خُمار ِ عشق ۔۔۔ رشید امجد
خمار ِ عشق
رشید امجد
ایک دن گم ہو گیا تھا، کیسے؟ یہ پتہ نہیں چل رہا تھا، ہوا یوں کہ اسے ایک ڈرامہ سیریل دیکھنے کا بڑا شوق تھا، کچھ ہی ہو جائے وہ اس کی کوئی قسط نہیں چھوڑتا تھا۔ اس کی بارہویں قسط دیکھی تو اشتیاق اور بڑھا کہ کہانی نے تیرہویں قسط میں نیا رُخ اختیار کرنا تھا، لیکن جب اگلی قسط دیکھ رہا تھا تو احساس ہوا کہ کچھ آگے پیچھے ہو گیا ہے۔ بارہویں قسط کا تسلسل ٹوٹ سا رہا ہے، قسط ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ چودہویں قسط ہے، تو تیرہویں کہاں گئی، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ چینل نے غلطی سے ایک قسط چھوڑ دی ہو اور اس نے بھی ناغہ نہیں کیا تھا، تو پھر معاملہ کیا ہے، بہت سوچا گزرے کل کے بعد آج تھا اور درمیان میں کچھ نہیں تھا، سوچ سوچ کر بہت ہی اُلجھا تو بیوی سے پوچھا….”کل کے بعد آج ہی ہے نا۔“
اُسے کچھ سمجھ نہ آیا بولی …. ”کل کے بعد آج ہی ہے۔“
”تو پھر یہ قسط کدھر گئی ؟“
”کون سی قسط؟“
اُس نے جواب دیا ”آسان سا طریقہ تھا کہ چینل کو فون کرکے پوچھ لیا جائے، فون بڑی مشکل سے ملا، دوسری طرف سے اٹھانے والے کو کچھ دیر تو اس کی بات سمجھ نہ آئی، جب اس نے اپنے سوال کو دوسری بار دُہرایا، تو جواب ملا ”تیرہویں قسط تو کل چل گئی تھی، آج چودہویں قسط چلی ہے۔“
مخمصہ یہیں سے شروع ہوا تو کل میں کہاں تھا؟
پہلے تو بیوی سے پوچھا…. ”کل میں کہاں تھا؟“
بیوی گھر کے کسی مسئلے پر اُلجھی ہوئی تھی زچ ہو کر بولی ….”کل بھی تم یہیں تھے اور آج بھی یہیں ہو، بات کیا ہے؟‘
”اسے سمجھ نہیں آئے گا۔“ اُس نے اپنے آپ سے کہا۔ اب اس وقت رات گئے کسی سے کچھ معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔ صبح جلدی جلدی اُٹھا سیدھا ناشتہ کیا دفتر پہنچا۔ ابھی کئی لوگ نہیں آئے تھے۔ نائب قاصد اس کی میز صاف کر رہا تھا، اس سے پوچھا…. ”پرسوں میں آیا تھا۔“
نائب قاصد کچھ نہ سمجھا ، خالی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
”پرسوں میں آیا تھا؟“ اس نے پھر سوال دہرایا۔
’شاید آئے ہوں گے، مجھے کیا معلوم؟“ نائب قاصد اب سنی اَن سنی کرتے ہوئے میز صاف کرتا رہا۔
اتنے میں اس کا پی اے آگیا۔ سلام کرکے بولا۔
”سر آپ آج جلدی آگئے۔“
اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور پوچھا…. ”پرسوں میں آیا تھا“۔
پی اے سوچ میں پڑ گیا پھر کہنے لگا…. ”شاید“
”شاید کا کیامطلب ہے؟“ وہ چڑ کر بولا…. ”پرسوں میں آیا تھا؟“
پی اے سوچ میں پڑ گیا…. ”شاید نہیں۔“
”پھر وہی شاید“ وہ تقریباً چیخ کر بولا۔
