محبت کی دوسری کہانی ۔۔۔ مریم مجید
محبت کی دوسری کہانی
مریم مجید
شب کے اس پہر ، جبکہ چاند اخروٹ کے درخت کی پھننگ پہ آن ٹھہرا ہے اور دور جنگل میں کسی شب بیدار پرندے کے مسلسل کوکنے کی آواز بوند بوند خاموشی کے درون چھید کرتی ہے تو میں اپنے کاغذ قلم اور سیاہ کافی کا مگ لیے سرخ ٹین کی جھکی ہوئی چھت والے برآمدے میں لکڑی کے نیلے روغن والے ستون سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوں۔۔
مجھے کہانی لکھنی ہے!! کیوں؟؟ کیونکہ مجھے میرے سوا کوئی نہیں سنتا اور میں چاہتی ہوں کہ کوئی تو مجھے سنے!! نہیں رکو!! میں چاہتی ہوں “وہ” مجھے سنے۔ اوہ!! آپ تو اس بے ربط داستان سے الجھنے لگے۔۔؟؟ معاف کیجئے گا مگر یہ داستان بے ربط ہی ہے۔کیونکہ کہانی اور زندگی میں فرق ہوتا ہے اور میں بھی تھک چکی ہوں زندگی کو کہانیوں جیسا انجام دینے کی چاہ میں!(اگرچہ کہانیاں بھی کسی خوشگوار انجام سے دوچار نہیں ہوتیں مگر زندگی ۔؟؟) خیر! آج میں جو کہانی لکھنا چاہ رہی ہوں وہ دراصل تب شروع ہوئی تھی جب مجھے ہواوں کو قاصد بنانے کا شوق چرایا تھا اور میں نے تجسیم سے پہلے کے منجمند وقت میں مل چکے کسی ایسے کو کھوج نکالا تھا جس نے میرا کاسئہ دل کہانیوں سے بھر دینا تھا۔ کہانیاں جن کی ہر سطر اس کے نام تھی اور ہمیشہ رہے گی۔
ستارہ سحر کی جھلملاہٹ تلے یاداشت کے دیوان کا ایک ورق پلٹتا ہے، کہانی آغاز ہوتی ہے۔
وہ ایک ساحر، ایک جادوگر تھا جو مجھے بالکل اچانک تب آن ملا تھا جب میری عمر تیس میں جمع ہونے کے بالکل قریب تھی اور میں اس جیسے کسی شخص کے تصور کو عدم سے وجود میں نہ لا پانے کے سبب زندگی کی موم بتیاں تنہا بجھانے کا ارادہ باندھ چکی تھی۔۔
ہاں بھئی!! ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا، جو آپ کے خانہ دل میں ناخواندہ مہمان کی طرح ہو، اس سے بہتر ہے زندگی اپنے دیکھے ہوئے خواب کی پرچھائیوں کے ساتھ گزار دی جائے۔ اور وہ تو خواب بھی نہیں تھا! ایک زندہ، مجسم اور موجود انسان۔ ان سب خوبیوں اور شخصیت کے اس تال میل کے ساتھ، جو میں نے اپنے خوابوں،اپنے تصورات میں برسوں تراشیں تھیں!! اوہ! میری کافی!! یہ دراصل اس کی پسندیدہ ترین کافی ہے! اور ظاہر ہےمیری بھی۔۔
اخروٹ کی پھننگ پہ ٹکا چاند اب نیچے کو سرک آیا ہے اور جامنی مائل نیلگوں آسمان پہ کہکشاں کے بیچوں بیچ وہ جگمگاتا ہے۔۔وہ جو میرے خانہ دل کو دائم آباد کر گیا،اور وہ جو کسی اور کے تابناک مقدر کا روشن ستارہ ہے۔۔
