پنجرہ ۔۔۔ رشید امجد

پنجرہ

رشید امجد

بیٹھتے بیٹھتے خیال آیا کہ اس دنیا کے اندر ایک اور دنیا موجود ہے جس میں ہم جیسے لوگ رہ رہے ہیں اور ہم جیسے کام کر رہے ہیں، ہم زادوں کی یہ دنیا نظر تو نہیں آتی لیکن کبھی بھی اپنا احساس ضرور کراتی ہے

تمہیں اس کا خیال کیسے آیا ؟ مرشد نے پوچھا

یس یونہی ، مجھے ایسا لگا جیسے جو کچھ میں کر رہا ہوں، اسے پہلے بھی کر چکا ہوں ۔ وہ سوچتے ہوئے بولا ۔ کبھی بھی یوں لگتا ہے جیسے میں خود کو دہرا رہا ہوں ۔”

مرشد سوچ میں پڑ گیا، تا دیر چپ رہا، پھر بولا ۔ اگر ہم اپنے آپ کو دہرا رہے ہیں تو کہیں ہمیں بھی دہرایا جا رہا ہو گا۔

وہ چونکا۔ گویا دہرانے کا یہ سلسلہ ساری کائنات میں جاری ہے، لیکن وہ کچھ دیر

خاموش رہا، پھر کہنے لگا۔ لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ کوئی عمل دوبارہ پہلے جیسا نہیں ہوتا ۔

یہ فرق ہی تو ایک عمل کو دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے، ورنہ تو ٹھپے پر ٹھپہ لگ جائے اور حرکت رک جائے ۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا اور محسوس کیا۔

اس بارہ بائی چودہ کے کمرے میں جس کی کھڑ کی برآمدے میں کھلتی ہے اور جس کی دیوار پر ایک کلینڈر لکا ہوا ہے، وہ ہر روز ایک تاریخ پر نشان لگاتا ہے، دن گزرتا ہے، لمحہ لمحہ گزرتے محسوس ہوتا ہے، دروازہ بند ہے یا شائد ہے ہی نہیں ، کھڑی سے برآمدہ اور برآمدہ میں پڑا پنجرہ، جس میں طوطوں کی جوڑی سارا دن شور مچاتی رہتی ہے۔ ایک بلی بھی ہے جو برآمدے میں چکر لگاتی ہے۔ کبھی بڑی شان سے پنجرے پر استثنائی سی نظر ڈالتی دوسری طرف نکل جاتی ہے، لیکن پنجرے پر جھپٹتی نہیں۔ طوطے اس کی استثنائی نظر سے مطمئن ہو جاتے ہیں اور پنجرے میں خوب پھرکتے ہیں ، غراتی ہے تو سہم جاتے ہیں اور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں کبھی کبھی بلی کمرے کی کھڑکی کے پاس آ کر شیشوں سے اندر جھانکتی ہے، چند لمحے اسے اور کمرے کو دیکھتی ہے اور پھر جیسے مطمئن ہو کر چھلانگ لگا کر دوسری طرف نکل جاتی ہے۔

خیال آتا ہے کہ ایک پنجرہ یہ ہے جس میں وہ ہے اور جس کی دیوار پر لٹکے کلینڈر پر روز تاریخ بدلتی ہے اور ایک دن مرجھا کر نیچے جا کرتا ہے، وقت کے کوڑے دان میں گرا یہ دن، نئے دن کے لئے جگہ خالی کر دیتا ہے، یہ اس کا پنجرہ ہے، کھڑکی سے دکھائی دیتا برآمدہ اور برآمدے میں دوسرا پنجرہ، جس میں طوطوں کا جوڑا۔۔۔ بلی کے موڈ کے مطابق اپنا رویہ بدلتا رہتا ہے۔ خوشی کے چند لمحے بلی کے موڈ پر منحصر ہیں اور یہ بڑا پنجرہ جس میں وہ ہے، یہاں اندر تو کوئی بلی نہیں، لیکن برآمدے میں ٹہلتے ، کبھی آتے جاتے بلی کی چاپ اور اس کا موڈ اندر بھی محسوس ہوتا ہے۔

اس گھپ تنہائی میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے بیٹھے اونگھتے ہوئے لگتا ہے وہ خود بھی ایک پنجرہ ہے، جس کے اندر ایک چھوٹا سا پرندہ ادھر ادھر پھد کتا رہتا ہے پنجرہ در پنجرہ۔

پر ساری کائنات ریشم کے باریل پھیلتے تاروں جیسا ایک گچھا ہے اور ایک دوسرے سے الجھی ہوئی ان تاروں کے درمیان کئی چھوٹے بڑے پنجرے ہیں اور وہ خود بھی ۔۔

ہنسی آگئی۔” مجھے کچھ معلوم نہیں ۔“

نہ جاننے اور نہ معلوم ہونے کا دکھ ہی تو ہونے کا احساس ہے۔ مرشد آہستہ سے بولا

اور یہ الجھا ہوا ریشم کا گچھا۔۔ یہ عظیم گولہ ، جس کے اندر ان گنت چھوٹے بڑے گولے ہیں۔

وہ بڑبڑایا ۔۔ ایک عظیم دائرہ ہے جس کے دائرے کی گولائی کی حدیں نہیں ۔”

یہ ایک طلسم ہے جسے بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ مرشد کی آواز پھر دھیمی تھی۔

اور وقت ؟

وقت اس گچھے کو سلجھانے کی کوشش میں ہے جہاں کوئی تار سیدھی ہو جاتی ہے پنجرہ ختم

بلی اپنی جگہ ہے، ڈرانے کے لئے ۔ ” اس نے جیسے اپنے آپ سے کہا

برآمدے میں رکھے پنجرے میں طوطوں کا جوڑا چہکتا ہے۔

وہ ان کے پیالوں میں دانہ اور پانی ڈالتا ہے ۔ خوش رہو ۔

خیال آتا ہے کسی دن وہ اس پنجرے سے نکل کر اس سے بڑے پنجرے میں چلا جائے گا کیونکہ ہر پنجرے کا دروازہ دوسرے پنجرے میں کھلتا ہے ۔

پنجره در انجیرہ اس طلسم سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟

نیند بھری آنکھوں کے بوجھ کو محسوس کرتے سوچتا ہے ۔ ” اس پنجرے سے نکل بھی گیا تو آگے دوسرا پنجرہ موجود ہے ۔“

اس کی بڑبڑاہٹ سے ساتھ سوئی بیوی کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ نہ خود سوتے ہو نہ ہی

دوسروں کو سونے دیتے ہو، میں دوسرے کمرے میں جا رہی ہوں ۔

جاؤ ۔۔۔ جاؤ، ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ۔ اور کھلکھلا کر ہنسنے لگتا ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031