نہ رہا۔ اسے سلیم کی بھوری آنکھوں سے عشق ہو گیا تھا۔اس نے آج تک اتنی ابھری ہوئیں، روشن اور چمکدارآنکھیں نہیں دیکھی تھیں۔اس کے لیے ڈاک بابو لال رنگ کا ڈبہ ہی تھے۔ جس کے عین سامنے ہنستے ہوئے ان کے اوپر کے دانتوں کا خلا اسے بہت بھلا لگتا۔ راشدہ اس مسکراہٹ پر نثار ہونے لگتی۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ اس سرخ لیٹر بکس کے منہ میں ہاتھ دے کر دیکھے۔ محبت کی نرمی اس کی ریڑھ کی ہڈی تک سرایت کر جاتی۔

گھر والے بھی خوش تھے کہ اس کی طبیعت کی سختی مشین کی سوئی تلے آچکی ہے۔ اس کے کمرے سے ریڈیوسے آنے والی دبی دبی آوازیں اب تیز ہونے لگی تھیں۔ دس سالہ گڈو اپنی ماں کے اندر آنے والی اس تبدیلی کی خوشی منانے لگا تھا۔ شادی سے ایک رات پہلے راشدہ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو سونگھتے سونگھتے نہال ہو رہی تھی کہ پھر ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ آج اس کے پاؤں جوگرز کی قید سے آزاد تھے۔ اس نے اپنے موٹے موٹے پیروں کے کناروں کو بھی مہندی سے رنگین کر لیا تھا۔ انگلیوں کے ناخن خوب تیز سرخ رنگ سے رنگے ہوئے عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ اس نے ڈاک بابو کے لیے اپنی لمبی ناک میں کیل پہننے کے لیے جو سوراخ کروایا تھا۔ وہ لمبی اور اندھیری سرنگ میں روشنی کی باریک لکیر کی طرح چمکنے لگا۔ وہ بار بار شیشے میں اپنی ناک کی کیل کو دیکھتی۔ اپنی انگلی اور انگوٹھے سے اسے گھماتی اورپھر سوچتے سوچتے کہیں دور نکل جاتی۔ اس نے زندگی میں کبھی کھلے گلے کی قمیض نہیں پہنی تھی۔ مگر اپنے اس خاص دن پر اس نے خوب گول گریبان سلوایا تھا۔ بنارسی شلوار کے نیچے گولڈن جوتے بھی بھلے محسوس ہورہے تھے۔

نصف شب گزر چکی تھی۔ وہ پلنگ پر تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔”کون؟“ راشدہ کمرکا زور لگا کر اٹھتے ہوئے بولی۔

”ڈاک بابو“۔ جواب کچھ وقفے کے بعد موصول ہوا تھا۔ اس لیے اس نے دوپٹے کی اوٹ سے سامنے دیکھا۔ باہر سے کسی نے اسے اندر دھکیل کر دروازہ بند کر دیا۔ دو ہاتھ اوپر کو اٹھے اور کنڈی لگانے لگے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم گنتا پلنگ کے پاس آکر رک گیا۔ کمرے میں زیرو کے بلب سے تھوڑی سی زیادہ روشنی تھی جسے راشدہ نے اب محسوس کیا تھا۔وہ اسے ٹکر ٹکر دیکھے جارہی تھی لیکن سامنے بڑی بڑی دو آنکھیں اوپر نیچے ہونے لگی تھیں۔زلزلے کی شدت ناپنے والی مشین پر سوئی تیزی سی کبھی اوپر کو اٹھتی اور کبھی نیچے گر جاتی۔ وہ دونوں بازوہوا میں پھیلائے راستہ ٹٹولتااس کی طرف آگیا۔ راشدہ کو لگا جیسے مشین کی ہتھی پر کسی نے یکدم ہاتھ رکھ کر اسے روک لیا ہو۔ ”میں دن میں سب کچھ دیکھ سکتا ہوں۔ بس شام پڑتے ہی رات ہو جاتا ہوں۔میں چاہتا تھا آپ کو یہ سب بتاؤں لیکن پھر سے ایک بار اکیلا رہ جاتا۔۔۔راشدہ! سن رہی ہو نا۔“

