چھید ۔۔۔ مائرہ انوار راجپوت
|
چھید
مائرہ انوار راجپوت
جتنی سفاک زندگی میرے ساتھ تھی اس سے کہیں زیادہ سفاک اور ظالم میں خود اپنے ساتھ تھی۔۔۔۔
ایک ہی تجربہ بار بار ہونے کے باوجود خوش فہمیوں کی اونچی اونچی مگر کمزور بنیاد والی عمارتیں کھڑی کر لینا شاید میری فطرت تھی۔
جسامت کے لحاظ سے بظاہر میں کمزور تھی مگر ذہنی طور پر میں ہمیشہ سے بہادر رہی تھی۔ چھ سال سے مہلک مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود میں خود کو ذہنی طور پر آج بھی اتنا ہی بہادر سمجھتی تھی لیکن ایسا نہیں تھا اب میں کمزور ہوچکی تھی۔ بےبسی اور لاچاری کی کیفیت مجھ پر حاوی رہتی تھی۔ ہر وقت اداس رہنا، بات بے بات رونا، خود کو تنہا محسوس کرنا۔۔۔ ان سب چیزوں نے مجھے دھیرے دھیرے سچ مچ اکیلا کر دیا۔ میں اپنے سوشل سرکل میں اپ ڈیٹ اور ایکٹو رہنے والوں میں سے تھی۔ مگر اب میں لوگوں سے دور ہو گئی تھی۔ سوشل لائف مکمل طور پر ختم کر چکی تھی۔ حتیٰ کے اپنے بچوں سے بھی دور ہو گئی۔زندگی کو زندہ دلی سے جینے والی اب زندگی سے بیزار ہو چکی تھی۔ اس سب میں بیماری کا بھی تھوڑا بہت عمل دخل رہا مگر میں اس سب کی وجہ بیماری کو نہیں سمجھتی کیونکہ بیماری کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا تھا۔ دس سال کی میں عمر پہلی بار میرے مہروں میں درد اٹھا۔ پھر ساری عمر جسم کا کوئی نا کوئی حصہ کسی نا کسی بیماری میں مبتلا ہو کر گھلتا رہا۔میرے بیمار جسم سے سب سے زیادہ پریشان میری ماں رہا کرتی تھیں وہی روایتی ڈر “کنواری لڑکی بیماری میں مبتلا ہے کون شادی کرے گا”۔۔۔۔ مگر جاوید نے ایک بیمار عورت سے شادی کرکے روایتی خوف غلط ثابت کر دیا اس لیے میرے خیال سے بیماری نے میرا کچھ نہیں بگاڑا جب تک میرا ہاتھ جاوید کے مضبوط ہاتھ میں رہا۔ جس روز اس نے ہاتھ چھوڑ دیا اسی دن سے زندگی بھربھری ریت کی مانند میرے ہاتھ سے پھسلنے لگی۔۔۔۔۔
دراصل کبھی کبھی زندگی بہت کچھ عجیب کرتی ہے۔۔۔ یا شاید زندگی میں سب کچھ عجیب ہوتا ہے۔۔۔ مگر بہت کچھ زیادہ عجیب ہوتا ہے۔۔ یہ آستین کا سانپ بن جاتی ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے بہت سے سانپ ہماری آستین میں ہوتے ہیں جن سے ہم خود بےخبر ہوتے ہیں۔ میری آستین میں بھی زندگی کے علاوہ بہت سے سانپ تھے۔ جن کے ڈسنے سے مجھے موت نہیں آئی مگر پھر میرا شمار زندہ لوگوں میں بھی نہیں رہا۔۔۔۔
میری اور جاوید کی شادی محبت کی شادی تھی۔ شادی سے پہلے یہ یک طرفہ محبت تھی۔ صرف جاوید کی جانب سے۔۔۔ شادی کے بعد میری کل کائنات جاوید بن گیا۔ پھر مجھے اس سے شدید محبت ہو گئی۔۔ بےحد محبت۔۔۔۔ ایسی عام محبت نہیں جو ہر بیوی کو اپنے شوہر سے ہوجاتی ہے بلکہ ایسی محبت جو محبوب سے ہوتی ہے۔ بیویوں کی محبت خاص نہیں ہوتی جیسے بیویاں خاص نہیں ہوتیں۔۔۔ شادی بھلے زبردستی کی ہی ہو عورت کو پہلے بچے تک شوہر سے شدید محبت ہو ہی جاتی ہے۔ ایسی محبت جس میں عادت اور ضرورت کے اجزاء زیادہ پائے جاتے ہیں۔ عورت اس معاملے میں سمجھدار ہوتی ہے وہ جانتی ہے کہ اسکے بچے کی کفالت بہترین انداز میں خود کو بیچ کر اس شخص کے سوا کوئی نہیں کر سکتا اس لیے عورت دو بھاری تھپڑ کھا کر اور چار موٹی گالیاں سن کر بستر پر کروٹ کا رخ تو بدل لیتی ہے مگر چھت نہیں بدلتی۔ دراصل میاں بیوی کی محبت ایسی محبت جو شادی کے بعد ہو وہ ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے جاوید سے ضرورت کی محبت نہیں تھی کیونکہ اگر جاوید بچوں کی کفالت نہ بھی کرتا، بڑا بزنس مین ہونے کی بجائے کوئی ٹھیلہ لگانے والا بھی ہوتا مجھے تب بھی اس سے ایسی ہی محبت ہوتی۔ لیکن جاوید جیسے خوبرو اور بہت خیال رکھنے والے شوہر سے ایسی محبت ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔
شادی کی اولین سرشاری کا ذکر ہے ایک شام میرے سر میں درد اٹھا یہ درد اتنا تشویشناک نہ تھا مگر پھر بھی جاوید ساری رات جاگتا رہا۔ شاید اسے شک تھا کہ اسکی آنکھ لگتے ہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاؤں گی۔ اپریل کے آخری دن تھے۔ کمرے میں پنکھے کی غنودگی بھری آواز آوارہ پھر رہی تھی۔ صبح اذان ہونے سے تھوڑی دیر پہلے میری آنکھ کھلی تو جاوید کھڑکی کے پاس کھڑا تھا۔ میں بھی اسکے قریب جا کر بیٹھ گئی۔
“آپ سوئے نہیں؟” میں جواب جانتی تھی پھر بھی نجانے کیوں یہ سوال پوچھا۔
“اب تمہاری طبیعت کیسی ہے؟” میرے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے جاوید نے پوچھا تو روئی میرے گلے میں پھنس گئی۔۔ میری آنکھ میں کچھ چبھنے لگا تھا۔
“آپ۔۔ آپ اس قدر محبت نہ کیا کریں مجھ سے”۔۔ میں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا
مجھے ایسی محبت سے بہت خوف آتا ہے۔ ایسی شدید محبتیں پائیدار نہیں ہوتیں۔
“تم بھی تو مجھ سے شدید محبت کرتی ہو کیا تمہاری محبت پائیدار نہیں؟”۔۔۔ جاوید نے مسکرا کر کہا
میری محبت بہت گہری اور پائیدار ہے۔ مگر میں سوچتی ہوں اگر مجھ سے بہتر کوئی عورت آپکی زندگی میں آ گئی تو میں کیا کروں گی۔ میں کیسے مقابلہ کروں گی۔ مجھ میں تو حوصلہ ہی نہیں مقابلہ کرنے کا۔ شاید میں مقابلہ نہ کروں۔۔۔ لیکن فتح کے بعد لوٹ جانا، اپنی متاع کسی کو سونپ دینا تو آسان نہیں نا!”
“تمہارے سوا میری زندگی میں اب کوئی ضروری نہیں۔۔ میرے لیے تم دنیا کی بہترین اور خوبصورت ترین عورت ہو.. ایسی باتیں نہ سوچا کرو”۔۔ جاوید نے میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر تسلی دیتے ہوئے کہا۔ جاوید اکثر ایسے ہی تسلی دیتا تھا مگر میرا دل اسکی تسلیوں سے بھی گھبرانا نہیں چھوڑتا تھا نہ ہی میرے وہم اور خدشے کم ہوتے تھے۔ میں اپنے آپ سے کہتی گئی”جب وہ آئے گی تو میدان خالی پائے گی۔ میں خزانے پر سانپ بن کر پہرا نہیں دونگی۔۔۔ مجھے اگر یقین ہوگیا کہ آپ کی خوشی اس سے وابستہ ہے تو میں آپ سے یوں علیحدہ ہو جاؤں گی جیسے سوکھا پتا ڈالی سے گرتا ہے خود بخود ۔۔۔۔
میں جاگتے چہرے اور سوئی آنکھوں کے ساتھ اپنے مستقبل کے بھیانک تصور سے لرز رہی تھی۔ اور جاوید مجھے تسلیاں دے رہا تھا، قسمیں کھا رہا تھا، وعدے کر رہا تھا۔ مجھے وہ رات آج بھی یاد تھی۔
