آدھی خود کشی ۔۔۔ فارحہ ارشد
آدھی خود کشی
فارحہ ارشد
یہاں سب گورکن ہیں ۔ لاش ملتی ہے تو رزق کا بندوبست ہو جاتا ہے۔
اور وہ لوگ جوآدھے نوالے کے پیچھےخود لاش بن جاتے ہیں۔
انسان
جسم
زندگی ۔۔۔ موت
بھوک کے نیچے دبی لاوارث کہانیاں۔۔
ملتی جلتی کہانیاں۔۔۔
غریبی کی ساری کہانیاں اصلی ہونگی اور ہر کہانی پلیجرائزڈ ( سرقہ زدہ) لگتی رہے گی ۔
نیوز سائیکل ہوتی رہتی ہے ہر سٹوری کی ۔۔
سٹوری بریک
غربت پرپینل ڈسکشنز ۔۔
بگ کلک ۔۔ہیش ٹیگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک سرد ہال ہے۔ جہاں ہم سب مختلف نمبروں کی میزوں پر سفید کپڑے کے نیچے پڑے ہیں۔ ہماری شناخت ہمارے پاؤں کے انگوٹھوں پر بندھے دھاگے کے ساتھ لگی چٹ پر ہماری میز کے نمبر تک رہ گئی ہے ۔
مجھے اپنا نام بھول گیا ہے مگر وہ مجھے میز نمبر سات کا جسم بُلاتے ہیں۔
انہیں لگتا ہے یہاں بہت ہولناک سناٹا ہے۔ وہ ہم سے ڈرتے ہی ۔ یہاں کی دیکھ بھال کرنے یا جسموں کو لانے لے جانے کا کام کرنے والے یہاں کی سردی سے نہیں بلکہ موت کے خوف سے کانپتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اور جسموں کی کپکپاہٹ ان کی زندگی کی علامت ہے۔ وہ ہماری طرح نہیں ۔۔۔ سرد، جامد اور خاموش۔
وہ نہیں جانتے یہاں آوازوں کا کتنا شور ہے کیونکہ وہ صرف ہمارے سرد جسم دیکھتے ہیں۔ اپنے اپنے جسموں کے پاس بیٹھے ہمیں دیکھنے یا سننے کی ان کی نظروں اور کانوں میں کوئی صلاحیت نہین حالانکہ وہ اپنی آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے پر بہت بھروسہ کرتے ہیں۔
کیسے اندھے اور بہرے ہیں ؟
ہم وہ ہیں جن کے سرہانے بیٹھ کر کوئی رویا نہ کوئی آنکھ ہمارے لئے اشک بار ہوئی۔ کسی نے سینہ پیٹا نہ بال کھول کے بین کئے۔
ہم وہ ہیں جو لاوارث نہ تھے مگر اپنے وارثوں سے دور کسی بھیڑ میں گم ہوگئے اور اپنے وارثوں کا پتہ نہ بتا سکے۔ ایسا نہیں کہ ہم نے بتایا نہیں مگر ہماری کوئی سنتا ہی نہیں۔ چیخ چیخ کر بتاتے رہے مگر سچ ہے کہ یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں۔ انہیں سنائی دیتا ہے نہ دکھائی۔
پس منظر میں موت کی سمفنی بجائی جا رہی ہے۔
داستان گو خاموش ہے ۔۔۔۔ داستان کے کردار بول رہے ہیں۔
یہاں آوازوں کا بہت شور ہے۔
میرے ساتھ والی میز کی عورت کتنی بے چین ہے۔ کبھی اپنے جسم کی پائنتی کی طرف بیٹھ جاتی ہے تو کبھی اس کے سر کی طرف۔ کبھی دایاں بازو ہلاتی ہے تو کبھی بایاں۔ ایک ہی رت لگا رکھی ہے، ” چل اٹھ جا ۔۔۔ وہ چاروں جانیں بھوک سے مر جایئں گی۔ ” حالانکہ یہ بتاتی ہے کہ یہ خود بھوک سے مر گئی۔ وہ منبر کی میز پر موٹی توندیں رکھے ہاتھ لہرا لہرا کر نالی کے کیڑے سے لے کر زمین کے اندر تک کی مخلوق کے رزق کی باتیں کرتے تھے۔ انہوں نے بھوک سے مری اس عورت کو نہیں دیکھا۔ بھوک سے مر جانے والا کیسے بتا سکتا ہے کہ وہ فاقے سے مرا ہے۔ وہ تو مر گیا اب انہیں کون بتائے۔ ؟
