بیوپاری ۔۔۔ ممتاز حسین
بیوپاری
ممتاز حسین
اسلم اپنی رانوں پر حکیم کے دیے ہوئے تیل کی مالش کر رہا تھا۔ جب بھی اس کے دونوں ہاتھ داہنیران پر پڑتے تو آہ کے ساتھ موٹیگالیاں ماں بہن کی پولیس کو نکلتیں ۔ وہ لنگڑاتا ہوا گھر سے نکلا تو آسان اور مختصر راستہ سبزی منڈی سے نکلتا تھا۔ منہ اندھیرے سبزی منڈی میں چہل پہل تھی دھند ا زورں پر تھا۔سبزیوں اور پھلوں کی ڈھیریوں پر کھڑے آڑھتیوں کے کارندے بولیاں لگا رہے تھے۔ بھنڈی کے ڈھیر پر اسلم رک گیا ۔اس نے ڈھیری کے اندر اپنی انگلیاں گاڑھ دیں، اسے لگا کہ جیسے عورتوں کی انگلیاں اس کی انگلیوں میں پیوست ہو گئیں ہیں۔ اس کے پورے جسم میں بالکل ایسے شڑ ڑشڑڑ ہونے لگی ،جیسے شب برات کے دنوں میں مصالحہ لگے پتے والی چڑ چڑ سیمنٹ کی دیوار پر رگڑنے سے ہوتی تھی۔ ناشپاتیوں کے ڈھیر کے گرد ریڑھیوں، چھابڑیوںاور پرچون کے دوکانداروں کی بھیڑ لگی تھی۔گند می رنگ کا ایک شخص دھوتی لپیٹےبغیربازوں کے قمیض پہنے بولی لگا رہا تھا ،جس کےسامنے کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ دو سو دی دھڑی ،دوسودی دھٹری ،ہر دفعہ آواز نکلنے کے ساتھ اس کے اگلے ٹوٹے دانتوں سے تھوک بھی سانپ کی پچکاری کی طرح ناشپاتیوں پر گرتا۔ کہیں سے آواز آتی،’’ ایک سو ستر ‘‘،لیکن وہ بالکل نہ رکتا، دوسو دی دھڑیدوسودی دھٹری ۔ اچانک نلکے کی ٹونٹی کے نیچے پڑے ہوئے گڑھے پر بارش کنکریاں پھینکنے لگی۔ نہ تو نیلامی کرنے والے اپنی جگہوں سے ہلے اور نہ بولی سننے والے۔ لیکن ایک کتیا اپنے کتوروں کے ساتھ ناشپاتیوں کے ڈھیر کے ساتھ رکھے ڈنڈے لگے پھٹے کے نیچے ایک طرف لیٹ گئی اور اس کےپلے اس کے تھنوں سے دودھ چوسنے لگے۔ اسلم اس گہما گہمی میں پھلوں سبزیوں کے ڈھیروں کے گرد لوگوں کی بھیڑ سے بچتا بچاتا اپنا رستہ ناپتا گیا۔ سبزی منڈی کے خراب والے حصہ کو پار کرتا ہوا بکرا منڈی سے گزرا تو وہاں بہت سے بکروں کو آہنی پلاسسے خصی کیا جارہا تھا۔ اسے پولیس کی وہ مار یاد آگئی جب اس کی رانوں پر ڈانگ پھیری گئی تھی۔ ڈانگ اس کی رانوں پر رکھ کر دونوں طرف سپاہی پورے بھار سے کھڑے ہوتے اور ڈانگ کو گھماتے تھے ۔لیکن دائیں طرف کا سپاہی بہت ہی موٹا تھا اس لیےاسلم لنگڑا کرچل رہا تھا۔ اس کی فلک شگاف چیخ ایسے ہی نکلی تھی جیسے بکرے کے منہ سے اس کےفوتوں کو قصائی نے آہنی پلاس سے بھینچا تھا۔ لیکن اسلم خصی نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ ستو ہمیشہ اسے بھینچ کے کہتی،’’تو تو مرد ہے مرد‘‘۔ اسلم اس سے پھر پوچھتا’’ کیا کہا ‘‘۔جب وہ اپنا جملہ دہراتی ۔’’تو مرد ہے مرد‘‘ تو اس کی چھاتی چار انچ اور چوڑی ہو جاتی جیسے اس کی مردانگی کا خزانہ اس کے غباروں میں آ گیا ہو ۔