کھنڈروں میں بسے لوگ ۔۔۔ رفیع حیدر انجم
کھنڈروں میں بسے لوگ
رفیع حیدر انجم
(بہار۔ بھارت)
چائے کے دوران باتوں باتوں میں اس اجنبی شخص نے اپنی جیب سے ایک عجیب و غریب شے نکال کر میز پر رکھ دی
“ہونٹوں کو رنگنے کے لئے, لپ اسٹک. ” وہ مسکرایا.
“لپ اسٹک ؟” میں نے حیرت اور خوف کی سنسناہٹ اپنی نسوں میں محسوس کی اور نفرت کا ننگا تار اس کے جسم سے سٹا دیا.
“وائلڈ سوائن. ”
“صرف باہر سے…….. خول ہٹاتے ہی اندر سے سرخ سرخ, خوشبودار……… ” نفرت کے ننگے تار پر سکون و اطمینان کا خول چڑھاتے ہوئے وہ لپ اسٹک کی خوبیاں گنانے لگا. پھر اس نے اپنی بائیں آنکھ دبا کے بڑی رازداری سے کہا.
“شہر کی اونچی عمارتوں میں اس کا ڈیمانڈ بڑھتا جا رہا ہے. ”
“اور کھنڈروں میں. ؟” میری آواز کیسٹ کے بے ہنگم شور سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ گئی.
“تم کھنڈروں میں بسے ہوئے لوگوں کو نہیں جانتے. ” اس نے جلدی جلدی چائے کے لمبے لمبے گھونٹ بھرے اور مزید کچھ کہے بغیر ریستوران سے باہر نکل آیا.
مجھے لپ اسٹک سے کوئی چڑھ نہیں ہے. مگر یہ کیا ؟ ……….. شکل و شباہت سے جنگلی سور, سانپ اور بچھو نظر آئے. آخر کسی چیز کی اپنی مخصوص شناخت تو ہونی چاہئے. ورنہ اچھی چیزوں کا بھی سارا حسن زائل ہو جاتا ہے. لیکن ابھی ابھی اس نے اونچی عمارتوں کا ذکر کیا تھا. اس شہر کی اونچی عمارتیں تو انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں. اور کھنڈر۔۔۔۔۔۔۔۔
چائے کا بل ادا کرکے باہر نکلا تو محسوس ہوا شہر کا شہر ہی تبدیل ہو چکا ہے.
کٹے پھٹے چہرے, زنگ آلود ہڈیاں,نچی ہوئی تحریریں, ٹوٹے پھوٹے ظروف, طلاق شدہ قدریں, خارج الوقت سکے, مصلوب آوازیں, مکروہ سانسیں اور…….. اور ملبے…………………. ایک لمحہ کے لئے ایسا محسوس ہوا کہ میں موہن جوڈارو کی کھدائی سے حاصل شدہ کوئی صدیوں پرانا بت ہوں جسے اس شہر کے چوراہے پر نصب کر دیا گیا ہے. موہن جوڈارو یعنی مردوں کا شہر.
مگر یہ میری نگاہوں کا وہم تھا.
شام کی آنکھوں میں رات کا کاجل بھر چکا تھا اور شہر کا شہر سڑکوں پر امڈ آیا تھا.آفس اور کارخانوں سے لوٹتے ہوئے لوگ باگ, ٹرام اور بسوں پر چڑھتا اترتا اژدہام, تھیٹروں کی دیواروں پر ٹنگی ہوئی نیم عریاں تصاویر, بجلی کے جلتے بجھتے رنگین قمقمے, فٹ پاتھ پر ابلتی ہوئی جوانیاں, خوش شکل و خوش پوش بچے اور کٹھ پتلی کی طرح ناچتا ہوا ٹریفک کانسٹیبل۔
میں نے اپنے ذہن پر گرد و غبار کی موٹی تہہ محسوس کی اور سوچا کہ آج کچھ وقت یونہی سڑکوں پر بھٹکتے ہوئے گزار دوں۔.
“روز مرہ استعمال کی اشیا میں بیس فیصد کی رعایت…………. ” کچھ قدم آگے بڑھا تھا کہ ایک اعلان سنائی دیا.
بیس فیصد رعایت ؟ مہنگائی کے دور میں اتنی رعایت بہت ہوتی ہے. مگر مجھے کس چیز کی ضرورت ہے ؟ ………. اس کا خیال آتے ہی بیک وقت کئی ضرورتیں اپنا سر اٹھانے لگیں. مگر تمام ضروریات تو پوری کی نہیں جا سکتیں. ہاں, کچھ لازمی اشیا فراہم کی جا سکتی ہیں. بہت دنوں سے میں نے روپا کے لئے کچھ نہیں خریدا. میں لپک کر سامنے کے ایک اسٹور میں داخل ہو گیا. کاؤنٹر کے پیچھے شو کیس کے اندر ٹیوب لائٹ کی سفید روشنی میں قرینے سے سجی ہوئی چیزیں جگمگا رہی تھیں.
“کیا پیش کروں جناب؟” سیلز مین نے اپنی مسکراہٹ کی میزان پر میری خواہشوں کے اوزان کو محسوس کرتے ہوئے کہا.
