عشق کا سجدہ ۔۔۔ عدیل منظور رڈ
عشق کا سجدہ
عدیل منظور رڈ
مغرب کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی نا جانے کتنے عرصہ بعد اس کے ذہن میں خیال آیا کہ آج کیوں نا اپنے خالق کے حضور عشق کا سجدہ کیا جائے اس کے ذہن میں ایک سوال نے جنم لیا!! بھلا کیا خواجہ سرا بھی اپنے اللّه کو عشق کا سجدہ کر سکتے ہیں؟؟؟ وہ خود سے ہم کلام ہو کر کہنے لگی کیا فرق پڑھتا ہے اگر لوگ کہتے ہیں کہ ایک خواجہ سرا اپنے رب کو عشق کا سجدہ نہیں کر سکتی ہم خواجہ سرا ویسے بھی تو اس معاشرے سے باغی ہی ہیں اور ہم وہ ہیں کہ جو فقط اپنے دل کی غلامی کرتے ہیں چلو آج خدا کے حضور طویل ترین عشق کا سجدہ کر ہی لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ مؤذن کی آواز کے ساتھ اپنے ذہن کی کشتی میں بیٹھ کر اللّه کی طرف سفر کرنے لگی۔۔۔۔
اذان جیسے ختم ہوا اس نے اپنے میلے بدبودار بستر سے وضو کے لیے اٹھنا ہی چاہا کہ اس کے قریب آ کر اس کی سہیلی نے ایک زور دار تالی بجائی اس تالی کی آواز حضرت اسرافیل کے صور کی مانند تھی کہ جس نے حنا کے دل کے قبرستان میں دفن سارے مردے جگا دیئے وہ سارے مردے کہ جو بچپن سے لیکر جوانی تک اس کی نیند کے دشمن رہے ہیں جو ایک خواجہ سرا کو کئی راتوں تک سونے نہیں دیتے اور اسے نیند سے محروم رکھتے ہیں۔۔۔۔۔
اس کی سہیلی نےحنا کے بازو پر زور سے چٹکی کاٹی ہائے اللّه ابھی تک تیار نہیں ہوئی چل ری جلدی کر مغرب کا وقت ہو گیا ہے
تیار ہو جا ہم نے بھیک مانگنے جانا ہے اور ہاں آج وہ سیاہ رنگ کا جوڑا پہننا اس میں تمہارا یہ گورا رنگ اور بھی چٹا گورا لگنے لگتا ہے تیرے حسین دکھنے کی وجہ سے گلی کے بدمعاش لڑکے ہمیں پاس بلا کر کتنا تو تنگ کرتے ہیں نا لیکن پیسے بھی تو اچھے خاصے دیتے ہیں اور اگر آج نہیں گئے تو کل سارا دن تم مرتی رہنا بھوک سے بلکہ کل کا دن روزہ رکھ کر گزار لینا ویسے بھی تیرے پاس ایمان کے علاوہ ہے ہی کیا روزہ سے ثواب بھی حاصل ہوگا تجھے اور بھوک کا طعنہ بھی کوئی نہیں دیگا۔۔۔۔۔ اس کی سہیلی نے زور سے ہنسنا شروع کر دیا ہاہاہا۔۔!! اچھا سن حنا کیا خواجہ سرا کو بھی ثواب کی ضرورت ہوتی ہے کیا ہمیں بھی جنت کی خواھش رکھنی چاہیے؟؟؟ حنا نے اپنی سہیلی کو یوں محسوس کروایا مانو اس نے اپنی سہیلی کا سوال سنا ہی نہ ہو یا پھر اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس کے سوال کا۔۔۔۔ حنا بستر پر سے اٹھی اس نے دور پڑی جائے نماز کی طرف دیکھا اس نے چاہا کہ آج عشق کا سجدہ کر لوں خدا کے حضور لیکن اسے عبادت سے زیادہ ان ننھے خواجہ سراؤں کے پیٹ کی فکر تھی جن کو لوگ حنا کے پاس چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جن کے لیے اب ماں بھی حنا ہے تو باپ بھی حنا ہی ہے اس کے قدم جائے نماز کی طرف بڑھنے کے لیے تیار ہرگز نہ تھے وہ اپنے کمرے میں پڑی ایک لوہے کی الماری کی طرف بڑھی جس پر دھول پڑی ہوئی تھی ایسا لگتا تھا کئی دنوں سے کسی نے اس الماری کو صاف تک نہیں کیا اس نے الماری میں سے میک اپ کا سامان نکالا