تاریخی شعور ۔۔۔ ڈاکٹر مبارک علی
تاریخی شعور
( ڈاکٹر مبارک علی )
انسانی معاشرہ کی ساخت بڑی پیچیدہ اور مشکل ہے, اسی لئےعلم کا سب سےبڑا مقصد انسان،اس کےافعال اور اس کےذہنیت کو سمجھنےکی کوشش ہے- تاریخ انسانی عمل اور انسانی معاشرہ کو سمجھنے میں بڑی مددگارہوتی ہے,کیونکہ اس کےذریعہ ماضی میں ہونےوالےہر واقعہ اور تحریک کاتجزیہ کیاجاسکتاہے اور اس کےذریعہ اس تہہ تک پہنچا جا سکتاہےکہ کس خاص مرحلہ پرایک خاص قسم کےافکارونظریات کیوں مقبول ہوتےہیں اور یہ کہ ان کےپس منظرمیں کون سےطبقات اورجماعت کےمفادات ہوتےہیں-
تاریخ کو اِس نقطہ نظرسے پڑھنا ضروری ہےکہ واقعات اورافکارکے تجزیہ میں طبقاتی و گروہی مفادات کو دیکھاجائے-ایک مرتبہ جب تاریخی شعور اس قدر پُختہ ہوجائے کہ وہ دوسرےکےسماجی،سیاسی اور معاشی عمل میں طبقاتی مفادات کی نشاندہی کرسکےتوپھرنہ صرف ماضی کوبہترطریقہ سےسمجھاجاسکتاہے بلکہ حال اورمسقبل کےبارےمیں فیصلہ کیاجاسکتاہے-
ماضی میں جوبھی واقعات ہوئےیا تاریخی عمل کےنتیجہ میں جوبھی نظریات وافکارپیداہوئے ان میں طبقاتی مفادات نے اہم کردار اداکیامثلا” جب یونان اور روم میں غلامی کا اِدارہ مستحکم ہوگیااور حکمران طبقےاِن غلاموں کی وجہ سےمحنت ومشقت سےبچ گئےتو اب یہ ان کےمفاد میں تھاکہ غلامی کے اس اِدارےکوہمیشہ کےلئےباقی رکھا جائےاورایسی روایات واقدارکوفروغ دیاجائےجِن کےذریعہ نہ صرف یہ کہ غلام اپنی حیثیت وحالت سے مطمئن رہیں بلکہ معاشرےکےدوسرے لوگ بھی اسے فطری سمجھیں-اِس وجہ سےیونانی مفکرین اورفلسفیوں میں غلاموں کوعام انسان تسلیم کرنےسے انکارکردیا- “ارسطو”نےتویہاں تک کہاکہ غلاموں کاجسمانی نظام عام انسانوں سےمختلِف ہوتاہےاس لئےانہیں جو بیماریاں ہوتی ہیں وہ بھی عام انسانوں سےمختلف ہوتی ہیں-اس کامقصد یہ تھاکہ لوگوں میں غلاموں کےلئےہمدردی کےجذبات پیدا نہ ہوں اور ان کےساتھ جوغیرانسانی برتاؤ ہوتاہے اسےوہ فطری سمجھتے ہوئے جاری رکھیں-یہی وہ طبقاتی تقسیم تھی جس کےتحت معاشرہ میں اس نظریہ کوفروغ دیاگیاکہ ذہنی اور جسمانی محنت دوعلیحدہ علیحدہِ طبقوں کےلئےمخصوص ہیں-ذہنی محنت کرنےوالےاعلی’ وبرترہیں اس لئے حکومت کرنےکاحق انہی کو ہےجبکہ جسمانی محنت کرنےوالے کمتراور ذلیل لوگ ہیں اور اِن کاکام بالادست طبقہ کی خدمت کرناہے- اِسی نظریہ کےتحت قدیم ہندوستان میں برہمنوں نےذات پات کی تقسیم کوپیداکیاجس میں ان کی بالادستی ہمیشہ کےلئےقائم ہوگئی-
یہی نظریہ پورےجاگیردارانہ دورمیں بےانتہامقبول رہا کیونکہ اِس کےذریعہ یہ ممکِن تھاکہ کسانوں، مزدوروں اور دستکاروں کودباکررکھاجائے یہاں تک کہ ہاتھ سےکام کرنےوالا معاشرہ میں انتہائی حقیرمخلوق سمجھاجانےلگا اورکام کرنےوالےسےلفظِ کمین نکلا جوآج ذلیل کےمعنوں میں استعمال ہوتاہے-برہمنوں کی اِس بالادستی کےخلاف جب “بدھ” نےآواز اُٹھائی تو اُس کامقصدبھی ذات پات کوختم کرنانہیں تھابلکہ “کھشتریوں” کی بالادستی کوقائم کرناتھااس لئے ذات پات کی تقسیم میں کھشتری آول درجہ پرآگئےاوربرہمن دوسرےپر اوریہی وجہ تھی کہ بدھ مذہب کو کھشتری حکمرانوں نےقبول کرلیا کیونکہ اِس کی وجہ سےاُن کاسماجی ومذہبی رتبہ بلندہوگیامگر دوسری نچلی ذاتوں کی زندگی میں اِس سے کوئی تبدیلی نہیں آئی-
جین مذہب اپنی آمن پسندی کیوجہ سےہندوستان کےتاجرطبقہ میں مقبول ہوا اِس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ تاجرطبقہ کی خوشحالی اور تجارت کےفروغ کےلئےآمن وآمان سکون کاہوناضروری ہوتاہےاِس لئےوہ ہراُس مذہب اورتحریک کی حمایت کرتےہیں جس میں انتِشارکودور کردیا جائےاورجس کےذریعےجنگ وجِدل اورقتلِ عام کوروکاجائے-