شادی کے چار سال تک ہم اولاد کی نعمت کے لیے ترستے رہے پھر اللہ نے ہمیں اوپر تلے تین بچے دیے۔ دو بیٹیاں ایک بیٹا۔۔ تینوں بچے اپنی زندگی میں خوش ہیں۔ بڑی بیٹی شارجہ اپنے شوہر کے پاس رہتی ہے دوسری بیٹی اسلام آباد میں ہی رہتی ہے۔ بیٹا انگلینڈ رہتا ہے وہیں تعلیم مکمل کرکے اس نے شادی کر لی۔ بچوں کے معاملے میں ہم روایتی ماں باپ ثابت نہیں ہوئے بلکہ ہم نے انکی زندگی کے فیصلوں میں انکو آزاد رکھا۔
چار سال پہلے جب پاکستان کے ڈاکٹرز نے میرے علاج سے ہاتھ اٹھا لیے تو جاوید مجھے علاج کی غرض سے امریکہ لے آیا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکہ کے آسمان پر کوئی دوسرا خدا نہیں رہتا۔ چار سال سے میں امریکہ میں ہی ہوں۔جاوید کا کاروبار پاکستان میں بہت پھیلا ہوا ہے اس لیے وہ میرے پاس مسلسل نہیں رک سکتا۔ بیچ بیچ میں بچے اور جاوید میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ ان چار سالوں میں، میں بس ایک بار پاکستان گئی جب اپنے گھر کی یاد نے ستایا۔ وہ گھر جس کو میں نے بہت محبت سے بنوایا اور لاڈ سے سجایا تھا۔ میں نے اس گھر کی ایک ایک شے بہت چن کر خریدی تھی یوں بھی میری سبھی سہلیاں کہا کرتی تھیں “نفیسہ تمہاری چوائس لاجواب ہے”
میں نے اور جاوید نے جو آخری رات اپنے گھر میں ایک ساتھ گزاری تھی اس رات میں نے جاوید سے بہت سے وعدے لیے تھے۔ میں نے اپنی آدھی سے زیادہ عمر جاوید کے ساتھ گزاری تھی اس تمام عرصہ میں وہ میرے ساتھ کھڑا رہا، میری ڈھارس بنا رہا میری بیماری پر بھی کبھی اسکے ماتھے پر بل نہ آیا میں اکثر جاوید سے کہتی تھی کہ دوسری شادی کر لو مگر جاوید کبھی نہیں مانا بلکہ میری اس بات پر وہ ہمیشہ خفا ہو جاتا اور میرے اندر تک سکون اتر جاتا۔ میں بھی یہ بات شاید اس کی نہ سننے کے لیے ہی کہتی تھی میں جانتی تھی کہ میں اسکی تمام ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔ میں تو رشتہ ازدواج کا مکمل حق بیماری کے باعث ادا نہیں کر پاتی تھی۔ اس کے باوجود میرے اندر کی عورت چاہتی تھی جاوید کسی دوسری عورت کی طرف رجوع نہ کرے۔ شاید اسی لیے اس روز بھی میں نے جاوید سے بہت سارے وعدے لیے، قسمیں لیں اور میری تسلی کے لیے وہ وعدے کرتا گیا، قسمیں کھاتا گیا۔۔۔۔ مگر فقط تسلی کے لیے۔۔۔ تمام عمر میں نے اپنا بیمار جسم جاوید کے ساتھ لپٹائے رکھا اب میں مرنے کے بعد بھی اسے اپنی یادوں کے ساتھ ہی لپٹائے رکھنا چاہتی تھی۔ محبت خود غرض نہیں ہوتی مگر بیوی کی محبت شوہر کے لیے دوسری عورت کے معاملے میں بڑی خود غرض اور بےرحم ہوتی ہے۔ حالانکہ مجھے یقین تھا کہ میری بیماری کے باوجود جاوید نے کبھی کسی دوسری عورت کی طرف رجوع نہیں کیا۔۔
میں نے تو گھر کی لینڈ لائن پر جاوید سے بات کرنے کے لیے فون کیا تھا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ فون ایسے وقت پر کیا جب جاوید دفتر ہوتا ہے۔ میں نے ایسا شاید جان بوجھ کر کیا ۔۔۔ فطرت سے مجبور ہو کر۔۔۔
“ہیلو” دوسری جانب سے کسی عورت کی آواز آئی