بیچاری کے پچکے گال ، ہڈیوں کا پنجر بنا جسم اور پیٹ جو پشت سے جا لگا ہے ، کیا یہ بھی انہیں کچھ نہیں بتاتا تھا کہ وہ لمحہ لمحہ بھوک سے مر رہی ہے۔ ؟
آہ۔ یہ بھی سچ ہے کہ سب نے اپنے اپنے پیت اور اپنی اپنی بھوک اٹھا رکھی ہے۔ اپنا پیت بھرا ہو تو دوسرے کی بھوک کیسے نظر آ سکتی ہے ؟ پھر وہ تو ہیں ہی اندھے ۔۔۔ جو کچھ انہیں دکھائی دینا چاہیئے وہی انہیں نظر نہیں آتا۔
” چل اٹھ۔ بستی کو جانے والی آخری بس نکل گئی تو وہ چاروں بھوکے روتے رہیں گے۔ میلوں کا سفر طے کر کے تو اسی لئے آئی تھی کہ یہاں منہ لپیٹ کے پڑی رہے ؟ تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ تیرے اکٹھے کئے گئے چند لقموں کی خاطر وہ سارا دن کتنا انتظار کرتے ہیں ؟ تیرے جانے تک وہ بھوکے پیاسے بلکتے رہتے ہیں۔ باپ انہیں اس اوکھلی میں پھینک کر جانے کہاں چلا گیا۔ اب جب تو بھی ان کی روٹی لے کر نہیں پہنچی تو وہ چاروں ۔۔۔۔ ارے اٹھ جا، ” وہ جانے کیسے کیسے واسطے دیتی ہے مگر جسم ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
آہ۔ بیچاری کرموں جلی۔
اور وہ جو تیسری لائن میں میز نمبر اٹھارہ کا نوجوان ۔۔۔ ہر موسم کے ہر پہر وہ مزدوروں میں کھڑا کام کا انتظار کرتا تھا کہ کوئی مستری، کوئی رنگ ساز، کوئی ٹھیکیدار اسے کام کے لیے بلالے۔
بارش ہے
وہ کھڑا ہے
تیز دھوپ ہے۔
وہ کھڑا ہے
بڑا وقت کا پابند ۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔
” پے در پے ناکامی نے تجھے دیہاڑی دار چوہڑا بنا دیا۔ ” وہ اپنے جسم کو تاسف بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولنے لگتا ہے۔
تو نے کتنے جھوٹ بولے۔ ” میں جی اقبال مسیح ولد اسحاق مسیح ولد ۔۔۔ مسیح۔”
جب کہ تو جاتا ہے کہ تو” محمد اقبال ولد محمد اسحاق ولد محمد ! لے بھگت اب اپنا جھوت۔ کسی کے حصے کی جگہ لے کر بھی ہاتھ کچھ نہ آیا۔ گھر والوں کو خبر ہی نہیں محمد اقبال کیسے مرا ؟ لوہے کے ٹرنک میں پڑا شناختی کارڈ لے کے ڈھونڈنے بھی نکلیں تو لوگ محمد اقبال کو تو جانتے ہی نہیں۔ انہیں تو بس اتنی خبر ہے کہ اقبال مسیح مر گیا، گتر میں دم گھٹنے سے” وہ جسم سے کہتا جا رہا ہے۔
جواب نہ پا کر اپنے جسم سے دور ہٹ کر جا بیٹھا ہے۔ اس کا پچھتاوا ہی نہیں جاتا۔ ” کہا تھا نا کہ گٹر میں نہ اتر۔۔۔ مگر تو مانتا ہی نہیں تھا۔ چھ بچوں کی چیخوں کا پگھلتا سیسہ کانوں کی نالیوں میں انڈیلنے کے بعد تمہیں سنائی بھی کیا دیتا؟ اس نے شکوہ بھری نظروں سے اپنے جسم کو دیکھا۔ سرخ خون اس کے دل کے مقام سے فرش پر گر رہا ہے ۔۔۔ گرتا ہی جا رہا ہے ۔۔۔ اس کے خون سے گٹر کی تیز بدبو آنے لگی ہے۔