وہ ستو کو کہتا’’ جب مجھے پولیس نہیں مارسکی تو کوئی بھی نہیں مارسکتا ۔ میرےشریر کو تو موت آنے نہیں لگی ‘‘۔ ستو نے پوچھا ۔’’کیا ‘‘جیسے اس کی سمجھ میں نہ آئی ہو۔ ’’میرے شریر کو کبھی موت نہیں آ سکتی میں نے کئی عورتوں کو اِدھر سے اْدھر کیا ہے۔ کئی دفعہ پولیس کے ہتھے چڑھا ہوں لیکن آج تک پولیس مجھ سے ایک بھی بات نہیں منوا سکی ۔ ستو کہتی،’’ میرے شریر کی بھوک تو تو ہی مٹا سکے ہے۔مجھے بھی تو تو نے کتنی بار ادھر سےاْدھر کیا ہے لیکن گردان کبوتری کی طرح تیرے ہاتھوں کی گرمی میرے شریر کو بھاوے،اور تو بھی جا جتنی مرضی اڑای مار ، میری لاتوں کے بیچ سے نکل کر یہیں میری لاتوں میں ہی آکر مرتا ہے۔ مزے میں اور کاروبار میں یہی تو فرق ہوے‘‘۔
لیکن آج وہ رانی کے گھر جا رہا تھا ۔رانی کے گھر سے تھوڑی دور گلی کی نکر پر بجلی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر رانی کے اشارے کا انتظار کر نے لگا ۔ کھمبے پر لگے تار پر ایک چڑا اور چڑیا ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ رانی نے بجلی کے تار پر اپنی کھڑکی جو گلی میں نکلتی تھی زور سے جھاڑو ماری،جس سے چڑا اور چڑیا اپنے جھگڑے کو نپٹائے بغیر اڑ گئے۔ اسلم کو ہری جھنڈی کا اشارہ مل گیا تھا۔ گلی کی دوسری طرف گلی کے لڑکے اخروٹ کھیل رہے تھے ، ایک لڑکے نے اخروٹ گلی کی دیوار کے ساتھ پاؤں کی اڈّی سے کھودی ہوئی کھتّی میں پھینکے اور سیسے سے بھرے اخروٹ کو مخالف پارٹی کے بتائے ہوئے اخروٹ کو نشانہ باندھ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکے نے اسلم کو رانی کے گھر کی طرف جاتے دیکھا ۔ اس نے غصے سے بھری گالی کو اسلم کی طرف پھینکی۔’’ وہ آگیا لوگائی کا بھائی‘‘۔ گلی کے لڑکے جیسے محلے کی لڑکیوں کی عزت کے محافظ ہوںناگواری سے ہمیشہ اسلمکو دیکھتے اور سیسے والا اخروٹ اسلم کو دے مارا جو نہ تو اسلم کو لگا اور نہ ہی اسے پتا چلا کہ کسی نے اس کو اخروٹ مارا ہے۔ اسلم نےاِدھر اْدھر
دیکھ کر دروازہ جو کنڈی نہ لگنے کی وجہ سے پہلے ہی کھلا تھا اندر گھس کر اس نے اندر کی کنڈی چڑھا دی۔ برآمدے میں چولہے کے آگے پیڑھی پر بیٹھی رانی نے پاؤں سے پیڑھی کو دھکیلتے ہوئے کہا،’’ بیٹھ جا‘‘۔ پھر چھابی کو زمین پر رکھتے ہوئے گھی سے نچڑےپراٹھے کو اس کے آگے پھینکا ۔چھاننی سے پتی کو چھانتے ہوئے چائے کا پیالہ ہاتھ میں تھما دیا ۔ اسلم نےگھی سے نچڑے نوالے کو چائے کی سر ررسے حلق سے نیچے اتارا۔ اسلم نے آنکھ کے اشارے سے رانی کو قریب آنے کے لیے پیڑھی کے پائے کو پاوں سے اپنےقریب کھینچا ،لیکن رانی اندر کمرے میں چلی گئی اسلم پراٹھا ختم کرتے ہی اس کے پیچھے کمرے میں گیا ۔