اوہ!!یہ میری ذہنی رو! معاف کیجئے گا، مگر کیونکہ یہ کہانی نہیں زندگی ہے، تو یہ ربطگی، الجھے گنجلک دھاگوں کی داستان برداشت کر لیجئے گا۔(آخر داستان گو کو بھی تو حق ہے وہ اپنے ساتھ کچھ رحم،کچھ نرمی سے پیش آئے)۔
اس کو کھوج نکالنے پر میں بہت حیرت زدہ تھی۔ کیا سچ مچ خواب مجسم ہو کر بھی سانس لے سکتے ہیں؟؟ اور لے سکتے ہیں تو پھر وقت کی طنابوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار ہونا چاہیے ناں؟ کس قدر زیادتی ہے کہ آپ اپنے خواب کو تب مجسم دیکھیں جب پلکیں لرز کر نیند بس ٹوٹنے کے قریب ہی ہو؟؟
میں نہیں جانتی کہ میرے مقفل دل کو اس نے اتنی آسانی سے کیسے کھول لیا تھا؟ کیا اس کا رکھ رکھاو وجہ بنا؟ یا اس کے وجود سے لپٹی چونکیل کڑواہٹ؟؟ یا پھر اس کی وہ ذہین آنکھیں جہاں لٹ چکے خیموں کے نشان باقی تھے؟ یا پھر اس کی وہ ذہانت؟ وہ ادبی، علمی ذوق جو دو لیجنڈز کو روابط بڑھانے، گفتگو کا لطف اٹھانے پہ راغب کرتا ہے۔ یا وہ لب؟ جن کے پیچھے پوشیدہ دانت میں نے تاحال نہیں دیکھے؟ (جانے وہ ہنستا کیوں نہیں؟؟) یا شاید اس کا سبب وہ انگلیاں ہوں گی جن کے ناخن بے تحاشہ سگریٹ نوشی سے بھورے پڑ رہے ہیں۔؟؟ خیر وجہ جو بھی تھی، وہ میرا خواب، میرا ارمان جاوداں اب ایک وجود،ایک نام ایک شخصیت رکھتا تھا تو پھر ضروری تھا کہ اسے بتایا جائے، ایک سچے امانت دار کی طرح آگاہ کیا جائے کہ میں جو برسوں سے فقط تمہارے لیے ایک جنوں خیز محبت، اور دیوانگی کی حدوں سے ماورا، کسی گرمی پہ آئے ہرن کی خوشبو سے مہکتا ایک دل سنبھالے بیٹھی ہوں تو لو،اب اسے تمہارے معبد کے سب سے اونچے سنگھاسن پہ، جہاں عود و عنبر، گلاب و صندل اور لوبان و اگر کے بخور مہکتے ہیں وہاں سنہری طشتری میں سجا کے رکھ دو۔ اور مجھے سبک بار ہو کر خود کو دیکھنے اور چاہنے دو۔!!
اور میں کیونکہ سدا کی عجلت پسند اور بے دھڑک تھی،کسی پہاڑی ندی کی مانند،سو جس رات وہ مجھ پہ منکشف ہوا، اسی رات گیارہ بج کر سترہ منٹ پر میں نے ہواوں کو قاصد بنا کر اسے لکھ بھیجا” میں نہیں جانتی کہ کیسے، اور کیوں،اور بہت زیادہ تو نہیں مگر مجھے آپ سے کچھ کچھ محبت سی ہو گئی ہے”۔ اور تب اگر میں دیکھتی تو جان لیتی کہ “بہت زیادہ تو نہیں” اور “کچھ کچھ” سامنے بیٹھے میرا منہ چڑا رہے تھے۔ ہونہہ! اے احمق!! تم پور پور غرق ہو چکی ہو،! مگر تب یہ سب دیکھنے کی نہ فرصت تھی، نہ ضرورت۔ بس انتظار تھا، اس کے جواب کا!!