ادھر میز نمبر بیس پر بھاری بھرکم جسم پڑا ہے۔ اپنے جسم کے سرہانے وہ پھٹے ڈھول کی آواز میں کی آواز میں نہ جانے کیا بولتا رہتا ہے۔
” میں سمجھ اس تار میں کرنٹ نہیں ہے۔ وہ جب ریڑھی پر ڑے لوہے کے راڈ پر گری تو میں نے اٹھا کر اسے ایک طرف پھینکنا چاہا۔ مجھے بڑی جلدی تھی۔ میری بیٹی کی بارات آنا تھی اس شام۔ میں نے سوچا ایک پھیرا لگے ہاتھوں صبح صبح لگا آوں۔ بڑی جلدی تھی مجھے۔ ” بار بار وہ یہی دوہراتا رہتا ہے۔
میں جب زمین پر گرا تو کسی نے پیسوں والی پوٹلی جیب میں سے نکال لی۔ اسی میں میرا شناختی کارڈ ۔۔۔ بارات آ گےی ہو گی۔ بیوی نے میرا کتنی دیر انتظار کیا ہوگا اور پھر لوگوں کے اصرار پر بیٹی کو رخصت کر دیا ہوگا۔ بڑی جلدی تھی اسے بیٹی کو بیاہنے کی۔ مجھے بھی بڑی جلدی تھی ۔۔۔ بڑی جلدی میں تھا جب میں لوہے کے راڈ پر ۔۔۔۔ ” اس کی سُوئی اسی ایک بات پر اٹک گئی تھی۔
اس کے پاوں کے آبلے پھوٹنے لگتے ہیں اور لیس دار پیپ کے چھینٹے میرے منہ پر آ گرتے ہیں۔
اور یہ بوڑھی مائی ۔۔۔ جس کے چہرے ر اتنی جھریاں نہیں جتنے آنسوں کے نیل پڑے ہیں۔
بس ایک ہی جملہ اس کی زبان پر رہتا ہے۔
” میں لاوارث نہیں ۔ میرے چار پُتر ہیں۔ اونچے لمبے ۔۔۔ جوان گھبرو۔ وہ تو میں خود شوق سے شہر میں اپنے میاں کا سکھایا کام کرنے آتی تھی۔ اس روز جب وہ مجھے جوتے پر کیل لگانا سکھانے لگا تو میں نے کہا؛ میرے جیون جوگے چار پتر ہیں ۔۔ میں کیوں سیکھوں ؟ “
بڑا سیانا تھا۔ بولا، ” اُن پر آسرا نہ کرنا۔ پتر ذات اپنے بکھیڑوں میں مائی باپ کو بھول جاتی ہے۔ “
مجھے یاد ہے یہ کہتے ہوئے اپنی گول گدلے شیشوں والی عینک کو اس نے کوئی پانچ بار صاف کیا تھا۔
” زبردستی مجھے جوتوں کی مرمت کا کام سکھاتا رہا۔ “
وہ تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو جاتی ہے۔ پھر اس کی آواز جیسے کسی کنویں سے آنے لگتی ہے۔ ۔ پرنم باز گشت جیسی ، ” پھر انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا اور میرا بکسا میری نونہہ نے سڑک پر پھینک دیا۔ “
وہ رونے لگتی ہے۔
” کیا کرت ؟ میری کھولی میں مجھے کوئی پوچھنے ہی نہ آتا۔ میں بھوکی رہتی۔ ایک روز میں اٹھی ۔ بکسے میں سے اپنے بندے کا تھیلا اٹھایا اور صابو کے تانگے پر شہر چلی آئی اور اس گلی کی نکڑ پر ڈیرہ جمالیا جہاں دور دور تک کوئی جوتے مرمت کرنے والا دکھائی نہ دیتا تھا۔ شام کو شیدے کی کھوتی ریڑھی پر کبھی پنڈ والی کوٹھڑی میں چلی جاتی نہیں تو ادھر ہی پڑی رہت۔ اس رات بہت ٹھنڈ تھی۔ کرم دین نے بتایا کہ ریڈیو پر خبروں میں آیا تھا پہاڑوں پر برف گری ہے۔ پورب سے طوفان اٹھا اور پچھم کی طرف جاتے جاتے کتنا کچھ اپنے ساتھ سمیٹ لے گیا۔ سردیوں کی ایسی طوفانی بارش جیسے سب کچھ اپنے ساتھ بہا لے جائے گی اور ژالہ باری نے تو مانو دھرتی پر سفید چادر بچھا دی تھی۔ قہر بھرا طوفان آیا اور گذر گیا مگر سردی نے میرے کمزور وجود کو سر سے پاوں تک ایسے کیل دیا جس کے اندر صرف موت ہی گھس سکتی تھی۔ بہت ٹھنڈ تھی اس رات۔ مجھے ایسے لگا جیسے بہت سے برفانی تودوں کے درمیان مجھے لٹا دیا گیا ہو با لکل اس کہانی کی رسم کی طرح جس میں بوڑھے والدین کو بیٹے اوپر پہاڑوں کی برفانی چوٹیوں پر برف بننے کے لیے چھوڑ آتے تھے تاکہ وہ مر جایئں۔”
مرن جوگی کی آواز میں کیسا نوحہ تھا۔
” بہت ٹھنڈ تھی اس ر۔۔۔رررراااات۔۔۔۔”
مجھے یوں لگا جیسے اس نے گول گدلے شیشوں والی عینک کوئی پانچویں بار صاف کی ہو حالانکہ اس نے عینک کب پہن رکھی تھی۔
” پر وہ آیئں گے ۔۔ خیر سے میرے چار بیٹے ہیں۔ چار وارث ۔۔۔ میں کوئی لاوارث نہیں ہوں۔” وہ بار بار دروازے کی طرف دیکھتی ہے اور اس کی نظریں ہر بار ہی مایوس لوٹ آتی ہیں۔
جھلی نہ ہو تو۔۔۔۔ اس عمر میں اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ یہاں کسی کا کوئی نہیں آتا۔ ایک بار اس دنیا کی بھیڑ میں ہاتھ چھوٹ جائے تو سب کچھ گم ہو جاتا ہے با لکل ویسے ہی جیسے میرا سب کچھ گم ہو گیا ۔
میرا کون آئے گا بھلا۔۔۔ میں تو خود بھاگ نکلی تھی وہاں سے جہاں ابے نے مجھے بڑی سی حویلی میں کام پر رکھوایا تھا۔ اتنے کنجوس حویلی والے کہ ایک روپیہ بھی تین بار ناخن پر بجا کردیتے۔
چوکیدار کے لمبے بالوں اور مفلر والے بیٹے نے مجھے ایسے ایسے سبز باغ دکھائے کہ میں اس کے ساتھ وہاں سے بھاگ گئی۔
وہ مجھے شہر لے آیا۔۔ نکاح کے وعدے پر مجھے مرد بھگاتے رہے اور میں عزت کی روٹی کے لیے ان کے ساتھ بھاگتی رہی ۔ اس لکڑی کی ٹانگ والے نے تو مجھ سے دو بول بھی پڑھوا لیے ۔ سارا دن میں اس کی خدمت کرتی اور رات کو شکر کرتی کہ سکون سے اپنے گھر میں سوئی ہوں ۔ وہ لکڑی کی ٹانگ والا خود کچھ کر نہیں سکتا تھا اور اسے شک تھا کہ میں ایک بار پھر کسی اور کے ساتھ بھاگ جاؤنگی۔ کتنے دن شک پالتا؟۔۔۔ پیسے کھرے کر لیے۔ گویا میں اپنی ہی تلوار پر جا گری۔
ایک روز مچھلیاں بیچنے والے ایک شیطان نما آدمی کے ہاتھ مجھے بیچ دیا۔
وہ کبھی مچھلی بیچنے والا رہا ہوگا۔ بعد میں ایسا نشہ لگا کہ کام وام چھوڑ دیا ۔ اب اس بے رنگ وروغن سٹیمر کے پیچھے بنی جھگی میں پڑا اینٹھتا رہتا۔ جو ادھر ادھر سے لوٹ کھسوٹ کی وہ میری قیمت دے آیا۔
اس نے مچھلیوں کی باس سے اٹی نیم تاریک کھولی میں لا کر مجھ پر ہر نسل کے کتے چھوڑ دیئے۔ میں بھوکی پیاسی تڑپتی رہی اور وہ چند دنوں میں ہی کورے نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کرپاگل ہوگیا۔ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کا پیٹ چاک کر کے انڈے نکالنے بیٹھ گیا۔
