غزل ۔۔۔ ثروت جہاں
غزل
ثروت جہاں
تیرگی کا روشنی سے رابطہ پیہم کھلا
بعد صدیوں کے تمھارے نام کا سم سم کھلا
خال و خد خود میں سمیٹے سو گیا سیمی بدن
وحشی ہوا کے زور سے بندِ قبا یکدم کھلا
زہر خند لہجہ نہیں مثلِ حلاوت ہو سکا
اطلس و کمخواب بن کے ذات کا ریشم کھلا
آمادہ ِ لذت ہمیشہ سے رہی دیوانگی
سلسلہ ہائے جنوں عقل پہ کم کم کھلا
پیاس کی حرمت کی خاطر بادلوں کا قافلہ
وحشتوں کا اذن پا کر دشت پہ تھم تھم کھلا
دیکھو نگلتی جا رہی ہے چاند کو تیرہ شبی
رہنے دینا ہجر کی شب آنکھ کو جانم کھلا
لاچار کی افسردگی تشنہ لبی نہ سہہ سکی
پھٹ گئی اس پل زمیں اور وہ زم زم کھلا
Facebook Comments Box