نیلا پردہ گلابی کناری ۔۔۔ صفیہ شاہد
نیلا پردہ گلابی کناری
صفیہ شاہد ۔
“یہ کیا کر دیا ۔۔۔اتنے قیمتی پردے کیوں برباد کر دئیے۔۔ ؟”
ابھی میں نے چند بخیے ہی ادھیڑے تھے کہ اماں عین سر پرآ کھڑی ہوئی۔میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا ۔آنسوؤں سے دھندلائی ہوئی آنکھوں سے سلائی واضح نظر نہیں آرہی تھی مگر میں نے ہاتھوں کو رکنے نہیں دیا۔جہاں بخیہ ہاتھ نہ لگتا وہاں سے کپڑا الگ اطراف میں کھینچ کر سلائی ادھیڑ دی ۔ایک ایک بخیہ نکالنے پر میرے دل نے ہزار ترلے کیے اور میرے پاؤں پڑتا رہا۔۔۔ مگر پاؤں پڑنے سے کیا ہوتا ہے،بخیے ادھیڑنے کا کام تو شاید وہ احساس کر رہا تھا جو اپنی تمام تلخ حقیقتوں سمیت میری رگوں میں اتر چکا تھا۔میں نے ساری کی ساری نیلی کناری ادھیڑ کر رکھ دی۔
اماں کے کمرے میں گلابی پردہ اور میرے کمرے میں یہ نیلے رنگ کا پردہ میں نے بڑے ارمانوں سے لگایا تھا…ہلکے نیلے رنگ کا جالی دار پردہ جس پر لگے گولڈن موتی اتار دیئے تھے میں نے…البتہ کناریوں پر ذرا زیادہ گہرے نیلے رنگ کی لیس تھی، نہ جانےکیوں اسے لگا رہنے دیا۔۔۔شاید وہ نیلے رنگ کا ہی ایک شیڈ تھی ،تو شیڈ کی خیر ہے بس رنگ نیلا ہونا چاہیے۔۔۔جب جب پردہ پنکھے کی ہوا سے لہراتا مجھے اپنا آپ بہت خاص محسوس ہوتا اور ایک سرشار سی مسکراہٹ میرے لبوں پر پھیل جاتی۔۔جب سے اس نیلے رنگ سے میں نے خود کو جوڑا تھا ایک اذیت اور اطمینان باری باری میرے آس پاس منڈلاتے رہتے تھے ۔جہاں تک مجھے یاد ہے نیلے رنگ سے میری یہ انسیت گل خان کی ریڑھی سے شروع ہوئی تھی۔ سردیوں کی وہ ٹھٹھرتی شام مجھے رنگوں کی تخصیص میں ڈال گئی جب ایک خاتون گل خان سے گلی کے نکڑ پر کھڑی بحث کر رہی تھی ۔
“خان بھائی گلابی جرابیں ہی چاہئیں۔۔۔” خاتون نے گلابی رنگ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔
نیلی یا کالی لے لو باجی ۔۔۔۔گل خان کو تو بس بیچنے سے غرض تھی ۔
“نہیں خان بھائی نیلی تو لڑکوں کے لیے ہوتی ہیں۔۔۔”اس جملے کو سن کر میرے پیر وہیں جم گئے ۔
“مجھے میری بیٹی کے لیے گلابی جرابیں ہی چاہئیں۔”خاتون بضد تھیں۔
“وااا واا۔۔۔رنگوں سے کچھ نہیں ہوتا باجی!یہی لے جاؤ۔۔۔سردی ہی روکنی ہے۔۔۔۔لے جاؤ لے جاؤ۔۔۔۔”گل خان پیشہ ورانہ انداز میں بولتا رہا اور جرابیں ترتیب سے رکھتا رہا۔۔۔وہ دن اور آج کا دن نیلے اور گلابی رنگ میں سے اپنے رنگ کی تلاش کا جنون میری ذات کاحصہ بن گیا۔محض دو رنگوں میں سے ایک کے انتخاب کا سفر میری زندگی پر محیط نکلا۔۔۔گلابی رنگ کے پیچھے دوڑتے دوڑتے پیر لہو لہان ہو جاتے اور سرخ خون کو دیکھ کر میرا دل گھبرانے لگتا۔