داستان(پنجم) ۔۔۔ ڈاکٹر صابرہ شاہین
داستاں (قسط پنجم)
ڈاکٹر صابرہ شاہین
تو کیسے گھر جاو گی تم سب ؟ اس نے درشتگی سےپوچھا ؟ ۔۔۔اس طرف غریب آباد ہے اور تم اپنے لباس و صورت سے کسی طور غریب آباد کے بچے نہیں لگتے ہو۔ پھر اس نے پوچھا کمہاروں والے باغ کو جانتی ہو ؟۔ جی جی اگر ہم وہاں پہنچ جائیں تو گھر کا راستہ سمجھ میں آ جائے گا۔۔۔ میں تیزی سے بولی۔۔۔ٹھیک ہے یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔ شام ہو چلی تھی اور ہلکا ہلکا سا خوف میری ننھی سی کھوپڑی سے اترتا ہوا ریڑھ کی ہڈی میں پسرنے لگا تھا ۔ کچھ دور جا کر اک سڑک پر وہ چرواہا رک گیا اور بولا اگر تم سیدھی سامنے کی طرف چلتی چلی جاو تو کمہاروں والا باغ آ جائے گا۔ ٹھیک ہے ہم سب نے با جماعت سر ہلایا ۔ اب جاو میں یہاں سے تمہیں دیکھ رہا ہوں وہ دھاڑا ۔۔سنو اب کسی دوسری سمت ہرگز نہیں مڑنا بس سیدھا آگے ہی آگے چلتے چلے جانا ہے ۔ جاو ۔۔جاو ۔۔شاباش۔ پہلی بار اس کے لہجے میں نرمی اتری۔ ہم اگے کو چلتے چلے گئے یہاں تک کہ ساجدہ کا گھر آگیا وہ دروازے کے اندر اتر گئی مگر اس کی واپسیں نظر میں خوف لرزتا صاف دکھائی پڑتا تھا ۔ ہم جونہی باغ کے نزدیک پہنچے مسجدوں میں ہم تینوں کی گمشدگی کے اعلانات باری باری نشر ہوتے سنائی دئے۔ اوہ اب کیا کریں شاہدہ کپکپائی۔ میں نے اک نظر اس کی طرف دیکھا اور جونہی اس کے چہرے سے نظر ہٹی سامنے اک تانگہ اپنی بانسوں کے بل کھڑا دکھائی دیا۔ چلو اس میں چھپ کر سو جاتے ہیں اور اگلے لمحے ہم دونوں تانگے کی سیٹوں کے نچلے حصے میں سما چکے تھے۔ مگر اس میں تو کپڑے دھونے والے شیر مارکہ صابن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے جو یقینآ کسی زنانہ سواری کے سامان کے تھیلے سے نیچے گرے ہوں گے۔ میں نے وہ ٹکڑے اکھٹے کیے چار ٹکڑے اپنے منہ میں رکھ کر انتہائی مشکل سے خود نگلے اور باقی چار ٹکڑے شاہدہ کو دے کر نگلنے کا مشورہ دیا ۔مگر کیوں ؟ اس نے ٹکڑے نگلتے ہوئے شدید تکلیف سے پوچھا۔ تمہیں یاد ہے نا ؟ نانو کہتی تھیں صابن کو منہ مت لگانا بندہ مر جاتا ہے ۔ ہا آ آں تو۔۔۔؟ اس کی انکھوں سے پانی بہے جاتا تھا ۔ بس اب ہم آرام سے مر جائیں گے تو پھر بابا ہمیں کیسے ڈانٹ سکیں گے ۔ ؟ مرنے والوں کو تو کوئی ڈانٹ بھی نہیں سکتا کیسا۔۔۔۔۔۔ہم دونوں تکلیف کے باوجود مسکرا دئیے۔۔۔
چڑا تنہا رہ گیا تھا ۔اس کا گھونسلہ ویران پڑا تھا ۔وہ ہرروز دوپہر میں اپنے گھونسلے سے ہمارے کمرے کی کھڑکی تک مسلسل چکر لگاتا اور پھر اداس ہو کروہیں ویران گھونسلے میں جا دبکتا۔ اب وہ چوں چوں تک نہیں بولتا تھا ۔ یہ تنہائی اور اداسی خود اس کی اپنی پیدا کردہ تھی۔ پچھلے برس کی بات ہے جب اک چڑیا نے کمرے کی چھت پر لٹکے پنکھے کے اس چھوٹے سے پیالے میں جو چھت کی طرف سے نیچے آتے راڈ کو اس پلیٹ سے جوڑتا ہے جو چھت کے سوراخ کو چھپانے کے لیے لگی ہوتی ہے اس میں اپنا گھونسلہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ۔