”جی….جی۔“ پی اے گڑبڑا گیا….”پرسوں تو میں خود بھی نہیں آیا تھا، بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا تھا۔“
وہ دھڑم سے کرسی پر گر گیا۔
”ڈاک فولڈر لاﺅ۔“ اُس نے اسی غصے میں کہا۔
پی اے ڈاک فولڈر لے آیا۔
”دیکھو پرسوں کسی لیٹر یا فائل پر میرے دستخط ہیں۔“
پی اے کافی دیر کاغذ اُلٹتا پلٹتا رہا، پھر بولا …. ”پرسوں کی ڈاک فولڈر ہی نہیں۔“
اتنے میں اس کا اپنا نائب قاصد آگیا۔ اسے دیکھتے ہی وہ بولا…. ”پرسوں میں آیا تھا؟“
نائب قاصد نے بڑی مسکین سی آواز میں کہا…. ”سر! پرسوں تو میں چھٹی پر تھا، آپ ہی نے تو دی تھی۔
”اُف“ اس نے دونوںمٹھیاں بھنیچتے ہوئے اپنے آپ سے کہا….”پرسوں میں کہاں تھا؟“
نائب قاصد اور پی اے دونوں جا چکے تھے۔ ذہین پر زور دیا۔ بارہویں قسط دیکھتے ہوئے اس نے بیوی سے کہا تھا ”کہانی تو سنبھل ہی نہیں رہی، اس سے بہتر تو میں لکھ سکتا تھا۔“
بیوی نے کہا تھا ”کچھ سر پیر ہی کا پتہ نہیں چل رہا ۔“
اس کے بعد اس نے حسب معمول بلڈ پریشر کی گولی لی تھا۔
کھانے کی میز بھی یاد تھی۔
بیوی نے کہا تھا …. ”آج تمہاری پسند کی ڈش ہے لیکن آج میں نے بینگن ذرا مختلف طریقے سے بنائے ہیں۔
”اچھا“۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا…. ”تمہیں بھی مختلف طریقے آگئے ہیں۔“
بیوی بولی تھی…. ”آج میں نے ایک کوکنگ چینل پر یہ طریقہ دیکھا تھا۔“
سونے تک کا ایک ایک لمحہ یاد تھا، اُس کے بعد چودہویں قسط، درمیان میں کیا ہوا؟“
اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ اس کا فون آگیا۔ ”آرہے ہو؟“
”آدھ گھنٹے میں پہنچتا ہوں۔“
وہ اس کے آنے سے پہلے کھانے کا آڈر دے چکی تھی، ویٹر میز پر کھانا لگا رہا تھا،
زرد رنگ کے کپڑوں میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔
”یہ میرا پسندیدہ رنگ ہے۔“
وہ ہنسی…. ”میں ہمشیہ تمہاری پسند کا خیال رکھتی ہوں۔“
مسرت کے چہکتے پرندے نے اس کے اندر اُڑان بھری۔ اس کے رنگ برنگے پروں کی مہک سے اس کا رواں رواں چہک اُٹھا۔
دو تین لقمے لے کر بولا….”ایک بات بتاﺅ، پرسوں ہم ملے تھے؟“
”میں تو ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوتی ہوں۔“ وہ رسان سے بولی۔ ”دنوں کا شمار ہی نہیں۔“
خوشی تو ہوئی لیکن اُلجھن اسی طرح موجود تھی….”پرسوں کا معاملہ کچھ گڑبڑ ہے، بیوی سے پوچھا لیکن اسے معلوم ہی نہیں۔“
اس نے یہ نہیں پوچھا کہ بیوی سے کیا پوچھا تھا، کچھ دیر چپ رہی پھر بولی…. ”بیویاں ساری عمر خاوندوں کو نہیں سمجھ پاتیں۔“
”اور ہم….“ اس نے شرارت کی۔
”میں تو تمہاری داسی ہوں، جو تم ہو وہ ہی ہوں“۔
