Raja Gidh by Bano Qudsia: Review
Bano Qudsia, also known as Bano Aapa, was a Pakistani novelist, playwright. She wrote literature in Urdu, producing novels, dramas and short stories
راجہ گدھ :: بانو قدسیہ
تبصرہ : راشد جاوید احمد
راجہ گدھ کی اشاعت محض معمول کا ادبی واقعہ نہیں تھا۔۔
بانو قدسیہ ادب کے ایک ایسے دبستان سے تعلق رکھتی تھیں جس کی بنیاد نوکر شاہی صوفیوں نے ڈالی تھی۔ موت کا لائسنس کسی سطحی لکھاری کو عظیم نہیں بنا دیتا۔
راجہ گدھ کے لئے رطب اللساں احباب کا موقف کم و بیش یہی ہے کہ بانو قدسیہ جدید عہد کی وہ صوفی نثر نگار ہیں جنہوں نے اردو ادب میں پاکستانیت اور روحانیت کا ایسا امتزاج متعارف کروایا جس نے مغربی تہذیب اور سائنسی علوم کے ’جھوٹ‘ کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ شہاب گروپ نے پاکستانیت (نیشنلزم) اور روحانیت کے فیوژن کا سہارا لے کر اپنے عہد کے سیاسی عمل کو بے معنی بنانے کی کوشش کی تھی ۔
میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ’قدرت اللہ شہابی ادب‘ کی آبیاری ایوب خان اور ضیاالحق جیسے آمروں نے کی لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا بانو قدسیہ جیسے لکھاریوں کا جرم صرف یہی ہے کہ انہوں نے تصوف کی عوام دوست روایت کی ایسی تشریح کی جس نے آمروں اور نوکر شاہی کو فائدہ پہنچایا؟ وہ لوگ جو برصغیر میں تصوف کی روایت کو اینٹی اسٹیٹ تحریک سمجھتے ہیں وہ اس کا جواب ہاں میں دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ ’شُدھ تصوف‘ سرکاری تصوف سے قطعی مختلف ہے کیوں کہ یہ طاقت کے مراکز سے انکار کر کے کمزور طبقوں کی زبان بنتا ہے۔لیکن جب ” خالص تصوف ” اور سرکاری تصوف میں موازنہ کیا جائے تو دونوں میں ایک قدر مشترک دکھائی دیتی ہے۔ وہ بانو قدسیہ کا راجہ گدھ ہو یا ہمارے صوفی شاعروں، بلھے شاہ، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید، کی شاعری میں پاکی اور پلیتی کا تصور ، دونوں ایک ایسی اخلاقیات پر یقین رکھتے ہیں جس کی بنیاد خیر وشر، حلال و حرام یا پھر ہیرو اور ولن کی تقسیم پررکھی گئی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں پلیتی اور پاکی کے تصور کو وضع کرنے میں ہند آریائی تہذیب نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ آریاؤں نے مقامی لوگوں کو پلیت قرار دے کر طبقاتی تفریق کا وہ ڈھنگ متعارف کروایا تھا جو آج بھی ہماری زبان اور سوچ میں زندہ ہے۔
راجہ گدھ اسی پلیتی اور حرام کا پاکستانی ورژن ہے جو صوفی مابعد الطعیات میں بدی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔
بے چارہ راجہ گدھ ۔۔۔ جو نیکی اور بدی کی ازلی لڑائی میں حرامی کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہے۔
اسکی اشاعت پرجب میں نے یہ ناول پڑھا تو اس نے مجھے کچھ لکھنے پر انگیخت کیا۔ پھر یہ ناول ایک دوست سے دوسرے کے ہاتھ جاتا رہا اور کافی عرصے بعد جب میرے پاس واپس لوٹا تو میں نے ایک بار پھر اس کا مطالعہ کیا اور میں جھنجھلا اٹھا۔ اس کی وجہ ناول میں بیان کئے گئے رجعتی نظریات نہیں تھے( قدرت اللہ شہاب کے پیروکاروں سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے ) بلکہ تکلیف اس بات پر محسوس ہو رہی تھی کہ مذہب کے لبادے میں ملبوس عوام مخالف اور عورت دشمن ایک بیانیہ اردو کلاسیک کا درجہ حاصل کرگیا ہے۔۔ رجعت پسندی کے دورِ عروج میں غالب امکان یہی ہوتا ہے کہ رجعتی ادب قبول عام کا درجہ حاصل کرے یا مقبولیت حاصل کرنے کے بعد اس مقبولیت کو برقرار رکھے۔ ‘راجہ گدھ’ کی مقبولیت دیکھ کر شاید یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ ‘جھوٹے روپ کے درشن’ کرنے والے عشق مزاج لکھاری، سرمائے کے سچے درشن سے چکا چوند ہو کر مسلم لیگ میں کیوں جا پہنچے تھے۔ آپ مین سے بہت سے احباب نے یہ ناول پڑھ رکھا ہو گا لیکن کرداروں اور کہانی کا مختصرا ذکر کئے بغیر بات نہیں بنتی۔
‘ناول کےچار مرکزی کردار ہیں: پروفیسر سہیل جو گورنمنٹ کالج لاہور میں عمرانیات کے پروفیسر ہیں اور ان کے تین طالب علم، سیمی شاہ، آفتاب بٹ، اور قیوم۔ پروفیسر سہیل اپنے طلباء سے عمر میں چھ سال ہی بڑا ہے، لیکن کہیں اس کے پاس ایک ایسا ہنٹر موجود تھا جو شیروں کو سدھا رنے والے استعمال کرتے ہیں۔ اسے کبھی کوئی کورس پڑھانا نہ آیا۔ لیکن وہ ذہنوں کو قلابازیاں لگوانا خوب جانتا تھا۔ نظریات کی کشتی کرانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اپنے شاگردوں کی کھوپڑیاں کھولنا اور خامی پا کر انہیں جوں کا توں بند کر دینا اسکا دل پسند مشغلہ تھا۔ سلی ہوئی زبانیں آزاد کرا کے طوطے کی طرح باتیں کرانا اور ریڈیو کی مسلسل زبان بولنے والوں کو چپ کرانے کا فن بھی صرف اُسے آتا تھا۔ خوب آزادی برتتا اور ہر طرح کی آزادی دیتا۔ کوئی بات بھی اسے شاک نہ کر سکی۔ سوشیالوجی کے ساتھ ساتھ اسے ہر سبجیکٹ آتا تھا۔ اس لئے اس کی موجودگی میں فضا تعلیمی تصنع سے ہمیشہ پاک رہتی (ص 9 )۔
سیمی شاہ ‘گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی’ ۔ لباس اور تراش خراش میں مغرب زدہ! قیوم شیخوپورہ کے ایک گائوں سے لاہور آیا ہے۔ واجبی سی شکل ہے اور ایک کتابی کیڑا ہے۔ اس کے بر عکس آفتاب کشمیری النسل لاہوری ہے۔ اندرون شہر کے ایک متمول خاندان کا یہ چشم و چراغ چندے آفتاب چندے ماہتاب کی مجسم شکل ہے۔ تینوں طالب علم محبت کی ایک مثلث میں بندھے ہوئے ہیں جبکہ پروفیسر سہیل اس مثلث کے پیچھے موجود ماہرِ اقلیدس ہیں۔ جیسے بھارتی فلموں میں ہوتا ہے ‘بیک برش اور شاور سے نہانے والی اس دُخترِ گلبرگ کو نہ جانے کیا ہوا کہ ایک کشمیری بچے سے اور وہ بھی اندرونِ شہر کے رہنے والے سے۔۔۔ مات کھا گئی۔ اس سے پہلے سیمی شاہ اور آفتاب کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔ ایڈمیشن فیس داخل کراتے وقت، برآمدے میں آتے جاتے، لیکن [پروفیسر سہیل کے] اس تیسرے پیریڈ میں ان دونوں کی نگاہوں میں پہلے استعجاب ابھرا پھر ہیجان پیدا ہوا اور ایک ہی سیشن میں سب کچھ اعتراف میں بدل گیا۔ کلاس کے بعد دونوں اٹھے۔ ایک انجانی قوت کے تحت ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ باہر پہنچ کر سیمی شاہ کچھ کہے بغیر آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی’ (ص 15)۔