چڑیا پوری دوپہر ایک ایک تنکا لاکر اس پیالے میں گھونسلے کی بنیاد رکھتی اور باجی ان تنکوں کو اک لمبی لکڑی سے نکال کر باہر پھینک دیتی۔ ان کا خیال تھااگر گھونسلہ بن گیا تو کمرے کو تنکوں کا ڈھیر گندہ کردےگا۔ یہ سلسلہ کچھ دن تو چلا۔ پھر باجی نے روز روز کی اس مشقت سے تھک ہار کر گھونسلہ توڑنے کا فیصلہ بدل دیا۔ اس طرح چڑیا کا حوصلہ ‘ مستقل مزاجی اور صبر سبقت لے گئے۔ ہم بہن بھائی روز گھونسلہ بننے کےاس انوکھے مگر دلچسب عمل کو بہت غور اور دلچسی سے پلنگ پر بیٹھے دیکھا کرتے۔ چڑیا تنکا لاتی پھر ہنر مندی کے ساتھ اسے پہلے سے رکھے تنکوں کے ساتھ اپنی چونچ اور پنجوں کی مدد سے خاص انداز میں کوندھ کر پھنسا دیتی۔ کچھ عرصے کی محنت_شاقہ کے بعد کھونسلہ تیار ہو گیا۔ اب چڑیا ہر روز کچھ وقت کے لیے آڑجاتی جب واپس آتی تو اک چڑا اس کے ساتھ ہوتا۔ دونوں کمرے کی کھڑکی کے کنارے پر اٹکھیلیاں کرتے چونچ سے چونچ ملاتے چوں چوں کرتے گھونسلے میں اترتے اور پھر اسی طرح شور کرتے اک دوسرے کو ٹھونگے مارتے اور کمرے کی کھڑکی میں ہلا مچائے رکھتے۔ چڑیا نے گھونسلے میں انڈے دئیے کچھ دنوں کے بعد انڈوں سے چوزے نکل آئے ۔چڑیا پوری دوپہر بار بار باہرجاتی اک دانہ لاتی اور ایک بچے کی کچی چونچ میں چونچ کھسا دانہ کھلاتی پھر اڑتی دوسرا دانہ لاتی اور دوسرے بچے کو کھلاتی۔ چڑا صرف شور مچاتا اوراپنے بچوں سے مل کر بچوں کی مان کو پیار سے چونچ مارنے کی ڈیوٹی کرتا ۔ مگروہ دانہ چگنے میں چڑیا کا ہاتھ ہرگز نہ بٹاتا تھا۔ بچے بڑے ہو رہے تھے چڑیا کی مزدوری کا وقت طویل سےطویل تر ہو چلا تھا اب چڑیا چڑے کی اٹکھیلیوں کو نظر انداز کرتی بچوں کے راشن کی فراہمی میں زیادہ مشغول رہتی ۔چڑیا کی اس بے اعتنائی سے تنگ آکر چڑا اک اور چڑیا کو لے آیا کھڑکی میں اس سے اٹکھیلیاں کرتا اس کی کمر پر چڑھ جاتا اور پھر وہ دونوں گھونسلے میں گھسنے کی کوشش کرتے تو پرانی چڑیا ان پر جھپٹ پڑتی۔ بچے بڑے ہو کر آڑ گئے تو پرانی چڑیا اپنے چڑے کو پھر سےاپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر ناکام رہی۔ اب دوسری چڑیا چڑے کے ساتھ گھونسلے کی مالک ہو گٹی تھی ۔اس نے گھونسلے میں انڈے دیئے اور پہلی چڑیا کی طرح دانہ چگنے کی ذمہ داری نبھانے لگی ۔ پہلی چڑیا نے موقع غنیمت جانا اور اک دن آڑتے ہوئے اپنے چڑے کا پیچھا کرتی کرتی تیزی سے چلتے پنکھے کے اک پر سے ٹکرائی اور دھم سے ہمارے پلنگ پر آن گری۔ ہم سب نے مل کر اسے پانی پلایا اس نے کافی دیر کے بعد تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں کھولیں اداسی سے میری طرف اک نظر دیکھا اور پھر آنکھین بند کر لیں۔ ہم نے اسے ابنے صحن میں گڑھا کھود کر دفنا دیا۔چڑا اپنی نئی چڑیا کے ساتھ خوش تھا مگر اس دوسری چڑیا کو بھی دانہ چگنے کی مزدوری تو کرنا تھی اور چڑے کو اکیلے بیٹھ کر ماں اور بچوں کی شرارتیں اور محبت دیکھنے کا نظارا کرنے پر ہی اکتفا کرنا تھا ۔اس لیے اس نے اس بار بھی کھڑکی میں لمحہ بھر کو آنے والی اک اور چڑیا پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی۔ مگر نئی چڑیا کے ساتھ اس کا چڑا بھی تھا جس نے اس کو ٹھونگیں مار مار کر اپنی چڑیا سے نا صرف دور رکھا۔ بلکہ اس کی اپنی چڑیا کا دل بھی موہ لیا ۔بچے بڑے ہو کر آڑ گئے اور اس کی اپنی چڑیا بھی نئے چڑے کے ساتھ چلتی بنی۔ اب یہ تنہا اداس چڑا گھونسلے میں گھڑی بھر کو جاتا اور فورآ ہی باہر آکر کھڑکی کے کنارے آبیٹھتا ۔ اب کوئی چڑیا اس کے پاس نہیں آتی تھی۔ مجھےاس پر ترس آیا تو اپنے صحن میں پانی پینے کو آنے والی چڑیوں میں سے ایک کو پکڑ کر اداس چڑے کے پاس آن بٹھلایا مگر وہ بھی پھر سے آڑ گئی لڑکیاں حیرت اور خوف سے بھاگتی چیختی اور کبھی کبھی حیرت سے قہقہہ لگاتی جاتی تھیں اور ان کے پیھے اک آدمی دونوں بازو پھیلائے دوڑتا چلا آتا تھا۔اک لڑکی جو عمر میں سب سے بڑی نظر آتی تھی زیادہ شدت سے رو رہی تھی۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ معاملہ کیا ہے ؟ ۔جب سب لڑکیاں جامن کے اس پیڑ کے نیچے پہنچیں جس کے موٹے تنے کی کھو میں میرا بسیرا تھا تو وہ آدمی الٹے پاوں واپس اسی طرف کو مڑ گیا جہاں سے وہ آن بچیوں کے پیچھے لگا تھا ۔پیڑ کی یہ کھو نجانے کتنی پرانی تھی اور کون کون اس میں میری طرح چھپ کر بیٹھتا رہا ہو گا مگر اب یہ میرا استھان تھا۔ یہ بیضوی گہری کھوہ بہت صاف ستھری اور ملائم تھی بستی میں یہ واحد کنج_امن تھا جہاں بیٹھ کر میں بستی کے داخلی اور خارجی رستوں پر آتے جاتے لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ کر بڑی سہولت سے وہ سب دیکھا کرتی جو دوسروں کی نظروں سے اوجھل رہتا۔ ۔ کچھ دیرتک تو وہ سب لڑکیاں کھلیان کے بنے پر بیٹھی اس شخص کو گالیاں بکتی رہیں جو ان کا پیچھا کر رہا تھا پھر اپنے اپنے گھروں کو چل دیں ۔ ہمارے سکول گرمیوں کی چھٹیوں وجہ سے بند تھے مگر بستی کی یہ بچیاں ماجی(قران پاک پڑھانے والی بی بی) سے گرمیوں میں بھی قران پڑھنے جاتیں تھیں۔ اگلی صبح میں کھوہ میں بیٹھنے کی بجائے مزید اوپر اک اور ڈال پر جا بیٹھی کچھ اس طرح کہ ایک ٹانگ ڈال کی ایک طرف تھی تو دوسری ٹانگ دوسری طرف لٹکتی تھی جبکہ میری پیٹھ کے پیھے اک اور شاخچہ بالکل کرسی کی بیک کی طرح میری کمر کی ٹیک بنی ہوئی تھی۔ میں اپنی غلیل میں تکونہ بھاری پتھر رکھے نشانہ باندھنے کو تیار بیٹھی تھی۔ کس پر نشانہ باندھوں یہ نہیں سوجھتا تھا۔ میں ابھی اسی ادھیڑ بن میں ہی تھی کہ وہی کل والی لڑکیاں اپنی ماجی کے گھر سے واپس آتی دکھائی پڑیں ۔پورا ٹولہ چڑیوں کی ڈار جیسی چال سے جامن کی سیدھ میں چلا آتا تھا کہ گندم کی لامبی لامبی سنہرے سٹوں سے سونا ہوتی ڈالیوں کے جھنڈ سے وہی آدمی نکلا اور اپنی تہمد کو درمیان سے ہٹا کر لڑکیوں کے آگے کھڑا ہو گیا ۔اسی سمے میری غلیل سے تین نوکوں والا پتھر نکلا اور اس کی “شیم شیم “پر جا کر وج گیا ۔ آج لڑکیاں نہیں وہ مرد اچھلتے ہوئے چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔چیخ رہا تھا ۔۔۔۔اور وہ لڑکیاں صرف ہنستی کھیلتی ہی نہیں ٹھکارے مار کر ہنستی ہوئی اپنے گھروں کو بھاگ گئیں۔.
٠