اور آئینہ کے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس غلیظ بستر پر بیٹھی آئینہ کے سامنے ایک حسین دوشیزہ کی طرح خود کو سنوارنے لگی اس نے اپنے ہونٹوں پر لپسٹک لگا کر ایک درد بھرا قہقہہ لگایا اسے بچپن کے دن یاد آ گئے جب وہ اسی طرح اکثر اپنی والدہ کی لپسٹک لگایا کرتی تھی اور والدہ اسے یہ سب کرتا دیکھ کر خوب ہنسا کرتی اس کے روئی کی مانند نرم گالوں کو چوم لیا کرتی تھی۔۔۔۔۔
ہنستے ہنستے اچانک اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ قہقہہ ایک درد بھری چیخ میں بدل گئا اسے یاد آنے لگا کہ اسی محبت کرنے والی ماں نے کیسے اسے گھر سے دھکے مار کر نکالا پھر وہ گہری سوچ میں پڑ گئی کیا ایک ماں کو صرف لڑکے اور لڑکیاں اولاد کے طور پر پسند ہوتی ہیں کیا جب ایک ماں کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی اولاد خواجہ سرا ہے تو اس کی ممتا اس کی وہ محبت سب نامرد بن کر ایک خواجہ سرا کی طرح بےبس و لاچار رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔
حنا ہاتھ میں لپسٹک لیے کئی منٹ تک اپنی والدہ کے متعلق سوچتی رہی کیا سب مانئیں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ نہیں سب کی مائیں بھلا اس طرح پتھر دل کیسے ہو سکتی ہیں ماں تو ماں ہوتی ہے کہ جس کے قدموں کے نیچے خدا نے اولاد کے لیے جنت رکھی ہے لیکن کیا وہ جنت خواجہ سرا اولاد کے لیے بھی ہوتی ہے یا فقط لڑکے اور لاڑکیوں کے واسطے ہوتی ہیں۔۔۔
نہیں نہیں اللّه نے کہا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے اولاد کے لیے جنت ہے ایسا تو نہیں کہا میرے اللّه نے کہ وہ جنت خواجہ سرا بچوں کے لیے ہرگز نہیں۔۔۔۔۔
حنا آئینہ کے سامنے بیٹھی سوچ کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی کہ اچانک سے اس کے گھر کا دروازہ کسی نے زور سے کھٹکھٹایا اور وہ دروازہ مسلسل کوئی کھٹکھٹاتا رہا۔۔۔۔۔۔ حنا نےاپنی سوچ کے سمندر سے باہر نکل کر جواب دیا ابھی آئی ذرا رکو حنا کا آواز سنتے ہی دروازہ جو مسلسل کوئی شخص کھٹکھٹا رہا تھا اب دروازہ کھٹکھٹانا بند کر دیا حنا اٹھی پتا نہیں کیا قیامت آ پڑی ہے اس شخص پر جو مسلسل دروازہ کھٹکھٹائے جا رہا ہے ارے بھائی ہم خواجہ سرا ہیں مردانگی کے علاوہ سب کچھ ہے کان بھی ہیں اللّه کے فضل سے سن سکتے ہیں کہ کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے اور دروازہ کی طرف چل پڑی لیکن حنا سے پہلے اس کی سہیلی نے دروازہ کھول رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک بہت ہی معصوم ننھا سا بچا تھا حنا کو سہیلی نے بتایا کہ پتا نہیں کون اسے یہاں چھوڑ کر گیا ہے ہائے حنا دیکھو تو کتنا پیارا بچا ہے حنا نے اپنی سہیلی پر کوئی توجہ نہ دی اس نے جلدی سے دروازہ سے باہر نکل کر دیکھا سیاہ رنگ کا برقع پہنے ایک عورت کار میں بیٹھ رہی تھی حنا نے اسے آواز دینی چاہی لیکن وہ کار میں بیٹھ کر حنا اور اور اس ننھے بچے سے کہیں دور چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