ایک مرتبہ پھر جیسے فلموں میں ہوتا ہے: قیوم اور آفتاب ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ دونوں روم میٹ تو ہیں دوست نہیں۔ دونوں ہی سیمی شاہ کا ذکر ایک دوسرے سے بھول کر بھی نہیں کرتے۔ ایک دن حسد میں جلتے قیوم کے لئے امید کی ایک ہلکی سی امید انگڑائی لیتی ہے۔ آفتاب کی منگنی بچپن میں ہی اپنی کزن سے طے ہو گئی تھی۔ سیمی شاہ کی پرواہ کئے بغیر وہ اپنی کزن سے شادی کر لیتا ہے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد، بغیر تعلیم مکمل کئے، وہ لندن چلا جاتا ہے۔ ادہر دلبرداشتہ سیمی شاہ بھی پڑھائی چھوڑ کر راولپنڈی چلی جاتی ہے مگر قیوم کو بھول نہیں پاتی۔ وہ بار بار لاہور آتی ہے کہ یہاں وہ قیوم کے ساتھ آفتاب کی باتیں کر سکتی ہے۔ یہ سوچ کر کے قیوم اور آفتاب روم میٹ تھے اور چونکہ لڑکوں کے ہاسٹلز میں اکثر روم میٹ آپس میں جنسی تعلق قائم کر لیتے ہیں، وہ قیوم سے جسمانی تعلق قائم کر لیتی ہے (ص 118)۔
اس منظر کو پڑھتے ہوئے مجھے محسن حامد کا ناول دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ یاد آیا۔ محسن حامد کے ناول میں چنگیز اور ایریکا کا تعلق ہوبہو ایسا ہے جیسا کہ ‘راجہ گدھ’ میں قیوم اور سیمی شاہ کا۔ خیر۔
دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ کی ہیروئین ‘کی طرح’ سیمی شاہ بھی خود کشی کر لیتی ہے۔ سیمی شاہ کی خودکشی قیوم کو نیم دیوانہ بنا دیتی ہے۔ ایک دن ‘اتفاق’ سے اس کی ملاقات پروفیسر سہیل سے ہو جاتی ہے جو قیوم کو تانترا یوگا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔کہانی میں کیا دلچسپ فلمی اتفاق ہے کہ ادھر قیوم کو تانترا یوگا کا مشورہ ملا، جس کے لئے اسے ایک سیکس پارٹنر کی ضرورت ہے ادھر چیچہ وطنی سے ان کی ایک رشتہ دار خاتون، عابدہ، ان کے گھر آن ٹپکتی ہے۔ عابدہ کے ہاں بچے کی پیدائش نہیں ہو رہی۔ وہ اس کی ذمہ داری اپنے شوہر پر ڈالتی ہے اور طلاق لینا چاہتی ہے۔ قیوم اسے یہ امید دلاتا ہے کہ وہ اسے ماں بنا سکتا ہے اور یوں اپنے یوگا مقاصد کے لئے عابدہ کو ورغلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ عابدہ مذہبی سوچ رکھنے والی عورت ہے۔ وہ قیوم کی باتوں میں وقتی طور پر آ تو جاتی ہے مگر بعد میں اپنے شوہر کے پاس لوٹ جاتی ہے۔ انہی دنوں قیوم کو ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل جاتی ہے جہاں اس کی ملاقات امتل سے ہوتی ہے۔ امتل شاہی محلے سے تعلق رکھتی ہے اور ریڈیو پر کبھی کبھار اسے کام مل جاتا ہے۔ چالیس سالہ امتل اب عمر کے اس حصے میں ہے کہ جب نہ وہ اپنی آواز بیچ سکتی ہے نہ بدن۔ گو دوںوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں لیکن دونوں کے مابین جسمانی تعلقات قائم نہیں ہو پاتے۔ ایک دن امتل کی دعا قبول ہو جاتی ہے:پاگل پن کا شکار اس کا اپنا بیٹا اسے قتل کر دیتا ہے۔
پے در پے حادثوں سے پریشان ہو کر تنہائی کا شکار قیوم باقاعدہ شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ لیکن اس شرط پر کہ اس کی ہونے والی بیوی باکرہ ہونی چاہئے۔ اس کی بھابی اس کے لئے اندرون شہر سے روشن کا انتخاب کرتی ہے۔ سہاگ رات والے دن یہ عقدہ کھلتا ہے کہ روشن تو حاملہ ہے اور شادی سے قبل اس کے اپنے محلے دار افتخار سے تعلقات تھے جو اب سعودی عرب جا چکا تھا۔ قیوم اگر منٹو کا کوئی کردار ہوتا تو روشن کے پھولے پیٹ کو چوم لیتا لیکن یہ کردار بانو کی اختراع تھا۔ادھر پروفیسر صاحب مابعد الطبیعات کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ وہ قیوم کو لےکر ‘سائیں جی’ کے پاس پہنچ جاتےہیں۔ سائیں جی، بابا یحیٰ کی طرح وہ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں کہ اگر ‘وہ چاہیں تو موت کا حجاب اٹھا کر تمہیں ادھر کی دنیا کا رخ دکھا سکتے ہیں’(ص418)۔ وہ روحوں کو بلوا سکتے ہیں اور دلوں کا حال جانتے ہیں۔ قیوم کے دل میں خواہش جاگتی ہے کہ وہ سیمی شاہ کی روح سے ملاقات کرے۔ یہ ملاقات ہو ہی جاتی مگر کیا کریں سائیں جی کی ساری پہنچ کے باوجود ‘ملاقات صرف اس کی ہی ہو سکتی ہے جس کی قبر کا نقشہ ذہن میں ہو ’ (ص 422)۔ قبر کا اتہ پتہ قیوم کو معلوم نہ تھا۔ کچھ سوچ بچار کے بعد بابا جی اس کا بھی کوئی حل نکالنے کا وعدہ کرتے ہیں اور قیوم کو ایک دفعہ پھر آنے کا کہتے ہیں۔ اتفاق سے جس دن قیوم سیمی شاہ کی روح سے ملنے بابا جی کے پاس پہنچتا ہے، اتفاق سے اس دن بابا جی ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتے۔
ان سب اتفاقات کے پیچھے البتہ ایک بڑی اسکیم ہے۔ اور اس کے پیچھے ایک گرینڈ تھیوری ہے۔ جی ہاں! اور وہ تھیوری ہے بانو کا نظریہ حلال و حرام۔
اس نظریہ حلال و حرام پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے (ص 272-281): ہمارے حلال اعمال اور حرام کاریاں ہماری جینز کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پاگل پن کی وجہ حرام جینز ہیں۔ جس انسان کی جینز میں حرام داخل ہو جاتا ہے اس کی قسمت میں پھر گدھ کی طرح مردار کھانا ہی رہ جاتا ہے۔ اس نظرئے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے ‘سائنس’ کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔ لیکن کونسی سائنس؟
یوجینکس کے نسل پرستانہ نظریات!
بانو قدسیہ نے یوجین کے نسل پرستانہ نظریات کواپنے پیر و مرشد ضیا الحق کی طرح اسلامائز ضرور کیا ہے۔ اب اگر اسلامی یوجینکس کی روشنی میں قیوم کے کردار کو دیکھیں تو صاف سمجھ مین آئے گا کہ وہ سیمی شاہ اور عابدہ سے کیوں تعلقات قائم کر پاتا ہے مگر امتل اور روشن سے نہیں۔
قیوم کی ماں کو اس کا باپ بلھے شاہ کے مزار سے بھگا کر لایا تھا (مزار کا انتخاب بھی غور طلب پے)۔ نہ صرف دونوں کے نکاح کا ہمیں ناول میں کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ ایک ہلکا سا اشارہ یہ بھی موجود ہے کہ قیوم کی ماں اس کے باپ مقصود سے ہی نہیں بلکہ باپ کے ایک رشتہ دار (جو ان کے گھر میں ہی رہتا ہے) سے بھی جسمانی تعلقات رکھتی تھی۔ بلھے شاہ کے مزار سے جس گناہ کا آغاز ہوا وہ زنا کی ایک مثلث میں بدل گیا: مقصود، قیوم کی ماں اور قیوم کا چچا۔ قیوم زنا کی پیداوار ہی نہیں بلکہ صدیوں سے قتل و غارت کرنے والے راجپوت قبیلے کا رکن ہے۔ گویا اس کی نس نس میں حرام کے جینز ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے حصے میں یا تو مغرب زدہ سیمی شاہ آتی ہے یا عابدہ جو اپنے شوہر سے بے وفائی کر رہی ہے۔ اس کی قسمت میں باکرہ عورت نہیں ہے۔ با پردہ روشن سے اگر کوئی بھول چوک ہو بھی گئی ہے تو اسے سعودی عرب کی مقدس سرزمین روانہ کر دیا جاتا ہے۔ البتہ سیمی شاہ کو موت بھی ، اسلامی نقطہ نگاہ سے، حرام والی (خود کشی) نصیب ہوتی ہے۔ رہی امتل تو وہ خود گدھ ہے۔ گدھ ایک دوسرے کو نہیں کھاتے۔ البتہ امتل کے گناہوں (زنا کی زندگی) کی سزا ‘پاگل پن’ کی شکل میں اس کی اولاد بھگت رہی ہے۔ ہمیں مزید بتایا جاتا ہے کہ ‘پاگل پن’ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک گناہوں کی سزا، دوسرا ایک نعمت۔ ثانی الذکر کی مثال آفتاب کا لندن میں پیدا ہونے والا بیٹا افراہیم ہے جو بظاہر مخبوط الحواس ہے مگر اصل میں اس کی دیوانگی ایک پردہ ہے۔ یہ معصوم سا بچہ مافوق الفطرت قوتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ وہ خوبصورت لحن میں اذان دیتا ہے اور انتہائی مذہبی ہے (ص 450)۔