دن رات اس کے گاہک میرے بھوکے پیاسے جسم کے ہر ممکنہ عضوکو استعمال کرتے رہے ۔
آخری بار ۔۔۔ مچھلی کی سڑاند اور سستی شراب کے بھبھوکے والا منہ میرے منہ پہ ایسا چپکا کہ میری سانس پی کرہی رہا۔ سانس تھی، ہوا ہوگئی ۔ اور میں تلچھٹ کی طرح وجود کے پیندے میں بیٹھتی چلی گئی۔
موت کیا تھی ؟ ایک جھٹکا تھا کہ جو جسم کے ریکٹر سکیل پر نشان چھوڑ گیا، جس کی شدت ریکارڈ کی جائے تو ہر بار پچھتاووں کے پیمانے پر بڑھتی جائے گی۔ ” کاش میں ایسا نہ کرتا، اے کا ش یوں نہ ہوا ہوتا۔ ” جیسے پچھتاوے۔۔۔ زندگی خود موت کو واقعہ بنا کر پیش کر دیتی ہےاور انسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہےکہ کاش اس لمحے میں موت کو موقع نہ دیتا۔
۔ زندگی پانی کا بلبلہ ۔۔۔ کب پھٹ جائے کس کو خبر؟۔۔۔۔ اور غریب کی زندگی کا بلبلہ تو بس بہانہ مانگتا ہے ۔ پیدا ہوتے ہی وہ اندر ہی اندر مرنے لگتاہے۔ آہ بیچارہ انسان۔۔۔ بے خبر۔۔۔ بے بس
وہ نشے میں دھت میرے ساکت جسم کو ہی ساری رات بھنبھوڑتا رہا۔ جب سارے نشے بہہ گئے توگٹھڑی بنا کر مجھے پرانے سٹیمر کے غلیظ ترین غسلخانے کے باہر پھینک آیا۔ پولیس آئی تو کوئی والی وارث نہ بنا۔
بہت سے بگلہ بھگت، بہت سے رنگے سیار، جو بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا بنے مہذب ہونے کا ڈھونگ رچا رہے تھے۔ اسی بھیڑ کو چیرتا وہ مچھلی والا بھیڑیا بھی کانوں کو ہاتھ لگاتا آگے بڑھا۔
” میں تو جانتا ہی نہیں اسے۔ سردی سے کانپ رہی تھی۔ میں اسے اپنی کھولی میں سونے کا کہہ کر مزدوری کرنے چلا گیا۔ خدا کی قسم میں اسے نہیں جانتا تھا ۔ آخر ہم نے بھی اک روز مرنا ہے یہی سوچ کر میں نے اسے پناہ دی۔ بچیاں تو جی سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ نمانی ! جانے کہاں سے بارش میں بھیگتی میرے در پر اللہ نے بھیج دی تھی ۔ پناہ نہ دیتا تو میں کل کو خدا کو کیا منہ دکھاتا۔ اور جب میں دوسرے روز واپس آیا تو وہ جا چکی تھی۔ “
مچھلی والا پان سے بھری باچھوں سےتھوک اڑاتا رہا ۔
لچکتی ڈال سا بدن جس کا روپ کبھی ایک آتش سیال اور شباب شعلہ سوزاں تھا ۔ جس کی زیبائی کسی وقت میں شب کا غرور اور اٹھان صبح کی انگڑائی جیسی تھی۔ اب لٹا پٹا ، شکست خوردہ ، تھکا ہارا کئی مردہ مچھلیوں ، باسی گلی سڑی سبزیوں کے درمیان میلے کپڑوں کی گٹھڑی بنا پڑا تھا۔ اسٹیمر والے نیچے پھینک گئے تھے۔
ٹھہری ہوئی پُتلیاں، ساکن زرد جلد، نیلے کچر ہونٹ ۔۔۔
موت کا عمل گذرے کئی گھنٹے بیت گئے ۔ ہڈیوں کی مُٹھ بنے مکھیوں بھرے چہرے والے نشئی میرے مردہ بدن کی رنگت اور ملائمت پر بھی رہو مچھلی کا گمان کر کے رالیں ٹپکاتے رہے۔
ٹھہرے پانی کی امس ۔۔۔
چپچپاہٹ۔۔۔
چائنا کے سستے موبائلوں کی فلیش۔۔
بلآخر کئی گھنٹے کے تماشے کے بعد لا وارث جان کر پولیس نے مجھے یہاں پہنچا دیا۔