اور خلاف معمول جواب بہت دیر تک نہ آیا۔ “کیا اسے میرا کہنا برا لگا”؟؟ میں سوچتی رہی اور اپنی بے اختیاری کو کوستی رہی۔ اف یہ زمانہ جدید کے قاصد! میں نے کڑھ کر سوچا تھا۔پرانے وقتوں میں تو ایسے نامے بھیجنے کے لیے کبوتروں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں اور جواب نہ آنے پر دل کو بہلا لیا جاتا تھا کہ کبوتر راہ بھول گیا ہو گا، یا مر کھپ ہی گیا ہو گا مگر آج کے یہ الیکٹرانی اور لاسلکی سفاک اور بے حس قاصد آپ کو لمحہ بھر خوش فہمی بھی پالنے نہیں دیتے۔
کافی کے آخری گھونٹ کس قدر بد ذائقہ ہو گئے ہیں! اف!! مانگی ہوئی محبت جیسے بگڑے ہوئے ذائقے!!
خیر ! جب بہت دیر تک انتظار کے باوجود میرا برقی کبوتر مرا ہی پڑا رہا تو تب میں نے معذرت کا پیغام بھیجنے کا سوچا اور ابھی لکھ ہی رہی تھی کہ کبوتر لوٹ آیا۔ سچ کہوں تو دس منٹ میں نے پیغام کو کھولا ہی نہیں! “جانے کیا لکھا ہو؟؟دو ٹوک انکار؟؟ یا پھر ڈھیر سارے ہنستے،منہ چڑاتے ایموجیز؟؟ یا پھر ۔۔؟؟ وہ جو میں چاہ رہی تھی وہ تو ہونے والا نہیں تھا۔ تو تب میں نے “جو ہو گا دیکھا جائے گا”والا ڈھیٹ رویہ اپنایا اور پیغام کھولا جو بہت ہی نرم الفاظ میں سمجھا رہا تھا کہ جس در پہ میں دستک دے رہی ہوں وہ عرصہ پہلے کوئی مقفل کر کے چابی پاتال کی گہرائیوں میں پھینک چکا۔ہاں! اس جادوئی محل میں ایک دریچہ،ایک روزن ایسا ہے جہاں سے ہم ایک بہترین دوستی کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ سچ کہوں تو مجھے کچھ ایسے ہی جواب کی توقع تھی مگر جانے کیوں! اس رات میرے تکیے پہ بے رنگ پانی میلے دھبے بناتا رہا۔ میں کیوں بھول گئی تھی کہ میرا خواب کسی اور کی جیتی جاگتی حقیقت بھی ہو سکتا ہے؟ اور بے شک وہ مجھے تو ابھی نظر آیا ہے مگر دنیا میں تو پہلے سے وجود رکھتا تھا ناں؟ تو اس رات کی صبح ہونے تک میں اسے ایک بہترین اور اچھا دوست، مخلص ساتھی ہی سمجھنے تک خود کو محدود کر چکی،اور اسے باور کرا چکی تھی۔ اور میرے ارادے مجھ پر ہنس رہے تھے۔۔
اف یہ پرندہ!! خاموش کیوں نہیں ہو جاتا آخر؟؟ کون سے راگ میں جل کے مرنا چاہتا ہے؟؟ چاند اب اخروٹ کے درخت سے کود کر چیڑھ کی سوئی دار پتوں والی موٹی شاخ میں آن پھنسا ہے۔
شب تیسرے پہر میں داخل ہو رہی ہے اور کہانی،نہیں زندگی کے اوراق ہنوز بے ترتیب ہیں ۔(اور کہانی تو شاید کبھی مرتب ہو بھی جائے، مگر زندگی؟؟ ہاہا۔۔لو اور کرو محبت ہونہہ!)۔
