بند کمرہ ۔۔۔ انیس صدیقی
بند کمرہ
انیس صدیقی
آج تیسری شام بھی عالیہ کو محسوس ہوا کہ بند کمرے میں کوئی ہے ۔
کل اور پرسوں بھی اسے بند کمرے میں کسی کے ہونے کا احساس ہوا تھا لیکن اس نے اسے اپنا وہ کہ سمجھ کر کوئی اہمیت نہیں دی تھی مگر آج دوپہر ہی سے اسے بار بار اس بات کا احساس ہورہا تھا کہ بند کمرے میں ضرور کوئی موجود ہے ۔
یہ کمرہ نہینوں سے بند پڑا تھا ۔ اس میں کوئی نہیں رہتا تھا۔ پھر رہتا بھی کون ؟ اس گھر میں
وہ اور نا صر دو ہی تو افراد تھے جن کے لیے دو کمرے ہی کافی تھے جو ان کے استعمال میں تھے۔ تیرا کمرہ در اصل اس کی نند عشرت کا تھا، لیکن جب سے اس کی شادی ہوئی تھی وہ بند ہی پڑا تھا۔ جب تک عشرت اس شہر میں رہی، مہینےدو مہینے میں ایک آدھ دن کے لیے آجاتی اور اپنا کمرہ استعمال کر لیتی مگر جب سے اس کے شوہر کا اس شہر سے تبادلہ ہوا تھا وہ ایک بار بھی یہاں نہیں آئی اور یہ کمرہ جھی سے بند تھا .
عالیہ کو اس سے پہلے کبھی اس کمرے میں کسی کے ہونے کا احساس نہیں ہوا تھا لیکن
پرسوں سے اسے بار بار اس کمرے میں کسی کے ہونے کا احساس ہورہا تھا۔ کل بھی اس کا جی چاہا
تھا کہ کمرہ کھول کر دیکھے کہ آیا واقعی اس میں کوئی ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کر پائی تھی اس لیے کہ کمرے کی چابی ناصر کے پاس تھی اور ناصر دفتر میں تھا۔
ناصر حسب معمول رات گئے آیا تھا ، پھر کھانا کھا کہ دفتر کی فائلیں لے کر بیٹھ گیا تھا اور وہ اس
سے اس بات کا ذکر بھی نہیں کر پائی تھی ۔ اور پھر اس بات پرہی کیا منحصر تھا، وہ اکثر کئی باتیں ذہن ہیں رکھتی کہ ناصر آئے تو اس سے مشورہ کرنے گی لیکن ناصر رات کو اس قدر دیر سے آتا کہ اس کا جی ہی نہیں چاہتا کہ وہ اس سے کوئی بات کرے ، پھر ناصر بھی یا تو کھانا کھاتے ہی سوجاتا یا پھر دفتر کا کام نکال کر بیٹھ جاتا اور وہ بستر پر اکیلی پڑی اس کا انتظار کرتے کرتے سو جاتی ۔ پچھلے ککئی مہینوں سے ناصر کا یہی معمول تھا اور وہ بھی آہستہ آہستی اس کی عادی ہوتی جا رہی تھی۔ ۔۔۔۔ کہ اچانک پرسوں اسے بند کمرے میں کسی کے ہونے کا احساس ہوا۔
آج اس نے طے کرلیا تھا کہ ناصر رات خواہ کتنی ہی دیر سے آئے وہ اس سے کمرے کی چابی لیکر اسے کھول کر ضرور دیکھے گی۔ اس وقت شام کے کوئی پانچ بج رہے تھے۔ وہ دیر سے بستر پر لیٹی چھت کو گھورتی تہی۔ پھر وہ اچانک اٹھ بیٹھی اور بستر پر بیٹھے ہی بیٹھے پورے کمرے کو خالی خالی نظروں سے گھورتی رہی۔ پھر اس نے غسل خانے میں جا کر ہاتھ منہ دھویا، بالوں میں کنگھا کیا۔ کنگھا کرنے کے بعد بھی وہ دیر تک آیئنے کے سامنے آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔
پھر وہاں سے اٹھ کر یا لکونی پر جا کھڑی ہوئی ۔ اس کے سامنے والے فلیٹ میں رہنے والا نوجوان آج بھی اپنی بالکونی پر کھڑا تھا، وہ اسے دیکھ کر آج بھی مسکرایا ، لیکن وہ آج فوراً ہی بالکونی سے کمرے میں آگئی ۔
کافی دیر تک وہ دونوں کمروں میں ادھر سے ادھر نہلتی رہی ساتھ ہی ایک ایک چیز کو اس
انداز سے دیکھتی رہی جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہی ہو ۔ پھر اپنے بستر پر لیٹ کر خالی خالی نظروں سے چھت کو تکنے لگی ۔ جب کمرے میں تاریکی پھیلنے لگی تو اس نے اٹھ کر بتی جلائی۔ بتی جلتے ہیں اسے پھر بند کرے میں کسی کے ہونے کا احساس ہونے لگا۔ ساتھ ہی اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا
سینہ اندرسے بالکل خالی ہو گیا ہو اور اس میں بگولے رقص کر رہے ہوں۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور بے دم کی ہو کہ بستر پر گر پڑی ۔
آج ناصر خلاف معمول شام ڈھلے ہی گھرا گیا۔ ناصر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ دوڑ
کہ اس سے لپٹ گئی، اور پھٹی پھٹی نظروں سے بند کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ” ناصر اس کمرے میں کوئی ہے۔ “
ناصر نے اس کی طرف ، حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور کہا ” تم پاگل تو نہیں ہوگئی
ہوا بھلا بند کمرے میں کوئی کیسے ہو سکتا ہے ۔” وہ بدستور خوفزدہ نظروں سے بند کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ، لیکن میرا خیال ہے کہ اس کمرے میں ضرور کوئی ہے۔ “
چاہیوں کا گچھا ناصر کے ہاتھ میں تھا، اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا کمرے میں جھانک کر دیکھا، پھر عالیہ کے قریب اگر اس کے شانوں کو تھپتھپاتے ہوئے کہا “کوئی بھی نہیں، سب تمہارا وہم ہے”
اس نے حیران نظروں سے ناصر کو دیکھا ، آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے کمرے میں داخل
ہوئی اور کھڑکی کے گرد آلود پر دے کو ذرا سا ہٹا کر کھڑکی کا ایک پیٹ کھول دیا۔ ایک لمحے تک وہ کھلی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی پھر ایکا ایک پلیٹی اور بھاگ کر ناصر سے لپٹ گئی ۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی اور اس کی سانس زور زور سے چل رہی تھی ۔ ناصر چند لمحوں تک حیرت سے دیکھتا رہا ، پھر اس کے دونوں نشانوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کہ اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا، ” یہ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے عالیہ ؟ ” عالیہ اسے ساکت نظروں سے گھورتی رہی، بولی کچھ نہیں۔ ناصر نے اپنے ہاتھ عالیہ کے شانوں پر سے ہٹا لیے اور کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا،” میں کمرے کا دروازہ بند کیے دیتا ہوں ” اس نے تڑپ کر ناصر کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف کھینچے ہوئے بولی ،” نہیں ناصر، ایسا مت کرنا، ورنہ بند کمرے میں کوئی رہنے لگے گا”۔