 ایک ہاتھ اس کے کندھے سے ٹکرا کر گزر گیا۔ راشدہ اندھیرے میں خود کو ٹٹولنے لگی۔ وہ کبھی اپنے گول گلے سے جھانکتے ہوئے گداز پن کو دیکھتی اور کبھی سامنے نظر نہ آنے والے ہیولے پر نظریں جما لیتی۔ سرخ لیٹر بکس کے ہونٹ ہل رہے تھے اور بھوری آنکھیں بے چین روح کی طرح ادھر سے ادھر گھوم رہی تھیں۔ راشدہ اس کی آنکھوں کی پتلیوں کو غور سے دیکھتے ہوئے ایک نقطے پر مرکوز ہو گئی۔ کمرے میں لگے کلاک نے دو بجاتے ہی شور مچایا تو راشدہ کی آنکھوں میں حرکت پیدا ہوئی۔ اس نے بائیں جانب لیٹے ڈاک بابو پر نظر دوڑائی۔ اسے محسوس ہوا کہ کیسٹ کی ٹیپ اچانک اے اور بی سائیڈ سے ادھڑ گئی ہو۔ اسے جب کبھی غصہ آتا تھا تو وہ کیسٹیں بے دردی سے ادھیڑدیتی تھی۔ آج قسمت نے اس کی کیسٹ کو درمیان سے پکڑ کر کھینچ نکالا تھا۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی ہو کر ہنسنے لگی۔ ناک کی کیل اس کے ہاتھ میں تھی جسے اس نے شیشے کے سامنے پٹخ دیا۔ اس نے بالوں کو دوبارہ مانگ دے کرکس کے چٹیا بنالی۔ کمرے میں سلائی مشینوں کا شور برپا تھا۔ ”راشدہ!تیرے کمرے میں دھڑام دھڑام کی آوازیں کیوں تھیں؟“

”ایک تو تم لڑکیوں کی طرح لڑکی بن جاتی ہو۔“

”آپ کو سونے کا کیل بہت جچے گا۔“

”تصویر تیری دل میں۔۔۔“

”گڈو!۔۔۔۔ریڈیو۔۔۔۔۔گڈو۔۔۔۔۔ریڈیو۔۔۔“

راشدہ کو گڈو کی یادشدت سے ستانے لگی۔ جیسے اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہوں۔اس نے خالی نظروں سے پلنگ پر پڑے ڈاک بابو کو دیکھا جس کا خراٹے لیتا ہوا منہ آدھا کھل چکا تھا۔ وہ بے کل ہو کر اسے اٹھانے لگی۔”ہوں۔۔ں۔۔ں۔۔لے آئیں گے کل گڈو کوبھی۔۔ابھی تم سوجاؤ۔“بھوری آنکھوں نے اسے تسلی دی۔ کمرہ قیدخانہ بن گیا تھا۔ جہاں راشدہ خود کو ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا محسوس کر کے دیوار کے ساتھ لگ گئی۔ اس کی چٹیاکے بل کھل رہے تھے۔ وہ لمبے لمبے سانس لیتی گردن دائیں سے بائیں گھمانے لگی تھی۔ جیسے کوئی اس کی پیٹھ پر تابڑ توڑ کوڑے برسا رہا ہو۔ وہ ادھ موئی ہو کر فرش پر گرگئی۔ اس کے مہندی لگے پاؤں پیلی روشنی میں بڑے بھیانک سے لگنے لگے تھے۔ راشدہ کی نظروں کے سامنے لال لیٹر بکس زبان نکالے ہنس رہا تھا۔ ڈاک بابو کا آخری خط اپنے پتے پر پہنچ چکا تھا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2025
M T W T F S S
 12
3456789
10111213141516
17181920212223
24252627282930
31