آفتاب کا خاندان قالین سازی کا کاروبار کرتا ہے، کیا ان کے کامیاب کاروبار میں چائلڈ لیبر اور قالین بنانے والے مزدوروں کا استحصال بھی شامل ہے؟ کیا استحصال حرام ہے یا حلال ؟ اگر استحصال حرام ہے تو کیا اس قسم کی حرام زدگیوں سے جینز کرپٹ ہوتے ہیں یا شدھ ہی رہتے ہیں؟ ایسے کافرانہ سوالوں پر بحث نہیں کی گئی۔
حلال حرام کی یہ تھیوری ایک ایسے وقت پیش کی گئی جب ملک پر استخارہ کرکے منتخب وزیر اعظم کی زندگی موت کا فیصلہ کرنےوالے ایک ایسے آمر کی آمریت قائم تھی جو بھٹو دور کی مزدور دوست اصلاحات کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق پر شب خون مار رہا تھا۔ وہ جدیدیت کی ہر علامت پر حملہ آور تھا۔ اس لئے راجہ گدھ کی اشاعت محض ایک ادبی معمول نہ تھا۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ بانو قدسیہ، ان کے شریک حیات اور فرقہ شہابیہ کے دیگر ارکان ضیائی آمریت کی نظر التفات کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ یہ وہی آمریت تھی جس نے چار بہادر صحافیوں (ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری، مسعود اللہ حان) کو کوڑے مارے، جالب کو جیل میں ڈالا اور فیض کو جلا وطنی پر مجبور کیا۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ صوفی منش لکھاریوں کو ایک بے رحم دھرم وادی آمریت نے دن بھر کے لئے پی ٹی وی پر بھی پابند نہیں کیا۔
یہ وہی دور ہے جب ملک کے اعلی ترین سائنس دان جنوں سے بجلی نکال کر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے پر مقالے لکھ رہے تھے (آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی اسی سائنسی تحقیقی سلسلے کی کڑی ہے)۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ‘راجہ گدھ’ سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ضیائی آمریت نے جن دایئں بازواور رجعتی معاشی، معاشرتی اور سیاسی رجحانات کو ریاستی اداروں اور سماجی شعبوں میں پروان چڑھایا، بالکل انہی سوچوں اور اسی بیانئے کا پرچار‘ راجہ گدھ’ بھی کرتا ہے۔ یوں ضیائی آمریت اور ‘راجہ گدھ’ کی سیاست میں ایک اتحاد قائم ہو جاتا ہے۔
روشن خیال دشمن نظریات کا پرچار ناول کے اٹھارویں صفحے سے ہی شروع ہو جاتا ہے البتہ کیمونزم کے نظریات پر بحث کی بجائے جماعت اسلامی کی طرح بانو قدسیہ بھی چند سرخوں کو نشانہ بناتی ہیں (ویسے قراۃ العین کا طریقہ واردات بھی یہی تھا)۔ ایک طرف تو وہ سرخوں کے دوہرے معیار (یا منافقت کہہ لیجئے) کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس کی مجسم مثال پروفیسر تنویر ہیں جو بی اے میں قیوم کے استاد تھے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں کیمونسٹ حضرات کی نمائندگی راجہ گدھ میں کس طرح کی گئی ہے:
قیوم کے بقول ‘‘پروفیسر تنویر ہمیشہ غیر ملکی سگریٹ پیتے۔ ان کے تھری پیس سوٹ بے داغ ہوتے۔ چہرے پر موٹے شیشوں کی عینک ہوتی۔ کلاس کے علاوہ وہ ہمارا ٹٹوریل بھی لیتے تھے۔ انہوں نے بھی ان گنت کتابیں پڑھی تھیں۔ ان کا مطالعہ مجھے مرعوب کرتا تھا۔ کیونکہ میری اولین تعلیم دیہاتی تھی۔ اس لئے میں فیوڈل نظام پسند کرتا تھا۔ وہ پکے سوشلسٹ تھے ۔ تھیوری کی حد تک وہ معاشرے کی ہر مصیبت کو دولت کی غلط بانٹ سے منسوب کرتے تھے۔ بی اے کے پہلے سال انہوں نے مجھے گرا لیا۔ لیکن ایک سال ان کا سایہ بنے رہنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ ایک اور قسم کے ماسٹر غلام رسول ہیں۔ وہ دل سے سوشلسٹ تھے مگر کتابی طور پر۔ ان کا رہنا سہنا ، ملنا ملانا، زندگی بسر کرنے کی چھوٹی چھوٹی جزیات کسی فیوڈل لارڈ کی سی تھیں۔ مشکل یہ تھی وہ نہ اپنے سوشلسٹ نظرئے پر تنقید برداشت کرتے تھے ، نہ اپنے طرزِ زندگی پر’’۔
جب قیوم نے دوغلے کیمونسٹ پروفیسر کو سائیکل پر آنے کا مشورہ دیا تو ‘پروفیسر کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور وہ دونوں بازو لہرا لہرا کر بولے ‘‘مینڈک کی کھوپڑی ڈھائی انچ کی ہوتی ہے اور اس میں مارکس کے نظریات بٹھانا چاہتے ہیں۔ بیٹھ جاؤ’’ (ص 18،20
دوسری طرف پروفیسر سہیل بھی ‘بیک وقت دہریہ، کیمونسٹ، اللہ رسول کا ماننے والا’ ہے (ص 240) لیکن اس بھٹکے ہوئے کیمونسٹ کو ناول ختم ہوتے ہوتے ہدایت مل جاتی ہے اور وہ سیدھا سائیں جی کے ڈیرے پر پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے لئے تو قیوم کو بھی سوشلسٹ بنا کر پیش کیا گیا ہے لیکن وہ بھی کتابی سوشلسٹ ہے جو بھوک کے مسئلے کو سمجھ ہی نہیں سکا (ص83) (شاید قیوم کو سوشلسٹ دکھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ زنا کی پیداوار ہے، گدھ ہے)۔ ایک اور سوشلسٹ راجہ گدھ کا ایک مختصر سا کردار ‘حیدر‘ ہے۔ سیمی شاہ وقتی طور پر حیدر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لیتی ہے۔ یہ معاملہ زیادہ دیر چلتا نہیں، یوں حیدر کا کردار دوبارہ نظر نہیں آتا۔ ہاں دیگر سوشلسٹوں کی طرح حیدر بھی ایک امیر زادہ ہے جس کی زندگی منافقت اور دوہرے معیار سے بھری ہوئی ہے۔
کیا یہ محص مابعد الطبیعاتی یا ‘صوفیانہ’ اتفاق ہے کہ ‘راجہ گدھ’ میں نظر آنے والا ہر سوشلسٹ ایک پیٹی بورژوا منافق ہے؟ اتفاق سے ‘راجہ گدھ ’ کی اشاعت کے وقت مارکسی نظریات سے متاثر ہزاروں سیاسی کارکن اور طلبا ضیا آمریت کی مزاحمت کر رہے تھے۔ ان کی بڑی اکثریت محنت کش یا سفید پوش طبقے سے تھی۔ بہت سے تو جان سے بھی گئے۔ رزاق جھرنا سوشلزم زندہ باد کہتا ہوا پھانسی گھاٹ تک گیا۔ نذیر عباسی ایک فوجی عقوبت خانے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ممکن ہے ‘پروفیسر تنویر’ جیسا کوئی کردار سچ میں موجود ہو (مارکسی تحریک کے پاکستانی پچیس سالہ دور کے دوران مجھے تو ایسا کوئی کردار کبھی دیکھنے سننے کو نہں ملا) لیکن قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر جمیل عمر بھی تو تھے جنہیں جمہوریت کے حق میں پمفلٹ بانٹنے پر ضیا کے اسلامی عقوبت خانے میں ہر طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
