انجام پر کھڑا آدمی ۔۔۔ صفی سرحدی
انجام پر کھڑا آدمی صفی سرحدی شام ڈھلے مریل سورج سے آنکھیں ملائے اجنبی شہر
انجام پر کھڑا آدمی صفی سرحدی شام ڈھلے مریل سورج سے آنکھیں ملائے اجنبی شہر
نظم نازیہ نگارش دکانوں پر سجی رنگ برنگی آرزویئں سادہ لوح دلوں کی راہ ایسے
جتھے باری نہ بو ہا نہ پوڑھی امرتا پریتم وارنا ، 30 مئی 1983 اج
چور گلی غلام دستگیر ربانی اس و قت وہ جہاں وہ کھڑا تھا،شاہی قلعے کا
کنڈ پیچھے اکھاں فرزند علی روز تالوں زیادا اج طارق دا دھیان گھرول سی۔ کم
ایک کاندھا چاہیے انور ظہیر رہبر ایک کاندھا مل سکتاہے؟ اُس نے اپنے سامنے بیٹھے
کھنڈروں میں بسے لوگ رفیع حیدر انجم (بہار۔ بھارت) چائے کے دوران باتوں باتوں میں
نسیم پوچھتی ہے مصباح نوید ”نسیم پوچھتی ہے “کہانی کیوں نہیں بدلتی ؟۔نسیم کہتی ہے
شہزادی شفا چودھری واثق نے فائلوں کا پلندہ بغل میں دبایا اور باہر نکل آیا۔
بدکردار کنیز باھو صبح صادق کا وقت تھا شہر کا مزدور طبقہ سیاہ رات کی