شہر ِ دل سے شہرِ ادب تک ۔۔۔ رابعہ الربا
لاہور شہر دل سے ’’شہر ادب‘‘ تک، ایک نیا بین الاقوامی رومان
رابعہ الربا
باغوں کا شہر، کالجوں کا شہر، رنگوں کا شہر، ثقافتوں کا شہر اور زندہ دلان ِ لاہور، یہ الفاظ وتراکیب اپنے پیچھے ایک مکمل اور بھرپور تاریخ رکھتے ہیں، جنہیں سن کر ہم جوان ہوئے۔
کوئی تاریخ بے ثمر نہیں ہوتی اور ثمر تاریخ کی غمازی سے منکر نہیں ہو سکتا۔ آخر کار یہ ثمر تاریخ کے اوراق کا ایک پروقار تمغہ سینے پہ سجائے مسکرایا، جب یونیسکو کی جانب سے شہر لاہور کو، شہر دل کو”شہر ادب‘‘ کا خطاب ملا۔
میر خسرو سے جو بات شروع ہوئی تھی، بلھے شاہ جہاں یار منانے آیا تھا، انگریز جہاں لارنس باغ بنا گئے، یہاں بیٹھو اور ادب کی نئی تاریخ مرتب کرو۔ مغلوں نے جہاں تعلیم کے نقاط پہ بات کی اور ماھو لال میں جہاں شاہ حسین چھپ کر محبت کا وہ درس دیتا ہے، جو دنیاؤں تک کو اپنا اسیر جاں کر لیتا ہے۔
یہ شہر نہیں ہے ایک کیف ہے، جو طاری ہو جائے تو ہو جائے۔ اسے ایک دن محبت کا خطاب ملنا ہی تھا۔ آج نہیں تو کل پاکستان نے یہ دن دیکھنا ہی تھا کہ، جو دنیا بھر میں امن کی شناخت ہے، محبت کی پہچان ہے۔ یعنی ادب، عشق ادب، آداب ادب اور اب ”شہر ادب‘‘ ۔
سبز پاسپورٹ کے ساتھ دہشت کا ایک دھبہ، جو وقت کے ساتھ لگ گیا تھا۔ اس شہر ادب کی وجہ سے لمحہ بھر میں وہ امن میں بد ل گیا ہے۔ لفظ ادب اپنے اندر جتنی وسعت رکھتا ہے، وہ ساری کی ساری وسعت اس شہر رومان میں موجود ہے۔ یہ عاشقوں کا شہر ہے، بھلے وہ عاشق مجازی ہوں یا حقیقی اور عشق ایسی نامراد شے ہے کہ اس کا نفرت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہو سکتا ہے۔ عشق میں صرف عشق ہی جائز رہ جاتا ہے۔
اس شہر کی بھی یہی تاثیر ہے، جو آنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، عاشق بنا دیتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے صدیو ں سے یہ شہر بہت سی حکومتو ں کا دارالخلافہ رہا اور جو شہر دارالحکومت رہا ہو، وہاں ملازمت کی غرض سے لوگ نہیں آتے بلکہ وہ ثقافتیں آتی ہیں بلکہ بلائی جاتیں ہیں۔ نوکری تو ایک بہانہ ہوتا ہے، فطرت اس شہر پہ مہربان ہوتی ہے اور اس شہر کو رنگوں سے بھر دیتی ہے۔
اسے ”شہر دل‘‘بھی کہتے ہیں اور دلوں میں خدا بستا ہے، خدا محبت کی نشانی ہے، رحم کی ترجمانی ہے۔ شہر دل میں ہی شہر ادب صدیوں سے بسا ہوا ہے۔ جس جدید نثرو نظم کی ہم آج بات کرتے ہیں، اس نے اسی دل کی زمین پہ جنم لیا۔ جب آگرہ، دلی اور لکھنئو میں سیاسی زلزلے آئے تو ادیبوں نے اسی شہر کا رخ کیا، اکبر نے یہی کئی برس قیام کیا۔
تقسیم ہند کی تحریکوں کا مرکز یہی شہر بنا اور تقسیم ہند کے بعد جس ادب کا شہرہ تمام دنیا میں ہوا، وہ ادب بھی اسی زمین پہ آنسو بہا رہا تھا۔ چند ادیبوں کے نام لینا تو بخل ہو جائے گا۔ اس زمین میں اتنے ادیبوں کا خمیر ہے کہ کبھی آ کر ایک بار میانی صاحب قبرستان کی خاک چھان لیجئے۔
چپہ چپہ بوٹا بوٹا حال دل بتائے گا، جب قدم قدم پہ کوئی عاشق، کوئی ادیب نظر آئے گا۔
یہاں کے میڈیکل کالجز بھی ڈاکٹرو ں کو ادیب بنا دیتے ہیں، جن میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سر فہرست ہے۔ گورنمنٹ کالج کے سر پہ تو ادب کا تاج ہے، ادب ہی نہیں سائنس، ثقافت روایات کی امین یہ زمین، ایشن آکسفورڈ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے تو پوری دنیا سے فنون لطیفہ کے طالب علم سیراب ہو کے جاتے ہیں۔
ادب زبان کا محتاج نہیں ہوتا، یہاں سے اردو ادب کے بڑے نام روشن ستارے بنے ہیں تو اس کے پیچھے پنجابی ادب کی بھرپور و شاندار روایت نے آب یاری کی ہے۔
موجودہ شہر دل و شہر ادب کو ہم تین ثقافتی و جغرافیائی حصوں میں آسانی سے تقسیم کر سکتے ہے۔