بے دین اشتراکیت ہی ایک مسئلہ نہیں ’راجہ گدھ’ میں مغرب بھی اخلاقی زوال کا نمونہ اور بے روح سماج ہے۔ ‘راجہ گدھ’ کی اصل ولن ‘مغرب زدہ’ عورت ہے ۔ سیمی شاہ اس اخلاق باختہ عورت کی نمائندہ ہے : اس کا جسم ایک جنس ہے۔ وہ جنسی طور پر فرسٹریشن کا شکار ہے (ص 28)۔
‘مغربی تعلیم نے اس کے اندر ایک خاص قسم کی منفرد وفا پیدا کر دی تھی جس کا تعلق صرف روح سے تھا۔ اسے جسمانی تعلقات کی رتی برابر پروا نہ تھی’ (ص 112)۔
‘وہ خود سر، ضدی، خوب پڑھی لکھی اور فیشن ایبل تھی۔۔۔ وہ اصلی معنوں میں ماڈرن تھی ، کیونکہ ہر ننگے لباس میں وہ ڈھکی ہوئی رہتی’ (ص 120)۔
وہ یونین کے الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہے اور نعرے لگانا، جھنڈا اٹھانا بھی جانتی ہے ‘ماڈرن لڑکی کو اپنی جذباتی زندگی پر قابو پانا نہیں آتا’ (ص 179)۔
‘یہ پڑھی لکھی لڑکیاں کتنی ضدی ہوتی ہیں۔ اپنی ضد کی راہ میں وہ اپنے آپ کو بھی تباہ کرنے سے نہیں چوکتیں’ (ص 183)
۔ تعلیم یافتہ عورتیں انتہائی جھوٹی ہوتی ہیں (ص 59)۔
‘تعلیم یافتہ گھر سے نکلی ہوئی عورت بڑی ظالم ہوتی ہے’ (ص 187)۔
ان عورتوں سے نمٹنے کے لئے قدرت نے گدھوں کی شکل میں انتظام کر رکھا ہے (دیکھئے ص 191)۔
بانو قدسیہ کی عورت دوستی کے یہ چند نمونےہیں۔ پورا ناول ایسے ہی فیمنسٹ خیالات سے مزین ہے۔
کیا نجات کی کوئی امید ہے؟ جی ہاں!
پیری فقیری اختیار کیجئے۔ روحانیت کے سفر پر نکل کھڑے ہوں۔ کسی قدرت اللہ شہاب یا واصف علی واصف کے ہاتھ پر بیعت کیجئے۔ روحانیت کا رنگ بھرنے کے لئے ‘راجہ گدھ’ میں جنوں، چڑیلوں اور کشف و کرامات کے ڈرامائی مناظر بھی جا بجا شامل ہیں۔ روحانیت پر سائنس کی ملمع کاری بھی کی گئی ہے لیکن بے دھرم سرخوں اور مغرب زدہ لبرل فاشسٹوں کی تنقید سے بچنے کے لئے سائنس کو جزوی استعال کے بعد ترک کر دیا جاتا ہے اور حلال و حرام کی تھیوری میں ایک استثننا متعارف کرائی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شہید اور پیغمبر اس تھیوری سے مبرا ہیں (ص 281)۔
ناول میں، بانو قدسیہ نے ہم جنس پرستی کا احاطہ نہیں کیا۔ حلال حرام کی تھیوری کے مطابق تو ہم جنس پرستی سیف سیکس ہے کہ حرام جینز ٹرانسفر ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں رہتا۔
تو ‘راجہ گدھ’ سے کیا اسباق اخذ کئے جائیں؟
کیا یہ کہ ، احتجاج نہ کیا جائے۔ اس کی ایک مثال: آفتاب قیوم سے کہتا ہے ‘‘میں احتجاج کرنے کے خلاف ہوں۔ تہلکہ مچانے والے صرف اپنا نقصان ہی نہیں کرتے سب کو برباد کرتے ہیں ’’ سیمی شاہ اس حقیقت کا ایک ثبوت ہے ۔
کیا چیلنج نہ کیا جائے۔ ‘‘ فیصلے ہم میں شروع سے ڈال دئے جاتے ہیں۔ چوری چوری ہماری مرضی پوچھے بغیر۔ ہر انسان کے اندر ایک خمیر ہوتا ہے۔ سرسوں کے بیج میں یہ فیصلہ ہوتا ہے اس کا زرد رنگ ہو گا۔ تربوز کاٹو تو اس کے ہر بیج میں یہ فیصلہ ہوتا ہے کی اس سے جنم لینے والا تربوز سرخ ہو گا ’’ بالکل اسی طرح ‘‘جو آدمی چور بنتا ہے اس کے وجود کو غارت گری کا خمیر لگا ہوتا ہے۔ کہیں۔۔۔ جس کے اندر غارت گری کا خمیر نہیں ہو گا۔۔۔ کبھی چور نہیں بن سکے گا’’ ۔ ہمارے اندر کونسا خمیر بھرا جائے گا اس کا فیصلہ ہمارے حلال اور حرام جینز کی بنیاد پر ہو گا ۔ گویا ہمارے آباؤ اجداد جو کرگئے ہیں، وہ ہمیں بھگتنا ہو گا۔ منافق مارکس وادی حضرات زیادہ شور مت مچائیں۔ ویسے بھی جو اچھے مارکس وادی ہیں وہ پروفیسر سہیل کی طرح آخر میں کسی سائیں جی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں۔
