بھکاریوں کا درخت ۔۔۔ ڈیوڈ اویالے
David Owoyele is a well known writer from Africa. His short stories are very popular among readers. “ The beggars Tree” is included in his book” Seven short stories” He was awarded international prize for this story.
بھکاریوں کا درخت
( ڈیوڈ اویالے )
‘‘میرا خیال ہے اب ہمیں کھانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔’’ عبدو نے کہا۔
ریمی نے جمائی لی جیسے وہ عبدو کے خیال پر غور کر رہا ہو، پھر ایک طویل وقفے کے بعد بولا۔
‘‘میں سورج نکلنے سے چند گھنٹے پہلے ہی کھانے کے متعلق سوچنے لگتا ہوں۔ یہی خیال مجھے یہاں بیٹھنے پر مجبور کرتا ہے۔’’
ریمی نے اپنی ٹانگیں پھیلادیں۔ اب وہ قدرے آرام محسوس کر رہا تھا۔ اس نے ایک طویل آہ بھری اور اپنے سامنے زمین کو ٹٹولتے ہوئے چھڑی اٹھائی اور اسے گود میں رکھ لیا۔ عبدو کو چھڑی چھو گئی۔ عبدو نے اس پراحتجاج کیا۔
‘‘کیا کہتے ہو….؟’’ ریمی نے پوچھا۔
‘‘میں کہتا ہوں چھڑی گھمانا بند کرو، کسی کا سر پھوڑ دیا، تو خواہ مخواہ کی مصیبت گلے پڑ جائے گی۔’’
‘‘اوہ! تو چھڑی تم سے چھو گئی….؟’’ریمی نے کہا۔
چند لمحے خاموشی طاری رہی۔
‘‘میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ ہمیں کھانے کےلیے کچھ کرنا چاہیے۔ دوپہر گزر چکی ہے، تمہاری کیا رائے ہے….؟’’ عبدو نے قدرے زور دیتےہوئےپوچھا۔
‘‘ہاں، میں بھی یہی سمجھتا ہوں…. اپنی دائیں طرف زیادہ تپش محسوس کر رہا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سایہ میری بائیں جانب بڑھ رہا ہے۔’’ ریمی نے عبدو کی تائید کی۔
وہ دونوں سڑک کے کنارے، ایک آم کے درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ کئی سال سے ان کا یہی معمول تھا۔ اب یہ درخت ‘‘بھکاریوں کا درخت’’ کے نام سے مشہور ہوچکا تھا۔ کسی اجنبی کو راستہ بتاتے ہوئے کہا جاتا کہ۔
‘‘سیدھے چلتے رہو، تم بھکاریوں کے درخت کے پاس پہنچ جاؤ گے، پھر کچھ دور چل کر بائیں موڑ پر گھومجانا۔’’
عبدو اور ریمی بھی درخت کی مانند مشہور ہوگئے تھے۔ یہ شہرت ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ ابتدا میں وہ راہگیروں سے گڑگڑا کر مانگتے اور راہگیر حسب توفیق کچھ نہ کچھ ان کی جھولی میں ڈال دیتے ۔ وقت گزرتا رہا اور انہیں خیرات ملتی رہی، وہ دونوں کہاں سے آئے تھے اور ان کا یہ عجیب ‘‘اشتراک’’ کب شروع ہوا، یہ ایک ایسا معمہ تھا جو کبھی حل نہ ہوا۔
ان کے اشتراک کا یہ عالم تھا کہ ایک روز عبدو جھولی پھیلا کر بیٹھتا اور ریمی پس منظر میں چلا جاتا۔ دوسرے روز معاملہ اس کے برعکس ہوتا۔ شام کو اٹھتے وقت خیرات کے پیسے آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیے جاتے۔
ان کی جوانی بیت چکی تھی۔ شاید سالہا سال بھیک مانگنے کی وجہ سے انہیں یہ طریقہ سوجھا تھا۔ وہ سمجھتے تھے ایک ‘‘مخیر راہگیر’’ ایک وقت میں صرف ایک بھکاری کو خیرات دیتا ہے۔ اگر اس سے بیکوقت دو بھکاری بھیک مانگیں، تو وہ کسی کو بھی خیرات نہیں دیتا۔ اس نظام کے تحت ان کا بہت اچھا وقت گزرتا رہا…. شہر میں مشہور ہوجانے کی وجہ سے انہوں نے راہگیروں سے التجائیں اور منتیں کرنا چھوڑ دی تھیں، اب وہ چپ چاپ بیٹھے رہتے اور راہگیر انہیں خود بخود خیراتدےجاتے۔