وہ دونوں ایک ہی پلنگ پر بیٹھ گئے۔ رانی اسلم کے چہرے کوٹھرکینظروں سےدیکھتی دیکھتی،اس کے گھنگریالے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔ اس کی مونچھوں کے بے ہنگم بڑھے ہوئے بال چائے کے خاکی قطروں سے بھیگے ہوئے تھے، اس کے سینے کے بال ٹوٹے ہوے بٹن کے کاج میں سے لال بیگ کی اکڑی مونچھوں کی طرح باہر جھانکتے تھے۔ ’’ تو پہلا مرد ہے جس کے ساتھ میں سوتی ہوں‘‘۔ اسلم زرو سے ہنستا ہنستا پلنگ کے پاوں والی طرف لمبا ہوگیا اور اس کا سر نیچے فرش کی طرف ڈھلک گیااور بولا ’’ہر عورت یہ کیوں کہتی ہے کہ میں سوائے تیرے کسی کے ساتھ نہیں سوتی؟۔ وہ تیرا گنجا ، جوتربوز کے پیٹ والا مرد ہے کیااس کے ساتھ تو نہیں سوتی؟‘‘ ۔ رانی دونوں پاوْں چارپائی پے رکھے دائیں گھٹنے پر اپنی کوہنی ٹکاٹے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو اپنی کنپٹی پر ٹکاکے بولی۔’’ وہ تو میں نکاحی ہوں ۔ نکاح والے کے ساتھ سونا تو ایسا ہی ہے جیسے کچے فرش کو چکنی مٹی سے پوچا لگانا۔ یا پاتھیاں چلم میں تمبا کو مروذ کر گڑکے اوپر بھگتی پاتھیاں رکھنا ، وہ کوئی سونا تھوڑی ہوتا ہے؟‘‘’’ اور میرے ساتھ سونے میں اور اپنے مرد کے ساتھ سونے میں کیا فرق ہے؟‘‘۔ رانی بولی’’ تو نے کبھی چوری کے جامن کھائے ہیں؟، جس سونے میں پچھتاوا نہ ہو وہ بھی کوئی سونا ہوے‘‘۔ اسلم اٹھ بیٹھا ۔’’تو پھر تو نے بیاہ کیوں کیا؟‘‘۔ رانی بولی۔’’ تو تو مرد ہے نہ، لوگائی تو روشن دانوں کھڑکیوں اور دروازے کے ڈھیر کے بدلے اپنا سب کچھ دے دیوےہے ۔ مولوی کے دو بول جو گھوڑی کے ران پر دہکتے لوہے کے نمبر،جو پہاڑے ،قاعدے میں ہویںنہ، اس کے نشانتو قبر میں جا کر ہی مٹی میں مٹی ہویں‘‘۔’’ تو اب فکر نہ کر ‘‘اسلم نے رانی کے سینے کو دھانپے ہوئے ،دوپٹے کو اتارتے ہوئے کہا۔’’ میں وکیل کو تنسیح نکاح کی فیس دے آیا ہوں ۔بس تونے اب ایک ہمّت کرنی ہے۔ جج کے سامنے یہ بیان دینا ہے کہ تیرا مرد تجھے غیر شرعی طریقے سے مباشرت کرنے پرمجبور کرتا ہے ۔ ہاں! میں نے تیری ڈاکٹری رپورٹ بھی بنوا لی ہے۔ذرا رو کےکہنا ہوگا، مجھے اس بچےباز کے ساتھ نہیں رہنا ۔بس پھر تو اور میں، گاوّں میں میری اپنی چار کنا ل زمین پڑی ہےہم دونوں کے لیے کافی ہے ‘‘۔رانی کے چہرہ کا پھول کھل اٹھا وہ جیسے جانے کے لیے پہلے سے ہی تیار ہو ۔ اسلم نے رانی کے کپاس جیسے نرم اورسفید گالوں کو چوما اور وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔
وہ سوچنے لگا عورتوں کے بیوپار کی زنجیر میں پولیس، وکیل ، دلال، یہ سب کڑیاں ہیں اگر ایک کڑی بھی کم ہو جائے تو زنجیر مضبوط نہیں رہے گی ۔