کیا، مغرب زدہ اخلاق باختہ عورتیں معاشرے کا ہی ناسور نہیں، وہ اپنا برا بھلا بھی نہیں سمجھتیں۔ ‘اتفاق’ سے ضیا آمریت کو اول اول للکارنے والی چند عورتیں ہی تھیں۔
کیا، برائی کو گناہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ گناہ (زیادہ زور زنا اور مالی بد عنوانی پر ہے) ایک انفرادی فعل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بانو قدسیہ کی حلال حرام والی تھیوری کو اگر ضیا الحق کے نافذ کردہ حدود آرڈیننس (جو انہی دنوں نافذ ہوا جب یہ ناول شائع ہوا) کا جواز بھی بنیا جا سکتا ہے جبکہ بدعنوانی کے بارے میں پیش کیا گیا بیانیہ تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے میل کھاتا ہے۔ سامراج، آمریت، طبقاتی جبر، فوجی آمریت، استحصال، قومی جبر وغیرہ ‘راجہ گدھ’ میں پیش کی گئی تھیوری میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ اپنی تھیوری کے دفاع میں شہیدوں اور پیغمبروں کو تو استثنا فراہم کرتی ہیں مگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورتوں کے بارے خاموش ہیں۔ کیا داعش کے جہادی ،کنیزوں کی کوکھ میں حرام جینز بھر رہے ہیں یا حلال؟ بانو قدسیہ اس بارے میں چپ ہیں۔
قصہ مختصر: راجہ گدھ’ سائنس، منطق، عقل اور جدت خیالی پر ایک حملہ ہے۔ بانو قدسیہ عطائی سائنس کی مدد سے سائنس کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ملک میں پائے جانے والی اس عام فہم سوچ کو پروان چڑھا رہی ہیں کہ مغرب کی ترقی ہماری روحانیت کے مقابلے میں کھوکھلی ہے ۔ یوں وہ پاکستانی قوم کی جھوٹی انا اور احساس کمتری کا تریاق فراہم کرتی ہیں۔ روحانیت کو بھی بابوں، جنوں اور کشف و کرامات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے جس طرح کی روحانیت کا پرچار بانو قدسیہ اور قدرت اللہ شہاب کے پیروکار کرتے ہیں وہ بابا بلھے شاہ، سرمد شہید اور شاہ حسین کی انسان دوست صوفی روایت پر حملہ ہے۔ ان حضرات کا صوفی، سبز چوغے میں ایک کٹر ملّا ہے۔ سبز چوغہ ورغلانے کے لئے ایک برانڈ ہے اور یہ ملّا ضیا الحق کی دھرم وادی آمریت کا اتحادی ہے۔
مجھے تو تصوف اور قوم پرستی (پاکستانیت) کے ملاپ سے پیدا ہونے والے نام نہاد شہابی ادب کو پڑھ کر بہت زیادہ مایوسی نہیں ہوتی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ یہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔
بانو قدسیہ کے پاکستانی ادب سے آج کے سندھی، سرائیکی، پنجابی اور پختون ادب تک قومیت پرستی اور تصوف کا فیوژن ایک بہت بڑی غلط فہمی کو جنم دے رہا ہے۔
یہ غلط فہمی ہمارے طے شدہ دشمنوں (بدی ، پلیتی، حرام کا تصور) سے نفرت کا پیغام دیتی ہے۔
آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اگر شعر و ادب میں اخلاقیات کے مروجہ اور طے شدہ پیمانوں سے اتفاق کر لیا جائے تو ہمارے پاس راجہ گدھ کی کہانی سنانے کے سوا اور کیا آپشن بچے گا؟
اگر طالبان اور دیگر گروہوں کو ہم ضیا آمریت کی سیاسی باقیات کہتے ہیں تو ‘راجہ گدھ’ اور قدرت اللہ شہاب کے پیروکاروں کی 1980میں تصنیف کی گئی تحریروں کو ہم ضیا عہد کی ادبی باقیات قرار دے سکتے ہیں۔
Unfolding many facts and figures. A daring attempt !
شکریہ