ہم موت سے پوچھتے ہیں ۔۔۔ عذرا عباس
نظم
(عذرا عباس )
ہم موت سےپوچھتے ہیں کیوں آتی ہو
اور کہاں سے
کبھی اپناٹھکانہ بھی بتاتی جاؤ
وہ اپنے موٹے بالوں کی چوٹی گھوما کر اٹھلا کر ہماری طرف دیکھتی ہے
اس کی آنکھیں سرمے سے بھری ہوتی ہیں
اس کے ہونٹوں پر گھٹیا داموں والی سرخی لگی ہوتی ہے
اس کے رخسار وں پر لگا ہوا غازہ
اس کی پرانی عمر کو چھپا کر
ہمیں دانت نکوس کر دیکھتا ہے
ہمیں ہنسی آتی ہے
وہ بھی ہنستی ہے
ہم جل جاتے ہیں
کمبخت کس کس کو گھسیٹ کر لے گئی
ہاں یہ تو ہے
وہ اپنی کمر کوکئی بل دےکرٹھمکتی ہے
اپنی سرمے سے بھری آنکھیں مٹکا کر مجھے دیکھتی ہے
آؤں گی جلدی
تمھارے پاس بھی
Facebook Comments Box