پہلا حصہ وہی بارہ دروازوں کے اندر بسا ہوا لاہور، جس کی ثقافت صدیو ں کے بعد بھی جوں کی توں موجود ہے۔ مگر وہ وہیں بارہ دروازوں کے اندر ہی اپنے رنگ بکھیرتی ہے۔ یہا ں بہت سی مشہور اور دیدہ زیب حویلیاں اور مساجد ہیں، جن میں سے کچھ تاریخی عمارتوں پہ سرکار کا کرم ہوا اور ان کی ناصرف مرمت اور آرائش کا کام کیا گیا بلکہ ان کو ایک سیاحتی مرکز کے طور پہ بھی محفوظ کیا گیا
آس پاس کی عمارتوں کو خرید کر یہاں ثقافت کی ترقی و ترویج کے لیے ہالز بنا دیے گئے، جہا ں راتوں کو بازار بند ہو جانے کے بعد قوالی نائٹ یا لوک موسیقی کے پروگرامز کا انعقاد کروایا جاتا ہے جبکہ باہر بازارو ں میں روایتی کھانو ں کے ڈھابے اور ریڑھی والے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
یہاں موجود شاہی محلے کو فوڈ سٹریٹ میں بدل دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فوڈ سٹریٹ گوال منڈی اور پرانی انار کلی میں بھی بنائی گئی ہیں۔ یہاں کی پرانی عمارتوں کو سیاحتی بنیادوں پہ استوار کیا گیا ہے۔ اسے اندرون شہر کہتے ہیں، جہاں سے ادب کے ایک بڑے ذخیرے کی بنیاد پڑی۔ یہاں آج بھی بزرگ گلیوں میں بیٹھ کر راتوں کو ہیر گاتے مل جاتے ہیں۔
دوسرا بڑا ثقافتی مرکز مزنگ سے ماڈل ٹاون تک ہے، جس میں گلبرگ، مسلم ٹاون، گارڈن ٹاؤن، اچھرہ، شادمان اور سمن آباد شامل ہیں۔ ان میں سے مسلم ٹاؤن، گارڈن ٹاون کا کچھ حصہ اور ماڈل ٹاؤن تقسیم ہند سے قبل کے علاقے ہیں اور تقیسم ہند کے بعد یہ اہم علمی و ثقافتی مرکز رہے۔ یہاں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے اہم اور معتبر لوگ رہائش پذیر رہے۔ ان میں سے بہت سے ورثہ کو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس نے محفوظ کر کے انہیں سیاحتی مرکز بنا دیا ہے۔ انہیں میں شاکر علی میوزیم، چغتائی آرٹ گیلری، نئیر علی دادا آرٹ گیلری اور کیفے شامل ہیں۔ ادب سرائے سے بالی وڈ تک کے بیشتر ستارے یہی جگماتے رہے۔
تیسرا حصہ موجودہ ڈی ایچ اے ہے، جہاں اب کے ادیب اور فنکار آہستہ آ ہستہ ہجرت کر رہے ہیں۔ یہاں ادیبوں نے ایک نئی دنیا بسائی ہوئی ہے۔
پاک ٹی ہاؤس آ ج بھی انار کلی کے سامنے اور مال روڈ کے درمیان ادیبوں کی من پسند جگہ ہے۔گلبرگ کافی ہاؤس آ ج بھی ادیبوں سے مسکراتا ہے۔ نئیر علی دادا آرٹ گیلری میں بھی ادیب کثرت سے دکھائی دیتے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق تقسیم در تقسیم ہو کر بھی کام کر رہا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ ادبی رسائل کے ساتھ ساتھ اب اس شہر ادب سے آن لائن ادبی رسائل کا آ غاز بھی ہو چکا ہے۔ آج بھی ادیبوں کے گھر، گھر نہیں ڈیرے ہیں۔
لاہور سکول آ ف تھاٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی زمین کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کی جڑیں بہت مضبوط اور گہری ہیں۔ کسی بھی ادب کی سب کی بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ آ فاقی ہوتے ہوئے بھی اپنی زمین کی شناخت ہوتا ہے۔ اس کے ادب سے ہم اس کے تاریخ اور جغرافیہ کو سمجھ سکتے ہیں۔
اور لاہور کو تو دنیا کے ان تمام ادبی شہرو ں کی طرح یہ اہمیت بھی حاصل ہے کہ ادبی شہر ہونے سے قبل وہ ادب کا حصہ بنا۔ بے شمار افسانوں، ناولوں، غزلوں اور نظموں میں لاہور اپنے رومان کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
نئے لاہو ر کے نئے رومان میں میٹروبس، اوریج ٹرین، َوریسٹ بسیز کشادہ سگنل فری سڑکیں اور نئے باغات کی نئی کہانی بھی ادب میں امن کے پیامبر بن کر اپنی ایک نئی شناخت بنے گی اور ہم ادب سے امن کے سفیر بنیں گے۔
(بشکریہ۔ ہم سب )