وہ اپنے بھائی وال طالب جوگی کے پا س گیا۔ طالب جوگی سے کاروبار کے بارے میں بات کرنے لگا ۔’’یار پرانے وقتوں میں عورتوں کی نیلامی ہوتی تھی ۔ کیا اچھا وقت تھا ۔ جوزیادہ پیسے دیتا وہ گھوڑے پر بیٹھا کے لے جاتا ۔ نہ کوئی وکیل، نہ پولیس، نہ دلال، آدھے سے زیادہ پیسےتو یہ سب کنجر کھا جاتے ہیں‘‘ ۔ وہ دونوں دلال سے بھاؤ تاؤ مکانے جار ہے تھے۔اسلم نے دیکھا کہ راستے میں بچے ڈیکم ڈیکم ڈوڈو جیوے تہاڈا ماں پیو کھیل رہے تھے، اسے اپنی ماں اور باپ کا خیال آیا، تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لی، چلو بانو بہن ہے وہ ان کا خیال کر رہی ہو گئی۔ ایک چھوٹے لڑکے نے اسلم سے کہا ’’مجھے اس تھڑے پر تو چڑھا دو ‘‘۔اسلم نے اس تھڑے پر اٹھا کر کھڑا کر دیا ۔وہ لڑکا کو ئلے سے اندر کی دیوار پر لکیریں کھینچنے لگا۔ اسلم نے گنی اس نے سات لکیریں کھینچی تھی۔ لڑکے نےزور سے آواز لگائی ’’ڈیکم ڈیکم ڈو ڈو جیوے تہاڈا ماں پیو‘‘ ۔ اور لڑکا بھاگ گیا۔ اسلم اپنے کاروبارکی لکیریں گننے لگا۔ اس سال میرا ،میرے بھائی وال کا کاروبار اچھا رہا ۔ہم نے تو سات نگ بیچے ہیں۔ شکر ہے یہ
کاروبار غیر قانونی ہے ورنہ تو ہر نگ پر ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔وہ اپنے وپار کی زنجیر میں ایک کنڈی اور شامل کرنے لگا ۔وکیل ، پولیس، دلال اور ہاں میں بھول ہی گیا تھا ،ڈاکٹر وہ بھی تو اس دھندے کا مسیحا ہے ۔ وہ رپوٹ اور علاج اور کھبی جھوٹی گواہی نہ دے ،تو ہم تو گئے۔ وہ دونوں باتیں کرتے گھما سین کے گھر پہنچ گئے۔ طالب جوگی نے آواز لگائی،’’ غلام حسین صاحب ، غلام حسین صاحب‘‘، جب کوئی آواز نہ آئی تو اس کےبگڑے نام سےپکارا، ’’ اوگھماسین ‘‘۔ کھاسنے کی آواز نےیہ یقین دہانی کرا دی کہ گھما سین گھر پر ہے ۔ ’’کنڈا کھلا ہے، اندر آجاوْ‘‘ بڑی مشکل سے سانس کھینچتے ہوئے گھما سین نے کہا ۔دونوں اندر داخل ہوئے تو گھما سین گرمیوں میں بھی لحاف کو کمر پر ڈالے سجدے میں چارپائی کے اوپر پڑا تھا۔ وہ نہ رکنے والی کھانسی کو روکتے ہوئے بولا ،’’اسلم تم موہڑا کھینچ کر بیٹھ جاؤ اور طالب جوگی سے بولو۔ تم ذرا میری کمر سہلا دو یہ ظالم دمہ جان نہیں چھوڑتا‘‘۔ طالب جوگی اس کی کمر دبانے لگا۔ گھما سین نے پوچھا ’’کیا مال ہے؟‘‘۔’’ ایک موچانی جال میں لگی ہے‘‘ ۔ گھما سین اوپر اٹھ کے بیٹھتے ہوئے ۔’’تجھےموچی اور سبزی فروشوں کی بیویوں کے علاوہ بھی کوئی اور نہیں ملتا۔ یار کئی بار کہہ چکا ہوں تو قندھاری انار یا چمن کے انگور جیسی چیز لایا کر، تم ہمیشہ منکیرے کےخربوزے اٹھا لاتے ہو۔ مال وزنی ہوا تو مت لانا، سنولو۔ کالی ۔کلوٹی۔ لنگڑی، لوہلی بک جاتی ہے لیکن وزنی مال کو کوئی نہیں خریدتا‘‘۔’’استا د کیا بات کرتے ہو ‘‘۔اسلم نے تھوک نگلتے ہو کہا ’’پتلی پتنگ اتوں گورا چٹا رنگ ،بگو گوشہ ہے ۔بگو گوشہ لکی ایرانی سرکس کی ربڑ کی گڑیا ہے جیسے مرضی تروڑ مروڑ لو ۔ کس بھاو نکلے گئی؟ ‘‘ ۔ گھما سین نے کہا۔’’پہلے دکھاؤ تو سہی۔‘‘ طالب جوگی نے ہاتھ روکتے ہوئے کہا ،’’یار ہم پر یقین کر لو‘‘۔گھما سین اٹھ کر بیٹھ گیا ’’جیسے جیسے تم بتا رہے تو‘‘ اپنے کان کے لووں کے نیچے کھجاتے ہوئے بولا ’’پانچ یا چھ لاکھ میں تو نکل جانی چاہیے۔ اور جب تک نہ بکی، تو کہا ں رکھوگے؟‘۔ اسلم بولا’’ تمہارے پاس گاہک کو مال دکھانا ہوا تو روز روز تھوڑا اسے لاتا پھروں گا۔ تیرے پاس رہے گی تو ترے سارے کام بھی کرتی رہے گی‘‘۔گھما سین ہنسا۔’’میرے کیا کام کرے گی۔ میں تو خود کام کرنے کے قابل نہیں رہا ۔تم ہی یہ روز تپتے تندرو میں روٹی لگا تے جاوْ گئے اور میرے پاس پہلے ہی ایک کمرہ ہے ، اس میں دونگ پڑے ہیں‘‘ ۔ اسلم نے طالب جوگی کی طرف منہ پھیرا ’’ جب تک گاہک نہیں لگتا اس وقت تک تم برت لو‘‘،اسلم اور طالب جوگی ہرسودے ہر کام میں برابر کے شریکہوتے اورایک دوسرے کے ساتھ باری باری مال کو استعمال بھی کرتے تھے۔ اس لیے ان کا بھائی والی کا کام خوب چلتا تھا۔ ’’چلو اگلے نگ آنے تک تم اسے پہلے ورت لو۔ میں یہ پہلے ہفتہ رکھ لیتا ہوں ،جب تک یہ سودا نہیں ہوتا‘‘۔
رانی کے سودے کے بعد کوئی اور مچھلی ہاتھ نہیں لگی یا انہوں نے کوشش ہی نہیں کی اگرپیٹ بھرا ہوتو مچھلیوں سےبھرے دریامیں مچھلی نظر نہیں آتی ۔ پیسے ختم ہونے لگے تو اسلم اور طالب جوگی کو پریشانی لگی ،’’ یار کوئی ہاتھ پاؤں مارتے ہیں‘‘ ۔اسلم دوسرے شہر میں اپنے دوست کے ہاں کچھ دنوں کے چلا گیا۔ وہاں اس نے پورے علاقے کی رپورٹ لی تو اسے شکار کی امید لگی ایک گھر کا مرد سپین میں مزدوری کے غرض سے گیا ہوا تھا۔پتا چلا مردنے سپن کی ایک لڑکی سے شادی کر لی ہے تاکہ وہاں کی سکونت مل سکے، اس کی بیوی جو دیہات سے تھی اس کی بیٹی ہائی سکول میں میٹرک کے امتحان دے چکی تھی، رزلٹ کا انتظار تھا۔ اسلم نے اس کے گھر کے چکر لگانے شروع کر دیے۔ لڑکی کیا تھی بس پکا ہوا سیب تھا۔ بہت ہی خوبصورت تھی ۔ لڑکی نے اسلم سے ملنا شروع کر دیا۔ اسلم اور طالب جوگی دونوں کے شکار کرنےکے طریقے مختلف تھے۔ اسلم دیوانی کیس کی طرح تاریخوں پے تاریخیں ڈال کر کیس جیت لیتا، لیکن طالب جوگی فوجداری کیس کرتا خوبصورت لڑکی کو اٹھوا لیتا اور دور دراز علاقوں میں بیچ دیتا۔ اسلم نے لڑکی کو راضی کر لیا کہ تم بدھ کو تیار رہنا ،ہم رات کے اندھیرے میں بھاگ نکلیں گے۔ لیکن لڑکی کی ماں کو بروقت پتا چل گیا ۔لڑکی کے رشتے داروں نے اسلم کو جان سے ماردینے کی دھمکی دی تو اسلم ڈر سے اس شہر سے رفو چکر ہوگیا۔