مجھے یوں لگتا کہ کسی اندھیری کوٹھڑی میں قید ہوں میں جس میں میری سانس رک رہی ہے مگر میرا ہونا دکھائی نہیں دے رہا۔یہ ہو کر بھی نہ ہونے کا احساس پل پل میری جان لیتا رہا۔زیست کے اس سفر میں آج تک کہاں کہاں ان رنگوں کی لڑائی نہ لڑی تھی میں نے…یہاں تک کہ بازاروں سے گزرتے ہوئے گلابی خوشبو اور نیلی خوشبو میرے وجود تک آکر ضم ہو جاتیں اور ایک عجیب ناگوار ملی جلی سے بدبو نما خوشبو پھیل جاتی ۔
“جلیل کاسمیٹکس “کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہر مرتبہ میری نظر شیشے سے دکھائی دیتی ہوئی رنگ برنگی چوڑیوں کی جانب بھٹکتی تھی…میری کلائیوں میں گلابی رنگ پھڑکنے لگتا…نیلی تنی ہوئی رگیں اپنی جگہ حیران پریشان رہ جاتی تھیں…مگر میں نے کبھی قدموں کو اس جانب مڑنے نہیں دیا یہاں تک کہ اس کوشش میں نیلا اور گلابی درد میرے پورے جسم پر حاوی ہو جاتا ۔
مجھے وہ دن بھی نہیں بھولتا جب جلیل کاسمیٹکس کی دکان والا زبردستی مجھے دکان میں لے گیا تھا۔۔۔
“ارے رک….یہ سامان اٹھوا کر لے آ…اتنا سامان وہ رکشے والا منحوس یہیں اتار گیا کہ دکان کے آگے نالے کی کھدائی ہو رہی ہے آگے نہیں جا سکتا۔۔” میرے اندر سمائے نیلے رنگ نے سامان کے تھیلے اٹھانے پر اکسایا ۔دکان کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے خود کو رنگوں کی پل صراط سے گزارا تھا….
“لے آ۔۔لےآ۔۔۔”جیلے نے دکان کھولی اور اندر چلتا گیا…میرے قدم ایک لمحے کو سست پڑے مگر…نیلے رنگ کی گرفت سامان پر مضبوط تھی اور گلابی چوڑیوں نے آنکھوں میں چمک بھر دی تھی…میں نے سامان رکھتے ہی خود کو غیر ارادی طور پر شوکیس کی جانب لپکتا محسوس کیا ۔
کچھ چاہیے کیا؟جیلے نے میری کمر پر ہاتھ رکھا….میں نے چونک کر دیکھا …نن نہیں…نہیں تو….
جیلا آہستہ آہستہ نیچے تک کمر پر ہاتھ پھیرتا چلا گیا…میرے ماتھے پر پسینے پھوٹنے لگے….ہٹو…ہٹو…نیلے رنگ نے پوری طاقت سے جیلے کو دھکا مارا…مگر گلابی کمر جیلے کے بازو کے گھیرے میں قید ہو گئی….
رک جا…کچھ نہیں کہتا…یہ لے جا…اس نے ہاتھ بڑھا کر میک اپ کے ریک سے بغیر دیکھے کچھ اٹھایا اور میری ہاتھ میں رکھ کر مٹھی دبائی ۔۔۔۔
“پکڑ۔۔۔۔”اس نے زبردستی میری مٹھی بند کی ۔
“کوئی دکان میں کیوں نہیں آجاتا۔۔”میرے سہمے ہوئے دل نے دبی دبی سی دعا کی اورمیں نے کھدائی والی مٹی کو دیکھا۔۔۔دو لڑکیاں مٹی پر پیر جمائے احتیاط سے دکان کی جانب بڑھ رہی تھیں۔جیلے نے بھی میری نظروں کے تعاقب میں باہر کی جانب دیکھا تو جلدی سے چھوڑ دیا۔۔۔
“چل جا۔۔۔کچھ چاہیے ہو تو آجانا”
دکان سے نکلتے وقت میرے پاؤں کانپ رہے تھے…جاتے ہوئے پیر بہت احتیاط سے رکھے تھے مگر آتے ہوئے نالے کی مٹی میرے لڑکھڑانے کے سبب جوتوں میں بھر گئی تھی….