اس نے سوچا …. ”اس کا مطلب ہے اس کا پرسوں بھی گم ہے۔“
”تو پرسوں تم بھی….“
”یہ کیا پرسوں پرسوں لگا رکھی ہے۔“ وہ اَٹھلاتی ہوئی بولی….”کھانا کھاﺅ دیکھو میں نے ایک ایک چیز تمہاری پسند کی منگوائی ہے۔“
واپس دفتر آتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے پوچھا….”اب یہ کون بتائے گا کہ پرسوں کا دن کہاں گم ہو گیا ہے؟“
اب آخری سہارا مرشد ہی تھا۔
اُس کی بات سن کر ہنسا….”یہاں پوری زندگی گم ہو جاتی ہے، تم ایک دن کی بات کر رہے ہو۔“
پھر وہ بولا ….”کبھی کبھی سی ڈی لمحہ بھر کے لےے رک جاتی ہے، پھر خود ہی چل پڑتی ہے۔
”سی ڈی“ اس نے پوچھا۔
”ہاں ہم میں سے ہر ایک، ایک سی ڈی ہی تو ہے، بنانے والا سی ڈی بنا کر دنیا کے کمپیوٹر میں ڈال دیتا ہے اور چلنے کا بٹن دبا دیتا ہے، سی ڈی چلتی رہتی ہے، ختم ہوتی ہے تو کلک کے ساتھ باہر آجاتی ہے۔“
اُس نے سر ہلایا….”پھر اس سی ڈی کو نکال کر نئی سی ڈی لگا دی جاتی ہے، یہی دنیا کا تسلسل ہے۔
تادیر خاموشی رہی، پھر اس نے پوچھا….”لیکن یہ پرانی سی ڈی جاتی کہاں ہے؟“
مرشد نے کچھ تدبر کیا، پھر بولا…. ”اُسے وقت کے کچرے کے ڈیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ “
”کچرے کا ڈھیر…. وقت کے کچرے کا ڈھیر۔“ اس نے حیرت سے سوال کیا۔
”ہاں!“ مرشد بولا….”جس طرح جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں، وقت کا بھی ایک کچرے کا ڈھیر ہے۔“
”تو بس یہاں کہانی ختم۔“
”کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی، اس کے ایک ایک مرحلے کا حساب رکھا جاتا ہے۔“ مرشد نے کہا….”سی ڈیاں اپنا وقت پورا کر لیں تو وقت کے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دی جاتی ہیں، اس دن کے انتظار میں، جس نے بہرحال آنا ہے اور جس دن ان سے ہمیں ایک بار پھر نکالا جائے گا…. بے شک وہی حساب کا دن ہے۔“
دونوں چپ ہو گئے، جانے کتنے دیر چپ رہے۔ اُسے معلوم ہی نہ ہوا کہ مرشد کب گیا۔
اگلے دن وہ پہنچا تو حسب معمول وہ منتظر تھی۔ کھانا لگ چکا تھا۔ بے دلی سے بیٹھ گیا۔
”پھر اُلجھے ہوئے ہو؟“ اس نے پوچھا۔
”پرسوں….“ وہ رک رک کر بولا….”پرسوں کا دن گم ہو گیا ہے۔“
وہ ہنسی….”دن بھی کبھی گم ہوتے ہیں؟“ پھر کچھ دیر بعد بولی….”کیا پریشانی ہے، دفتر میں تو سب کچھ ٹھیک ہے نا۔“
اُس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اور گھر میں….“
”بس دن گزر رہے ہیں۔“ وہ بڑبڑایا….”لیکن پرسوں کا دن….؟“
دفعتاً اس کے اندر ایک جھمکا سا ہوا، اس نے غور سے اُس کی طرف دیکھا، وہ سر جھکائے کھانا کھا رہی تھی!
پرسوں…. ہاں پرسوں، وہ نہیں آئی تھی۔