اور پھر جیتے جاگتے خواب سے دوستی اور ربط کی بنیادیں گہری ہوتی گئیں۔ حیرت انگیز طور پر ہماری پسند بہت مشابہ تھی۔ ادب، فنون لطیفہ، موسیقی، مصوری، شاعری! ہماری گفتگو کے موضوعات بھی انوکھے ہوا کرتے تھے۔اس انوکھے تعلق کی طرح! اور میں جو سمجھتی تھی کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شاید یہ جنوں خیزی کم ہو جائے، کوئی راہ سجھائی دے جائے مگر اس کے بالکل الٹ میں روز بروز اسے خود میں گہرا کرتی گئی۔۔اتارتی،سنوارتی، اس کے تصور سے محو کلام ہوتی رہی۔ اس کی خوشبو محسوس کرتی رہی اور بالکل سچ کہوں تو شاید کہیں لاشعور میں امید کا ننھا سا جگنو جلتا بجھتا تھا کہ شاید اس کے دل کا قفل کبھی کھل جائے! شاید اسے میری تیس برسوں کی طلب و خواہش کی شدت کا اندازہ ہو جائے۔۔ اور اگر یہ نہ بھی ہو تو اس کے سنگ خارا،سنگ سلیمانی اور سبز ٹھنڈے جیڈ جیسے دل میں میرے جذبہ محبت کی کسی ایک چنگاری کا نشان پڑ جائے۔۔! کس قدر احمق تھی میں؟ اس کا دل ہیرا تھا! ہیرے کو کسی آگ سے فرق نہیں پڑتا کہ اس نے اپنی ساری آگ خود جذب کی ہوتی ہے۔ سو میری محبت کے شرر اس سے ٹکراتے رہے،بجھتے رہے،راکھ ہوتے رہے!
ہاں دوستی میں سر مو فرق نہ آیا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سوال! کبھی کبھار پوچھ لیا جانے والا حال یا مختلف موضوعات پہ گفتگو! برقرار رہی! اس کی ذات پہ اس تعلق نے کیا فرق یا اثر ڈالا، میں نہیں جانتی مگر میرے لہو میں کہانیاں اگنے لگی تھیں! اور وہ بھی برساتی کھمبیوں کی طرح! وہ میرے خوابوں میں چلا آتا اور صبح اٹھنے پر کہانی صفحہ قرطاس پہ منتقل ہونے کو تیار موجود ہوتی۔۔خیال مینڈکوں کی طرح اچھلتے پھرتے اور اس کا تصور انہیں تھام کر میری ہتھیلی پہ بٹھا دیتا تھا۔
برقی کبوتر میرے اور اس کے بیچ چک پھیریاں لگاتے رہے۔ “کچھ کچھ محبت” لکھنے والی لڑکی اب دو دو صفحات پہ مشتمل انوکھے لفظوں سے سجا ہوا اظہار محبت کرنے لگی تھی اور وہ؟؟ شاید انہیں پڑھتا بھی نہ تھا۔ (ڈوب مرو اے خود کو داستان گو سمجھنے والی! پھینک آو ان لفظوں کو نارسائی کے اندھے کنویں میں)۔ ۔
اف! گردن دکھنے لگی ہے ستون سے ٹیک لگائے ہوئے!! ایک نیا گرم کافی کا مگ!! ارے واہ۔۔۔۔
ہمم!! کافی کا بہترین ذائقہ میرے حلق میں ایک سوندھی خوشبو گھلا رہا ہے اور چاند اب بیچارہ بانس کے جھنڈوں میں دبک گیا ہے۔ شکر! وہ شب بیدار پرندہ تو خاموش ہوا!
ہاں تو! اس تعلق کا سب سے انوکھا پہلو یہ تھا کہ ہم کبھی ملے نہ تھے۔ یہ اور بات کہ عالم تصور میں، میں اس کے ساتھ ایک ہزار ملاقاتیں کر چکی تھی۔ کس قدر عجیب لگتا ہے ناں؟؟ ایسی محبت پہ بھروسہ کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر! ہوتی ہے ایسی بھی محبت!!!یا شاید یہی ہوتی ہے محبت!!