وہ کئی راہگیروں کو ان کے قدموں کی چاپ یا ان کی آواز سے پہچاننے لگے تھے، بھاری بھرکم قدموں کی آہٹ سے جان لیتے کہ یہ وہی خاتون ہے جو اس سڑک کے آخری موڑ پر خوانچہ لگاتی ہے۔ اس طرح وہ ایک اور راہگیر کو آہٹ سے پہچان لیتے تھے جو ہمیشہ تیزی سے قدم اٹھاتا اور سیٹی بجاتا ہوا گزرتا تھا۔
کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ شہرت دو دھاری تلوار ہے، لوگ انہیں درخت کی مانند سڑک کا ایک حصہ سمجھنے لگے تھے اور وہاں سے گزرتے وقت خودبخودد فرض کرلیتے کہ یہاں عبدو اور ریمی بیٹھے ہوں گے۔ اب ان کے دل میں رحم کا جذبہ کم ہی ابھرتا اور وہ ہر چیز کو معمول سمجھ کر آگے بڑھ جاتےتھے۔
‘‘میرے خیال میں ہمارے پاس اتنے پیسے ہیں کہ کچھ کھایا جاسکتا ہے۔’’ ریمی نے آگے بیٹھے ہوئے عبدو سے کہا ‘‘….ہم خوانچہ فروش عورت سے کچھ خریدسکتےہیں۔’’
ریمی کو سوچنے کی عادت زیادہ تھی۔ اس نے فوراً جواب نہ دیا۔ سوچ کر بولا۔
‘‘آج کل ہمیں کچھ زیادہ نہیں ملتا، پہلے تو ایسانہتھا۔’’
‘‘شاید آج کل کاروبار مندا ہو، مگر ہمارے پاس جتنے پیسے ہیں، ان سے ہم کچھ کھا تو سکتے ہیں۔’’ عبدونےکہا۔
ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
‘‘میں قدموں کی چاپ سن رہا ہوں۔ ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا چاہیے۔’’ ریمی نے فضا کو سونگھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
‘‘یہ راہگیر جلدی میں ہے۔’’ عبدو نے ریمی کی بات میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
‘‘ہاں، وہ رکا نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ان دنوں لوگ نہیں رکتے۔’’ ریمی نے افسردہ لہجے میں کہا۔
‘‘شاید آج کل اس راستے سے زیادہ لوگ نہیں گزرتے۔’’ عبدو نے تائید کی۔
‘‘ایسا نہیں، دن کے اس حصے میں آمدورفت کم ہوجاتی ہے۔’’ ریمی نے فلسفیانہ توجیہہ پیش کی۔
‘‘اس لیے تو کہتا ہوں یہی وقت مناسب ہے کہ ہم اٹھ کر اس عورت سے کھانے کے لیے کچھخریدلائیں۔’’
‘‘نہیں، ہمیں یہاں سے اٹھنا نہیں چاہیے…. کیا خبر یہاں سے کون گزرنے والا ہے، کیوں نہ ہم دوپہر اور شام کا کھانا اکٹھا ہی کھالیں۔ جب پیسے کی قلت ہو، تو سمجھنا چاہیے کہ خوراک کا بھی کال ہے۔ ایسے میں صبرکرنا چاہیے۔’’
ریمی یہ کہہ کر اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ ذرا سی تلاش کے بعد اس نے جیب سے اخروٹ نکالا۔ دانتوں سے توڑا، نصف اخروٹ مٹھی میں بند کیا اور اپنا ہاتھ عبدو کے کندھے پر رکھ دیا۔ عبدو نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کی مٹھی سے نصف اخروٹ لے لیا۔ دونوں چپ چاپ اخروٹ کا مغز چبانے لگے۔
وہ راہگیروں کا انتظار کرتے رہے…. یہ انتظار بڑا صبر آزما تھا۔ سڑک کے آخری کونے پر خوانچہ بردار عورت بھی اسی شدت سے گاہکوں کا انتظار کرتی تھی۔ خوانچہ فروش عورت اور بھکاریوں پر انتظار کے لمحے یکساں کٹھن تھے۔
اس راہگزر پر چیتھڑوں میں ملبوس ایک لڑکا دبے پاؤں بھکاریوں کے قریب پہنچا اور چند لمحوں بعد واپس مڑا، اب اس کی مٹھی میں کوئی چیز تھی۔
‘‘یوں محسوس ہوتا ہے یہاں سے کوئی گزرا ہے۔ کیا تم نے بھی کسی کی آہٹ سنی….؟’’ عبدو نے پوچھا۔
‘‘نہیں، میں نے کچھ نہیں سنا۔’’ ریمی نے جوابدیا۔
‘‘عجیب بات ہے، مجھے تو کسی کے چلنے کی آواز آتی ہے۔’’
‘‘شاید کوئی کتا ہو۔’’
‘‘ہاں، یقیناً کتا ہوگا۔’’ عبدو نے کہا۔
پھر وہ خاصی دیر خاموش رہے…. جیسے سڑک سے تپش کی لہروں کو اٹھتے ہوئے محسوس کررہےہوں۔