مسلمانوں کی تاریخ کےسیاسی عمل کو بھی گروہی اورطبقاتی مفادات کےپس منظرمیں بہترطورپرسمجھاجا سکتاہے-“اُمیہ” دورِحکومت میں “مَرحبہ” اور “قادریہ”فرقوں کواِس لئےحکومت کی سرپرستی رہی کہ اُن کےعقائدکےذریعہ اُمیہ حکومت کو اپنےقیام کاجواز ملتاتھا-اُمیہ اور عباسی دورمیں ایرانیوں میں قومیت کی اِبتِداء ہوئی کیونکہ اُنہیں معاشرےمیں مساوی مقام نہیں مِلاتھا اِس لئےوہ اپنےثقافتی ورثہ کو عربوں سےبرترثابِت کرکےاپنےاحساسِ کمتری کودورکرناچاہتےتھے-
ہندوستان کی تاریخ میں ہونےوالے واقعات اورتحریکوں کےپیچھےبھی طبقاتی مفادات نظرآتےہیں- “بھگتی تحریک”اِس وجہ سےشروع ہوئی کہ ذات پات کی تقسیم نے نچلی ذاتوں کوآگےبڑھنےاورترقی کرنےسےروک دیاتھا اِس لئےنچلی ذات کےکچلےہوئے لوگوں نےایک ایسےمعاشرےکےقیام کی جدوجہدکی جوذات پات کی تقسیم سےپاک ہواورجس میں انسان کااحترام بحثیتِ انسان کےہوچونکہ اس تحریک سےنچلی ذات کےلوگوں کےمفادات وابستہ تھےاِس لئےوہ ان ہی تک محدودرہی-اُنہوں نےتعصبات اور تنگ نظری کےخلاف جدوجہدکی کیونکہ اِس کےخاتمہ کےبعدہی وہ معاشرےمیں وہ باعزت مقام حاصِل کرسکتےتھے-
ہندوستان میں مسلمان خاندانوں کے دورِحکومت میں عہدِسلاطین میں صوفیاءکی سرگرمیاں عروج پرتھیں مگر مغلوں کےزمانےمیں صوفی زیادہ سرگرمِ عمل نہیں رہےاس کی وجہ یہ تھی کہ عہدِسلاطین میں مسلمان حکومت کومکمل طورپراستحکام نہیں ملاتھااور ہندو ریاستیں اُن کی طاقت کو برابرچیلنج کررہی تھیں اِس لئے اُنہوں نےصوفیاء کی سرپرستی کی جنہوں نےرواداری کی پالیسی پرعمل کرکےمعاشرےمیں ایک خوشگوار فِضا کو پیداکیا اور ہندو ومسلم کھنچاؤکوکم کیا-اِس پالیسی کی مغلوں کےزمانےمیں اِس لئے ضرورت نہیں رہی کہ اُن کی حکومت مستحکم ہوچکی تھی اوراُسےسیاسی خطرات لاحق نہیں تھے-
اکبرکےزمانےمیں احمد سرہندی مجددالف ثانی کی دربارکےاکثرسُنی علماءنےاِس لئےسرپرستی کی کہ وہ نہیں چاہتےتھےکہ حکومت میں راجپوتوں کوزیادہ عہدےدیئےجائیں-
یورپ میں صنعتی انقلاب کےنتیجہ میں مزدورطبقہ وجودمیں آیاجس نےاگرچہ صنعتی ترقی میں حصہ لیا مگراِس ترقی نےاُس کی اپنی حالت نہیں بدلی اور وہ انتہائی پسماندگی کی حالت میں رہا-اس کےنتیجہ میں سوشلسٹ نظریات پیداہوئےتاکہ مزدورں کواُن کی محنت کاصحیح معاوضہ ملےاورمعاشرے میں انہیں باعزت مقام حاصل ہو- سوشلزم کےاِس چیلنج کومحسوس کرتےہوئے جرمن کےچانسلربسمارک نے اِس بات کااظہارکیاکہ سرمایہ دار طبقہ کی بقاءکےلئےضروری ہےکہ سوشلزم کا مقابلہ سماجی اصلاحات کےذریعہ کرے-اِس لئےیورپ کی حکومتوں میں مزدوروں کومراعات دینےکاسلسہ شروع ہوا تاکہ اِس کےذریعہ سے انقلاب کوروکاجاسکے-
اگرہم برصغیرہندوستان کی موجودہ تاریخ کودیکھیں تویہی گروہی اور طبقاتی مفادات اس کےتاریخی عمل میں نظرآئیں گے-سرسیداحمدخان نے جب انگریزحکومت سےمفاہمت کی پالیسی کواختیارکیا تواِس کافائدہ مسلمان اُمرَاء کےطبقےکوہوا اور اِس ذریعہ سےاُنہیں حکومت کی ملازمتیں ملنے لگیں-
اگرتاریخ کامطالعہ اس نقطہ نظرسے کیاجائےتوتاریخی عمل اور واقعات میں طبقاتی و گروہی مفادات کاسُراغ لگایاجاسکےگا اور یہ معلوم ہوسکےگا کہ کونسی تحریکیں اورنظریات اعلی’ طبقہ کےمفادات کاتحفظ کرناچاہتے تھےاورکونسےافکاروخیالات کی بنیاد عوام دشمنی پرتھی اورکونسی تحریکیں عوام کےمفادات کوبچانے کےلئےپیداہوئی تھیں-اِس نقطہ نظر سےمعاشرہ کےطبقاتی مفادات کاایک ایک پہلوسامنےآجاتاہےاوراِس سےجو تاریخی شعور پیداہوتاہےاُس کی مدد سےحال کےتاریخی عمل اورمستقبل کی رفتارسےاگاہی ہوسکتی ہے-