شب سے ڈرتا ہوں میں ۔۔ اختر حسین جعفری

شب سے ڈرتا ہوں میں

( اختر حسین جعفری )

رات کے فرش پر

موت کی آہٹیں

پھر کوئی در کھلا

کون اس گھر کے پہرے پہ مامور تھا

کس کے بالوں کی لٹ

کس کے کانوں کے در

کس کے ہاتھوں کا زر

سرخ دہلیز پر قاصدوں کو ملا ؟

کوئی پہرے پہ ہو تو گواہی ملے

یہ شکستہ شجر

یہ شکستہ شجر جس کے پاوں میں خود اپنے سائے کی موہوم زنجیر ہے

یہ شکستہ شجر تو محافظ نہیں

یہ شکستہ شجر تو سپاہی نہیں

شب سے ڈرتا ہوں میں

ایک تصویر بے رنگ ہے سامنے جس سے ڈرتا ہوں میں

ایک مورت کہ جس کے خدو خال کی میری صبح نہر سے شناسائی ہے

اس سے ڈرتا ہوں میں

ایک شعلہ کہ اب تک خس جاں میں تھا اس کا سرکش شرر

کاغذوں میں، مکانوں میں ، باغوں میں ہے

اس کی مانوس حدت سے ڈرتا ہوں میں

ایک آواز کہسار تفریق پر جو صف آرا ہیں وہ اپنے بھائی نہیں

اس صدا رو بصحرا سے ڈرتا ہوں میں

شب سے ڈرتا ہوں میں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031