“جی……….. ” ایک لمحہ کے لئے میں بوکھلا کر رہ گیا. کیا چاہیئے مجھے ؟ پھر لاشعوری طور پر میرے منہ سے نکل گیا.
“لپ اسٹک. ” سیلز مین نے بڑا سا ایک پیکٹ لا کر میرے سامنے رکھ دیا.
“یہ…… یہ کیا ہیں ؟” حیرت سے میری آنکھیں پھیل گئیں.
“گھبرائیں نہیں, لپ اسٹکس ہی ہیں. ” اس نے مختلف شکل و شباہت کے خول ہٹا کر رنگ برنگے شیڈس کے لپ اسٹکس میرے سامنے پھیلا دیئے.
“کیا آپ کے پاس ایسے لپ اسٹکس نہیں ہیں جو باہر سے بھی لپ اسٹک ہی معلوم پڑے؟” میرے اس سوال پر اس نے مجھے حیرت سے دیکھا جیسے میں کسی برسوں پرانی قبر سے نکل کر وارد ہوا ہوں. اس کی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں اسٹور سے باہر نکل آیا. اس کے بعد شہر کی درجنوں دکانیں چھان ماریں مگر مجھے مطلوبہ شے نظر نہیں آئی.
اس تلاش و جستجو میں کافی آگے نکل آیا. یہاں تک کہ شہر کی اونچی عمارتیں پیچھے رہ گئیں اور کھنڈر نما مکانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا. چند قدم کے فاصلے پر میرا گھر تھا جسے میرے پردادا نے بنوایا تھا اور جس کی اینٹیں اتنی ہی بوسیدہ ہو چکی تھیں جتنی کہ قبر میں میرے آبا و اجداد کی ہڈیاں……… پھر بھی مجھے اپنے گھر سے والہانہ عشق ہے کہ یہ ان کی آخری نشانی ہے.
اچانک ایک ٹوٹی پھوٹی اجاڑ سی دکان پر میری نگاہیں ٹھہر سی گئیں. ایک معمر شخص بڑی تندہی سے مختلف اقسام کے چھوٹے بڑے مرتبان ایک صاف اور سفید کپڑے سے اس احتیاط سے جھار پوچھ رہا تھا کہ ذرا سی لاپروائی پرتی تو شیشے کے یہ مرتبان ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائینگے. ان مرتبان کے اندر رکھی چیزیں اپنا رنگ و روغن کھو چکی تھیں. ایک موہوم سی امید لئیے ہوئے میں اس دکان میں داخل ہو گیا.
جناب, آپ کے پاس لپ اسٹک ہوگی؟” میں نے بڑی عاجزی سے دریافت کیا. معمر شخص کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آکر غائب ہو گئی. اس نے کچھ کہے بغیر لکڑی کے ایک سالخوردہ بکس سے کوئی چیز نکال کر میرے سامنے رکھ دی.
“بس یہی ایک بچی ہے. ” میں نے اسے اٹھا لیا اور اس پر جمی ہوئی گرد کو صاف کر کے غور سے دیکھا تو خوشی سے اچھل پڑا. ارے, یہی تو میں تب سے تلاش کر رہا تھا. بالکل یہی……..
لپ اسٹک کو مٹھی میں دبائے تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر پہنچا تو دیکھا کہ روپا دروازے پر کھڑی ہوئی میرا انتظار کر رہی ہے.
“کہاں رہ گئے تھے اتنی رات گئے ؟میرا دل تو شام ہی سے……….. ” میری تاخیر سے روپا واقعی پریشان نظر آ رہی تھی. میں نے اپنی بند مٹھی اس کے آگے بڑھا دی.
“بولو تو, کیا ہے اس میں ؟”
“میں کوئی لال بجھکڑ ہوں جو………… “اس کا جملہ پورا ہونے سے قبل ہی میں نے اپنی مٹھی کھول دی.
“ارے, یہ تو لپ اسٹک ہے. مگر نہایت ہی فرسودہ…… یہ دیکھئے, نئے برانڈ کی لپ اسٹک. ” روپا نے میز کی دراز سے ایک پیکٹ نکال کر میری ہتھیلی پر رکھ دیا. میں نے پیکٹ کی تہوں کو کھولنا شروع کیا تو جیسے بجلی کے ننگے تار سے انگلیاں چھو گئیں.
“تتلی؟”
“ہاں, مگر باہر سے ہی نا……… اوپر کا خول اتار دیں تو……….. اور استعمال کے بعد اس کا دوسرا مصرف گھر کی بہترین سجاوٹ. ” روپا نے اوپر کے خول کو دیوار پر چپکاتے ہوئے کہا.
“مگر آپ تو ایسے گھبرا گئے جیسے یہ تتلی نہیں, چھپکلی ہو. ” میں نے شرمندہ سا ہوکر اسے دیکھا. دیوار پر چپکا ہوا لپ اسٹک کا خول سچ مچ کی تتلی نظر آ رہا تھا اور اس کے خوبصورت پروں میں دیوار کا ایک اجڑا ہوا بد نما حصہ چھپ گیا تھا. *