میں نے گھر جا کر کمرے کا دروازہ بند کیا اور مٹھی کھول کر دیکھی۔جیلے نے مجھے ایک سرخی دی تھی۔۔۔میں نے خود کو شیشے میں دیکھا ۔۔۔میرے ہاتھ ہونٹوں کی جانب بڑھے ۔شوخ بھڑکیلے ہونٹ…ایک لمحے کو اچھے لگے مگر اگلے ہی لمحے میرا دل چاہا کہ کوئی اور میرے سامنے ہوتی جس کے ہونٹوں پر یہ لالی سجی ہوتی…یہ نیلے رنگ کی کارستانی تھی…میں نے سرخی بستر پر پڑے میرے دھلے ہوئے مردانہ کپڑوں کے ڈھیر پر پھینکی اور سیڑھیوں کی جانب دوڑ لگا دی۔
ڈھولک کی تھاپ اور رنگوں کی چھاپ سے میری لڑائی جاری تھی ۔اس لڑائی کا ہر زینہ دکھ کے پلستر سے مضبوط ہوا تھا۔اماں جی نے مجھ سے نہیں چھپایا تھا کہ ایک سڑک کے کنارے سے وہ مجھے ایسی حالت میں اٹھا لائی تھیں کہ فروری کی سردی نے شاید کچھ نرمی دکھا کر ابھی میرے ہونٹوں اور ناخنوں میں ہی نیلاہٹ بھری تھی۔۔۔یہ نیلا رنگ میری قسمت میں شروع سے موجود ہے کہیں…
ہو سکتا ہے میرے آنسو بہہ بہہ کر کانوں کےپیالے میں جمع ہوئے ہوں…مگر مجھے معلوم ہے کانوں کے پیالے بھرنے کے بعد میرے آنسو بہہ کر مٹی میں ملے ہوں گے یا اگر کوئی چادر مجھ پر تھی تو اس میں جذب ہو گئے ہوں گے۔جس لمس نے ان آنسوؤں کو صاف کرنا تھا وہ تو چادر میں لپیٹ کر کھلی سڑک پر چھو ڑ گیا تھا۔اماں مجھے اٹھا کر لے آئی لیکن قسمت کے نیل مصلحت کی کسی سفیدی سے نہیں چھپتے ۔اور اس کا مزید اندازہ تب ہوا جب ذرا عمر کے گھوڑے پر سواری کی اور بے وفا زیست کے چند زینے اور طے کیے۔اب آنسو گالوں پر پھسلنے کے بجائے اندر گرنے لگے…ان کی نمکینی کڑواہٹ میں بدلنے لگی اور اندر رنج و غم کا تھور اگنے لگا جس کے سب کانٹے ہر ہر انتڑی میں پیوست ہو گئے ..
