تسلسل ۔۔۔ رشید امجد
تسلسل
رشید امجد
رات گئے جب وہ تصویر بغل میں دبائے میرے پاس آیا تو شہر کے بڑے چوک میں جمع لوگ تتربتر ہو چکے تھے۔ لاش کو سولی سے اتار لیا گیا تھا اور سوگواروں کو لاٹھیاں مار مار کر بھگا دیا گیا تھا۔
میرے دروازہ کھولنے پر اس نے چاروں طرف دیکھا اور تیزی سے اندر آگیا، پھر اپنے پیچھے دروازہ بند کر کے اس نے بغل میں سے تصویر نکالی اور میرے حوالے کر دی۔ میں نے خاموشی سے اخبار میں لپٹی تصویر پکڑ لی۔ وہ بغیر کچھ کہے واپس مڑا اور دروازہ کھول کر تاریک گلی میں گم ہو گیا۔ دروازہ بند کرنے سے پہلے میں نے گلی میں جھانکا اور تیزی سے دروازہ بند کر کے کمرے میں آ گیا۔ کمرے میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں تصویر کو چھپایا جا سکے۔ بہت سوچنے کے بعد میں نے تصویر کو پلنگ کے گدے کے نیچے رکھ دیا اور خود صوفے پر لیٹ گیا۔
دفعتاً مجھے خیال آیا کہ تلاشی لینے والے سب سے پہلے گدے ہی کو اٹھا کر دیکھیں گے، لیکن اور کوئی جگہ تھی بھی نہیں۔ الماری میں چند کتابیں اور دو ایک آرائش کی چیزیں تھیں۔ لکھنے کی میز بھی سامنے تھی۔ کپڑوں کی الماری میں چھپانا بھی بے سود تھا، لے دے کے یہی ایک جگہ تھی۔
دیکھا جائے گا۔۔۔ میں نے خود سے کہا، لیکن دوسرے ہی لمحے جب خیال آیا کہ اگر یہ تصویر میرے پاس سے بر آمد ہو گئی تو میرا کیا حشر ہو گا، تو سارے جسم میں ٹھنڈی لہر دوڑ گئی۔
اس تصویر کو اپنے پاس رکھنا مو ت کو دعوت دینا تھا۔ کئی دنوں سے سارے شہر میں اس کی تلاش ہو رہی تھی لیکن کسی نہ کسی طرح یہ تصویر ہر رات ایک نئے گھر میں منتقل ہو جاتی اور مخبر کی اطلاع پر پڑا چھاپہ ناکام رہتا۔ شہر کے بڑے چوک میں صاحبِ تصویر کی لاش سب سے اونچے کھمبے پر علی الصبح لٹک جاتی۔ دن چڑھے وہاں سوگواروں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا۔ مسلح سپاہیوں کے دستے ہجوم پر ٹوٹ پڑتے۔ ہجوم کو ایک طرف دھکیل کر ہٹایا جاتا تو وہ دوسری طرف سے نکل آتا۔ شام تک یہی تماشا رہتا اور جب وہ کسی نہ کسی طرح ہجوم کو چیر کر لاش کو کھمبے سے اتارتے تو رات شہر پر ٹوٹ پڑتی۔ وہ لاش کو لے کر دور کہیں دفن کر آتے۔ لوگ آہ و پکار کرتے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آتے لیکن اگلی صبح جانے کیسے لاش قبر سے نکل کر سب سے اونچے کھمبے سے لٹک جاتی۔
شروع شروع میں ان کا خیال تھا کہ کوئی لاش قبر میں سے نکال لاتا ہے، اس پر انہوں نے اسے دفن کر کے قبر پر سخت پہرہ بٹھا دیا لیکن لاش پھر بھی نکل گئی اور کھمبے سے جا لٹکی۔ اس پر انہیں خیال آیا کہ یہ لاش کا نہیں اس کی تصویر کا کیا دھرا ہے۔ بس پھر کیا تھا،وہ تصویر کی تلاش میں نکل پڑے اور انہوں نے شہر کی ہر تصویر کو چیر ڈالا کہ شاید وہ ان میں کہیں چھپی ہو، لیکن اصل تصویر ان کے ہاتھ نہ لگی۔ اس کے سوگوار ہر رات تصویر کو نئے گھر میں منتقل کر دیتے اور مخبر کی اطلاع پر پڑا چھاپہ ناکام رہتا۔
فریم میں جڑی اس تصویر پر اخبار کا کاغذ لپٹا ہوا تھا جسے موٹے دھاگے سے چاروں طرف سے اس طرح باندھ دیا گیا تھا کہ تصویر کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی تھی۔ تصویر اسی طرح لپٹی لپٹائی آتی اور اگلی رات کہیں اور چلی جاتی۔ میں نے بھی تصویر اسی طرح اٹھا کر گدے کے نیچے رکھ دی تھی اور صوفے پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ آخر کب تک تصویر کو یوں چھپایا جاتا رہے گا۔ اچھے دنوں کی امید تو اب خاک ہوئی جا رہی تھی اور تلاش کرنے والے سدھائے ہوئے کتوں کی طرح ایک ایک انچ زمین سونگھ رہے تھے۔۔۔ ایک نہ ایک دن تو وہ تصویر تک پہنچ ہی جائیں گے اور پھر اچھے دنوں کا خواب بھی خواب بن کر رہ جائے گا۔
دفعتاً دروازہ پر دستک سی ہوئی، میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ خوف کی ایک لہر میرے سارے وجود پر پھیل گئی۔ جلدی سے ڈیوڑھی میں آیا اور دروازے کی درزوں میں سے باہر جھانکا۔
گلی سنسان پڑی تھی اور تیز ہوا دروازوں پر دستکیں دے رہی تھی۔
میں واپس کمرے میں آگیا۔
آخر کب تک تصویر کی حفاظت کرتے رہیں گے؟
کب تک؟
دفعتاً میرے دل میں ایک عجب سے خیال نے جنم لیا کہ ایک نظر اس تصویر کو دیکھوں تو سہی۔
یہ تصویر ہے کیسی؟
لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے اس خیال کو جھٹک دیا۔۔۔
آج تک کسی نے بھی اس پر لپٹا کاغذ نہیں اتارا۔ یہ تصویر اسی طرح کاغذ میں لپٹی، بندھی ہوئی ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہو جاتی ہے۔
میں دوبارہ صوفے پر لیٹ گیا۔ لیکن بار بار کوئی اُکساتا کہ ایک نظر تصویر کو دیکھوں۔ میں نے خود کو اِدھر اُدھر کے خیالوں میں الجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ہر بار کاغذ میں لپٹی تصویر میرے سامنے آ کھڑی ہوتی اور کہتی کہ مجھ پر لپٹا یہ کاغذ اتارو، آخر مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں دبے پاؤں ڈیوڑھی میں آیا۔ دروازہ بند تھا، گلی سنسان، میں خاموشی سے کمرے میں آیا۔ کانپتے ہاتھوں سے گدا اٹھا کر تصویر نکالی۔ فریم پر اخبار لپٹا ہوا تھا اور اس کے گرد موٹے دھاگے کا جال تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ دھاگہ کھولا۔ اخبار ہٹایا۔
یوں لگا جیسے میرا سارا جسم پتھرا گیا ہے۔
یہ تو میری اپنی تصویر تھی!