مگر اب میرا جی سچ مچ چاہنے لگا تھا کہ میں اس سے کم از کم ایک بار تو ضرور ملوں۔اسے مجسم بولتے سنوں، اسے دیکھتے ہوئے دیکھوں اور اس کی موجودگی کے احساس میں، اس ہوا میں سانس لوں جس میں وہ لیتا ہو! بہت دن سوچا، پرکھا تولا اور پھر دھڑکتے دل سے فرمائش کر دی” مجھے زندگی میں کم از کم ایک بار کچھ وقت ساتھ گزارنا ہے”۔ اور وہ میرا ستمگر یار من! کچھ ایسا ستمگر بھی نہ تھا” اوکے۔۔ملیں گے” میں نے اس پیغام پہ ہزار رنگوں والے چمکیلے جگنو اترتے دیکھے اور پلاننگز ترتیب دے کر انہیں پرفیکٹ بنانے کے تصورات میں کھو گئی ۔
لباس کے رنگوں سے لے کر خوشبو کے انتخاب تک! سب طے کر چکی تو خیال آیا” ارے میں اس سے پہلی مرتبہ ملوں گی(بےوقوف۔۔وہ آخری مرتبہ بھی تو ہو گا)۔ تو اسے تحفہ تو دینا ہو گا!! ،ہممم!! کیا دوں؟؟ کوئی کتاب،؟ خوشبو؟ لباس؟؟ نہیں!!کچھ خاص! ہاں میں اسے اپنی انگلیوں کا لمس تحفے میں دوں گی! میں نے سوچا اور نیلے، سبز اور جامنی رنگ کےاون سے ایک مفلر بننے لگی۔ ۔آہستہ آہستہ وہ مکمل ہوتا گیا اور جب وہ مکمل ہو گیا تو پھر خیال آیا”ارے صرف ایک مفلر؟؟ نہیں!! کچھ اور بھی ہونا چاہئے۔۔” اور پھر میں نے اپنی ساری متاع حیات ایک جامنی اور نقرئی بکس میں بند کر دی ۔تتلیوں کے پر، نیلی چڑیا کے پنکھ، سوکھے ہوئے ڈینڈلائن، خزاں رسیدہ پتے، چھوٹے بڑے مختلف دریاوں سے چنے ہوئے گول چکنے پتھر اور۔۔۔ایک ادھورا سکیچ! اب یہ کچھ بہتر ہے۔” میں نے سوچا اور ملاقات کے وقت تک کے انتظار کو کہانیاں لکھ کر کاٹنے لگی۔ کاٹتی رہی، کبھی خوشی سے، کبھی تھک ہار کے آنسو بہا کر! وہ بھی بہار کے جھونکے کی طرح برقی کبوتر کے ہمراہ آتا رہا، جاتا رہا۔۔
ربط بھی قائم، رابطہ بھی قائم! مگر کل شام سے کہانی، نہیں زندگی میں ایک نیا مقام آیا ہے۔
ہاں وہ کل شام ہی تو تھی!! جب معمول کی گفتگو کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ اس کی زندگی میں کوئی شامل ہونے کو ہے! کوئی ایسا جس کی تپسیا پہ اسے یقین آ گیا ہے۔! بات تو خوشی کی ہے! بے حد خوشی کی!! میں نے بہت دل سے اسے مبارک بھی دی۔ اور کوئی آنسو بھی آنکھ میں بھول کر بھی نہ آیا ۔۔۔۔ہاں مگر! اس کھلی گلابی شام کے سب رنگ یکدم یوں کھو گئے جیسے تیز بلیچنگ لیکوڈ میں کچے رنگ غائب ہوتے ہیں۔۔
وہ سانس جو اندر گئی تھی کچھ وقت لگا کر باہر نکلی تو میں نے اس کے یکے بعد دیگرے آنے والے پیغامات کو غور سے پڑھا اور۔۔۔دل میں کہیں ایک ٹھنڈک سی اترنے لگی۔۔”تم میری تنہائی کی مسکراہٹ رہو گی۔۔”