“کون بول رہی ہو” میں نے تنک کر پوچھا حالانکہ اندر سے میں ڈر گئی تھی میرا دل چاہا میں اسکے جواب سے پہلے اسکے منہ پر میخیں لگا دوں وہ کچھ نہ کہہ سکے
“میں مسسز جاوید”
“جاوید نے دوسری شادی کر لی؟؟” اس کی قسموں اور وعدوں کی عمر اتنی مختصر تھی کیا۔۔۔
دوسری طرف وہ لمحہ بھر کو خاموش رہی پھر بولی ” وہ تو مجھے بہت پہلے چھوڑنا چاہتا تھا مگر میں نے چند جاننے والوں سے اس پر زور ڈلوایا، منتیں کی۔۔۔ دراصل وہ اپنی پہلی بیوی سے بےحد محبت کرتا ہے۔ اور میں اس سے بے حد محبت کرتی ہوں”
“کیا تم نے اسکا عالیشان گھر اور پیسہ دیکھ کر اس سے شادی کی” میں نے تلخی سے کہا
“نہیں یہ گھر تو میں نے اب دیکھا شادی کو عرصہ ہوچلا۔۔۔ اس سے پہلے میں ایک چھوٹے گھر میں رہتی تھی”
“کتنا عرصہ ہوا شادی کو؟” میں نے ڈوبتے دل سے پوچھا
“یہی کوئی دس سال… دس سال پہلے جاوید کا ایک دوست انہیں میرے پاس لایا تھا اس وقت اسے ایک عورت کی ضرورت تھی اور مجھے شوہر کی۔۔۔ میں گناہ کی دنیا سے تنگ آ چکی تھی اس لیے میں نے کسی کمزور لمحے کا سہارا لے کر جاوید کو نکاح پر آمادہ کر لیا۔ اس نے اپنی پہلی بیوی جتنا رتبہ مجھے کبھی نہیں دیا۔ مجھ سے وہ بس حلال طریقے سے جسمانی ضرورتیں پوری کرتا رہا اور بدلے میں مجھے چھت دی”
چھت ہی تو ضرورت ہوتی ہے۔۔ عورت کی ضرورت جسے وہ گھر کا نام دیتی ہے۔ مرد کو کل وقتی خادمہ کی ضرورت ہوتی ہے، حلال طریقے سے جسمانی خواہشات پوری کرنے کے لیے ایک عورت درکار ہوتی ہے اور عورت کو چھت ۔۔۔۔ یوں یہ معاہدہ طے پاتا ہے جسے شادی کا نام دیا جاتا ہے۔
“آپ کون ہیں, اور جاوید سے آپکو کیا کام ہے” اس نے پوچھا
“جاوید کو کہنا نفیسہ کا فون آیا تھا” میں نے کہہ کر ریسیور رکھ دیا۔ میں اسے یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ میں جاوید کی پہلی بیوی ہوں مگر میں اس کے سامنے بھرم نہیں گنوانا چاہتی تھی۔ میرے لیے یہ اذیت ناک تھا کہ میرے محبوب شوہر نے کمزور لمحات میں محبت کے اظہار کے وہ کلمات جو وہ مجھے کہتا ہے اور جن پر فقط میرا حق ہے وہ کلمات کسی دوسری عورت کو بھی کہے ہوں، وہ سینہ جہاں میں سر رکھ کر زندہ رہنے کی تمنا کرتی تھی وہاں کسی دوسرے عورت نے سر رکھا ہو۔ میں اس عورت سے لڑنا چاہتی تھی، اسکا منہ نوچ لینا چاہتی تھی، اسے گالیاں بکنا چاہتی تھی مگر میں نے ایسا کچھ نہیں کیا میرے وجود میں اتنی طاقت ہی نہیں رہی۔۔۔ اب میں اچانک سے چند منٹوں میں جسمانی اور ذہنی طور پر بےحد کمزور ہوگئی ۔۔۔ مجھے اپنے جسم پر، روح پر چھید محسوس ہوئے۔۔۔ جیسے نوکیلے کیل اور میخیں میرے جسم اور روح پر ہتھوڑے سے ٹھونک کر نکال دی ہوں اور چھید رہ گئے ہوں۔
یوں جب وہ آئی تو میں نے میدان خالی چھوڑ دیا۔ میں نےخزانے پر سانپ بن کر پہرا نہیں دیا۔۔۔ مجھے یقین ہوگیا کہ جاوید کی خوشی اس سے وابستہ ہے۔ جاوید اسکے ساتھ ایک بہتر اور مکمل زندگی گزار سکتا ہے اس لیے میں نے خود کو جاوید سے یوں علیحدہ کر لیا جیسے سوکھا پتا ڈالی سے گرتا ہے خود بخود ۔۔۔۔
لیکن فتح کے بعد لوٹ جانا، اپنی متاع کسی کو سونپ دینا تو آسان نہیں نا!۔۔۔ چھید تو ہوتے ہیں نا!