مجھے تو وارثوں کا انتظار ہی نہ تھا۔ سارے جسم وارث کب چاہتے ہیں کہ کہیں ان کے وارث ان کی کہانی سن کر ان کی شناخت سے ہی انکار نہ کر دیں۔
یہ سرد ہال جس میں ہلکی کسیلی موت کی بساند پھیلی ہے۔ ٹھنڈے جسموں سے بھری ایک پوری دنیا ہے جہاں سب کی اپنی اپنی کہانی ہے ۔۔۔۔ میں کتنوں کی کہانیاں سناؤں بھلا۔۔۔؟ کون یاد رکھے گا۔۔۔؟ ہم سب ان میں سے نہیں جن کے قصے عمر بھر یاد رکھے جاتے ہیں۔ کچے پکے قصے اور قصوں کے ہم جیسے بونے کردار۔
سانپ چنبیلیوں پر زہر تھوکتے رہیں گے اور خوشبو وہیں پڑی کہیں گلتی سڑتی رہے گی۔۔۔
دور کہیں چٹخنی گرا دی جائے گی ۔ لالٹین منڈیر پر جلتی رہ جائے گی مگر جانے والے نہیں آئیں گے۔ گُم ہو جائیں گے۔ سرد ہال کی نمبروں والی میزوں کی گنتی بنتے رہیں گے۔
میرے جسم کو “عزت” دینے کی تاکید کرتے ہوئے اس سفید کوٹ والے بوڑھے نے اردگرد کھڑے لڑکے لڑکیوں کو دکھانے کے لیے سفید کپڑا میرے جسم سے ہٹا دیا ہے۔۔۔۔ دو گھنٹے بوڑھا میرے اعضا کو چھوکر سفید کوٹ والے لڑکے لڑکیوں کو کچھ بتاتا رہا ہے۔
میرا جسم تھک چکا ہے۔ موت کے بعد قبر سکون دیتی ہے مگر مجھے لگتا ہے ہم ” آدھی خود کشی” کیے لوگ ہیں جنہیں زندگی کی اذیت کے ساتھ ہر لمحہ مرتے رہنا تھا اور مرنے کے بعد بھی نمبروں کی چٹیں پاؤں سے باندھے اپنی باری کا انتظار اس سرد ہال میں پڑے کر رہے ہیں۔ کب ہماری ہڈیوں کی گنتی شروع ہو ۔۔۔ کب ہمارے پیٹ چاک کیے جائیں۔
پوری زندگی کا سکھ نہ پوری موت کا۔
ہم وہی ہیں جنہیں بد دعا دی گئی کہ ہمیں قبر بھی نصیب نہ ہو۔
مقدس بھیڑوں کے جلنے کی بُو کسی قدیم قصے سے آ رہی ہے ان کے مقبرے تیار ہو رہے ہیں اور ہمیں زمیں نے اپنی گود میں اتارنے کا اذن نہیں بخشا۔
ہمیں کوئی چٹھی نہیں آتی نہ ہی ہمارےلیے چھال میں لپٹی کوئی مقدس کھجور آتی ہے۔
ہماری گواہی کے لیے غیب سےکوئی آیت نہیں اترتی۔
ہم آسمان اور زمین کے درمیاں معلق ہیں۔
ہم مجبور ہیں۔
مہجور ہیں۔
رنجور ہیں۔
مجھے قبرستان میں مختلف ناموں کے کتبوں والی قبروں پر پڑے زرد پتے اور خشک کالے گلاب اتنے اچھے کیوں لگتے تھے یہ اب مجھے پتہ چلا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ خودکشی میں بھی ایک قاتل ضرور ہوتا ہے۔۔ کیا آدھی خود کشی میں بھی کوئی قاتل ہوتا ہے؟۔۔۔
میں رضیہ تھی کہ رادھا۔۔؟۔ مالتی تھی کہ نور۔۔؟۔ جانے میرا نام کیا تھا۔ اب تو میں صرف میز نمبر 7 کا جسم ہوں۔
میز نمبر سات کا اسسٹنٹ لڑکا اس میز پر پڑے جسم کو گھور رہا ہے اور ایسا بھرپور جوان جسم دیکھ کر اسے چھونے کی بے چین کر دینے والی خواہش کے زیر اثر ، اس کی بھیگتی مسوں کے اوپر ناک کے نتھنے پھڑاپھڑا رہے ہیں کیونکہ اس نے ابھی تک کسی لڑکی کے ممنوعہ اعضا کو چھو کر نہیں دیکھا۔۔۔