لیکن طالب جوگی اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ۔ اب موسم بھی سرد ہو چکا تھا ۔سردیوںکے شروع میں دھند اتنی پڑتی کہ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہ دیتاتھا۔ رات کو طالب نے آ کر اطلاع دی’’ ایک لڑکی اٹھا لایاہوں۔ لڑکی مجھ پر فدا ہے۔ بس رات کے اندھیرے میں روشنی بالکل نہ کرنا ،اور تم پہلے طالب جوگی بن کر اپنا کام کر لینا ،پہلی دفعہ ہی مشکل ہوگی۔جب لڑکی رام ہو گئی تو ہفتہ دو ہفتہ تم رکھ لینا جب تک اس کا گاہک نہیں لگتا‘‘ ۔ اسلم بہت ہی تنگ تھا اسے مہینے سے کوئی مچھلی نہیں ملی تھی، مسئلہفاقوں کا نہیں تھا پیٹ کے نیچے کی بھو ک کا تھا ۔ اسلم خوشی خوشی طالب جوگی کے گھر جا پہنچا دروازہ کھٹکھٹایا، طالب جوگی دھوتی میں بغیر قمیض کے سردی سے کانپتا باہر کا دروازہ کھول کے اسلم کو اندر لے آیا ۔’’دیکھ میں دنیا کا ہر براکام کر سکتا ہوں لیکن بیوپار میں اپنے بھائی وال سےکبھی بے ایمانی نہیں کر سکتا ۔لڑکی میرے بستر میں لحاف ا وڑھے لیٹی ہے ۔ تم پہلے میرا روپ دھار کر اس سے شیٹی فلیٹگر لینا،اسے پتہ نہ چلنے دیا کہ تو کون ہے اگر لڑکی نے تمہیں پسند کر لیا توجب تک اس کا سودانہیں ہوتا ،تم ورت لینا ۔ لڑکی بہت خوبصورت ہے،سیدھا سادا کیس ہے۔ طلاق کا لپھڑا ،نہ وکیل کی فیس، ہرطرف سے نفع ہی نفؑع ہے ۔ کل دلال سے سودا نپٹا لیں گے۔دلال کہہ رہا تھا کہ کئی دنوں سے سندھ سے گاہک بہت چکر لگا رہیں ہیں ۔ دس لاکھ سےبات چلائیں گئےسات لاکھ تک نکال دیں گے‘‘۔ سرگوشی میں طالب جوگی نے پوچھا’’ تم نے سات لاکھ فلم دیکھی ہے۔’’ہاں ہاں‘‘ چل جا اس فلم کا گاناگاتا جا اور کٹ پیس کو بھی سنا نا ‘‘۔آئے موسم رنگیلے، سہانے جیآ نہیں مانے‘‘ ۔ اسلم گنگناتا ہوا لڑکی کے بستر میں گھس گیا اور سرگوشی میں طالب جوگی کےروپ میں لڑکی سے والہانے اندازسے لپٹ گیا،دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رنگیلے سہانے موسم کا مزا لوٹتے رہے ۔ اسلم نے ہونٹ پرہاتھ پھیرا تو خون لگا ہوا تھا۔ لڑکی سے سرگوشی سے پوچھا ’’ کیا یہ تمہارا خون ہے یا میرا ‘‘اسلم کے ہونٹوں سے خون کی بجائے الفا ظ نکلے ’’پتہ نہیں میرا یا تمہارا‘‘۔ٹوٹی کھڑکی کی دراڑ سے بجلی کی تیز دھار چمک میں دونوں نے کچھ دیکھا ایک دھماکہ سے دونوں کی آوازیں ایک ساتھ نکلیں’’ بھیا اسلم ‘‘،’’تو ،بانو۔تو ‘‘۔ برق و باراں کے طوفان میں پھر ایک قبر نظر آئی جس کے کتبے پر کوئی نام نہیں لکھا تھا اسلم کو لگا کہ اس کا شریر آج مرگیا ہے۔