(اور تم میری خلوت و جلوت کی رعنائی) “محبت کے کئی لیولز ہوتے ہیں، میں جو تمہارے لیے محسوس کرتا ہوں وہ بھی ایک طرح کی محبت ہے”(اور میں جو تمہارے لیے محسوس کرتی ہوں وہ اگر تم سمجھ سکو تو۔۔۔) “محبت میں جسمانی طور پہ ایک ہونا ہی سب کچھ نہیں ہوتا”(ہاں مگر خیال کی زندگی کو انگلیوں کی پوروں میں سمیٹنے کا حق تو مجھے بھی ہونا چاہیے۔۔تنہا زندگی گزارنے کے لیے کچھ تو سہارا۔۔۔۔اور وہ جو اتنا منصف ہے وہ ضرور اتنی رعائیت تو دے گا) یہ سب سوچ کر میں نے شاید زندگی میں پہلی مرتبہ اس سے کچھ طلب کر لیا۔”مجھے تمہارے ساتھ اک مکمل تنہائی کے سترہ منٹس چاہیئں”۔(دراصل میں نے اس کے لیے ایک گیت لکھا ہے اور وہ سترہ منٹس میں مکمل ہوتا ہے)۔ “اور مجھے تمہارا اتنا قرب چاہیے کہ میری پلکیں تمہاری پلکوں سے الجھی ہوں(میں اس کی آنکھوں کو اپنی آنکھوں سے جوڑ کر کچھ قطرے ان میں گرانا چاہتی ہوں) “اور میں تمہارے لبوں پہ انگلیاں پھیرنا چاہتی ہوں، تمہاری ناک کو چھو کر محسوس کرنا چاہتی ہوں”(اس پہ وہ ہنس پڑا ، مگر جانتا نہیں کہ میں ایسا کیوں کہہ رہی ہوں۔میں اس کے نقوش کو بریل کی طرح حفظ کرنا چاہتی ہوں۔ذہین ہوں، سو سترہ منٹ میں اس کا چہرہ میری پوروں میں محفوظ ہو جائے گا۔ وہ میرا فیاض، ابر کرم میری ان سب حسرتوں کو پورا کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔اور ان دنوں میں آنے کا عندیہ دے چکا ہے جب میری کھڑکی کے باہر دیوار پہ چمٹی ہوئی کریپر کے سبز پتے سرخ ہو جائیں گے اور شہر کی پھول والی دکانوں میں صرف گل داودی دستیاب ہو سکے گا۔۔مگر اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے بھلا؟؟
محبت کی کہانی کو ایک نیا موڑ دینے کے لئے پھولوں کی اقسام کی کیا ضرورت؟؟ وہ جو ہمیشہ سے دل کا مکیں تھا، وہ ہمیشہ دل کا مکیں ہی رہے گا! ہاں اس دم توڑتی رات اور سانس لیتی صبح میں میرا دل اس کی سدا آبادی اور دائم سلامتی کے لیے دعا گو ہے۔ اس نے جو زخم میرے دل کو دیا ہے(بقول اس کے،ورنہ میرے لیے وہ تمغہ ہے) اس کے ہمیشہ ہرا رہنے کی مناجات کی ہے۔۔
سحر کا ستارہ اب ڈوبنے کو ہے اور صبح کے پرندے چہچہا رہے ہیں۔ اور ابھی تو وہ وقت دور ہے کہ جب برف گرے گی مگر دور کہیں گھنٹیاں سی بجتی ہیں اور مجید امجد کسی شاخسار کی اوٹ سے کہتا ہے۔۔۔
“فاصلوں کی کمند سے آزاد۔۔۔۔۔۔
یہ میرا دل ہے کہ شہر میونخ ہے۔۔۔۔۔۔۔
برف گرتی ہے ساز بجتے ہیں۔۔
ساز بجتے ہیں۔۔۔۔۔
ساز بجتے ہیں۔۔۔۔۔
ساز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
محبت کی دوسری کہانی ہنوز ادھوری ہے۔۔میں اسے مکمل نہیں کرنا چاہتی۔۔۔میں اسے جاری رکھوں گی اور محبت کی مزید پندرہ کہانیاں لکھوں گی ۔۔۔
برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت کی کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔۔ انہیں کبھی ختم نہیں ہونا چاہیے۔۔۔
“فاصلوں کی کمند سے آزاد”۔۔