‘‘ہمیں یہاں سے جلد اٹھنا ہوگا۔’’
‘‘کیوں….؟’’
‘‘سایہ ہم سے دور ہورہا ہے۔’’
‘‘ہاں، ہمیں درخت کی دوسری طرف بیٹھنا چاہیے۔’’ ریمی یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔‘‘اٹھتے وقت پیسے نہ گرا دینا….؟’’ اس نے عبدو کو تنبیہہ کی اور عبدو اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔
‘‘تم کھڑے کیوں نہیں ہوتے….؟’’ ریمی کی آواز جھنجھلا گئی۔
عبدو بڑی گھبراہٹ کے ساتھ اپنی جھولی میں کچھ ٹٹول رہا تھا۔‘‘پیسے’’۔ وہ صرف اتنا کہہ سکا۔
‘‘ہاں، ہاں، پیسوں کا کیا ہوا….؟’’
‘‘پیسے، پیسے کھو گئے ہیں۔’’
‘‘اس وقت مذاق اچھا نہیں لگتا۔’’ ریمی نے روکھے پن سے جواب دیا۔
‘‘اسے مذاق نہ سمجھو، پیسے واقعی نہیں مل رہے۔’’ عبدو نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
ریمی سنجیدہ ہوگیا۔ ‘‘کیا تمہیں اس کا یقینہے….؟’’
‘‘ہاں ہاں، مجھے یقین ہے۔’’
ریمی، عبدو کے قریب آ بیٹھا اور اس کا لباس اپنے ہاتھوں سے ٹٹولنے لگا۔
‘‘میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ پیسے یہاں نہیں ہیں۔’’ عبدو رک رک کر یہ فقرہ دہراتا رہا۔
‘‘لیکن پیسے یہیں کہیں ہونے چاہئیں۔’’ ریمی نے زور سے کہا۔ ‘‘کچھ دیر پہلے پیسے یہیں تھے، تم نے مجھے خود ہی بتایا تھا۔’’
‘‘ہاں، میں نے تمہیں بتایا تھا اور اب میں خود تمہیں بتا رہا ہوں کہ پیسے یہاں نہیں ہیں۔’’ عبدو نے غصے میں کہا۔
‘‘بہرحال تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیسے کہاں گئے….؟’’ ریمی نے ترخ کر کہا۔
‘‘مجھے معلوم نہیں، میں حلفیہ کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں۔’’
‘‘میں نہیں مانتا۔’’
‘‘کیا تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو….؟’’
‘‘تم تو چور معلوم ہوتے ہو۔’’
اس بات پر دونوں گتھم گتا ہوگئے۔ یہ دیکھ کر چند راہگیر جمع ہوگئے اور انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا۔ دونوں کی بات سنی اور پیسے ادھر ادھر تلاش کیے، مگر انہیں وہاں کچھ نہ ملا۔
بھکاریوں کا غصہ ٹھنڈا ہوا، جلد ہی انہوں نے آپس میں صلح کرلی اور چند منٹ بعد درخت کے سائے میں ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے۔
‘‘پیسوں کا یوں غائب ہوجانا بڑی تشویش ناک بات ہے۔’’ عبدو نے تقریباً بیسویں بار کہا۔
‘‘ہاں، واقعی یہ پریشان کن بات ہے۔ اندھا ہونے میں یہ بھی خامی ہے کہ کچھ پتہ نہیں چل سکتا۔’’ ریمی نے اپنے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
‘‘آج تو ہمیں پانچ پیسے کا سکہ ملنے سے رہا۔’’ عبدو نے مایوسی کا اظہار کیا۔
‘‘خدا کے خزانے خالی نہیں، وہی دے گا’’…. ریمی پر امید لہجے میں بولا۔
اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔
‘‘مجھے پاؤں کی چاپ سنائی دے رہی ہے’’…. عبدو قدرے چونکتے ہوئے بولا۔
دونوں بڑے انہماک سے یہ آواز سننے لگے۔ آہستہ آہستہ قدموں کی آواز دور ہوتی گئی۔ یہ آواز اس لڑکے کی تھی جو کچھ دیر پہلے بھکاریوں کے پاس سے گزرا تھا۔ اب چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا بڑے مزے سے چنے چبا رہا تھا۔
‘‘یہ کسی چھوٹے بچے کے قدم تھے۔’’ عبدوبولا۔
‘‘شاید بچہ گزرا ہے، مگر یہاں سے کوئی نہ کوئی سخی بھی ضرور گزرے گا۔’’ ریمی نے آہستہ سے کہا۔
اور دونوں پھر انتظار کرنے لگے۔
Wow.. The title is so symbolic. Beautiful.