بلاوز ۔۔۔ سعادت حسن منٹو
بلاوز
سعادت حسن منٹو
کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے، حتٰی کہ سوچتے ہوئے بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر وہ بیان کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا۔
بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دھندلے دھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے۔ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی رہتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھچاؤ اس کے اعضا میں پیدا ہو گیا تھا جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے سے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے کہ مجھے کوٹنا شروع کر دیں۔
باورچی خانے میں گرم مصالحہ جات کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی۔ پیروں کے ذریعے یہ لرزش اس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیئے کی لو کی طرح کانپنا شروع کر دیتا۔
مومن کی عمر پندرہ برس تھی۔ شاید سولہواں بھی لگا ہو۔ اسے اپنی عمر کے متعلق صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکا تھا جس کا لڑکپن تیزی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کر دی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔
اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی اب موٹی ہو گئی تھی۔ بانہوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہا تھا۔ سینے پر گوشت کی موٹی تہہ ہو گئی تھی اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں، جگہ ابھر آئی تھی جیسے کسی نے ایک بنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مومن کو بہت درد محسوس ہو تا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دوران میں غیر ارادی طور پر جب کا ہاتھ ان گولیوں سے چھو جاتا تو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیض کے موٹے اور کھردرے کپڑے سے بھی اس کی تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔
غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اور موجود نہ ہوتا۔ مومن اپنے قمیض کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا۔ ہاتھوں سے مسلتا۔ درد ہوتا، ٹیسیں اٹھتیں جیسے جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح زور سے ہلا دیا گیا ہو۔ کانپ کانپ جاتا مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا۔ کبھی کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے ایک لیس دار لعاب نکل آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا۔ وہ یہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گناہ سر زد ہو گیا ہے۔ گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے نہ کر سکتا ہو، اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا تو وہ جھٹ سے اپنی قمیض کے بٹن بند کر لیتا اور دل میں عہد کرتا کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کر ے گا لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے یا تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اسی کھیل میں مشغول ہو جاتا۔ مومن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا زندگی کے ایک ایسے راستے پر آ نکلا تھا جو زیادہ لمبا تو نہیں تھا مگر بے حد پُر خطر تھا۔ اس راستے پر اس کے قدم کبھی تیز تیز اٹھتے تھے، کبھی ہولے ہولے۔ وہ در اصل جانتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کس طرح چلنا چاہئے۔ انہیں جلدی طے کرنا چاہئے یا کچھ وقت لے کر آہستہ آہستہ ادھر ادھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہئے۔ مومن کے ننگے پاؤں کے نیچے آنے والے شباب کی گول گول چکنی بنٹیاں پھسل رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لئے بے حد مضطرب تھا۔ اسی اضطراب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا اور اس کے ساتھ لٹک جاتا۔ پھر اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اسے کوئی اتنا کھینچے کہ وہ ایک مہین تار بن جائے۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوتی تھیں کہ وہ ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔
مومن سے سب گھر والے خوش تھے۔ بڑا محنتی لڑکا تھا۔ جب ہر کام وقت پر کر دیتا تو کسی کو شکایت کا موقع کیسے ملتا۔ ڈپٹی صاحب کے یہاں اسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے لیکن اس قلیل عرصے میں اس نے گھر کے ہر فرد کو اپنی محنت کش طبعیت سے متاثر کر لیا تھا۔ چھ روپے مہینے پر نوکر ہوا تھا مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دئے گئے تھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا اس لئے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بے قرار تھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ سارا دن بے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے یا کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا رہے۔
اب کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی سو وہ دن بھر باجہ بجانے، نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مومن کی نگرانی ہی نہ کی تھی۔ شکیلہ البتہ مومن سے ادھر ادھر کے کام لیتی تھی اور کبھی کبھی اسے ڈانٹتی بھی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند بلاؤزوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ بلاؤز اس کی ایک سہیلی کے تھے جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہننے کا بے حد شوق تھا۔ شکیلہ اس سے آٹھ بلاؤز مانگ کر لائی تھی اور کاغذوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی چنانچہ اس نے بھی کچھ دنوں سے مومن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔
ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نوکر تھے یعنی مومن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی جو زیادہ تر باورچی خانے کا کام کرتی تھی۔ مومن کبھی کبھی اس کا ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور وہ انقلاب جس میں مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا، اس سے تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی۔ چونکہ اس کا کوئی لڑکا نہیں تھا اس لئے وہ مومن کی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکی اور پھر مومن نوکر تھانوکروں کے متعلق کون غور و فکر کرتا ہے۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کر جاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔
غیر شعوری طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہوکیا ہو؟ بس کچھ ہو۔ میز پر قرینے سے چنی ہوئی پلیٹیں ایک دم اچھلنا شروع کریں۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکا پانی ایک ہی ابال سے اوپر کو اڑ جائے۔ نل کی جستی نال پر دباؤ ڈالے تو وہ دوہری ہو جائے اور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ سا پھوٹ نکلے۔ اسے ایک ایسی زبردست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جوڑ جوڑ علیحدہ علیحدہ ہو جائیں اور اس میں ایک ڈھیلا پن پیدا ہو جائے۔
کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہو جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔
مومن بہت بے قرار تھا۔ رضیہ نئی طرز سیکھنے میں مشغول تھی اور شکیلہ کاغذوں پر بلاؤزوں کے نئے نمونے اتار رہی تھی۔ جب اس نے یہ کام ختم کر لیا تو وہ نمونہ جو ان سب میں اچھا تھا، سامنے رکھ کر اپنے لئے اودی ساٹن کا بلاؤز بنانا شروع کر دیا۔ اب رضیہ کو بھی اپنا باجہ اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہونا پڑا۔
شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افرا تفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح تھی۔ اس لئے کہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی یوں وقت زیادہ صرف ہوتا ہے مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔
شکیلہ بھر ے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی، ہاتھ بہت گدگدے تھے۔ گوشت بھری مخروطی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا جب مشین چلاتی تھی تو یہ ننھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب ہو جاتے تھے۔
شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی صفائی کے ساتھ مشین کی ہتھی گھماتی تھیں۔ کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا ایک طرف کو جھک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ جسے شاید اپنے لئے کوئی مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی۔
جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلا کر اپنے ماپ کا بلاؤز تراشنے لگی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا ٹیپ گھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گز موجود تھا مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے کئی بلاؤز موجود تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لئے ساری پیمائش دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔ قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا “جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر سے کپڑے کا گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے۔”
مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان سے ٹکرائیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اسے ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبراہٹ میں کہا۔ “کیسا گز بی بی جی۔”
شکیلہ نے جواب دیا”کپڑے کا گزایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے۔ یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے کپڑے کا۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے۔”
چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے اس کے ہاتھ سے لے لیا اور کہا “یہاں ٹھہر جا۔ اسے ابھی واپس لے جانا۔” پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطب ہوئی۔ ان لوگوں کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے کر کے پریشان کر دیتی ہےادھر آؤ یہ گز لو اور یہاں سے میرا ماپ لو۔
رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ماپ لینا شروع کیا تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئیں۔ مومن دروازے کی دہلیز پر کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔
“رضیہ تم گز کو کھینچ کر ماپ کیوں نہیں لیتیں پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ جب تم نے ماپ لیا اور میرے بلاؤز کا ستیا ناس ہو گیااوپر کے حصہ پر اگر کپڑا فٹ نہ آئے تو ادھر ادھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔”
“کہاں کا لوں، کہاں کا نہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ماپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کا لوذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آ جائے گی۔”
“ثریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑےلو اب تم ماپ لو۔”
یہ کہہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے اپنا سینہ پھلانا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھول گیا تو سانس روک کر اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا “لو اب جلدی کرو۔”
جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے اندر ربڑ کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا “گز لائیے بی بی جیدے آؤں۔”
شکیلہ نے اسے جھڑ ک دیا۔ “ذرا ٹھہر جا۔”
یہ کہتے ہوئے کپڑے کا گز اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو اس کی سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اگ رہے تھے مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی کہ یہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں۔ بچپن میں وہ بُھٹوں کے کالے اور سنہری بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو سرسراہٹ اسے محسوس ہوتی تھی۔ اسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کر دی۔
شکیلہ کا بازو اب نیچے جھک گیا تھا اور بغل چھپ گئی تھی مگر مومن بھی کالے بالوں کا وہ گچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصور میں شکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا اور بغل میں اس کے سیاہ بال جھانکتے رہے۔
تھوڑی دیر بعد شکیلہ نے مومن کو گز دے دیا اور کہا “جاؤ، واپس دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکریہ ادا کیا ہے۔”
مومن گز واپس دے کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ اس کے دل و دماغ میں دھندلے دھندلے خیال پیدا ہو رہے تھے۔ دیر تک ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھولا، جس میں اس نے عید کے لئے نئے کپڑے بنوا رکھے تھے۔ جب ٹرنک کا ڈھکنا کھولا اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔ اس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی اور اس کی رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی اور اس کے نرم اور لچکیلے پھندنے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا کہ اندر سے شکیلہ بی بی کی آواز آئی۔ “مومن”
مومن نے ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا اور اندر چلا گیا جہاں شکیلہ نمونے کے مطابق اودی ساٹن کے کئی ٹکڑے کاٹ چکی تھی۔ ان چمکیلے اور پھسل پھسل جانے والے ٹکڑوں کو ایک جگہ رکھ کر وہ مومن کی طرف متوجہ ہوئی۔ “میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں۔ سو گئے تھے کیا؟”
مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔ “نہیں بی بی جی۔”
“تو پھر کیا کر رہے تھے؟”
“کچھکچھ بھی نہیں۔”
“کچھ تو ضرور کرتے ہو گے۔” شکیلہ یہ سوال کئے جا رہی تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا جسے اب اسے کچا کرنا تھا۔
مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔ ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔
شکیلہ کھل کھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب تسکین محسوس ہوئی اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پر احمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کا موقع ملے چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کر کے اس نے کہا۔ “بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لوں گا۔”
شکیلہ نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا۔ “کیا کرو گے اس رومال کو ؟”
مومن نے جھینپ کر جوا ب دیا۔ “گلے میں باندھ لو ں گا بی بی جیبڑا اچھا معلوم ہو گا۔”
یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔
“گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا اسی سے پھانسی دے دوں گی” یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی اور رضیہ سے کہا۔ “کم بخت نے مجھ سے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا؟”
رضیہ نے جواب نہ دیا اور نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کر دی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آگیا کہ اس نے مومن کو کیوں بلایا تھا۔
“دیکھو مومن میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کے پاس جو ایک دکان نئی کھلی ہے نا، وہاں جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آؤ کہ ایسی چھ بنیانوں کے وہ کیا لے گاکہنا ہم چھ لیں گے۔ اس لئے کچھ رعایت ضرور کرےسمجھ لیا نا؟”
“مومن نے جواب دیا۔ “جی ہاں۔”
“اب تم پرے ہٹ جاؤ۔”
مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آ گرا اور اندر سے شکیلہ کی آواز آئی۔ “کہنا ہم اس قسم کی ہی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہئے۔”
مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی اٹھا لیا ہو۔ بدن کی بو بھی اس میں بسی ہوئی تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔
وہ اس بنیان کو جو بلی کے بچے کی طرح ملائم تھا، اپنے ہاتھوں میں مسلتا ہوا باہر چلا گیا۔ جب بھاؤ دریافت کر کے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاؤز کی سلائی شروع کر چکی تھی۔ اس اودی، اودی ساٹن کے بلاؤز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے کہیں زیادہ چمکیلی اور لچک دار تھی۔ یہ بلاؤز شاید عید کے لئے تیار کیا جا رہا تھا کیونکہ عید اب بالکل قریب آ گئی تھی۔ مومن کو ایک دن میں کئی بار بلایا گیا۔ دھاگہ لانے کے لئے، استری نکالنے کے لئے، سوئی ٹوٹ گئی تو نئی سوئی لانے کے لئے، شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھانے کے لئے بھی اسے بلایا گیا۔
مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کر دی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں مگر ساٹن کی چمکیلی کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں ۔ کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کا کیا کر ے گا؟
دوسرے روز اس نے جیب سے کترنیں نکالیں اور الگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کر دیئے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا حتیٰ کہ دھاگے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا۔ اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا ایک چھوٹا سا گچھا دیکھا تھا۔
اس دن بھی اسے شکیلہ نے کئی بار بلایااودی ساٹن کے بلاؤز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔
پہلے جب اسے کچا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگے کے بڑے بڑے ٹانکے جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری پھیری گئی جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں اور چمک بھی دوبالا ہو گئی۔ اس کے بعد کچی حالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا۔ رضیہ کو دکھایا۔ دوسرے کمرے میں سنگھار میز کے پاس آئینے میں خود اس کو ہر پہلو سے اچھی دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا۔ جہاں جہاں تنگ یا کھلا تھا وہاں نشان لگائے۔ اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھا جب بالکل فٹ ہو گیا تو پکی سلائی شروع کی۔
اُدھر ساٹن کا یہ بلاؤز سیا جا رہا تھا، اِدھر مومن کے دماغ میں عجیب و غریب خیالوں کے ٹانکے ادھڑ رہے تھےجب اسے کمرے میں بلایا جاتا اور اس کی نگاہیں چمکیلی ساٹن کے بلاؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ہاتھ سے چھو کر اسے دیکھے صرف چھو کر ہی نہیں بلکہ اس کی ملائم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہاتھ پھیرتا رہے۔ اپنے کھردرے ہاتھ۔
اس نے ان ساٹن کے ٹکڑوں سے اس کی ملائمت کا اندازہ کر لیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ان ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اس نے ان کا گچھا بنایا تو دباتے وقت اسے معلوم ہوا کہ ان میں ربڑی کی سی لچک بھی ہےوہ جب بھی اندر آ کر بلاؤز کو دیکھتا تو کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال۔ مومن سوچتا تھا کہ وہ بھی ساٹن ہی کی طرح ملائم ہوں گے؟
بلاؤز بالآخر تیار ہو گیامومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا کہ شکیلہ اندر آئی۔ قمیض اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی۔ اس کے نیچے اسی قسم کا سفید بنیان تھا جس کا نمونہ لے کر مومن بھاؤ دریافت کرنے گیا تھااس کے اوپر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا سلا ہوا بلاؤز پہنا۔ سامنے کے ہک لگائے اور آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
مومن نے فرش صاف کرتے ہوئے آئینہ کی طرف دیکھا۔ بلاؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہو گیا ہےشکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی جس پر ریڑھ کی ہڈی کی لمبی جھری بلاؤز فٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی۔ مومن سے رہا نہ گیا۔ چنانچہ اس نے کہا”بی بی جی، آپ نے درزیوں کو بھی مات کر دیا ہے۔”
شکیلہ اپنی تعریف سن کر خوش ہو ئی مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کے لئے بے قرار تھی۔ اس لئے وہ صرف “اچھا ہے نا” کہہ کر باہر دوڑ گئی مومن آئینے کی طرف دیکھتا رہ گیا جس میں بلاؤز کا سیاہ اور چمکیلا عکس دیر تک موجود رہا۔
رات کو جب وہ پھر اس کمرے میں صراحی رکھنے کے لئے آیا تو اس نے کھونٹی پر لکڑی کے ہینگر میں اس بلاؤز کو دیکھا۔ کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اس نے غور سے دیکھا پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے یوں لگا کہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روؤں پر ہولے ہولے بالکل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔
رات کو جب وہ سویا تو اس نے کئی اوٹ پٹانگ خواب دیکھےڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اسے کوٹنے کو کہا جب اس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیایہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھے جن کا گولا بنا ہوا تھاپھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنے شروع ہو گئےبہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگےپھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیاپھندنے کی تلاش میں نکلادیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہانئے لٹھے کی بو بھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہو گئی۔ پھر نہ جانے کیا ہواایک کالی ساٹن کی بلاؤز پر اس کا ہاتھ پڑا کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفعتہً ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ سمجھ نہ سکا کیا ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اسے خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹھیس کا احساس ہوا۔ اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی پہلے اسے تکلیف دہ حرارت محسوس ہوئی۔ مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم میں رینگنے لگی۔۔