اماں مجھے اپنا سہارا مانتی ہے…میرے بازو پر بنی مچھلیاں یہ اشارے دیتی ہیں کہ میں طاقتور ہوں…اماں مجھے چھپاتی نہیں تھی سب کے درمیان رکھنا چاہتی تھی ۔ مگر جب” پورے “اپنی کالونی میں میرے وجود پر اعتراض کرنے لگے اور گرو مجھے اپنے خاندان میں لانے کی ضد کرنے لگے تو اماں مجھے لے کر یہیں گرو کے قریب آ بسی ۔اماں نے مجھے میک اپ سے بچایا ،مجھ سے گھنگھرو چھپائے لیکن زمانے کی نظروں میں میرے لیے کوئی ایک رنگ سجانے میں ناکام رہی۔وہ میرا حوصلہ بڑھا کر مجھے باہر کام کے لیے بھیجتی ہے۔۔۔باہر جاتے ہوئے میرے کچھ حصے گھر میں ہی رہ جاتے ہیں اور گلابی پردے سے لگ کر سسکتے ہیں ،جبکہ باہر سے واپس آکر نیلے پردے سے لپٹ کر کچھ حصے باقی کا گریہ کرتے ہیں…
اماں کو معلوم نہیں کہ چلتے چلتے کب مجھے دو حصوں میں بٹنا پڑتا ہے، سودا سلف اٹھاتے ہوئے میرا وجود نیلے رنگ کو اوڑھ لیتا ہے اور جسم میں جوش بڑھنے لگتا ہے، طاقت کے نشے کا سرور رگ رگ میں اتر جاتا ہے۔۔۔مگر گھر واپس آکر شیشے کے سامنے آتے ہی گلابیاں چھلکنے لگتی ہیں۔۔۔
میں نے کئی مرتبہ شیشے کے سامنے بیٹھ کر گلابیوں پر ملال کیا…بالوں میں پھیرنے کو جب جب ہاتھ اٹھایا تو ہاتھ ایک خاص ادا سے لہرا جاتا اور انگلیاں بھی نزاکت سے لہرا کر بالوں میں پیوست جاتیں ۔مجھ سے ہاتھ کا یوں لہرانا برداشت نہیں ہوتا جبھی تو پٹھے اکڑا کر زرا تیزی سے بالوں کی جانب ہاتھ بڑھایا اس کوشش میں انگلیاں اور ہاتھ تو سیدھے رہتے مگر کندھا لچک کھانے لگتا ، بازو لہرانے سے باز نہ آتا اور گردن بھی دائیں جانب ہلکا سا جھٹکا کھا جاتی ۔۔۔
کچھ میں نے دو رنگوں کی یہ لڑائی اپنی مرضی سے اختیار کی تھی اور کچھ حالات و واقعات کھینچ کھینچ کر مجھے اس میدان جنگ میں لے آتے تھے۔میرے ذہن کو کچوکے لگانے میں اس سبزی فروش کا کردار بھی ناقابل فراموش تھا جو گلی میں اکثر آتا تھا۔۔۔اور اماں آواز لگاتی تھی ۔۔
“نور محمد۔۔۔”اس دن بھی اماں نے سلائی مشین کے پاس بیٹھے بیٹھے آواز لگائی تھی ۔۔
“ہاں اماں۔۔۔کیا ہوا۔۔۔”باہر سبزی والا آواز لگا رہا ہے جاؤ سبزی لے آؤ۔۔ کچھ بنا لوں کم بخت گیس پھر چلی جائے گی۔۔۔
میں نے دوڑ لگا دی ۔۔۔۔سبزی والے سے ایک پاؤ بھنڈی کہی تو اس نے مجھے گاجر،مولی، اور کھیرا اٹھا اٹھا کر ان کا ریٹ بتانا شروع کر دیا۔۔۔مجھ لگا اس نے غلط سنا تھا میں نے ہکلاتے ہوئے تصحیح کی ۔۔۔
“نن نہیں ۔۔بھنڈی۔۔ بھائی۔۔ بھنڈی۔۔۔” مگر اس نے شاید ٹھیک ہی سنا تھا۔میں نے اس کی ذومعنویت کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔مگر جب اس نے سبزی کے ہر شاپر میں نظر بچا کر خراب ٹماٹر,گلی سڑی مرچیں,ڈالیں تو میرے گلابی رنگ چھلک پڑےاور گلابی لہجے پر سوار الفاظ دہن سے باہر کود پڑے ۔۔۔
“کانا ٹماٹر کیوں ڈال رہا ہے”میں نے غصیلے لہجے میں کہا جسے اس نے مکمل نظر انداز کر تے ہوئے اپنا کام جاری رکھا۔
