ان دیکھی زمیں پر ۔۔۔ انجلا ء ہمیش
ان دیکھی زمین پر
انجلا ء ہمیش
سنو
غور سے سنو
ایک سوگوار سی دستک تمہارے در پہ کب سے ہو رہی ہے
جانتے ہو
یہ سوئیوں کی ٹک ٹک تمہیں دھیرے دھیرے بے بس کر رہی ہے
گزرنے والا کوئی پل بھی تمہارا نہیں
محسوس کرو ان ہاتھوں کی جنبش کو
جو تمہاری گرفت سے آزاد ہو رہے ہیں
کیسے روک سکو گے اس گھڑی کو
جو ماضی کو کچل کر تمہارے مستقبل پر ہنس رہی ہو
بہت سی امیدیں اور خواب تمہاری آنکھوں میں جانکنی بن کے ٹھہرے گئے ہیں
آنکھیں جن میں اب کوئی منظر نہیں
وحشت زدہ ویرانیاں تمہارے بستر کے گرد لپٹ گئی ہیں
اس خالی اور اداس فضا میں
کبھی رات کی رانی کی خوشبو سے محروم رات آتی ہے
اور کبھی کوئی صبح ایسی بھی ہوتی ہے
جب سورج مُکھی تک سورج کی کوئی کرن نہیں پہنچتی
تب صرف
زوال کا پھول کھلتا ہے