ملاوٹ نہیں بھاتی تھی مجھے…یہ ملاوٹ کہیں کا نہیں رہنے دیتی انسان کو…مگر” پورے “یہ سب نہیں سمجھ سکتے کیوں کہ ان کے پاس آنے والے رنگ برنگے نوٹ بھی آخر میں ایک ہی عدد بن جاتے ہیں…رنگوں کے فرق تو میری دنیا میں تھے۔۔۔ انہی خیالوں میں دہلیز پر پاؤں دھرے ہی تھے کہ اماں پر نظر پڑی۔اماں اپنی آنکھوں کے عین سامنے سوئی کو دو انگلیوں میں دبائے بیٹھی تھی ۔اور دوسرے ہاتھ میں دھاگا تھا جسے بار بار ہونٹوں کے درمیان دبا کر گیلا کرتی اور سوئی کے ناکے سے گزارنے کی کوشش کرتی ۔کافی دیر کوشش کرنے کے بعد اماں نے مجھے پکارا۔۔۔نور محمد۔۔۔۔میں نے گہرے خیالوں سے غوطہ کھا کر سر باہر نکالا۔۔۔”ہاں اماں۔۔۔”
یہ سوئی میں دھاگہ ڈال دے ۔۔۔سب دھواں دھواں لگ رہا ہے۔۔۔اماں کو ایسے دیکھ کر مجھے یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی تھی کہ اب سلائی کڑھائی سے زیادہ دن تک چولہا روشن نہیں رہ سکتا۔۔۔۔میں نے کام کا ارداہ کر لیا تھا۔اور اسی ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے الیاس بھٹے والے سے کام کہا تو پہلے وہ مسکرایا پھر کہنے لگا ۔۔۔
“کم سے کم پندرہ سولہ اینٹیں ڈھونے کے لیے بھی کمر تختہ ہونی چاہیئے۔۔۔تم ان نزاکتوں سے وہی کام لو جو لینا چاہیئے۔۔۔اگر شام کو آجاؤ تو خوب رونق رہے گی۔۔۔۔”آنکھ دبائے مونچھوں کو تاؤ دیتا الیاس مجھے جیلےجیسا خبیث لگا۔۔۔۔
واپسی کے تمام راستے جیلے کی دی ہوئی لپ اسٹک،اس کا کمر پر ہاتھ پھیرنا ،ٹھیکدار کا مشورہ ،اماں کی دھندلائی آنکھیں،پیٹ میں دہکتا بھوک کا دوزخ،دو رنگوں کی لڑائی ،خواہشوں کا روگ ،حسرتوں کا سوگ، قدرت کی نا انصافی کا گریہ اور دم توڑتے شکوؤں کی آخری ہچکیوں کی زد میں میرا پورا وجود گھرا رہا۔۔۔آنسو بہہ بہہ کر گریبان میں جذب ہوتے رہے ۔۔۔رنج کی انگلی تھامے صحن کے بیچ و بیچ میری غمگین آنکھیں کمروں کے دروازوں میں لٹکتے پردوں پر جا ٹھہریں،اپنے اصل سے لڑائی اتنی آسان نہیں ہوتی ۔۔۔میرے اندر گھٹن اور اضطراب نے شدت اختیار کر لی مجھے اور کچھ سجھائی نہ دیا تو میں نے بھاگ کر میرے کمرے کے دروازے کے آگے سےنیلے پردے کو کھینچ لیا۔ کیلوں سے اٹکا اماں کے کمرے کا گلابی پردہ بھی چرتا ہوا میرے ہاتھ میں آگیا۔۔۔ میں نے نیلے پردے کی کناری ادھیڑ دی اور کانپتے ہاتھوں سے گلابی پردے کو کاٹ کاٹ کر پٹیاں بنائیں اور بے ڈھنگی سی لیس نما گلابی فرل بنا کر جیسے تیسے نیلے پردے کے ساتھ لگا دی۔۔۔
دو رنگوں سے سجا یہ پردہ مجھے بہت عجیب احساس سے دو چار کرنے لگا۔ میں اچھی طرح جان گیا کہ کوئی ایک رنگ میرا نہیں ہے یہ دو رنگوں کا امتزاج ہی میری نیم پلیٹ تھا ۔شکست کا احساس،کرب اور اذیت کی لہریں دو رنگوں میں لپٹ کر میری آنکھوں کے راستے میرے پورے وجود میں اترنے لگے۔ میں نے گلی والا دروازہ کھولا اور پردہ دروازے کے باہر لٹکا کر اپنے آنسو صاف کرتا اندر چلا آیا۔اماں کو اب گھنگھرو مجھ سے چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔
بہت نوازش سر